حسن اخلاق – مومن کی پہچان

مسلمان جب حسن اخلاق اور فضائل ومکارم سے اپنی حیات کو متصف کرتا ہے ، تو پھر وہ بارگاہ خداوندی اور مخلوق خداوندی دونوں میں مقبول ہوجاتا ہے ، حسن اخلاق کے ذریعے جو مراتب وفضائل حاصل کئے جاسکتے ہیں، کسی اور چیز سے ممکن نہیں، جب آدمی اپنے آپ کو حسن اخلاق سے متصف کرتا ہے ،وہ معاشرہ کا باعزت فرد بن جاتا ہے ، اس کے مال عزت وآبرو پر دست درازی سے بھی انسان کتراتا ہے ، اس کے مقابل جب انسان بے حیا ء ،بداخلاق ہوتا ہے ، وہ ذلت ، پستی اور خواری کے وادی منہ کے بل گر جاتا ہے ، خود مسلمانوں کی سربلندی اور سرفرازی اور انکی گذشتہ مجد وشرافت کی واپسی بھی اسی سے وابستہ ہے مسلمان اخلاق فاضلہ سے اپنے آپ کو متصف کرلے اور اخلاق رذیلہ اور سییئہ سے اجتناب کرنے لگے، خود نبی کریم ﷺ نے بھی امت مسلمہ کو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے ، اور بد اخلاق ، بد اطوار، بد کردای سے کنارہ کشی کرنے کا حکم کیا ہے ، مسلمان اچھے اخلاق، سچائی ، امانت داری، وعدہ کی پاسداری، زبان کی صفائی ، دل کی دھلائی ، کینہ وکدورت سے دوری جیسے اوصاف سے متصف ہوتا ہے ، اس میں جھوٹ، مکاری، عیاری، دغازی ، گالی گلوچ ، فحش، درشت روی، سخت روئی یہ تمام اوصاف ایک مسلمان کے نہیں ہوسکتے ، سختی ، شدت، غیبت ، چغل خوری اس طرح کے اوصاف سے مسلمان عاری اور تہی دامن ہوتا ہے ، مسلمان کسی کے درپے آزار نہیں ہوتا، اس کاسراپا وجود دوسروں کے لئے باعث رحمت ورافت ہوتا ہے ، اس کی ہر نقل وحرکت ، اس کا اٹھنا بیٹھنا دوسروں کے افادہ اور ان سے تکلیف اور ضرر کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے ، وہ صرف اپنے ذاتی نفع اندوزی کے دائرہ میں محدود ومحصور نہیںہوتا، وہ دوسروں کو نفع پہنچانے کا باعث ہوتا ہے ۔

حسن اخلاق کی دعوت :

نبی کریم ﷺ نے امت مسلمہ کو حسن اخلاق سے اتصاف کا حکم کیا ہے ، اخلاق فاضلہ سے متصف اشخاص کو خیار مسلمین (بہترین مسلمان) کہا ہے ۔
حسن اخلاق کی جامع تعریف ملا علی القاری نے یوں کی ہے :
’’ معاملات میں عدل کو تھامے رہنا، احکام کے نفاذ میںانصاف احسان وعدل کو اپنانا، اس سلسلہ کی صحیح تعریف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے احکام شریعت ، آداب طریقت اور احوال حقیقت کو اپنانا ‘‘ (مرقاۃ المفاتیح ، باب الرفق والحیاء وحسن الخلق: ۸؍۳۱۷۰، دار الفکر، بیروت، لبنان)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ میرے یہاں تم سے سب سے محبوب شخص حسن اخلاق سے متصف شخص ہے ‘‘ ( بخاری : باب مناقب عبد اللہ بن مسعود، حدیث: ۳۷۵۹) اور یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’ تم میں بہتر شخص حسن اخلاق سے متصف شخص ہے ‘‘ ( بخاری: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیثک ۳۵۵۹)۔
قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول! انسا ن کو عطاکردہ بہترین چیز کیا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’حسن اخلاق ‘‘ ( شعب الایمان ، تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإجلالہ وتوقیرہ، حدیث: ۱۴۳۵)
اور خود نبی کریم ﷺ بذات خود حسن اخلاق کی تعریف فرمائی ہے :
نواس بن سمعان سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ نیکی اور اچھائی حسن اخلاق ہے ، اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور لوگوں کاا س پر مطلع ہونا تمہیں ناپسندہ گذرے ‘‘ ( صحیح مسلم ، باب تفسیر البر والإثم، حدیث: ۲۵۵۳)
نبی کریم ﷺ نے نیکی کو حسن اخلاق کے مترادف بتایا ہے ، گناہ کو حسن اخلاق کی نقیض اور ضد فرمایا ہے ، فرمایا: حسن اخلاق ہی نیکی ہے ، گناہ جو چیز تمہیں شک وتردد میں مبتلا کردے ، جس سے اطمینان قلب حاصل نہ ہو، اور تمہاری طبیعت پر وہ ناگوار گذرے۔

بد اخلاقی ترک کردے :

جس طرح نبی کریم ﷺ نے حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی دعوت ہے ، جس میں رفقاء کے ساتھ مدارات، نرمی ، نرم خوئی، معاملات کو سہل اور آسان بنانا کر پیش کرنا وغیرہ امور شامل ہیں، اسی طرح مسلمان کو ہر قول وعمل میں فحش اور برائی کو ترک کرنے ، بد اخلاقی ، بد کلامی سے کنارہ کشی کرنے کا حکم کیا ہے ، حارثہ بن وہب سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ دھوکہ باز مکار اور درشت رو جنت میں داخل نہ ہوگا ‘‘ (ابوداؤد: باب فی حسن الخلق، حدیث: ۴۸۰۱) ۔
ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: ’ مؤمن کے میزان میںروزِ قیامت سب سے زیادہ بھاری اور وزنی چیز اس کے حسن اخلاق ہوں گے ، اللہ عزو جل فحش گوئی کرنے والے ، بد گو کو ناپسند کرتے ہیں‘‘ ۔ (ترمذی، باب ماجاء فی حسن الخلق، حدیث: ۲۰۰۲)
مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل ہر بد اخلاق ، فحش گو، بدکلامی کرنے والے کو ناپسند کرتے ہیں۔
نرم خوئی حسن اخلاق سے ہے :
مخلوق کی ساتھ نرمی ، ونرم خوئی ، لطف ومہربانی ، سہولت وآسانی ، مخلوق سے کلفت اور مشقت کو دوری کا سامان کرنا یہ حسن اخلاق سے ہے ، نبی کریم ﷺ نے اس پر امت مسلمہ کو ابھارا ہے ، اس پر اجر اورثواب کا وعدہ فرمایا ہے ، ’’ اللہ عزوجل نرم خو ہیں، وہ نرمی کو پسند فرماتے ہیں، نرمی خوئی پر وہ کچھ عطا کرتے ہیںجو دوسرے امور پر عطا نہیں کرتے ‘‘ (صحیح مسلم: باب فضل الرفق، حدیث: ۲۵۹۳) ۔
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : ’’ تم نرمی کو اختیار کرو، سختی ، فحش گوئی سے اجتناب کرو، جس چیز میں نرمی ہوتی ہے وہ اس کو زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چلی جاتی ہے اس کی زینت ختم ہوجاتی ہے ‘‘ (صحیح مسلم: باب فضل الرفق، حدیث: ۲۵۹۴)
ایک دوسری روایت میں مروی ہے : جس کو نرمی کا کچھ بھی حصہ عطا کیا گیا اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا کی گئی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : جس کو نرمی کا حصہ عنایت کیا گیا اس کو دنیا وآخرت کی بھلائی کا حصہ دیا گیا، جس کو اس سے محرو م کر دیا گیا اس کو دنیا وآخرت کے خیر وبھلائی سے محروم کردیا گیا ‘‘ (مسند احمد، مسند الصدیقہ عائشہ ، حدیث: ۲۵۲۵۹)۔
حیاء کا تعلق بھی حسن اخلاق سے ہے :
حکماء کے قول کے مطابق’’ حیائ‘‘ کہتے ہیں: ’’ ملامت کے لائق چیز کے خوف سے جو تبدیلی اور تغییر انسان میں پیدا ہوتا ہے اس کا نام ہے ، بعض لوگوں ے ’’حیائ‘‘ کی دوسری تعریفات کی ہیں، جنید کہتے ہیں: نعمتوں کے حصول اور نعمتوں پر شکر کی عدم ادائیگی کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کا نام ’’حیائ‘‘ ہے ، ذا النون کہتے ہیں : ’’ اللہ عز وجل کے حضور جو اس سے سابق میں قصور ہوئے ہیں اس کی وحشت سے دل میں ہیبت اور خوف کا پیدا ہونا ، دقاق کہتے ہیں: ’’ اللہ کے حضور دعوی کے ترک کرنے کانام ’’حیائ‘‘ ہے ( مرقاۃ المفاتیح ، باب الرفق والحیاء حسن الخلق : ۸؍۳۱۷۰) ۔
اورخود نبی کریم ﷺ نے ’’حیائ‘‘ کا شمار حسن اخلاق میں فرمایا ہے :
زید بن طلحہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر دین میں اخلاق ہیں، اسلام کے اخلاق میں سے ’’ حیائ‘‘ ہے (ابن ماجۃ: باب الحیائ، حدیث: ۴۱۸۱)
اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ’’حیائ‘‘ کو جزو ایمان قرار دیا ہے ، فرمایا: ’’ حیاء ایمان کا جزء ہے ‘‘ ( بخاری: باب الحیائ، حدیث: ۶۱۱۸) اور ایک دوسری روایت میں مروی ہے ، حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ حیاء خیر کو ہی لاتی ہے ‘‘ اور ایک دوسری روایت میں فرمایا: ’’حیاء خیر کی باعث ہے ‘‘ (مسلم : باب شعب الایمان ، حدیث: ۳۷)
یعنی حیاء انسان کو شرعی طور پر قبیح امور کے ترک یا طبعی یاشرعی قبیح امور کے اجتناب سے روکتی ہے ۔
اور ایک روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ پہلے انبیاء کے کلام میں یہ بات مروی ہے کہ ’’ جب تم میں حیاء نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘ (بخاری: باب حدیث الغار، حدیث: ۳۴۸۴)
چونکہ حیاء ہی نامناسب امور سے روکتی ہے ، جب حیاء نہیں ہوتی انسان سے جو چاہے گناہ صادر ہوتے ہیں، اس لئے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے انجام دہ امور پر نظر کرے، اگر یہ غیر حیاء کی چیزیں تو ان کو بجالائے اور اور غیر حیاء کی چیزیں ہیں تو اس کو انجام نہ دے۔

حسن اخلاق سے متصف مومن کیسے ہوتا ہے :

حسن اخلاق سے متصف انسان تکلیف کو برداشت کرتا، بدلہ کو ترک کرتا، ظالم پر رحم کرتا، مظلوم کادفاع کرتا، ا س کے لئے مغفرت طلب گار اور اس پر مشق ہوتا ہے ، دنیوی امور سے غافل، آخرت کی جانب راغب ، یعنی یہ شخص نہایت نرم خو، سلامت روہوتا ہے، اس میں دھوکہ ، مکاری وعیاری نہیں ہوتی، تو ایسے شخص کو نبی کریم ﷺ نے جنت کے اعلی درجات کا مستحق قرار دیا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، فرماتے ہیں: ’’ مسلمان اپنے حسن اخلاق کی وجہ رات کے تہجد گذار اور دن کے روزہ دار کا رتبہ حاصل کرلیتا ہے ‘‘ (ابو داؤد: باب فی حسن الخلق، حدیث: ۴۷۹۸)
اور ایک دوسری روایت میں ہے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ میں اس شخص کے متعلق نہ بتاؤں جو آگ پر حرام ہے اور آگ اس پر حرام ہے ، یہ ہر نرم خو، آسان تر ، قریب تر ، سہل انگیز شخص ہے ‘‘ ( صحیح ابن حبان، ذکر البیان بأن المرء إذا ھینا لینا قریبا سہلا، حدیث: ۴۶۹)۔
اور ایک روایت میں فرمایا: ’’ مومن بھولا اور شریف ہوتا ہے اور گناہ اور فاجر دھوکہ باز اور مکار ہوتا ہے ‘‘ (ترمذی، باب ما جاء فی البخل، حدیث: ۱۹۶۴)۔
بعض مواقع سے مومن کی مثال مطیع وفرماں بردار اونٹ سے دی گئی ہے ، جو اپنے مالک کے تابع ہوتا ہے ،اس کے بٹھانے پر بیٹھتا ہے اور اس کے اٹھانے پر اٹھ جاتا ہے ، اس طرح مومن اور مسلمان ہر امر اور نہی میں اللہ کے حکم کے تابع ہوتاہے ، مکحول سے مروی ہے فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ مومن نرم خو، آسان تر، تابع دار اونٹ کے مثل ہوتا ہے ، اگر اسے تابع کیا جاتا ہے جاتا ہے تو تابع ہوتا ہے اور اگر اسے کسی پہاڑ پر بٹھایاجاتا ہے بیٹھ جاتا ہے ) ۔ (شرح السنۃ للبغوی، باب حسن المعاملۃ مع الناس، حدیث: ۳۵۰۶) ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں حسن اخلاق سے متصف ہونا چاہئے ، لوگوں کے ساتھ رفق ونرمی کا معاملہ کریں، ان کے ساتھ آسانی وسہولت اور نرم روی کا سلوک کریں، فحش گوئی اور بدکلامی سے پرہیز کریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور آپ کی شریعت پر عمل پیرا ہو، اس کو اپنے زندگی میں نافذ کریں، اس سے ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل ہوگی ، اپنے آپ کو مکارم اخلاق سے متصف کریں، بد اخلاقی سے اجتناب کا حکم کریں ۔

تبصرے بند ہیں۔