ورنہ خدا جانے کیا ہوتا

حفیظ نعمانی

اب سے پہلے اشارے چاہے جتنے صاف ہوں یہ لکھنا دیانت داری نہیں تھی کہ بلندشہر میں گائے کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ صرف تبلیغی جماعت کے عالمی اجتماع میں بھگدڑ مچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ جن لوگوں کے اس سازش میں نام آرہے ہیں اور ان کا جیسی پارٹیوں سے تعلق ہے وہ اگر پورے معاملے سے واقف ہوتے تو نہ جانے کیا ہوچکا ہوتا؟ بجرنگ دل یا نام نہاد گؤ رکشک تو یہ جانتے ہیں کہ اگر کہیں لاکھ دو لاکھ آدمیوں کو جمع کرنا ہوتو مہینوں پہلے سے پوسٹر، بینر اور لیڈروں کے بیان آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر سارے ٹی وی چینل ہر کام چھوڑکر یہ بحث شروع کردیتے ہیں کہ اس اجتماع کا فائدہ کس کو ہوگا اور نقصان کسے؟

تبلیغی جماعت کے کام کے بارے میں ملک کے لوگ اس لئے نہیں جانتے کہ ان کا طریقہ آج کے رواج سے بالکل الگ ہے۔ بلندشہر میں جو سرکاری اندازوں کے مطابق پندرہ لاکھ مسلمان جمع ہوئے ان کے لئے پوری دنیا میں نہ کوئی پوسٹر چھپا اور نہ بینر لگا اور حد یہ ہے کہ بلندشہر میں بھی توقع یہ ہے کہ کوئی پوسٹر نہیں لگا ہوگا۔ بلندشہر آنے کی دعوت پوری دنیا میں ایک سال سے دی جارہی تھی اور جماعت کے ہر آدمی کو معلوم تھا کہ دسمبر 2018 ء کی ابتدائی تاریخوں میں عالمی اجتماع بلندشہر میں ہوگا۔ اور یہ بات بھی ان میں سے کسی کو جو جماعت کے کام سے واقف نہیں ہیں نہیں معلوم تھی کہ جس گاؤں کے جن کھیتوں میں یہ پندرہ لاکھ مسلمان جمع ہوئے اس کی تیاری سال بھر سے ہورہی تھی جتنے کھیت لئے گئے ان کی ہونے والی فصلوں کے اندازے کے مطابق روپئے یا دے دیئے گئے یا بعض مسلمانوں نے نہیں لئے۔ اور جو لاکھوں لوگ شرکت کے لئے آئے ان کی بسوں پر نہ جھنڈے لگے تھے نہ لاؤڈ اسپیکر اور نہ ان سے نعروں کی آواز آرہی تھی یہ تو بجرنگ دل کے لوگوں نے اچانک دیکھا کہ ٹڈی دل کی طرح ہر طرف سے قافلے آرہے ہیں اور اچانک سب آگئے اور تقریریں شروع ہوگئیں یہ بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی نے اتنے مسلمان ایک جگہ ایسی خاموشی سے آتے ہوئے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔
جو سازش سوچی گئی اس میں دو دن کی دیر ہوگئی جس رات کو کوئی جانور کاٹ کر اس کے اعضاء کھیتوں میں سجائے گئے وہ آخری رات تھی اور صبح جماعتوں کی واپسی شروع ہوگئی تھی۔ آنے والوں نے یہ بتایا کہ ان کو اور جماعت کے لوگوں کو پولیس نے دوسرے راستوں سے جانے کا مشورہ دیا۔ اگر تین روزہ اجتماع سے پہلے وہاں کے بجرنگیوں کو معلوم ہوجاتا کہ پندرہ لاکھ مسلمان آرہے ہیں تو دو چار لونڈے نہیں ہزار دو ہزار بجرنگی جمع ہوتے اور چاروں طرف کے کھیتوں میں گائیں کاٹ کر اس لئے ڈالی جاتیں کہ ہر طرف کا ہندو ٹوٹ پڑے۔

انسپکٹر سبودھ کمار کے کس کی گولی لگی اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کی تحقیق نہیں ہوسکی سبودھ کی بہن بھائی کی محبت میں اتنی بدحواس ہوگئی ہیں کہ انہوں نے کہہ دیا کہ وہ دادری کے اخلاق مرحوم کے کیس کی تحقیق کررہے تھے اس لئے کسی نے مار دیا۔ جبکہ تین سال پہلے تحقیق ان کو دی گئی تھی اور کسی شکایت کی وجہ سے ان سے لے کر انہیں بنارس بھیج دیا گیا تھا اب وہ بلند شہر میں ہیں تو یہاں کہاں دادری اور اخلاق کی کہانی چھیڑ دی؟ انہیں تو ان پولیس والوں کو تلاش کرنا چاہئے جو اُن کے گولی لگنے کو پتھر کہتے رہے اور جب وہ گرگئے تو انہیں چھوڑکر بھاگ گئے اور بہت زیادہ خون نکلنے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔ سبودھ کمار کی موت پر جو وزیراعلیٰ کو کرنا تھا وہ کردیا اور اگر وہ رہ گئے تو اور بھی کردیں گے لیکن کچھ بھی کردیں کوئی زندگی نہیں لوٹا سکتا۔ اور ضرورت اس کی ہے کہ اس کی تلاش کی جائے کہ کس کی گولی سے موت ہوئی؟

سیانہ کے تحصیلدار راج کمار بھاسکر ان افسروں میں ہیں جو سب سے پہلے گؤکشی کی افواہ کی تحقیق کے لئے ان کھیتوں میں پہونچے جہاں جانور کے باقیات کو مختلف کھیتوں میں سجاکر رکھا تھا غالباً مقصد یہ تھا کہ افسروں کو یہ دکھاکر فساد شروع کردیا جائے۔ افسر کسی بھی مذہب کے ہوں اور کسی جگہ بھی ان کی ڈیوٹی ہو اگر ان کے علاقہ میں دنیا بھر کے لاکھوں آدمی آئے ہوئے ہیں تو وہ فرض شناسی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ یہ ان کی سمجھ بوجھ ہے کہ فوراً انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ سب کچھ تبلیغی اجتماع میں بھگدڑ پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے ان افسروں کا بیان ہے کہ اگر کوئی شخص گؤکشی کرے گا تو باقیات کو اس طرح انہیں لٹکائے گا بلکہ ملزم یہی چاہے گا کہ اس کی حرکت کا کسی کو پتہ نہ چلے ان افسروں نے محسوس کیا کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ ماحول کو بگاڑنے کے لئے گؤکشی کی گئی ہے۔

گائے کے معاملہ میں صرف پانچ برسوں سے نہیں آزادی کے بعد سے جگہ جگہ ہنگامے ہوتے رہے ہیں لیکن یہ جو زعفرانی پٹکا گلے میں ڈال کر گؤرکشک بن کر ہر قسم کی غنڈہ گردی ہونے لگی ہے یہ مودی جی اور یوگی جی کی دین ہے۔ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے تعلیم یافتہ اور جاہل نوجوان سب ہی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ان میں کے ایسے شریف ہی تھے جنہوں نے آپس میں کہا کہ ہر کوشش کرکے دیکھ لی نہ نوکری ملی نہ کام۔ کھیتی ہم سے ہوگی نہیں تو مرنے کے علاوہ اور کیا راستہ ہے پھر آپس میں تبادلہ خیال ہوا کہ تم کیا کہتے ہو اور تم کیا کہتے ہو اور جب چاروں نے یہی فیصلہ کیا تو چار خاندانوں کے سہارے ٹرین کے سامنے گرگئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اپنے ملک میں ہزاروں کسان اور دوسرے قرضدار خودکشی کررہے ہیں لیکن ان چار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے فیصلہ نے ہر باپ کو ہلا دیا اور اگر حکومت کے گھوڑوں پر سوار خودغرض بھی انسان کا دل سینے میں رکھے ہوتے تو وہ حکومت گورنر اور صدر کے قدموں میں رکھ دیتے۔

یہ چار شریف زادے تھے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ان جیسے سیکڑوں بے روزگار نوجوان ہیں جو زعفرانی انگوچھا ڈال کر حکمراں ٹولے کا بکیت بن گئے ہیں ان میں سے ہی کچھ گؤرکشک بن گئے ہیں اور راجستھان کی ناکارہ حکومت میں تو ہر شہر میں انہوں نے اپنی چوکیاں بنالی ہیں وہ یا کانوڑیے جتنی غنڈہ گردی کرتے ہیں وہ سب حکومت کے اشارہ پر ہے اور بلندشہر میں جو ہوا یا خدا نخواستہ ہوجاتا وہ بھی حکومت کی مرضی سے ہوتا ہم یہ بات اب جماعت کے ذمہ داروں سے کہنا چاہتے ہیں کہ اب ہندوستان عالمی اجتماع برداشت نہیں کرے گا اس مرتبہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے دھوکہ میں مار کھا گیا آئندہ کے لئے جہاں بھی کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہو اسے ملتوی کرکے یا دوسرے ملک میں یا کہیں نہیں۔ دین کے لئے عالمی اجتماع کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اب اس کی حیثیت بدعت کی بھی ہوتی جارہی ہے۔ اور سب کچھ برداشت کیا جاسکتا ہے دین کے نام پر بدعت ہرگز برداشت نہیں ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔