چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے

افتخار راغبؔ

چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے

اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے

دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں

آگ وہ دیر تک دہکتی ہے

تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا

صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے

دل دہلتا ہے دوسری کا بھی

ایک دیوار جب درکتی ہے

چھُپنے والی نہیں مری چاہت

تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے

موج مستی کریں کنارے کیا

موج دن رات سر پٹکتی ہے

تشنگی میری جس سے ہے منسوب

وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے

جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر

روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے

جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے

کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے

کس کو آتا بھلا یقیں راغبؔ

شاخ ایسی بھی ٹوٹ سکتی ہے

تبصرے بند ہیں۔