چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
افتخار راغبؔ
چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
…
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
…
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے
…
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
…
چھُپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
…
موج مستی کریں کنارے کیا
موج دن رات سر پٹکتی ہے
…
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
…
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
…
جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے
کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے
…
کس کو آتا بھلا یقیں راغبؔ
شاخ ایسی بھی ٹوٹ سکتی ہے
تبصرے بند ہیں۔