وزیراعظم کے ہر جملہ سے تھکن پھوٹ رہی ہے

حفیظ نعمانی

ملک کے وزیراعظم اور بی جے پی کے سب کچھ شری نریندر مودی 19  جنوری کو ہونے والی ممتا بنرجی کی ریلی اور اس میں 21 پارٹیوں کے لیڈروں کی شرکت اور سب سے زیادہ عوام کا سمندر ہضم نہیں ہورہا ہے۔ خبروں کے مطابق وزیراعظم کے لئے کلکتہ کے اسی میدان میں جو ریلی آنے والی 9 فروری کو ہونے والی تھی اسے ملتوی کردیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس خطرہ کے پیش نظر ملتوی کیا گیا ہے کہ اگر انسانی سمندر اس سے کم ہوا تو بڑی بے عزتی ہوگی۔ اور یہ تو ان کی ہر تقریر سے ظاہر ہورہا ہے کہ ان کو یہ 21 پارٹیوں کا گٹھ بندھن اور اس میں سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا، ارون شوری اور شتروگھن سنہا نے شریک ہوکر اسے اور زیادہ عوامی بنا دیا۔

کیرالہ ملک کے ایک کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے اور دوسری خصوصیات کی وجہ سے اپنی الگ امتیازی شان رکھتا ہے وہاں اس وقت کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ ہم جتنا کیرالہ والوں کو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ یا تو تمل ناڈو سے تعلق رکھتے ہیں یا مہاراشٹر اور کرناٹک سے۔ بقیہ ملک سے کٹے کٹے رہتے ہیں۔ لیکن مودی جی جب وہاں گئے تو ان کی تقریر کا موضوع وہی کلکتہ والی ریلی رہی اور انہوں نے اشاروں اشاروں میں کلکتہ میں جمع ہونے والی تمام پارٹیوں کو بدعنوان قرار دیتے ہوئے کہہ دیا کہ بدعنوانی میں پکڑے جانے سے ڈرکر اپوزیشن متحد ہورہا ہے۔ ان بدعنوانوں میں چندرا بابو نائیڈو بھی ہیں جو تھوڑے دن پہلے تک ان کے ساتھ تھے اور وہ بھی ہیں جو مودی سرکار اور یوگی سرکار کی ہر کمزوری سے واقف ہیں اور آئے دن ان کو للکارتے رہتے ہیں۔

ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ وزیراعظم کے بعض معاملات سے ہم جیسے غیرجانبدار بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ جیسے وہ جب کہتے ہیں کہ مرکزی سرکار کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں سے ان لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے۔ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ یہ اور ایسی تمام باتیں وہ ہیں جو 2014 ء میں بھی کہی تھیں اور پانچ سال کے بعد جبکہ ملک کے کروڑوں لوگ ان کو واپس بھیجنے پر غور کررہے ہیں وہ یہی سبق سنا رہے ہیں کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اور اس کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ جتنے بدعنوان ہزاروں کروڑوں روپیہ لے کر ملک سے بھاگے ہیں وہ سب ان کے زمانے میں ہی بھاگے ہیں اور ہر آدمی کو خبر ہے کہ حکومت نے ان کو نہیں روکا۔

ایک خبر ان کے اوپر بجلی بن کر گری ہے کہ راہل کی بہن پرینکا گاندھی اب سیاست میں سنجیدگی سے حصہ لیں گی۔ جس وقت سے یہ خبر آئی ہے اس وقت سے وزیراعظم نے پریوار کو اپنا موضوع بنا لیا ہے اور ہر جلسہ میں ہر تقریر میں موازنہ کرتے ہیں کہ کانگریس ایک پریوار کی پارٹی ہے اور ہماری پارٹی پریوار ہے۔ بعض گھٹیا لوگوں نے چکنے چہرے اور خوبصورتی پر نشانہ لگایا ہے۔ ایک غیرجانبدار کی حیثیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی میں بھی چکنے چہروں کی کمی نہیں ہے۔ 2004 ء میں اسمرتی ایرانی اس وقت بی جے پی میں آئی تھیں جب ان کی عمر آج کی پرینکا سے کم تھی اور وہ مشہور کہانی ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کی ہیروئن کے ڈنکے بجاکر آئی تھیں ان کے نہ دہلی آنے پر ہنگامہ ہوا نہ امیٹھی سے لڑنے پر جہاں وزیراعظم نے ان کا تعارف اپنی بہن کہہ کر کرایا۔ وہ دونوں جگہ ہاریں اور وزیراعظم نے ہر بڑے محکمہ میں رکھ کر دیکھا وہ کہیں کامیاب نہیں ہوئیں مگر ان کو رخصت نہیں کیا۔ یہ بات صرف پریوار کی نہیں بلکہ نہرو گاندھی پریوار کی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی نے مغربی یوپی سندھیا کے سپرد کی ہے جو مدھیہ پردیش فتح کرکے آئے ہیں۔ اور مغربی یوپی مشرقی یوپی سے بہت اہم ہے لیکن نہ پوسٹر لگے نہ طوفان آیا نہ چرچے ہوئے اور پرینکا جبکہ ہندوستان میں موجود بھی نہیں امریکہ میں ہیں ان کے برسوں پرانے ویڈیو ہر ٹی وی چینل پر دن بھر دکھائے جارہے ہیں اور بی جے پی کا خون جل رہا ہے۔ یہ اس دادی کی ہم شکل پوتی ہیں جن کو اندرا اِز انڈیا انڈیا اِز اندرا تک کہا گیا۔

بات اگر صرف خاندان اور باپ بیٹی یا بہن بھائی کی ہو تو وزیراعظم اپنی حکومت اور پارٹی میں دیکھ لیں کہ کتنے باپ بیٹے بیٹی بہو داماد یا سالے یا کسی کرسی پر بیٹھے ہیں یا رشتہ کا ٹیکس وصول کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے پہلے قدم کے اٹھاتے وقت کہا تھا کہ کانگریس مکت بھارت بنانا ہے۔ اور پھر ہر تقریر میں اسے دہرایا۔ کانگریس نے تو کوئی کارنامہ کیا نہیں وزیراعظم ایک کے بعد ایک ایسی غلطی کرتے چلے گئے کہ کانگریس کی رگوں میں خون چڑھتا چلا گیا اور نوبت یہ آگئی کہ اب وہ کانگریس سے اتنے ڈر رہے ہیں کہ انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ میرا مقصد پارٹی کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ کانگریس کلچر کو ختم کرنا تھا۔ انہوں نے مودی کلچر اور شاہ کلچر کی طرح کانگریس کلچر بھی بنا لیا اور مان لیا کہ پارٹی سے لڑنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت بدعنوانی ختم کرنے کیلئے قدم اٹھا رہی ہے جبکہ یہ بات اب عام ہوچکی ہے کہ مودی سرکار واپس جانے کے لئے قدم اٹھا چکی ہے اب اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ سنیل اروڑا ہیں جن کے قبضہ میں مشینیں ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ ہم بیلٹ پیپر کے دَور میں واپس نہیں جارہے ہیں۔ اور ووٹروں نیز پارٹیوں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر مشین کے ذریعہ حکومت کو روکنے کی کوشش کی گئی تو نہ جانے کتنے قتل ہوں گے اور کتنی مشینیں جل کر راکھ ہوجائیں گی۔

یہ بات ہر ہوشمند محسوس کررہا ہے کہ مودی جی کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے وہ پرانے سبق دہرا رہے ہیں اور اشارہ دوسروں کی طرف کررہے ہیں جبکہ وہ خود رافیل، سی بی آئی اور آر بی آئی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور بدعنوانی دیکھنا ہے تو ملک کے ہر صوبہ کا بی جے پی آفس دیکھنا کافی ہے جو 5  ستارہ ہوٹل کے معیار کا ہے اور پارٹی کا صدر دفتر تو سنا ہے ایسا ہے کہ 25  روپئے کا ٹکٹ لگاکر دکھایا جائے تب بھی لائن نہیں ٹوٹے گی اب ملک میں غریبی ریکھا سے نیچے والوں کی تعداد کم ہونے کا ڈھول بجایا جارہا ہے۔ اور ہوا یہ ہے کہ جو ہزار دو ہزار روپئے روز کماتے تھے ان کو 135  کمانے والوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے اور یہی سب ہیں جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ حکومت پلٹ کر بھر پیٹ کھائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔