ٹرینوں میں تاخیر: کرپشن اور حکومت کی بے خبری

ہلال احمد

کہاجاتاہے جاپان میں ٹرین دیکھ کر گھڑی کاٹائم سیٹ کیا جاتاہے لیکن ہمارے ہندوستان میں اس کے برعکس ٹرین کے سلسلے میں لیٹ لطیفی مشہور ہے، اکثر ٹرینیں تاخیر سے چلتی ہیں، یہاں تک کہ سپرفاسٹ ٹرینیں بھی کئی کئی گھنٹے تاخیرسے چلتی ہیں اوریہ بہت ہی پرانی ریت ہے جس سے کوئی بھی حکومت مستثنیٰ نہیںچاہے وہ یوپی اے کی ہو یااین ڈی اے کی ہو۔ ہندوستانی ریلوے نظام پوری دنیامیں چوتھا سب سے بڑا ریلوے نیٹ ورک ہے جو ایک مخصوص وزارت کے تحت امور انجام پاتا ہے،کروڑوںمسافر روزآنہ نقل وحمل کرتے ہیں اور ہمارے یہاں ممبئی میں لوکل ٹرین کولائف لائن کہاجاتاہے، کوئی سیاح اگر ممبئی کے سفر پرہواور ممبئی کے لوکل ٹرین میں اس نے سفرنہیں کیا تو مانو اس نے ممبئی دیکھی ہی نہیںہے۔ ابھی حال ہی میں گورکھپور سے لوک مانی تلک ٹرمنس(ایل ٹی ٹی) تک کا سفر کرنے کا موقع ملا، 12541سپرفاسٹ ٹرین اپنے وقت متعینہ سے ساڑھے تین گھنٹے تاخیر سے رات اڑھائی بجے کے بعد نکلی اور ممبئی صبح چار بجے پہنچنے کے بجائے دوپہر ساڑھے بارہ بجے پہنچی۔

وقت کے معاملے میں شمال مشرقی ٹرینیں کافی پیچھے ہیں گورکھپور سے چلنے والی اکثر ٹرین اپنے وقت سے نہیں چھوٹتی ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ اسی روٹ سے اکثر آنا جانا ہوتا ہے اس لیے حال واحوال کافی بہترطریقے سے معلوم ہیں۔ باندرہ ٹرمنس سے گورکھپور کے لیے چلنے والی اودھ ایکسپریس کو عرف عام بیل گاڑی کے نام سے جانا جاتاہے۔ جتنی بار بھی اس ٹرین سے سفرکرنے کا موقع ملا شاید کبھی وقت پر پہنچی ہو۔ گزشتہ ۸؍مئی کی بات ہے مذکورہ ٹرین پورے بارہ گھنٹے تاخیرسے تھی،یعنی دیڑھ بجے دن میں چھوٹنے کے بجائے رات دیڑھ بجے چھوٹی تھی۔ یہ صرف ایک دوٹرین کا مسئلہ نہیں بلکہ بیشتر ٹرینوں کا حال ایسا ہی ہے۔ جب کہ ریلوے کے ویب سائٹ پر جلی لفظوںمیں لکھا ہے’’حفاظت،سیکوریٹی اور وقت کی پابندی‘‘ Safety,Security ,Punctuality اب اندازہ لگا سکتے ہیں وقت کی پابندی کے معاملے میں ہم کس مقام پر ہیں۔ یہ تو ٹرین کی بات ہے ہمارے ملک کا ہوائی نظام بھی وقت کا پابند نہیں ہے حالیہ برطانوی سروے کے مطابق ہمارے ملک کے انٹرنیشنل ایئرپورٹس سب سے بدترین صورت حال پر ہیں۔ برٹش ایوئیشن انٹلیجنس فرم نے ۵۱۳؍ہوائی اڈوں کا وقت کی پابندی سے متعلق سروے کیاہے جس میں جاپان نے پہلااورتیسرا مقام حاصل کیاہے جب کہ حیدرآباد،چنئی،بنگلور،کولکتا،دہلی اور ممبئی نے بالترتیب ۲۴۶،۲۵۵،۲۶۲،۲۷۰،۴۵۱،۵۰۹واں رینک حاصل کیاہے۔ ان سب میں زیادہ بدتر حالت ممبئی ایئر پورٹ کی ہے جس نے سب سے گری پوزیشن حاصل کی ہے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وقت کی پابندی کے سلسلے میں ہماری حالت کتنی خستہ ہے اور کتنے قیمتی اوقات برباد ہورہے ہیں۔

دوسری اہم بات جو قابل ذکر ہے کہ شمال مشرقی ٹرینیں جو ممبئی، دہلی، چنئی، سورت یا دیگر صنعتی شہروں کو جوڑتی ہیں ان میں ٹکٹ کے لیے ہمیشہ دقتوںکا سامنا رہتا ہے، مخصو ص سیزنس تو دیگر ہیں، عام دنوں میں بھی گورکھپور سے ممبئی کے لیے ٹکٹ بک کرناناکوں چنے چبانے جیسا ہے۔ ایجنٹ ایک ٹکٹ پر دیڑھ سے دوہزار بطور رشوت زیادہ وصول کرتے ہیں، عام مسافروں کو ہمیشہ تتکال ٹکٹ کی بکنگ کافی مشکل ہوتی ہے، ٹرین کی جانب سے معینہ مدت ۱۲۰؍دن پہلے ٹکٹ ریزرو کیا جاسکتا ہے لیکن اکثر وبیشتر یہاں کی ٹرین ہاؤس فل ہوتی ہیں۔

مرکزی حکومت اور وزارت برائے ریلوے ترقی اور سہولیات کے چاہے جتنے بھی دعوے کرلے تاہم یوپی اور بہارسے چلنے والی ٹرین ہمیشہ اوور لوڈ ہوتی ہیں۔ ایک ٹکٹ پر کئی کئی مسافر غراما دیکرمجبوراً سفر کرتے ہیں۔ ممبئی سے یوپی،بہار کو جانے والی یا یوپی، بہارسے ممبئی کو آنے والی ٹرینوں کا سروے کیاجائے توحالات دگرگوں ملیں گے۔ سلیپر کلاس میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے، ایسی دھکم پیل کہ سفر کرنے سے آدمی کان پکڑ لے۔ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء یا واش بیشن میں جانے کے لیے گیلری میں جگہ نہیں ہوتی ہے۔ ان سب کے وجوہات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان روٹوں پر ٹرین کم مقدار میں چلائی جارہی ہیں مسافروںکی تعداد حدسے زیادہ ہیں ساتھ ہی حکومت کی عدم توجہی کے سبب ایجنٹ مسافروں سے خوب پیسہ اینٹھتے ہیں۔

ہرسال ریل بجٹ میں حکومت نئی ٹرینوںکا اعلان کرتی ہے کوشش ہونی چاہیے کہ شمالی مشرقی روٹوں پر مزید ٹرینیں چلائی جائیں تاکہ بھیڑ پر قابوپایا جاسکے اور عوام کو سہولت میسر آسکے۔عام شہری اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ہوائی سفر کریں روزینہ کمائی کرنے والے کم قیمت میں بمشقت سفر کرتے ہیں لیکن وہاں بھی دھاندلی اور کرپشن کا بول بالا ہوچکا ہے۔ جیساکہ مذکور ہے شادی بیاہ کے دنوں میں چارمہینہ قبل ہی ٹکٹ بکنگ ختم ہوجاتی ہے دلال اور ایجنٹ ایک ٹکٹ پر ہزاروں روپئے وصولتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جہاں وہ ترقی کے لاکھ دعوے کرتی ہے وہیں کوئی ایسا نظام قائم کرے تاکہ مسافروں کوآسانی ملے۔ یہ ایک دن یا ایک مہینہ کے مسئلہ نہیں ہے بلکہ آئے دن یہی مسائل درپیش ہوتے ہیں ان ٹرینوں میں سفر کرنے والے لوگوں کے لیے۔

آخری بات یہ ہے کہ اگربفرض محال ایک ٹرین کم سے کم ایک گھنٹہ تاخیرسے چلتی ہے اور اس میں ایک ہزار مسافر سفر کررہے ہوں تو کل ملا کر ایک ہزار گھنٹے بربادہوئے۔اس حساب سے آپ آنکڑا لگا سکتے ہیں کہ روزانہ ٹرینوں کی تاخیرسے ہندوستانیوں کے کتنے قیمتی اوقات ضائع ہورہے ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہوگا حکومت یا بھولی بھالی عوام؟ کیا حکومت کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے؟ کیا اس کا کوئی بدل نہیں تیار کیا جاسکتا ہے کہ ٹرینیں تاخیر سے نہ چلیں؟ حکومت کرپشن کی روک تھام کے لیے خوب دعوے کرتی ہے کیا ریلوے میں ہورہے کرپشن پر حکومت کی جوابدہی بنتی ہے؟ آخر کیوں ٹکٹ دستیاب نہیں ہوپارہے؟؟ کیوں زیادہ مصروف روٹس پر ٹرینیں نہیں بڑھائی جارہی ہیں؟؟ کیوں عوام کو تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں ؟ آخر یہ سب حکومت اور وزارت ریل کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اس میں سدھار لائے؟  عوام بے بس ہوچکی ہے اس کے پاس اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ دھکامکی کھاکر سفر کرے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی طریقہ نکالا جائے گا اور عوام کو سہولت بہم پہونچائی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔