میرے دور کے ابن تیمیہ کہاں ہیں؟

الطاف جمیل شاہ

درسی حلقوں میں صدیوں سے ایک ایسا جمود طاری تھا کہ اپنی گروہ کے فقہی دائرہ سے سر مو قدم نکالنا جرم سمجھا جاتا تھا، قرآن و حدیث کو ان فقہی مسلکوں اور اپنے گروہ کی عینک سے دیکھنے کا رواج عام تھا، فقہی اختلافات میں قرآن و حدیث کو حکم بنانے کی بجائے قرآن و حدیث کو ہر حال میں ان کے مطابق کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، ترجیح و اختیارات فقیہ کا دروازہ بھی عملا بند تھا، زمانہ اور حالات کے تغیر کے ساتھ بہت سے نت نئے مسائل در پیش تھے، جن میں فتوی دینے کے لئے اسلام کے پورے فقہی ذخیرہ پر وسیع نظر، کتاب و سنت پر عبور، قرون اولیٰ کے تعامل پر اطلاع اور اصول فقہ سے گہری واقفیت کی ضرورت تھی، لیکن عرصہ سے علم و نظر اور مطالعہ محدود ہوتا چلا جا رہا تھا، قوائے فکریہ مضمحل ہورہے تھے، اور کوئی عالم نئے مسائل کے استنباط کی جراءت نہیں کر رہا تھا، اسلامی قانون اور فقہ اپنا نمو اور ارتقا کی صلاحیت کھو چکے تھے، اور قدیم فقہی ذخیرہ میں اضافہ ناممکن سمجھا جانے لگا تھا، اس صورت حال کی اصلاح کے لئے بھی ایک ایسے محدث و فقیہ  اور اصولی کی ضرورت تھی، جو پورے اسلامی کتب خانہ اور اس کے علمی ذخیرہ کا جائزہ لے چکا ہو، قرآن و حدیث کا اس کو ایسا استحضار ہو کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہوں، حدیث کی اقسام اور اس کے مراتب اور اس کے مجموعوں پر اس کی ایسی نظر ہو کہ کہنے والے کہیں کہ جس حدیث کو یہ شخص نہیں جانتا وہ حدیث ہی نہیں، فقہاء کے اختلافات اور ان کے ماخذ و دلائل اس کو ہر وقت مستحضر رہیں، اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب اور ان کی جزئیات سے وہ ان مذاہب کے اہل درس و فتوی سے زیادہ باخبر ہو، قوت استنباط اور ذاتی تحقیق کے ساتھ سلف کے دائرہ میں محدود اور ائمہ مجتہدین کا مرتبہ شناس اور ان کا خوشہ چین ہو، لغت میں محقق اور زبان کے معاملہ میں نقاد اور مبصر ہو، نحو میں اس کو یہ درجہ حاصل ہو کہ ائمہ فن و مصنفین نحو کی بے تکلف غلطیاں نکالتا ہو، اس کا حافظہ محدثین اولین کی یاد تازہ کرتا ہو، اس کی ذکاوت قدرت خداوندی کی ایک نشانی، اس کا علم فیاض ازل کی فیاضی کی ایک دلیل، اس کی ذات امت مسلمہ کی مردم خیزی، درخت اسلام کی شادابی اور علوم اسلامیہ کی زندگی اور تازگی کا ثبوت ہو۔

اس کے ساتھ وہ زندگی کے عملی میدان کا بھی شہسوار ہو، صاحب قلم بھی ہو اور صاحب سیف بھی ہو، سلاطین وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے سے اس کو باک نہ ہو، اور تاتاری جیسے خونخوار دشمن کے مقابلہ میں لشکر اسلام کی قیادت کرنے سے اس کو عذر نہ ہو، درس کے حلقوں کتب خانہ کے گوشوں، مسجد کی خلوتوں، مناظرہ کی مجلسوں سے لے کر جیل خانہ کی کال کوٹھری اور میدان کارزار تک اس کی یکساں پرواز اور فاتحانہ ترکتاز ہو، اور ہر جگہ اس کی ذات محترم اور اس کی امامت مسلم ہو۔ آٹھویں صدی کے لئے ایک ایسے ہی مرد کامل کی ضرورت تھی،جو زندگی کے تمام میدانوں کا مجاہد ہو، اور جس کی جد و جہد اور اصطلاحات کسی ایک شعبہ میں محدود نہ ہوں، یہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ذات تھی، جس نے عالم اسلام میں ایک ایسی علمی و عملی حرکت اور زندگی پیدا کر دی، جس کے اثرات صدیاں گزر جانے کے بعد بھی قائم ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مشاہیر کی نظر میں

” اللہ تعالی نے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کواپنے دور میں علم و اصلاح اور جہاد وغیرہ بہت سی نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا تھا اور وہ اپنے زمانہ میں اپنا نظیر اور اپنی مثال خود تھے۔”

افضل العلماء محمد یوسف کوکن عمری لکھتے ہیں کہ امام موصوف کی طبیعت میں تیزی اور حدت و شدت زیادہ تھی، جب کوئی کام خلاف شریعت ہوتا ہوا نظر آتا تو بگڑ  جاتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق یہ ریمارکس مولانا سرفراز خان صفدر نے اپنی کتاب  سماع الموتی ‘(ص135،134)پردیئے ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں:

”ابن قیم رحمہ اللہ عارف تھے اور ان کے شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی عارف تھے۔”  (الکلام الحسن :ج2ص 109)

آپ کے متعلق شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ بالکل بجاہے کہ:

” جن لوگوں نے ان پر اعتراض کیا ہے،ان کو ان کے علم کا دسواں حصہ بھی نہیں ملا ہے۔” (انوارالباری، ج14ص821)
اسی طرح ابو البقاء سبکی(777ھ) لکھتے ہیں:

والله يا فلان ما يبغض ابن تيمية إلا جاهل أو صاحب هوى، فالجاهل لا يدري ما يقول، وصاحب الهوى يصده هواه عن الحق بعد معرفته به ‘
” ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بغض کوئی جاہل رکھ سکتا ہے یابدعتی، کیوں کہ جاہل جانتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور بدعتی کو اس کی بدعت، اقرار حق سے روکے ہوئے ہے،حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ حق کیا ہے۔” (الردالوافر لابن ناصر الدمشقی :ص 99)

مودودی صاحب لکھتے ہیں:

” حافظ ابن کثیر جن کا مرتبہ مفسر محدث اور مورخ کی حیثیت سے تمام امت میں مسلم ہے، ابن تیمیہ کے محض شاگرد ہی نہیں، عاشق ہیں اور ان کی خاطر مبتلائے مصائب بھی ہوئے ہیں۔” (خلافت و ملوکیت، ص 315)

جناب سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:

”اکثر اہل بدعت حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن القیم کی رفیع شان میں بہت ہی گستاخی کرتے ہیں، مگر حضرت ملا علی القاری الحنفی ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں، کان من اکابر اہل السنۃ والجماعۃ ومن اولیاء ہذہ الامۃ ”کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن القیم رحمہ اللہ دونوں اہل سنت والجماعت کے اکابر میں اور اس امت کے اولیاء میں تھے۔”(جمع الوسائل : جلد1ص208 طبع مصر)” (باب جنت، ص29)

مفتی تقی عثمانی صاحب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے رسالہ مقدمہ فی اصول التفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اصول تفسیر کے موضوع پر علامہ ابن تیمیہ کا شہرہ آفاق رسالہ ہے۔۔۔۔۔۔۔جو اصول ابن تیمیہ نے اس میں بیان فرما دئیے ہیں،اگر ان کی رعایت کر لی جائے تو تفسیر قرآن کے معاملے میں گمراہی سے بالکل امن ہو جاتا ہے۔ (تبصرے :ص470)

مزید ان مشاہیر علماء سے بھی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی انتہائی خوب صورت الفاظ میں توثیق ثابت ہے۔

(1) علامہ ابن ابی العز حنفی (792ھ)

الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ۔

(التنبیہ علی مشکلات الہدایہ : جلد3ص1301)

(2)ابن نجیم حنفی(970ھ)

الحافظ عالم العرب ابو العباس بن تیمیہ
(البحر الرائق  شرح کنز الدقائق : جلد1ص86)

(3)ابن نجیم حنفی (م:1005ھ)

شیخ الاسلام، تقی الدین بن تیمیہ۔

(النہرالفائق شرح کنزالدقائق : جلد3ص326)

(4)ابن عابدین شامی حنفی (1252ھ)

شیخ الاسلام، تقی الدین احمد بن تیمیہ ۔

(فتاوی شامی جلد4ص233)

(5)علامہ صنع اللہ حنفی (م: 1708ھ)

تقی الدین الحرانی۔

(سیف اللہ علی من کذب علی اولیاء اللہ : ص63)

از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری وابو الوفا اثری

یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ہے 

گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا، سخت کوش، تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کے کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی، کثرت تعداد، جنگی مہارت، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!

شامی و مصری مسلمان لشکریوں کے دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کے جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا !

مگر ایک پینتیس چالیس سال کا نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا !

وہ ہر دستے کے سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا ” کہ آج فتح تمھاری ھوگی”۔ اس قید یافتہ، نحیف نراز شخص کے وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا، اس کے الفاظ میں عجب جادو تھا، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کے قریب آکر درخواست کرتا

اے شیخ ابن تیمیہ آئیے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گے، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !

اس کو ہر بات کی فکر تھی، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کے میدان میں شکست کا مطلب، مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا، مگر لشکر کا عسکری جذبہ اسی کا مرھون منت تھا، رات کی خاموش تنہائیوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا”۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا،

رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کے لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کے ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کے سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!

معرکہ شروع ھوگیا، تاتاری پے در پے آگے بڑھے، ان کے پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کے گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا۔

امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے، استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا، صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !

شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی، یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو”

شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھینوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے، معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گے مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!

علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کے دل ٹہر گئے، شیر کی طرح پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا،

تاتار کہ خاقان، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا
میرے دور کے ابن تیمیہ کہاں ہیں

تبصرے بند ہیں۔