پرائیویٹ اسپتال موت کے سوداگر

حفیظ نعمانی

آج پورا ملک پرائیویٹ اسپتالوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ وبا کب شروع ہوئی لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ آزادی سے پہلے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی ایسی تھی کہ کسی کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ کہیں اور کے بارے میں سوچے۔ کنٹرول انگریزوں کا تھا جو کام چوری اور حرام خوری سے یا تو واقف ہی نہیں تھے یا اس کی گندگی سے اچھی طرح واقف تھے اور سوچ سمجھ کر اسے چھوڑا تھا۔

آزادی کے بعد انگریز افسر ہی نہیں گئے وہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے گئے اور ان کے بعد جو افسر بنے وہ فطری چور اور بے ایمان تھے اور ان کی گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے شاطر ڈاکٹروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ نرسنگ ہوم کے نام سے پرائیویٹ اسپتال قائم کئے جائیں۔ اور پھر ہر اس ڈاکٹر نے جس کے باپ کے پاس دولت تھی نہ کہیں نوکری کی اور نہ اپنا مطب کیا نرسنگ ہوم کھول لیا اس میں بوڑھے باپ، ناکارہ رشتہ دار اور گھر کے دوسروں کو بھی روزگار مل گیا۔

ہمیں اپنے والد ماجد کی وجہ سے، ان کے بعد اپنی اہلیہ کی وجہ سے مہینوں پرائیویٹ اسپتالوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور ان کو دیکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ کوئی بھی کاروبار اتنے نفع کا نہیں ہے جتنا نرسنگ ہوم یا پرائیویٹ اسپتال ہیں۔ ہر اسپتال میں پندرہ بیس ڈاکٹروں کے نام کی تختی موجود رہتی ہے جن میں انسان کے جسم کے ہر حصہ کے ڈاکٹر ہوتے ہیں اور اسپتال کے چار کمروں میں سب کو بھگتا دیا جاتا ہے۔ ایک کمرہ میں دماغ کا ڈاکٹر بیٹھا ہے، دوسرے میں ناک کان حلق کا، تیسرے میں دل کا اور چوتھے میں پھیپھڑوں کا دو دو گھنٹہ کے بعد دوسرے ڈاکٹر آجاتے ہیں جن میں جگر کے، آنتوں کے پیٹ کے اور پیشاب کے ہوتے ہیں ان کے جانے کے بعد ہڈی، کھال کے خون کے اور آنکھوں کے آجاتے ہیں۔ اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام ڈاکٹر وہ ہیں جو ایک کے بعد دوسرے نرسنگ ہوم میں ڈیوٹی دیتے ہیں اور وہ اس لئے مارے مارے پھرتے ہیں کہ اناڑی ہیں اور ان کا اپنا مطب کہیں نہیں ہے۔
ہماری اہلیہ کا بیماری کی حالت میں پیشاب بند ہوگیا جس ڈاکٹر کے زیرعلاج تھیں انہوں نے ایک نرسنگ ہوم کا مشورہ دیا جہاں (آئی سی یو) بھی تھا جاتے ہی بغیر کچھ دیکھے فوراً آئی سی یو میں بھیج دیا یہ وہ حرکت ہے کہ اس کے بعد تیمارداروں سے جتنا ہوسکے لوٹ لو اور وہاں 36 گھنٹے کے بعد جب ہم نے لڑبھڑکر واپس لانا چاہا تو 96 ہزار کا بل ہمارے ہاتھ پر رکھ دیا۔

دہلی کے میکس اسپتال میں جو کچھ ہوا اس سے ہر اخبار پڑھنے والا واقف ہے دہلی حکومت نے پہلی بار ہمت سے کام لیا اور اس کا لائسنس منسوخ کردیا۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہر شہر کے ہر نرسنگ ہوم اور پرائیویٹ اسپتال کا بے رحمی سے جائزہ لیا جائے پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ابتدا میں چار کمروں سے نرسنگ ہوم بنا پھر چاروں طرف کی تھوڑی تھوڑی زمین خریدی اور کمرے بناتے بناتے دس کمروں کا اور پھر مریضوں کے کامن ہال کا نقشہ پاس کردیا اور اسے بڑا اسپتال بنا لیا لیکن اب جو بنتا ہے وہ پانچ ستارہ کے معیار پر ہی بنتا ہے اور سیکڑوں کے بجائے لاکھوں سے گنتی شروع ہوتی ہے اور اگر کسی بھی شہر کے سرکاری اسپتال کے مریضوں کو گنا جائے تو وہ پرائیویٹ اسپتال کے مریضوں سے کم ہوں گے۔

لکھنؤ کے قرب و جوار میں ایک درجن چھوٹے ضلع ہیں اور ہر ضلع میں سرکاری اسپتال ہیں۔ اتفاق سے ہمارے ہوٹل اور گھر میں کام کرنے والے اور ڈرائیور سب لکھیم پور کے ہیں اس لئے وہاں کی خبریں زیادہ ملتی ہیں۔ آئے دن ہمارے ملازموں کے رشتہ دار یا جاننے والے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ میڈیکل کالج میں آئے ہیں سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر نے بھیجا ہے۔ ہر ضلع میں لاکھوں کی آبادی ہے ہر حیثیت کے لوگ ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کے لئے وہاں کیوں انتظام نہیں ہے؟ یہ تو عام شکایت ہے کہ سرکاری ڈاکٹر گاؤں کے چھوٹے اسپتال میں نہیں جانا چاہتے۔ اور اگر کسی کا تبادلہ کردیا جائے تو وہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ اور یہ بیماری آزادی کے بعد سے آئی ہے اب یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق ملازمتوں کو بھی عام سرکاری ملازمتوں کی طرح کیوں رکھا جاتا ہے؟ ان کی تنخواہ زیادہ اور ڈیوٹی سخت کیوں نہیں کی جاتی؟

ان ہی چھوٹے شہروں میں ہر مرض کے علاج کے لئے پرائیویٹ اسپتال ہیں اور وہ جتنا لوٹ سکتے ہیں لوٹ رہے ہیں۔ حکومت کے بجٹ میں اپنا اور دنیا کے دوسرے بڑے ملکوں سے آیا ہوا روپیہ صحت کے لئے اتنا ہوتا ہے کہ اگر ہر سرکاری اسپتال کو واقعی اسپتال کی طرح چلایا جائے تو آدھے پرائیویٹ اسپتال بند ہوجائیں لیکن سننے میں یہ آتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر خود چوری سے پرائیویٹ اسپتالوں کا مشورہ دیتے ہیں اور خود جاکر وہاں علاج اور آپریشن کرتے ہیں۔ اس کے بعد کس کی ہمت ہے جو اُن اسپتالوں کو بند کرائے۔ ان اسپتالوں سے حکومت چلانے والوں کو کیا ملتا ہے یہ بھی ایک راز ہے اس لئے عام آدمی پارٹی کو اپنے سخت فیصلہ کے لئے مرکزی حکومت سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔