پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
پروفیسر ایاز احمد اصلاحی
کشمیر کی بیسرن وادی، جو پہلگام کا علاقہ ہے، میں 22 اپریل 2025 کو عام زائرین پر حملے کی خبر پورے ملک کے لیے گہری تشویش اور صدمے کا باعث ہے۔ اس میں اب تک 26 افراد کے ہلاک ہونے اور 20 سے زائد لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
عام لوگوں پر ہوا یہ حملہ افسوسناک بھی ہے اور قابل مذمت بھی، اس لیے کہ معصوموں اور عام شہریوں کی جان لینا نہ تو کسی انسانی دستور میں جائز ہے اور نہ ہی ہماری شریعت میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ ایسی حرکتیں انسانیت نہیں حیوانیت کا حصہ ہیں اور کوئی بھی انسانی سماج جس میں انسانیت کی رمق باقی ہو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا اور نہ اسے اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔
اس حملے کے تعلق سے جہاں ہولناک خبروں نے ہماری نیند اڑادی وہیں ان کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسے واقعات کی خبریں بھی آئیں جن سے مری ہوئی انسانیت دوچارہ جی اٹھتی ہے۔ یہ ہم سب نے سنا اور دیکھا کہ اس حملے کے دوران کھچر چلانے والے عادل نام کےایک غریب کشمیری نے وہاں پھنسے زائرین کو بچاتے ہوئے اپنی جان دیے دی۔ نزاکت حسین شاہ نام کے ایک دوسرے کشمیری مسلمان نے اپنی جان پر کھیل کر
درجنوں ہندو زائرین اور ان کے بچوں کی کامیاب حفاظت کی۔ اسی طرح موقع واردات کے نواح میں بسے بہت سے کشمیری مسلمانوں نے اگے بڑھ کر حملے سے ادھر ادھر بھاگتے اور خوف زدہ زائرین کو اپنے گھروں میں پناہ دے کر انھیں کسی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا۔ ان واقعات میں خصوصا ان بیمار دل و دماغ کے لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو انسانوں کو صرف ذات برادری، قوم، فرقہ، مذہب، مذہبی شناخت اور ان کے کپڑوں سے سے پہچانتے ہیں اور اور یہ بھول جاتے پیں کہ وہ ایک انسان بھی ہیں اور اس انسانی رشتہ اور اس سے جڑے تقاضے کسی بھی قومی یا مذہبی فرق سے کبھی ختم نہیں ہوتے۔
اس سلسلے میں این ڈی ٹی وی رپورٹر (25,4,2025) کے یہ الفاظ مجھے بڑے امید افزا محسوس ہوئے،جو لکھتا ہے:
"پہلگام میں ہوئے ایک دہشتگردانہ حملے میں کل 26 زائرین مارے گئے، لیکن ایک طرف جہاں دیشت سے پہلگام کی زمین سرخ ہورہی تھی، دوسری جانب انسانیت کی مثال بنے ایک کشمیری گائڈ نےاپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر چھتیس گڑھ سے آئے زائرین کے ایک گروہ کی جان بچا لی”۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پلوامہ سے پہلگام تک ہم نے دیکھا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا زرد میڈیا اور اس کے بعد میڈیا کے نقش قدم پر چلنے والے ہمارے کچھ حکومتی ذمہ دار ہر ایسے واقعے کے بعد اس جا سارا پس منظر مزہب اور فرقہ سے جوڑ کر نفرت اور فروہ پرستی کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کرتے ہیں کہ حملے کا سارا قصور اور سارا الزام دوسروں پر ڈال کرخود کو سارے الزام اور ساری جواب دہی سے بری کر لیتے ہیں۔
کہنے کا مطلب ہے یہ ہے کہ ہر ایسے حملے کے بعد صرف پاکستان پر انگکیاں اٹھانا کافی نہیں ہے، بلکہ ملک کے رکھوالوں اور چوکیداروں کو اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہونے پر جواب بھی دینا چاہیے اور انھیں جواب دینا ہوگا اور یہ بتانا ہوگا کہ ان کے اقتدار اور ان کے حفاظتی نظم، اور ان نگرانی میں کام کر رہی ملک کی سکورٹی ایجنسیوں کو ان حملوں کی اطلاع وقت سے پہلے کیوں نہیں ہوپاتی۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ چند مسلح عسکریت پسند بڑے اطمئنان سے آتے ہیں اور اپنے منصوبے کے مطابق دہشتگردانہ کاروائی کرکے چلے جاتے ہیں اور ہمارا سارا سرحدی سکورٹی نظام بس دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے حکمراں پڑوسی ملک کو ذمہ دار ٹہرا کر اور چند بڑی دھمکیاں دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔۔ آخر ان ہولناک واقعات کے بعد وزارت عظمی سمیت وہ تمام وزارء اور حفاظتی عملہ جو اس کے ذمہ دارہیں وہ اپنی ذمہ داریاں قبول کرنے یا اپنی سطح پر ناکام رہنے کا اعتراف کرنے اور اپنی کرسیاں چھوڑنے کے لیے کیوں کبھی تیار نہیں ہوتے؟۔ اس قاتلانہ حملے میں اگر کچھ پاکستانی شہری اور پاکستانی حکومت ملوث ہے تو بے شک حکومت کو اس کا حساب مانگنے اور بین الاقوامی قوانینِ کے تحت مناسب اقدام کرنے کا پورا حق ہے۔ لیکن پاکستان اور دہشت گردی کا نام لیکر کوئی حکومت خود اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جواز فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان سوالات کو نظر انداز کر سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بعض سوالات ہم سب کے لیے نہ صرف معمہ ہیں بلکہ پریشان کن بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ سوالات وہ ہیں جو صرف میرے نہیں ہیں بلکہ یہ ملک کے بے شمار لوگوں کی زبانوں پر ہیں اور وہ اس ملک کی سکورٹی اور وقار دونوں سے جڑے ہیں۔ سوالات یہ ہیں کہ پہلگام کا علاقہ انڈیا پاکستان بارڈر سے سیکڑوں کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے پھر بھی وہاں سے گزشتہ کئی واقعات کی طرح اس بار بھی اتنی آسانی سے پاکستان کے کچھ عسکریت پسندوں کا بلا کسی رکاوٹ کےکشمیر کے قلب میں آجانا اور بھرے بازار میں ملکی شہریوں کو گولیوں سے بھون کر سلامت نکل جانا کیونکر ممکن ہوا؟ اور ملک کی سکورٹی فورسز کے ذمہ دار افسران جنھوں نے حملے کے چند منٹوں کے اندر یہ پتہ لگالیا کہ حملہ آور کون تھے اور وہ کہاں سے آئے تھے، وہ اور ان کا وسیع خفیہ نیٹورک لاکھوں کی تعداد میں ہونے اور جدید ترین سہولیات اور ٹکنولوجی سے مسلح رہنے کے باوجود اس قسم کے حملوں سے پہلے آخر کچھ کیوں نہیں کرپاتے؟ تیسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ ارھر چند سالوں سے ہر ایسا جان لیوا حملہ کسی اہم غیر ملکی، خصوصا کسی امریکی حکومتی نمائندہ کے دورہ ہند کے دوران ہی کیوں ہوتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ گزشتہ کئی بار سے کشمیر میں ایک ہی طرز کے حملوں کے باوجود ہماری ایجنسیاں پہلے سے چوکنا کیوں نہیں رہتیں اور ایسے مواقع پر پہلے ہی کی طرح وہ سوتی کیوں رہتی ہیں؟
مذمت افسوس اور تشویش کے اظہار کے بعد یہ یاددہانی بھی ضروری ہے کہ قوم کوئی ہوئی ہو اور جگہ کوئی بھی ہو مذہب کے نام پر معصوم،شہریوں کو نشان زد کرکے دہشت گردانہ حملوں اور مظالم کا نشانہ بنانا اور انھیں بلا جواز ہلاک کرنا ہر انسانی قانون اور شریعت میں غلط اور قابل موخذہ جرم ہے۔ یہ فرقہ پرستی اور نسل پرستی کی بدترین قسمیں ہیں۔ مذہبی شناخت کے ساتھ ایسے دیشت گردانہ حملے یا موبلنچنگ یا گھروں اور عبادت گاہوں پرحملے، خواہ وہ کشمیر میں ہوں یا اتر پردیش، یریانہ یا مدھیہ پردیش وغیرہ میں، ہر جگہ یکساں طور سے حکومت اور عام لوگوں کے نزدیک قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہونا چاہیے۔میرے نزدیک اس قسم کے حملوں میں تفریق کرنا اس ذہنیت کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے جو ان حملوں کے پیچھے ہمیشہ کار فرما رہتی ہے.

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)