چین میں مسلمانوں کی نسل کشی

شہباز رشید بھورو

سنکیانگ(Xinjiang) عوامی جمہوریہ چین (People’s Republic of China )  کے غربِ بعید میں ایک خود مختار اویغور مسلم اکثریتی صوبہ ہے۔ یہ چین کا سب سے بڑا خودمختار صوبہ ہے جس کی سرحدیں مونگولیا، کرغزستان، قزاقستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور کشمیر سے ملحق ہیں۔ یہ علاقہ ترکی النسل اویغور مسلم اقلیت کا مسکن ہے۔ یہ علاقہ چینی ترکستان  یا مشرقی ترکستان بھی کہلاتا ہے،اس کا مغربی حصہ مغربی ترکستان کہلاتا ہے جس پر سویت یونین نے قبضہ کیا تھاجو 1991 میں آزاد کر دیا گیا۔ جبکہ مشرقی ترکستان ابھی تک چین کے قبضہ میں ہے۔ سنکیانگ کا دارلخلافہ ارمچی(Urumqi) ہے حلانکہ اس کا سب سے بڑا شہر کاشغر ہے۔ اس مشرقی ترکستان پر سینکڑوں سال سے مسلمانوں کا اقتدار رہا ہے لیکن یہ علاقہ 18ویں صدی سے چین کے زیر تسلط ہے۔ وہاں کی عوام نے متعدد بار  چینی ظلم کے خلاف الم بغاوت بلند کیا لیکن چینی ظالموں نے ہر بار ان کی بغاوت کو بڑی سفاکیت کے ساتھ کچل دیا اور لاکھوں مسلمانوں کو ابھی تک موت کے گھاٹ اتار دیاگیا ہے۔ 1940 میں اویغور مسلمانوں نے عارضی طور پر آزادی حاصل کی تھی لیکن چین نے آخری بار 1949 میں سنکیانگ پر مستقل قبضہ جما لیا اور تب سے وہاں کے مسلمانوں پر  سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ 2010 میں کی گئی چھٹی قومی مردم شماری کے مطابق سنکیانگ کی کل آبادی 21 میلین ہے جس میں 13 میلین سے زیادہ اویغور مسلم آبادی ہے۔     اس علاقہ میں معدنیات اور قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور یہ علاقہ جموریہ چین میں قدرتی گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تاریخ کی مشہور ومعروف شاہراہِ ریشم بھی اسی علاقہ کی مشرقی سرحد اور شمال مغربی سرحد سے ہو کر گذرتی ہے،  جس کی وجہ سے  یہ علاقہ مؤرخین کی دلچسپی کا موضوع  بنا رہا ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے ایک سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

چین میں اسلام صحابہ کرام کے دور میں ہی داخل ہوا تھا لیکن سنکیانگ کو اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں  قتیبہ بن مسلم الباہلی نے فتح کیا تھا جس کے بعد اسلام ایک اچھی رفتار سے  وہاں پھیلتا گیا۔ اسلام نے اویغور باشندوں کی زبان، ثقافت،اخلاق اور مزاج و نفسیات کو گہرے طور پر متاثر کیا۔ اویغور مسلم اپنے آپ کو سنکیانگ کی نسلی(Ethinic )اور سودیشی (indigenous) برادری مانتے ہیں، ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ خود کو وسط ایشیائی ممالک کے قریب سمجھتے ہیں۔ ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن چینی حکومت اویغور مسلم اقلیت کو سنکیانگ کا نسلی باشندہ ماننے سے  اور انھیں ان کے بنیادی حقوق دینے سے یکسر انکار کرتی ہے۔ چین کی حکومت اویغور مسلم برادری کو قومی اقلیت قرار دیتی ہے اور انہیں حکومت کے تمام مناصب سے دور رکھنے میں ہمیشہ فعال اور سرگرم رہی ہے اس کے بدلے ہان کمیونٹی کو انتظامیہ کی تمام ذمہ داریاں سونپنے کی خواہاں رہی ہے۔ 1949 سے چینی حکومت اور اویغور کمیونٹی کے درمیان تنازعہ مختلف بغاوتوں، حملوں، مبینہ گمشدگی اور قتل وغارت جیسے واقعات سے عبارت رہا ہے۔ یہ تنازعہ اپنی شدت کو تب پہنچا جب چینی ماو حکومت نے  بڑے پیمانے پر ہان (Han) کمیونٹی (چین کی اکثریتی نسل) کو سنکیانگ میں بسانا شروع کر دیا .جس کی وجہ سے سنکیانگ میں اویغور اقلیت میں آگئے اور نتیجتاً وہاں کا آبادیاتی ڈھانچہ(Demographic structure )تبدیل ہو گیا۔ 1949 میں اس علاقے میں  اویغور ترک مسلم آبادی کا تناسب 85 فی صد سے زائد تھا اور تب سے اویغور ترک مسلم نسل کی آبادی بتدریج بہت کم ہوتی جا رہی  ہے یہاں تک کہ 40 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ چین کی کونسل برئے خارجی روابط (Counsil on foreign relations) کے مطابق 1949 میں سنکیانگ میں ہان برادری کی آبادی کا تناسب اویغور اور دوسری ethinic groups کے مقابلے میں صرف 8فی صد تھا لیکن 2008 میں ان کی آبادی کا تناسب 40 فی صد تھا اور آج 40فی صد سے زیادہ ہے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی حکومت کا اویغور مسلمانوں کے تئیں کیا رجحان ہے .سنکیانگ میں ہان کی آمد کے بعد کئی فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے.1990 اور 2000 کے آواخر میں دو کمیونیٹیز (Communities)کے مابین  تنازعہ فرقہ وارانہ کشیدگی سے بڑھ کر  عوامی احتجاج اور بغاوت میں تبدیل ہوئی۔

2009 سے لیکر 2014 تک سینکڑوں کی تعداد میں لوگ فسادات کی زد میں آئے۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق "گذشتہ دہائی میں اس خطے میں دنگوں، انٹر کمیونٹی لڑائیوں، مربوط حملوں اور پولیس کی جوابی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں ". مستقبل میں برما کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح اویغور مسلم اقلیت کو وہاں کا آبائی باشندہ ماننے سے انکار کرکے انہیں بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد کا شکار کر کے نقل مکانی پر مجبور کرے گا اور اسطرح سے ایک اور سخت انسانی بحران کا یقینی امکان ہے۔ ہان کمیونٹی نے سنکیانگ پر مکمل معاشی و سیاسی کنٹرول حاصل کر لیا ہےاور حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر خصوصاََ فوج اور پولیس میں ہان لوگ ہی براجمان ہیں، جو مسلمانوں کو ان کے جائز اور بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لئے خفیہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ چین وہاں پر ترقی کے نام بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے کیونکہ اس علاقہ میں پیٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت کافی حد تک اس علاقہ پر منحصر ہے۔ یہ سرمایہ کاری دراصل سنکیانگ کو چینی دارالخلافہ بیجنگ سے قریب تر کرنے کے مقصد کے تحت کی جا رہی ہے۔ ترقی کے نام پر کشادہ سڑکیں، ریلوے ٹریک  اور بڑے بڑے تجارتی پروجیکٹس پر کام صرف سنکیانگ پر سخت گرفت اور کڑی نظر رکھنے کے لئے کیا جارہا ہے بقول ایک اویغور مسلم کے "ہمیں چوبیس گھنٹہ نگرانی (surveillance )میں رکھا جارہا ہے۔ "

لامذہب چین سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی زبان، ثقافت، تہذیب اور مذہب کو اپنے ملحد و بے دین کلچر میں ضم کرنا چاہتا ہے جس کے لئے مسلمانوں پر بہت ساری پابندیاں و بندیشیں عائد کر چکا ہے۔ ان کے مساجد و مدارس کو مقفل کیا گیا ہے، انفرادی و اجتماعی عبادات پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، اذان پر سخت پابندی ہے، گھر میں قرآن اور جائے نماز رکھنے کی بھی بندش ہے، حتی کہ کئی رپوٹس کے مطابق "محمد”نام رکھنے پر بھی پابندی ہے، حجاب، برقہ اور داڑھی رکھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ غرضیکہ اویغور مسلمانوں کی مذہبی، نسلی اور ثقافتی شناخت کو ختم کر دینے کی تحریک چینی سرکار کی طرف سے بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ بیرونی(Foreign)ممالک کا سفر کرنے پر پابندی لگانے کے لئے ان کے پروانہ راہ داری (Passport)کوضبط کیا جا رہا ہے.ان تمام پابندیوں کی یا تو چین انکار کرتا ہے یا پھر  مذہبی انتہاپسندی کو نپٹنے کے زاویے سے توجیہ پیش کر رہا ہے ۔ چین کی کمیونسٹ حکومت اسلام کو ایک ذہنی مرض قرار دے کر اس کا علاج کرنے کی خفیہ پلاننگ کر چکا ہے یعنی  چینی حکومت جبراً مسلمانوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لئے عملی طور پر کوئی بھی بہیمانہ قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ اسی خفیہ پلاننگ کے تحت2017 میں چین نے ایک نئے طرز کا ظالمانہ طریقہ کار مسلمانوں کو ستانے کے لئے اختیار کیا ہے، وہ ہے حراستی مراکز یا انٹرنمنٹ کیمپ(Internment camps)۔ اقوام متحدہ کے مطابق چین میں دس لاکھ سے زائد ایغور باشندوں کو ان حراستی مراکز میں محبوس کر لیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ صوبہ سنکیانگ ایک بہت بڑے’ کیمپ‘ میں بدل چکا ہے۔

’بی بی سی کے ایک نامہ نگار کے  مطابق اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گيا ہے۔ لاکھوں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ افراد کیمپ سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں۔ ‘چینی حکومت ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ وہاں کے باشندوں کی ترقی کے لئے بنائے گئے ہیں جہاں یہ افراد اپنی مرضی سے مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی سے نپٹنے کے طور طریقے سیکھنے آئے ہیں۔ قابلِ اعتبار ذرایعہ سے موصول ہوئی خبروں کے مطابق ان انٹرنمنٹ کیمپوں میں مسلمانوں کو کئ کئ روزر تک مسلسل بھوکا رکھا جاتا ہے،انھیں کانٹے دار تار سےباندھ کر کوڑے لگائے جاتے ہیں، بجلی کی کرنٹ دی جاتی ہے، اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سنکیانگ کے ٹارچر سیلوں میں جلادوں کے پاس لکڑی کے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے بید ہیں۔ علاوہ ازیں جسم میں سوئیاں چبھوکر اور ناخن کھینچ کر لوگوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ انھیں زوزبردستی کرکے اسلام ترک کرنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔ انھیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کرکے ننگا سونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کیمپوں کے اندر سے صرف رونے، چیخنے اور چلانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ چینی حراستی مراکز مشرق میں مسلمانوں کے لئے گونتنامو اور ابوغریب جیسے جیلوں کی مانند ہیں۔ دی اٹلانٹک (The Atlantic) کے سیگل سموئل کی رپورٹ کے مطابق Inmates were forced to” renounce Islam,criticize their own Islamic beliefs and those of fellow inmates ,and recite communist party propaganda songs for hours each day”۔ ایک بی بی سی رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں موجود ان حراستی مراکز کے متعلق خلاصہ ملاحضہ فرمائیں .

” بارہ جولائی دو ہزار پندرہ کو ایک سیٹیلائٹ چین کے دوردراز مغربی خطے میں واقع صحرا اور نخلستانوں پر سے گزرا۔ اس نے جو تصاویر کھینچیں ان میں سے ایک میں سرمئی ریت کا ایک ان چھوا، خالی قطعہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ یہ موجودہ زمانے میں حقوقِ انسانی کے بارے میں اٹھائے جانے والے اہم ترین سوالات میں سے ایک کے بارے میں تحقیقات کے آغاز کے حوالے سے بہت غیرمتعلق سا مقام لگتا ہے۔ تاہم تین برس بعد بائیس اپریل دو ہزار اٹھارہ کو صحرا کے اس ٹکڑے پر کچھ نیا دکھائی دیا۔ اس عرصے میں وہاں ایک بہت بڑا کمپاؤنڈ تعمیر ہو چکا تھا۔ دو کلومیٹر طویل چاردیواری نے اس کمپاؤنڈ کو گھیرا ہوا تھا اور اس کی نگرانی کے لیے سولہ حفاظتی ٹاور بھی بنائے گئے تھے۔ گذشتہ سال پہلی بار چین سے یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں کہ وہاں اویغور مسلمانوں کو مخصوص کیمپوں میں قید کیا جا رہا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے یہ مناظر سامنے آنے کے بعد محققین نے گوگل ارتھ پر اس بارے میں مزید تفتیش شروع کر دی۔ اس کی مدد سے یہ بات سامنے آئی کہ سیٹلائٹ میں نظر آنے والا کیمپ سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع دابن چنگ نامی چھوٹے سے قصبے کے باہر قائم ہے۔ باہر سے آنے والے صحافیوں کے لیے پولیس کے سخت پہرے اور جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ہم ارمچی کے ہوائی اڈے پر علی الصبح پہنچے۔ لیکن جب تک ہم دبانچنگ پہنچے ہمارے پیچھے کم از کم پانچ گاڑیاں تھیں جن میں چند پولیس اہلکار اپنے یونیفارم میں تھے جبکہ چند پولیس اہلکار سادہ لباس میں ملبوس تھے اور ان کے ساتھ چند سرکاری اہلکار بھی شامل تھے۔ یہ ظاہر تھا کہ ہمارا اگلے چند دنوں میں درجن سے زائد مشکوک قیدی کیمپوں کا دورہ کرنا کافی مشکل ہوگا.جیسے جیسے ہم اپنے راستے پر آگے جا رہے تھے ہمیں اندازہ تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمارے پیچھے آنے والا قافلہ ہمیں روکنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن چند سو میٹر آگے جانے کے بعد ہم نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا جس کی ہمیں کوئی توقع نہ تھی۔ جو میدان سیٹلائٹ تصاویر میں بالکل خالی اور بنجر تھا، ہمارے سامنے وہ مختلف حال میں نظر آیا۔ اس کی جگہ پر ایک بڑی سی عمارت تعمیر ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری رپورٹنگ کے دوران ہمیں یہ شواہد ملے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ‘تربیتی پروگرام’ درحقیقت اویغور مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی وجہ کے قید میں رکھنے کا بہانہ ہے اور انھیں کسی قسم کی کوئی قانونی مدد کا آسرا نہیں ہے۔ "

حال ہی میں بی بی سی اہلکاروں کو ارمچی کے گردو نواح میں بننے والے حراستی مراکز کے قریب جانے سے چینی پولیس نے روک لیا حتی کہ متعدد صحافیوں کو نا معلوم جیلوں میں ٹھونس دیا ہے۔ الجزیرہ نیوز کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں زیر حراست مسلمانوں کے احوال کو چینی حکومت کسی بھی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجازت نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان کیمپس میں دس لاکھ سے زائد مسلمان بغیر کسی دائر مقدمے کے زیر حراست ہیں اور مزید بیس لاکھ اویغور کو ان حراستی مراکز میں داخلہ لینے کے لئے کاغذات (Documents)جمع کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ ان حراستی مراکز کے میں قتل، تشدد، ذہنی، نفسیاتی اور جنسی زیادتیاں جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب بڑے پیمانے پر ہو رہا۔ چین مصدقہ اطلاعات کے مطابق مسلمانوں پر ان کیمپوں کے اندر بہت ظلم کر رہا ہے وہاں ظلم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، ایسی داستانیں جن کو سن کر دل چھلنی ہوتا ہے۔ ماؤں کو اپنے بچوں سے علیحدہ کیا جارہا ہے انھیں یتیم خانوں میں رکھا جا رہا ہے۔ خواتین کو اپنے شوہروں سے زبردستی علیحدہ کیا جارہا ہے۔ ایک خاتون اپنے ہمراہ پانچ بچوں کے 2016میں ترکی پہنچی تھیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی اپنے والد کے ساتھ نہ جانے کس کیمپ میں قید ہے۔ وہ کہتی ہیں "رات کے کسی پہر جب میرے بچے سونے چلے جاتے ہیں تو میں پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوں۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوگی کہ آپ کو یہ نہ معلوم ہو کہ آپ کی بیٹی کدھر ہے، کیا وہ زندہ ہے بھی یا نہیں۔ اگر وہ مجھے سن سکے، تو میں بس اس سے صرف معافی ہی مانگ سکتی ہوں ".اس قسم کی بہت ساری مائیں ہیں جن کے بیانات سن کر دل خون کے آنسوں روتا ہے۔

مسلم ممالک کی اس ظلم و زیادتی پر مجرمانہ خاموشی امت کے حکمرانوں کی ملی مسائل کے متعلق بے حسی کی عکاسی کرتی ہے۔ کوئی بھی مسلم ملک اپنے سرکاری بیان (official statement)میں اس ظلم کے خلاف مذمت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اسی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے چین بھی مغربی ممالک اور دیگر اسلام دشمن ممالک کی صف میں کھڑا ہو کر مسلمانوں کو ظلم و تعذیب کا مشق تخت بنا رہا ہے۔ چینی حکومت نے بھانپ لیا کہ آمریکہ روس اور اس کے اتحادیوں نے پورے افغانستان اور مشرقی وسطیٰ کو بنجر میں تبدیل کر دیا لیکن مسلم ممالک کوئی بھی موئثر اقدام نہ کر پائے البتہ آپسی چپقلشوں میں پڑ کر اپنے دشمنوں کے ہی اتحادی بن گئے تو ہمارا کیا کوئی بگاڑ سکتا ہے۔ فلسطین میں نسل کشی، برما میں نسل کشی، چیچنیا میں نسل کشی اور کشمیر میں قتل وغارت پھر بھی نہ کوئی مذمت نہ ہی اقدام تو ہمارا کیا کرے گا کوئی نقصان .مسلمان ممالک کی سنکیانگ پر خاموشی برما پر خاموشی کے مقابلے میں زیادہ مجرمانہ ہے۔ روہنگیا پر ظلم و تشدد کی ریاستی مذمت پھر بھی کئی مسلم ممالک کی طرف سے ہوئی اور عوامی احتجاج بھی بڑے پیمانے پر ہوا لیکن سنکیانگ کے معاملے ابھی تک بالکل خاموشی ہے۔ مسلم ممالک نے تو سنکیانگ میں جاری ظلم و تشدد کو میڈیا کی جھوٹ بیانی کہہ کر مسترد کیا۔ واضح طور پر ایسا نظر آرہا ہے کہ چین کے اس ظلم کے خلاف کوئی بھی میدان میں آنے کی ہمت نہیں کر پاتا اس کی وجہ چین کا گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا ہے۔ چین کی عالمی سطح پر طاقتور سرمایہ کاری مسلم ممالک کو خاموش رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چین کے ماہر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں ‘جو ممالک ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟’اسی طرح سے واشنگٹن پوسٹ (Washington post )میں لکھنے والے ایشن تھارور(Ishan Tharoor )کے مطابق ترک صدر نے بھی چین کے اس ظلم کو میڈیا فیبریکیشن (Media fabrication )کہہ کر مسترد کیا .پاکستان کے وزیر برائے امور خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے بھی یہ کہہ کر اس کی تردید کی "Some section of foreign media are trying to sensationalize the Uighur matter by spreading false information ".

پوری دنیا خاموش ہے اور مجرموں کے جرائم میں ان کا ساتھ دے رہی ہے اور ساتھ ساتھ میں امت مسلمہ بھی ان کے جرائم کا استقبال کر رہی ہے۔ اس قسم کا رویہ ایک خطرناک مرض کی نشاندہی کر رہا ہے وہ حدیثِ مبارکہ کی رو سے وہن کی بیماری ہے۔ جس کے زیرِ اثر  مسلم ممالک اپنے ملی مسائل  سے تغافل برت کر صرف دنیاوی عارضی معاملات میں دلچسپی ظاہر  کر رہے ہیں۔

آزاد مسلم ممالک کا اسطرح سے مظلوم مسلمانوں کے تئیں سرد مہری کا اظہار اسلام دشمن قوتوں کے اتحاد کو قوی سے قوی تر کر رہا ہے۔ جو اتحاد ملت اسلامیہ پر چڑھائی کرنے کے لئے بس صرف بہانے کی تلاش میں ہے، جو حاصل ہوتے ہی اپنا کام کردے گا۔ غیروں کی رقیبانہ خاموشی کی مختلف اعتبارات سے توجیہ پیش کی جا سکتی ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کی کون سی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے یہی نہ کہ وہ کہیں ‌ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ‌کے مصداق ہو چکے ہیں جو بقول امین احسن اصلاحی”  وہ اپنے دشمنوں کے لیے نہایت ہی نرم چارہ بن کر رہ گئے، حالات و خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے اندر کوئی عزم و حوصلہ باقی نہ رہا”.اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ شاید محال ہے.اگر بروقت پیچیدہ صورتحال سے دوچار امت مسلمہ کی طرف سے کوئی اقدام نہ ہوا تو چین میں ایک نیا برما یقینی طور پر متوقع ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو اپنی حفاظت میں رکھے آمین.

تبصرے بند ہیں۔