کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
حفیظ نعمانی
عمر میں ہم سے پندرہ سال چھوٹے، ٹوٹ کر محبت کرنے والے بھائی زیادہ دوست کم انور جلال پوری بھی داغ مفارقت دے گئے اور یہ پیارے انور کا ہی شعر ہے ؎
لوہے کا جگر جس کا تھا فولاد کا بازو
تھک ہار کے اس نے بھی کفن اوڑھ لیا ہے
اور یہ تھکنا ہارنا بظاہر اس کا تھا کہ اپنی جوان بیٹی کو لندن کے قبرستان میں سلاکر آگئے اور اپنے ساتھ قبر کا نمبر ہی لاسکے۔ وہ باپ جو بیٹی سے محبت کرتا ہے وہ اپنے آقا مولا حضرت محمدؐ کا اس لئے پیارا ہے کہ یہ ان کی سنت ہے۔ اخبار میں جب برین ہیمبریج کی پہلی خبر پڑھ کر ٹیلیفون کیا تو فرزند عزیز شاہ کار نے بتایا کہ بہن کے انتقال کے بعد سب تو رولئے ابا کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا وہ ہم سب کی وجہ سے اپنے کو پوری طاقت سے سنبھالے رہے اور شبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی سے ہار گئے۔
کل تک خبر یہ تھی کہ ہوش میں آنے میں ابھی وقت لگے گا لیکن تمام اعضاء کام کررہے ہیں۔ میں اپنی معذوری کی وجہ سے بار بار تو جا نہیں سکتا تھا تو یہ سوچا تھا کہ ہوش میں آجائیں تو جاکر حوصلہ بڑھائوں گا کہ 11 بجے یہ خبر آگئی۔
انور جلال پوری کی خواہش تھی کہ میں ان کے اوپر مضمون لکھوں انہوں نے اپنی تقریباً تمام کتابیں مجھے دی بھی تھیں۔ ان کتابوں کو میں نے بہت سنجیدگی سے پڑھا بھی اور میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ وہ علم کے اعتبار سے میرے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہیں انہوں نے روشنائی کے سفیر میں جو علامہ اقبال کے بارے میں لکھا ہے اور جتنا لکھا ہے میں اس کا اعتراف کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اتنا تو میں نے پڑھا بھی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کے مضامین اور ان کی کتابوں سے علم حاصل کیا ہے وہ بہت اچھے شاگرد رہے، بہت اچھے استاد رہے، بہت اچھے شاعر ہوئے اور بہت اچھے نثرنگار۔ انہوں نے اپنے جلال پور کا جیسا تعارف کرایا ہے اور کبھی 45 ہزار آبادی کے اس چھوٹے سے قصبہ کے اندر کی خوبیاں تلاش کرکے بیان کی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس جلال پور سے کتنی محبت تھی جس کا رشتہ داروں سے بھی نہیں ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ راقم الحروف انور جلال پوری کی بھی ساری جدوجہد اس قصبہ کی شہرتوں کو بیرونی ملکوں تک پہونچانے میں صرف ہورہی ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ علم و ادب کی دنیا میں جتنے لوگوں کی زبان پر بھی جلال پور کا نام آتا ہے وہ انور جلال پوری کے طفیل آتا ہے۔
انور مرحوم بڑے فخر سے اپنے کو ڈاکٹر ملک زادہ منظور کا شاگرد کہتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نظامت میں ملک زادہ کا ہی انداز اختیار کیا۔ انہوں نے کبھی نظامت میں لطیفے نہیں سنائے اور نہ مشاعرہ کو نوٹنکی بننے دیا۔ یہ ضرور ہے کہ انہیں اس کی تکلیف تھی کہ شاعروں کی جو ٹیم نظامت کیلئے ان کے استاذ کو ملی کہ ان کے علم فن اور اشعار کے بارے میں جو بھی کہا جاتا وہ کم تھا وہ ٹیم انور جلال پوری کو نہیں ملی اور خود اُن کے کہنے کے مطابق آدھی رات انہیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔
میرا تعلق ملک زادہ مرحوم سے بھی اتنا ہی تھا جتنا انور جلال پوری سے میں یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں سمجھتا کہ انور شاعری کے اعتبار سے ملک زادہ سے بہت آگے تھے اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو میں ان سے کہنے والا تھا کہ اب نظامت چھوڑ دیں اور مشاعروں میں شاعر کی حیثیت سے شرکت کریں۔ ملک زادہ منظور کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ا نکا علم ان کی نثرنگاری اور شاعری سب پر نظامت حاوی ہوگئی۔ اور انور جلال پوری کی صرف ایک کتاب روشنائی کے سفیر ایسی ہے جو انہیں بڑے قلمکاروں کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔
اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انہوں نے گیتا کا منظوم ترجمہ اردو میں کردیا اور سب سے منوالیا کہ وہ شاہکار ہے۔ انور نے کلام پاک کے آخری پارئہ عم کا بھی منظوم مفہوم لکھا ہے اور ان کے نامۂ اعمال میں ’’بعد از خدا‘‘ بھی حمد پاک پروردگار اور نعت رسولؐ مسلسل ہے اس سے اور غزلوں کے مجموعہ ’’خوشبو کی رشتہ داری‘‘ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کتنے قادرالکلام شاعر ہیں۔
انہوں نے اپنے ہر دوست کا خاکہ لکھا ہے اور قلم پر قدرت کا اندازہ کرنا ہو تو یہ دیکھئے کہ وہ عمر قریشی کی نظامت کا تعارف کرارہے ہیں تو کہہ رہے ہیں کہ پہلی بار میں نے الفاظ کی صلابت اور قوت کا اعتراف کیا تھا پہلی ہی بار مجھے یہ یقین ہوا تھا کہ گفتگو میں بھی نغمہ ہوتا ہے اور ہونٹوں کے ہلنے سے بھی موسیقی پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدر کا تعارف اور تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بشیر بدر اپنی بڑائی اور اہمیت کا پروپیگنڈہ خود کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے وہ انکساری کو جھوٹ کی ایک قسم سمجھتے ہیں مگر ان کے سچ کی سرحدیں کبھی کبھی مبالغہ سے بھی مل جاتی ہیں۔ وہ ذاتی صحبتوں میں اپنے تفریحی انداز میں وہ باتیں کہہ جاتے ہیں جس طرح کی باتوں پر کسی زمانہ میں گردنیں اُڑ جایا کرتی تھیں۔
انور جلال پوری راحت اندوری کے استاد بھی ہیں مگر یہ پردہ کی بات ہے۔ وہ راحت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ راحت کی شخصیت میں فنون لطیفہ کے ماہرین کی بہت سی کمزوریاں اور خوبیاں یکجا ہوگئی ہیں۔ اس کی جمالیاتی حس میں لطافت بھی ہے اور شدت بھی مگر اس شدت کے باوجود اپنی خودداری کی سطح کو اس نے کمتر نہیں کیا اس کی پیاس کبھی چشمہ آب تک نہیں گئی بلکہ اس نے ایسے حالات پیدا کئے کہ چشمہ آب اس تک آگیا۔
انور مرحوم نے بعد از خدا کے مقدمہ میں لکھا ہے۔ سیرتِ رسولؐ پر میری یہ 92 بند کی طویل نظم ہے جس میں تخلیق کائنات کا وہ تذکرہ بھی ہے جسے ترتیب وار قرآن پاک میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ نظم مجھے اپنا اتنا بڑا کارنامہ دکھائی پڑرہی ہے کہ آئندہ میرے لئے اس جیسے چند بند کہہ پانا بھی ناممکن سا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی اس نعتیہ شاعری کے طفیل متعدد بار عمرے کی سعادت حاصل کرسکوں گا۔ ؎
جو دوا بھی اور دعا بھی ہے وہ مرے خدا کا کلام ہے
جو دکھے دلوں کو سکون دے وہ مرے رسولؐ کا نام ہے
تبصرے بند ہیں۔