گؤرکشک: ہجومی دہشت گردی اور قانون

سیف ازہر

جنگل راج کیا ہوتا ہے صرف سنتا تھا مگر اب گاہے بگاہے دیکھنے کو بھی مل رہا ہے ۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اس ملک میں گئو رکشک اور ہندو یوا وہنی اور اس طرح کی سخت گیر تنظیمیں ہیں جو کہ ہم کو جنگل راج دیکھنے کا موقع فراہم کرتی رہتی ہیں اور ہم ہیں کہ لذت لینے کے بجائے شور مچاتے ہیں ۔قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں ۔پہلوخان کا الور میں گئور کشکوں کے ہاتھوں قتل ہوا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے مگرپھر بھی گئورکشوں پر صرف پیٹنے کا مقدمہ درج ہوا ہے ۔اب اس سے زیادہ انصاف کی توقع زیادتی نہیں تو اور کیا ہوگی ۔قانون اپنا کام کر رہا ہے پیٹنے والوں پر مقدمہ درج ہوچکاہے ۔اس سے بڑھ کر ان لوگوں پر بھی مقدمہ درج ہوا جو گئو ماتا کی اسمگلنگ کر رہے تھے ۔

اب قانون کو اس کیا لینا دینا کہ ان کے پاس دستاویز تھے جو کہ گئورکشکوں نے پھاڑ کر پھینک دیا ۔پولیس نے پہلو خان کی جان بچائی اورگئورکشکوں نے گئو ماتا بھی محفوظ رکھا اس کے عوض ریاستی اور مرکزی حکومت کو انعام دینا چاہئے ۔اگر بھوپال جیل سے فرار ہونے والے آٹھ دہشت گردوں کو مار گرانے پر پولیس کو انعام سے نوازا جاسکتا ہے تو گئوماتا کو بچانے والوں کو کیوں نہیں ۔یہ توایک واقعہ ہے اس سے بڑا بڑا کارنامہ گئورکشکوں نے انجام دیا ہے ۔اخلاق کو مارنے والے کوحکومت نے ترنگے میں دفن کیا تھا ۔یہ اعزازاگر بے چارے الور کے گئو رکشکو ں کو اس لیے نہیں مل سکتا کہ وہ زندہ ہیں تو کم سے کم کسی ریاستی اعزازکا حق تو وہ رکھتے ہی ہیں ۔یقین مانیے اگر ان کو کوئی اعزازنہیں ملا تو یہ ان کی حق تلفی تو ہے ہی باقی گئو رکشکوں کی حوصلہ شکنی بھی ہے ۔

اس ملک میں گئوماتا کے تحفظ کے لیے گئورکشکوں کی حوصلہ افزائی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہوائی جہاز میں ایدھن ۔راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔اس بار زبانی کی ہے ممکن ہے آئندہ اعزاز سے بھی  نوازیں ۔کسی کو بھی اتنا جلدی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔میں نے ان کا بیان سنا ہے انھوں نے کہا کہ ’’گئو اسمگلر بہت چالاک ہیں ہم نے اتنی چوکیاں ریاست میں بنائی ہیں مگر پھر بھی وہ چکمہ دے کر نکل جاتے ہیں ۔اب گئورکشک جو گئوماتا سے پیار کرتے ہیں ان کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ روکتے ہیں ۔روکنے تک تو ٹھیک ہے لیکن قانون کو ہاتھ میں لینا یہ غلط ہے ۔‘‘سوال یہ ہے ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ روکیں ۔اگر گئورکشک روکنے کا حق رکھتے ہیں تو پھر پولیس کو چھٹی پر بھیج دیجئے ۔ان کو اتنی تنخواہ دے کررکھنے کا کیا مطلب ہے ۔کس قانون کے تحت آپ نے گئو رکشکوں کویہ اختیار دے رکھا ہے ۔الورکے متاثرین کے مطابق اگر پولیس نہ آتی تو ان کو یہ لوگ جلانے والے تھے۔

یہ اگر دہشت گردی نہیں تو پھر دہشت گردی کی تعریف ہمیں وزیرداخلہ صاحب آپ بتا دیجئے ۔ایک ہجوم جس کو چاہے کو پکڑ کر مار سکتا ہے ۔قانون اس پر کوئی  کارروائی نہیں کر پاتا یہ قانون کی مجبوری ہے یا قانون کو مجبور کردیا جاتا ہے  ۔اخلاق سے لے کر اب تک پورے ملک اس طرح کے 6؍واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔قانون نے کو ئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی ہے اور پہلو خان کے معاملہ میں کیا ہوگا یہ تو دوسو لوگوں پر مقدمہ درج کرنے سے ہی صاف ہوگیا ہے ۔چلو اگر صرف ایک واقعہ ہوتا تو مان لیتاکہ اتنا بڑ املک ہے کہیں ہوگیا مگر ہندو یواواہنی نے ابھی مہراج گنج کے ایک چرچ میں پہنچ کر توڑ پھوڑ کی ،پرارتھنا رکوا دیا ۔چلئے یہ بھی کوئی بات نہیں ہوئی مگر جھارکھنڈ میں مغرب کی نماز پڑھانے کے جرم میں موذن اور امام کو مار اپیٹا گیا ،یہ کیا ہے ۔یہ تو کوئی گئو اسمگلنگ نہیں تھی ۔چرچ کی پرارتھنا کو تھوڑی دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ وہا ں پرارتھنا نہیں مذہب تبدیلی ہورہی تھی ۔لیکن جھارکھنڈ کی مسجد میں کس چیز کی تبدیلی ہورہی تھی ۔نماز پڑھنا اور پڑھانا کونسا جرم ہے ۔وہ کون لوگ تھے جنھوں نے اذان دینے اور نماز پڑھنے سے منع کیا تھا۔اگر اس ملک میں قانون کی بالا دستی ہے تو جھارکھنڈ ہی میں ایک مسلم لڑکے سالک کا ایک غیر مسلم لڑکی سے پیار کے جرم میں جان سے کیوں مار دیا جاتا ہے ۔یہ سب واقعات سالوں پرانے نہیں ہیں صرف ایک ہفتہ کے اند ر پیش آئے ہیں ۔

گئور کشکوں کو جن چھ ریاستوں نے اجازت دے رکھا ہے، انھوں نے آکر سپریم کورٹ کو کوئی جواب کیوں نہیں دیا۔وہ کون سی بات تھی کہمرکزسے سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ کیا آپ اس ملک میں قانون نہیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ گئورکشکوں کو چھ ریاستوں نے اجازت دے دی ۔یوپی میں اینٹی رومیو کو بھی اجازت مل گئی ۔کل کو عورتوں کا کوئی گروپ شراب بندی کے لیے رضا کارانہ طور پر اٹھ کھڑا ہوگا ۔ڈاکٹروں اور لڑکیوں کا کوئی گروپ سیلف ڈیفنس کے نام پر اٹھ کھڑا ہوا تب تواس ملک کے قانون کی واٹ لگ جانی ہے ۔صرف واٹ نہیں پورا ملک خانہ جنگی میں چلا جائے گا ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اٹھ کھڑا ہوگا اور پانڈے جی تھانہ میں آن ڈیوٹی بیٹھ کر صرف سیٹی بجائیں گے ۔ پھر وہی حالت ہوگی جو پڑوسی ملک پاکستان کی ہے ۔لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں ۔

یہ جو بھی ہورہا ہے گئو رکشا نہیں ہے اگر گئورکشا ہوتی تو اس ملک میں سرکاری گئوشالا میں ہزاروں گایوں کے مرنے کی خبریں نہیں آتیں ۔مرنے والی گائیں کسی وبا سے نہیں صرف اس لیے مری ہیں کہ ان کو ماتا ماننے والے لوگ ماں کے چارے کا پیسہ کھا گئے ۔اگرگئوماتا کا تحفظ ہی مقصود تھا تو پہلو خان کو جان سے مار دینے والوں نے ڈرائیو ر کو کیوں چھوڑ دیا ۔اگر یہ لوگ مجرم تھے تو ڈرئیور بھی برابر کا شریک تھا ۔لیکن گئو رکشکوں نے گاڑی روک کر اس کو صرف اس لیے بھگا دیا کہ وہ غیر مسلم تھا ۔اگر گئوماتا کا تحفظ ہی ان گئورکشکوں کا کام ہے تو ابھی حالیہ دنوں یوپی میں مشرا صاحب کے یہاں جب سے پچاس سے زیادہ گایوں کا ڈھانچہ برآمد ہوا،توان کو مارنے کون سا گئورکشک گروپ گیا۔کیاگئورکشک گئوماتا کوصرف مسلمانوں سے بچانا چاہتے ہیں ۔ بات بات میں قانون کی بات کرنے والی مودی حکومت میں اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ ایسی کوئی واردات ہوئی ہی نہیں  ہے  ۔غیر ملکی میڈیا تک کو اس بات کی خبر ہوگئی اور وزیر موصوف کو اس بات کی بھنک تک نہیں لگی ۔یہ قانون کی بالادستی کے نام پر قانون کا قتل نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔اتنا ہی نہیں نقوی صاحب نے اپوزیشن کو سمجھا یا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے ہندو اور مسلمان نہیں ۔

اب نقوی صاحب سے کوئی پوچھے کہ اگر مجرم مجر م ہوتا ہے تو پھر مسلم کیسے دہشت گرد ہوجاتا ہے ۔یہ حملے کیوں ہورہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مودی حکومت سے پہلے ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا ۔اگر آزادی سے اب تک گئو رکشا نہیں ہورہی تھی تو اتنی زیاد گئو ماتا کیسے بچ گئیں ۔ کیااس سے پہلے گائے کو اسمگل کرنے والوں اور انھیں کاٹنے والوں پر کارروائی نہیں ہوتی تھی ۔پھر ہنگامہ کس بات کا ہے ۔رضاکارانہ گئو رکشک بنانے اور ان کی پشت پناہی کی کیا ضرورت پڑی ۔کیا قانون کو بے حیثیت کرنے کاکوئی پلان ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس طرح اور دہشت گرد تنظیموں یا نقض امن کے مجرمین پر کارروائی ہوتی ہے گئو رکشکوں پر کیوں نہیں کی جاتی ۔گئو رکشکوں کا یہ عمل ،جن لوگوں نے پیار کے جرم میں ایک لڑکے کو مارااور جن لوگوں نے مسجد اور چرچ پر حملہ کیا ان کے خلاف سیمی یا انڈین  مجاہدین کی طرح کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی  ۔کیا یہ نقض امن نہیں ہے ۔کیا یہ ہجومی دہشت گردی نہیں ہے ۔کیا اس سے قانون کی بالادستی پر حرف نہیں آتا ۔یوگی آج کل ایکشن میں ہے اور قانون اور غیر قانون کا سب کو پاٹھ پڑھا رہے ہیں ،لیکن چرچ پر حملہ کرنے والے ہندو یوا وہنی کو کب پڑھائیں گے ۔

قانون کی بالادستی کو لے کر اگر حکومتیں سنجیدہ ہیں تو گئو رکشا کے معاملہ پر سپریم کو رٹ کو نوٹس بھیجنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا۔یہ سب کی ساکھ کا مسئلہ ہے ۔یہ کونسی انسانیت ہے جو حیوانوں سے تحفظ کیلئے حیوان بن جاتی ہے۔ سوچنے اور لگام لگانے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کو خانہ جنگی سے کوئی روک پانا کسی بھی شخص کیلئے ناممکن ہوجائے گااور ہو نہ ہو یہ ملک کسی اور خوانی تقسیم کے جہنم میں جھونک دیا جائے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔