سپر طاقت صرف اللہ ہے(آخری قسط)

عبدالعزیز

 علامہ اقبالؒ نے کہاہے  ؎

سروری زیبا فقط اس ذات ہمتا کو ہے

حکمراں ہے بس اک وہی باقی سب بتانِ آزری

 مشہور ادیب و مصنف حافظ محمد ادریس سیرتِ مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس موضوع پر رقمطراز ہیں :

’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’الاسلام یعلوا ولا یعلٰی‘‘ (اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا)۔آئیے؛ سیرت رسولؐ کی روشنی میں اس فرمانِ رسولؐ کا مطالعہ کریں اور اس مسلمہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم طائی سے اپنی گفتگو میں تین باتوں کی طرف خصوصی طور پر اشارہ فرمایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا کمال یہ ہے کہ اس کا مطالعہ کریں تو ہر دور میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات میں راہ نمائی اور روشنی ملتی ہے۔ جن تین چیزوں کی طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا اور جو عدی بن حاتم طائی کے قبول اسلام میں بظاہر رکاوٹ تھیں ان میں پہلی چیز معاشی تنگ دستی اور مادی وسائل کی قلت ہے۔ دوسری چیز امن و امان کی کیفیت ہے جو اس وقت بہت ناگفتہ بہ تھی۔ تیسری دنیا کی سوپر طاقتوں اور تاجداروں کا خطرہ، جو اپنے مقابلے پر نہ کسی کو برداشت کرتے ہیں نہ سر اٹھانے کا موقع دیتے ہیں ۔ آج بھی کم و بیش یہ تین مسائل امت کو بڑی شدت سے درپیش ہیں ۔

 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دنیا میں متعارف کرا یا تھا، اس کی برکات سے تمام رکاوٹیں راستے سے ہٹتی چلی گئیں اور منزل واضح اور آسان ہوگئی۔ معاشی تنگ دستی کی وجہ لوٹ کھسوٹ، بدعنوانی اور عدل و مساوات کا فقدان ہوتا ہے۔ جب ان برائیوں کی اصلاح کرلی جائے تو کسی بھی معاشرے کی معیشت توانا اور مضبوط ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات کا نظام، انفاق فی سبیل اللہ اور سخاوت کی نشو و نما، محروم طبقات کو پاؤں پہ کھڑا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال میں سائل اور محروم کا حق، اہل ثروت سے وصول کرکے محتاجوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔ کسی بھی معاشرے میں یہ اصول اختیار کرلئے جائیں تو غربت و افلاس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ہر شخص دینے والا ہوتا ہے اور بالآخر ایک موقع ایسا آتا ہے کہ لینے والا کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں پوری ہوئی۔ اس وقت زکوٰۃ دینے والے اپنے قبیلے اور علاقے میں تلاشِ بسیار کے باوجود کوئی حاجت مند نہ پاتے تو اپنی زکوٰۃ و صدقات بیت المال میں لاکر جمع کرا دیتے۔

 یہ سوال بھی آج عام ہے کہ امت مسلمہ میں مشرق سے مغرب تک افراتفری، بدامنی، لاقانونیت اور قتل و غارت گری کیوں ہے؟ حقیقت میں اس کی وجہ بھی بدعنوان حکمران، مفسد نظام حکومت اور شریعت اسلامیہ کی معطلی ہے۔ عرب کے فساد زدہ معاشرے میں اسلامی نظام خلافت، قانونِ شریعت اور عدلیہ کے بہترین نظام کی وجہ سے جرائم مکمل طور پر ختم ہوگئے تھے۔ لوگ ہر جگہ مامون و محفوظ تھے اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران حالات بدل گئے ہیں اور اب امریکہ نے دنیا کو اپنی نام نہاد سپر میسی کے ذریعے اپنی باج گزار کالونی بنالیا ہے۔ ہر شخص کہتا ہے کہ امریکہ کے سامنے دم مارنا ممکن نہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیصر ہلاک ہوجائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ کسریٰ شکست کھاکر بھاگ جائے گا اور اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا۔ حضرت عدی کو بھی آپؐ نے بابل کے محلات کی فتح کی خوشخبری سناتے ہوئے اسی جانب اشارہ کیا تھا۔

 حضرت عدیؓ نے تو اپنی آنکھوں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں پیشین گوئیاں پوری ہوتی دیکھی تھیں اور تیسری کے پورا ہونے کا انھیں مکمل یقین تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ تیسری پیشین گوئی بھی پوری ہوکر رہی اور زیادہ لمبا عرصہ بعد نہیں بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں پوری ہوگئی، جو اگر چہ صحابی نہیں مگر تابعیؒ ہیں ۔ آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ امریکہ بظاہر بلا شرکت غیرے سپر طاقت بنا بیٹھا ہے مگر امریکہ کا زوال بھی نوشتۂ دیوار ہے۔ امریکہ عنقریب مفتوح ہوگا۔ جب مفتوح ہونے کی بات کرتے ہیں تو فوجی حملے اور اسلحے کا استعمال پیش نظر نہیں ہوتا۔ امریکہ کو اسلام کی روشنی مسخر کرے گی۔ قرآن و سنت کی حقانیت ذہنوں کو تبدیل کرے گی اور سیرتِ اسلامی دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ بنے گی۔

 آج حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ میں نو استعماری ذہن اپنے نظریات زیادہ دیر مارکیٹ میں نہیں چلا سکے گا۔ ایک تجسس و جھنجلاہٹ، مایوسی و ناامیدی اور امریکی نظام کی دنیا بھر میں تاخت و تاراج سے اکتاہٹ، امریکہ کے کونے کونے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ جس تیزی سے مسلمانوں کی آبادی مغرب میں بڑھ رہی ہے اور غیر مسلم سکڑ رہے ہیں اس کے نتیجے میں انشاء اللہ بابل و مدائن کی طرح واشنگٹن پر بھی اسلام کا جھنڈا ضرور لہرائے گا۔

ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، کئی لوگوں کو یہ دیوانے کی بڑ اور مجنوں کا خواب نظر آتا ہے مگر ایمان محکم، عمل پیہم اور توکل علی اللہ کی صفات پھر سے اس جسد ملی میں پیدا ہوں گی تو چاروں جانب حالات میں تبدیلیاں آنے لگیں گی۔ اپنی اصل سے جڑ جائیں تو ہم ناقابل شکست ہیں ۔ اس سے لا تعلق رہیں اور محض دعووں کی بنیاد پر انقلاب کے خواب دیکھیں تو یہ سراب کو ٹھاٹھیں مارتا سمندر سمجھنے کے مترادف ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ اگر امت مسلمہ پژمردگی اور بد عملی سے نکلنے کا فیصلہ کرلے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔