سلطان الاولیاءحضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

ساتویں صدی ہجری میں ہندوستان،نہایت پرآشوب،جاں گسل اور خطرناک حالات سے دوچارتھا،ہر طرف افراتفری کا عالم تھا،مسلم ممالک میں کشت وخون کا بازار گرم تھا، منگولوں کی بربریت عام تھی، عدل ونصاف سے سرسبز و شاداب علاقےظلم وجورکی بادخزاں سےویران اور سنسان ہوچکےتھے ،ملت اسلامیہ کئی فرقوں میں بٹ کراپنی قوت وشوکت کھو چکی تھی، سفاکی اور بےرحمی اس قدر عام تھی کہ ایک دوسرےکےخون سے ہولی کھیلی جارہی تھی،ملحدین نےپورےملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھاکہ یکایک رحمت خداوندی جوش میں آئی اورخراسان سے ایک قدسی صفت انسان کی ہندوستان آمد ہوئی؛جس نےاپنے علوم ومعارف سےپورے ہندوستان کواس طرح مسخر کیا کہ صدیاں گزر گئیں؛مگر آج بھی اس کانام لیتے ہوئے سر عقیدت سے جھک جاتا ہے،گردنیں خم ہوجاتی ہیں اور روشن وتابناک کارناموں کی ایک طویل فہرست دل ودماغ کے پردۂ سیمیں پر جھلملانے لگتی ہے ؛جنہیں دنیا فخر الکاملین، قطب العارفین،حجۃ الاولیاء، سراج الاتقیاء،قدوۃالاصفیاء،خواجہء خواجگاں،سلطان الہند شیخ الاسلام حضرت خوا جہ معین الدین چشتی اجمیری (ولادت735ھ، وفات 236ھ)کے نام سے جانتی ہے؛جنہوں نے اسلامی علوم ، دعوتی جدو جہد اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ ہندوستان میں اخلاقی و روحانی سلطنت کی ایسی بنیاد رکھی کہ ہرطرف توحید و حق کے زمزمےبلند ہونے لگے، شعائر اسلام کی تابندگی لوٹ آئی،مسلمانوں کے قلوب میں ایمان کی ٹمٹماتی شمعیں روشن وتاباں ہوگئیں،حق کی خاطر مرمٹنے کے جذبات فروغ پانے لگے،امن وسلامتی کی فضائیں اورراحت وسکون کی ہوائیں چوطرف عام ہوگئیں،ہرچند کہ پہلی صدی ہجری میں ہی یہاں اسلام کی تبلیغ کے دستے آنے شروع ہوگئے تھے؛ لیکن آپ کی آمد کے بعد آپ کی ایمانی ، روحانی، اخلاقی تعلیما ت نے ہندوستان میں اسلام کو جلا بخشی اور ہزاروں ہزارکی تعداد میں لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔

ولادت باسعادت:
حضرت خواجہ معین الدین چشتی 14 رجب 536 ہجری م ماہ اپریل 1143؁ء بروز دوشنبہ صبح صادق کے وقت جنوبی ایران کےعلاقےسیستان کےایک متمول گھرانےمیں پیدا ہوئے،آپ نسبی اعتبار سے نجیب الطرفین سید تھے،آپ کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سےامیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔ آپ کےوالد گرامی خواجہ غیاث الدین کاشمار دولت مندتجاراوربااثرافرادمیں ہوتاتھا ؛مگرمال و ثروت کےساتھ ساتھ آپ عابد و زاہد شخص تھے ، دولت کی فراوانی کےباوجود ابتداء ہی سے بہت قناعت پسند تھے ۔

آپ ابھی پندرہ سال کی عمرہی کو پہنچےتھے کہ والدماجد کا وصال ہوگیا،والدہ محترمہ بی بی نور نے آپ کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی ؛مگر جلد ہی دست قضا نے انھیں بھی آپ سے چھین لیا اور آپ کشمکش حیات میں تنہا رہ گئے۔ والدین کے ورثے سے ایک باغ اور ایک پن چکی آپ کو ملی تھی لہٰذا آپ نے باغبانی کو معیشت کا ذریعہ بنایا اور باغ کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئے۔ اپنے ہاتھوں سے باغ کی حفاظت کرتے اور پانی وکھاد وغیرہ دینے کے ساتھ اس کی کاٹ چھانٹ کرتے تھے۔

آپ کی زندگی کا انقلابی واقعہ:

والدین کے انتقال کے بعد اچانک ایک روحانی واقعے نے آپ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ایک روز آپ اپنے باغ میں مصروف تھے کہ ایک مجذوب فقیر کا ادھر گزر ہوا جس کا نام ابراہیم قندوزی تھا۔

خواجہ صاحب نے انھیں باغ میں آتا دیکھا تو خوش ہوئے اور انگوروں کا ایک تازہ خوشےسے ان کی ضیافت کی ۔صاحب نظر نے صاحبِ دل کو پہچان لیا اور محسوس کرلیا کہ نوجوان کام کا آدمی ہے۔ اپنی گٹھری سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر بڑھایا۔ خواجہ صاحب نے اسے کھایا تو عشق وعرفان کی کیفیات نے دل پر اثر جمانا شروع کردیا۔ ایک روحانی انقلاب کا احسا س ہونے لگا۔ بزرگ تو اپنا کام کرکے چلے گئے مگر جلد ہی آپ نے اپنا باغ اور پن چکی فروخت کرڈالی اور حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کر کے علم دین حاصل کر نےکےلیےنکل پڑے۔

خواجہ صاحب نے سب سے پہلےبخارا اورسمرقندجاکرظاہری علوم کی تحصیل کی اس کےبعد مرشد کامل کی تلاش میں نکل پڑے ۔اس زمانے میں عراق کے قصبہ ہارون میں سلسلہء چشتیہ کے عطیم بزرگ اوراپنےوقت کےولی کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ رہتے تھے، ان کے دست حق پرست پر بیعت ہوئےاوراکتساب فیض کرنےلگے، دوران عبادت وریاضت کئ ایک اہل اللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، اندازہ ہے کہ تقریباً ڈھائی سال تک آپ اپنے مرشد کی خدمت میں رہے، اسی بیچ حج بیت اللہ بھی ادا کیا ۔ خواجہ صاحب کے بارے میں آپ کے مرید وخلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے لکھا ہے کہ آپ طویل عبادتیں کیا کرتے تھے اور مسلسل کئی کئی دن تک روزے رکھا کرتے تھے۔ افطار بہت کم مقدار میں کرتے تھے۔ جسم پر معمولی لباس ہوتا تھا اور اس پر بھی کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔

ہندوستان آمد:
صاحب خزینۃ الاصفیا تحریر فرماتے ہیں کہ جب حضرت خواجہ غریب نواز قدس اللہ سرہ اپنے پیر روشن ضمیر سے اجازت حاصل کر کے رخصت ہوئے ،اطراف عالم میں سفر فرماتے ہوئے دردمندوں کی چارہ سازی ، تشنگان علوم ومعارف کی سیرابی فرماتے رہے۔ جہاں آپ کی شہرت ہوجاتی وہاں سے چھپ کر چلے جاتے ۔
جب حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ہندوستان آمد ہوئی؛آپ کی استقامت کا امتحان شروع ہوگیا،چناں چہ پِرتھوی راج نے اپنے علاقہ میں اسلام کی روشنی دیکھی توتاب نہ لاسکااور اپنی ناپاک سازشوں سے شمع اسلام کو بجھانے کی نا پاک کوشش کرنے لگا،حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے وابستگان کو ہندوستان سے رخصت کرنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگا،مصائب ومشکلات میں الجھانے کی کوشش کی ، جہاں کہیں آپ تشریف فرماہوئے وہاں سے چلے جانے کے لئے زحمت دیجاتی ، ستم کی انتہاء یہ تھی کہ حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جاں نثاروں کے لئے پانی پر پابندی لگادی گئی، اجمیر کے تالاب اناساگر پر سپاہیوں کا پہرا لگادیا گیا گویا حکمران وقت آپ کے ساتھ انسانیت سوز حرکتیں کرنے کے درپے ہوگیا؛بلکہ اس سے بھی بد ترسلوک کرنے لگا ، ان سب کے باوجود بھی آپ کی ثابت قدمی میں حبہ برابر فرق نہ آیا، آپ اشاعت دین متین کے لئے مکمل کمربستہ رہے اور کبھی اپنے پائے استقلال کو ڈگمگانے نہ دیا۔

قوت کرادار :

حضرت اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیمات اسلامیہ کی ترویج واشاعت نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دی ، آپ کے صدق وصفا ،خلوص ووفاکو دیکھ کر لوگ صداقت شعار وراست باز ہوئے، آپ کے حلم وبردباری، جود وسخاوت اور دیگر اخلاق عالیہ سے متاثرہوکر لوگ عمدہ اخلاق کے حامل اور پاکیزہ صفات کے پیکر ہوئے، محض دہلی سے اجمیر تک سفر کے دوران کئی لاکھ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضرت خواجہ صاحب کے ارشادات عالیہ:

1. گناہ تمہں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و خوار کرنا۔
2. نیکوں کی صحبت نیک کام کرنے سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی کرنے سے بدتر ہے۔
3. یقین ایک نور ہے جس سے انسان منور ہو جاتا ہے اسکے بعد محبوبوں اور متقیوں میں شامل ہوجاتاہے۔
4. جوچاہتاہے کہ محشر کی ہولناکیوں سے محفوظ رہے،وہ بھوکوں کو کھلائے،ننگوں کو پہنائے اورمصیبت زدوں کی فریاد رسی کرے۔
5. شقی وہ ہے جو نافرمانی کرے اور سمجھے کہ میں مقبول بندہ ہوں۔
6. کوئی شخص صرف اورادووظائف سے قرب الٰہی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ نماز نہ پڑھے۔
7. جو شخص فرائض الٰہیہ کو ادا نہیں کرتا وہ حرام روزی کھاتاہے۔

وصال :
رشد و ہدایت کا یہ آفتاب ،انقلاب دعوت کا یہ ماہتاب ۹۷ سال کی عمر میں 6رجب 633 کو افق عالم سےہمیشہ کےلئےغروب ہوگیا۔
اس مختصر سے عرصے میں آپ کے عمدہ اخلاق ،روشن کرداراور دل نشیں دعوت کے نتیجے میں لاتعداد لوگ اسلام میں داخل ہوئے،لاکھوں نے ایمان کی تجدید کی ،ہزاروں نے بادہ علم و عرفاں پیا۔
آپ کے بعدآپ کےخلفاء اور خلفاء کے خلفاء بھی تبلیغ دین اور خدمت خلق کے کام میں مصروف رہے، ان میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ حمید الدین ناگوری، شیخ وجیہہ الدین ، سلطان مسعود غازی اور شیخ وحیدالدین خراسانی کے نام سرفہرست ہیں؛ جنھیں آپ نے الگ الگ علاقوں میں تبلیغ اسلام کے کام میں لگایا تھا،خواجہ صاحب کے تربیت یافتہ ان بزرگوں اور ان کے بعد ان کے خلفاء اور جانشینوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کے گوشے گوشے میں اسلام کی روشنی عام ہونے لگی اور ہر طرف اذان وقرآن کی آوازیں سنائی دینے لگیں،اس طرح آج ہندوستان میں جو اسلام وتوحیدکی روشنی نظر آتی ہے یہ کہیں نہ کہیں اسی چراغ کا نور ہے جسے خواجہ صاحب نے روشن کیا تھا۔
ایک اہم پیغام:
دورِ حاضر میں بالخصوص ہندوستان کےجاں بہ لب حالات اور فرقہ وارانہ ماحول میں حضرت خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ کی زندگی کےاس ناقابلِ فراموش اخلاقی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئےکہ اخلاقی قدروں کووسعت دی جائے،کردار کا ہتھیار استعمال کیاجائے،ہندوستانی مسلمانوں خصوصاً علمائے کرام کی ذمہ داری ہے اور دور حاضر اس کا متقاضی ہے کہ عالمی امن کی بقا، عدل ومساوات کا فروغ، مذہب وعقیدہ کی آزادی، رواداری ویکجہتی، باہمی امداد و تعاون، انسانی جذبات و احساسات کا احترام، انسانی ضمیر کی تربیت اور آزادی فکر وخیال کے حوالہ سے اسلام کے اقدار حیات کو اجاگر کریں۔

نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

تبصرے بند ہیں۔