ہم جنس پرستی کے مضرات سے عوام کو واقف کروانا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

  ہم جنس پرستی (یعنی مرد سے مرد اور عورت سے عورت کے رشتہ )کو عدالت عظمی نے جرم کے زمرے سے باہر نکال دیا ہے جس طرح 2009ء میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ہم جنس پرستی جیسے ننگین اور شرمناک فعل (جو اسلام میں سخت حرام ہے ) کو قانونی قرار دے دیا تھا جو نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب و تمدن کے بالکل مغائر ہے۔ یہ فیصلہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرنے اور ان کے نظریات کو فروغ دینے کے مترادف ہے جہاں آزادی، حریت اور جدیدیت کے نام پر غیر انسانی اعمال کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے بلکہ ان کی زندگی کو آسان بنانے کے نام پر قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ لیکن نتیجہ دنیا کے سامنے ہے کہ وہاں رشتے ٹوٹ رہے ہیں، والدین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اولاد بے راہ روی کا شکار ہے، گھر برباد ہو رہے ہیں اور انسانی اقدار پامال ہورہی ہیں۔ ہم جنس پرستی میں اگر کوئی قباحت نہ ہوتی تو رب کائنات انسان کو دو مختلف جنسوں میں تقسیم نہ فرماتا۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ : ’’یا ملا جلا کر دیتا انہیں بیٹے اور بیٹیاں ‘‘(سورۃ الشوری آیت 50) اس آیت پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے مذکر و مونث ہونے میں بے شمار فوائد مضمر ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں رب کے احکامات کی پیروی کرنی پڑے گی نہ کہ نفسانی خواہشات کی جیسے کہ آج ہم جنس پرستی کو جائز سمجھا جارہا ہے جو سراسر انسانی شرافت اور عقل و فہم کے عین خلاف ہے۔ اسی مضمون کو سورۃ النساء میں مزید واضح طور پر بیان کیا گیا ترجمہ :’’اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور پیدا فرمایا اسی سے جوڑا اس کا اور پھیلا دیے ان دونوں سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں (کثیر تعداد میں ) ‘‘ (سورۃ النسآء آیت 1)

اس آیت پاک میں اس بات کی صراحت میں ملتی ہے کہ معاشرتی زندگی کی مسرتوں کا انحصار انسان کی باہمی محبتوں پر ہے جس کے لیے رب کائنات نے انسان کو دو جنسوں یعنی مرد و زن میں منقسم فرمایا۔ معاشرتی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس رب کے احکامات و ہدایات پر عمل پیرا ہوں جس نے ہمیں مذکر و مونث میں تقسیم فرمایا ہے۔ ہم اس بات سے بھی اچھی طرح سے واقف ہیں کہ رب قدیر کے ہر کام میں ہزاروں مصلحتیں اور حکمتیں پنہاں یوتی ہیں یہی حکمتیں افراد بشری کی تخلیق میں بھی کارفرما ہے جس کو ملحوظ رکھنا معاشرے کی سا  لمیت کے لیے از حد ضروری ہے ورنہ معاشرہ کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ جب انسان جنسِ موافق سے تعلقات بڑھانے لگے گا تو توالد و تناسل کا عمل منقطع ہوجائے گا جو ساری انسانیت کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے اسی لیے بھی ہمیں ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اللہ رب العزت نے جنس پرستی جیسی رذیل حرکت اور غلیظ فعل کی شکار قوم لوط پر اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ترجمہ : ’’بے شک تم جاتے ہو مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم لوگ تو حد سے گزرنے والے ہو‘‘ (سورۃ الاعراف آیت 81)۔ اس آیت پاک میں رب کائنات نے ہم جنس پرست کو مسرف کہا ہے جو معاشرے کے لیے بدحالی اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔

قرآن مجید میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو واضح کیا جاچکا ہے کہ رب قدیر اسراف پسند لوگوں کو پسند نہیں فرماتا۔ واضح باد کہ کسی برائی کے عام ہونے یا اس کو قانونی جواز دے دیے جانے سے اس کی قباحت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی معاشرہ ان برائیوں کی نفسیاتی، اخلاقی اور اجتماعی مفاسد سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے قوی امکان ہے کہ ہندوستان میں بھی خاندانی و عائلی نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو ہمیں اس نظریہ سے بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ درحقیقت امت مسلمہ کی ناکامی ہے چونکہ بحیثیت خیر امت یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کے مجموعہ یعنی ہم جنس پرستی کے معائب و نقصانات اور عواقب و مضرات سے عوام الناس کو واقف کرواتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ہم جنس پرستی نہ صرف خدائی نظام اور اصولوں کے خلاف ہے بلکہ فطرت سے بھی کھلی بغاوت ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہے چونکہ ہم نے اپنی تمام تر توجہات فروعی اختلافات پر مرکوز رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ آج اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں جس کے باعث اس طرح کے غیر انسانی و غیر فطری رشتوں یعنی ہم جنس پرستی کو فروغ مل رہا ہے جس کا تصور جانوروں میں بھی نہیں پایا جاتاجو عقل و ہوش سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس کی طرف میلان دین اسلام میں بہت بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ اسلامی تعلیمات کی عملی طور پر حفاظت کرنا تو درکنار مساجد کی تقدیس کو برقرار رکھنے میں بھی امت مسلمہ بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران بھی کوئی واٹس دیکھنے اور پیغامات ارسال کرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے تو کے موبائل سے دوران نمازکسی فلمی نغموں کی آواز بلند ہوجاتی ہے۔ کیا یہ ہمارے ضعف ایمانی کی علامت نہیں ہے؟

مسلم معاشرے میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے میں ان نام نہاد مولویوں اور جعل ساز صوفیوں کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے مخصوص عنوانات پر تقاریر کرنے کو اسلام سمجھ لیا ہے۔ لہٰذا ہم سب کو متحدہ طور پر پہلے ان اسلامی لبادہ اوڑھ کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہوگا تاکہ مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے رواج کو فروغ دیا جاسکے اور ہم جنس پرستی جیسے غیر فطری اور غیر قدرتی فعل کے بڑھتے رجحان کا سد باب کیا جاسکے۔ اگر ہم اب بھی خواب غفلت سے نہیں جاگیں گے تو عین ممکن ہے کہ ہم جنس پرستی کی وبا مسلم معاشرے میں بھی پھیل جائے گی۔ (العیاذ باللہ) اس میں دو رائے نہیں کہ ہم جنس پرستی کے شکار افراد تمام تر انسانی ہمدردی اور حقوق کے حقدار ہیں بلکہ ایسے افراد ہمارے حسن اخلاق اور تبلیغ کے زیادہ حقدار ہیں لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ ہم، ہم جنس پسندی کو ہی قبول کرلیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ ہم جنس پرستی میں دونوں کی باہمی رضامندی شامل ہے اس لیے اسے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا بالفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ باہمی رضامندی کے سبب ہم جنس پرستی، جنسی زیادتی نہیں ہے یا انسان کا باہمی رضامندی سے کیا جانے والا کوئی عمل گناہ و جرم نہیں ہے تو پھر رشوت، منشیات (ڈرگس )کی تجارت، قحبہ گری کے اڈے اور ناجائز رشتے جیسے سنگین جرائم کو بھی دائرۂ گناہ سے باہر نکال دینا چاہیے چونکہ ان میں بھی فریقین کی باہمی رضامندی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عاقل و بالغ فریقین باہمی رضامندی کے ساتھ کھلے عام عوامی مقامات پر زنا کرنا چاہیں تو انہیں بھی اجازت دے دینی چاہیے۔ باہمی رضامندی کے باوجود چونکہ ان جرائم کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اس لیے ان قبیح افعال کو جرائم کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔

چونکہ ہم جنس پرستی کے بھی منفی اثرات معاشرے پر بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں اسی لیے دین اسلام نے اس کو سنگین جرم قرار دیا اور اپنے ماننے والوں کو اس سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔ یقینا بنیادی حقوق اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن اگر کسی کے بنیادی حقوق سے انسانیت متاثر ہوگی تو اس انسانی حق کو کوئی بھی سلیم الفطرت انسان قبول نہیں کرے گا۔ جیسے اگر کوئی دو اشخاص باہمی رضامندی سے بالکل برہنہ گھومنا چاہیں تو کیا کوئی بھی مہذب انسان اس کو پسند کرے گا ؟اسی طرح ہم جنس پرستی کا معاملہ بھی ہے۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس بدترین فعل کا ارتکاب سب سے پہلے قوم لوط نے کیا تھا جس کی زندگی کا بیشتر حصہ ہوا پرستی اور شہوت رانی میں گزرا تھا۔سورۃ ہائے ھود، حجر، شعراء، انبیاء، نمل اور عنکبوت میں قوم لوط کے اس قبیح فعل میں مبتلا ہونے اور ان کے وحشتناک عذاب میں گرفتار ہونے کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ہم جنسی پرستی اس لیے بھی خلاف عقل اور انسانیت کے لیے مضرت رساں ہے چونکہ اس سے شرم و حیا اور پاکدامنی کا خاتمہ ہوجاتا ہے، جنسی ملاپ کی اصل غرض و غایت ہی فوت ہوجاتی ہے، انسانی وجود کے ڈھانچے کے لیے خطرہ ثابت ہوتی ہے، انسانی جسم میں امراض پیدا ہونے کا قوی امکان پیدا ہوجاتا ہے،انسانی فطرت میں جنسی ضعف، سردمزاجی اور زنانہ احساسات کے فروغ ہوتا ہے، قوتِ ارادی سے انسان محروم ہوجاتا ہے اور نسل انسانی کا انقطاع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے رحمت عالم ﷺ نے امت کو حکم فرمایا ’’جب بچے دس سال کے ہوجائیں تو ان کے بستروں کو علاحدہ کردو‘‘ (مسند احمد، سنن دار قطنی) اگر ہم آقائے نامدار رسول عربیﷺ کے اس پیغام کو عام کریں تو ہم جنس پرستی کی جڑیں کاٹنے میں آسانی ہوگی اور یہ وبا پھوٹنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی۔

ستم پیشہ قوم لوط پر اسی عمل شنیع کے ارتکاب کی پاداش میں عذاب کے لیے تیار کیے گئے معین و مخصوص پتھروں کی مسلسل بارش ہوئی تھی جس کے باعث وہ تہس نہس ہوکر رہ گئے اور ان کے شہر زیر و زبر ہوگئے تھے۔ جنسی انحراف کو اپنا حق سمجھنے والی بے شرم اور حیوان صفت قوم لوط کی شرمناک زندگی اور اس کا دردناک انجام ہم سب کے لیے نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ باعث عبرت بھی ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔