ہندوستانی تہذیب پر مسلمانوں کے اثرات (قسط 2)

آصف علی

اسلام ایک ایساعالم گیراورکامل واکمل ضابطہ حیات ہےجوزندگی کے ہرشعبےمیں ہمہ گیراثرات مرتب کرتاہے، اس نورھدایت کی کرنوں نےپوری دنیاکوروشن و منورکردیا، مشرق ومغرب اوردنیاکےہر معاشرےکےتہذیب وتمدن پراسلام کےاثرات انتہائی نمایاں ہیں اوربخوبی ملاحظہ کیےجاسکتےہیں۔ دیگرمذہب اوراقوام عالم کےلوگ اسلام کےشدیددشمن ہونےکےباوجوداس بات کااعتراف کرنےپرمجبورہیں کہ تمام عالم کی تہذیب وتمدن پراسلام اورمسلمانوں کی گہری چھاپ نظرآتی ہے، چنانچہ اسلام اوراسلامی تہذیب وتمدن کےاثرات کےمتعلق گستاولیبان لکھتےہیں کہ:

اسلام کےاثرات ان ملکوں کی تہذیب میں زیادہ ہیں جن کومسلمانوں نےفتح کیا,جہاں اسلام کاجھنڈالہرایاوہاں علم وفن، ادب، صنعت وزراعت بام عروج پرپہنچ گئے، ہندوستانی تہذیب وتمدن پراسلام کےاثرات جاننےکےلیےیہ جانناازحدضروری ہےکہ آمداسلام سےقبل اس کےخدوخال کیاتھے؟

ابوریحان البیرونی المتوفی 440ھجری نےپندرہ سال کاعرصہ ہندوستان میں گذارا، انہوں نےہندوستانیوں کےمذہبی عقائد,پوجاپاٹ اورطرزبودوباش کواپنی آنکھوں سےدیکھا۔ سنسکرت زبان سیکھی اوراس زبان کی اہم کتابوں کاخودمطالعہ کیااوراس طویل عرصہ کےدوران انہیں ہندوستان کےمتعلق جومصدقہ معلومات ملیں ان کوکتابی شکل میں مدون کیاجس کانام تحقیق ماللھند رکھا۔
البیرونی اپنی اس کتاب میں لکھتےہیں کہ:

اہلیان ہنداپنےعلاوہ سب کوملیچھ(ناپاک)سمجھتےہیں، کسی غیرکےساتھ مباحثہ، مناظرہ، تبادلہ خیال ان کےنزدیک ناجائزہے، باہمی نشست وبرخاست، اورخوردونوش تک کوحرام قراردےدیاگیاہے,حتی کہ کوئی اجنبی بھی ان کامذہب قبول کرناچاہے تواسےاپنے مذہب میں شامل نہیں کرتے۔

مذہبی حوالےسےان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی ،بت پرستی کارواج عام تھاان کےدیوی دیوتاؤں کی فہرست طویل تھی جوہرلحظہ ان کی پسندکےمطابق بڑھتی رہتی تھی۔ مظاہرفطرت اورہروہ چیزجوان کی عقل سےماوراہوتی یاان کوپسندآجاتی,اس کی پوجاشروع کردی جاتی۔

مولاناسالک اپنی کتاب ’مسلم ثقافت‘ میں لکھتےہیں کہ:

’’ہندوستان میں ایک ایسامذہب پیداہوگیاتھاجس میں شراب تک کی پوجاکی جاتی تھی اورایک برہنہ مردکےہاتھ میں تلواردے کراسے مہادیواورایک برہنہ عورت کودیوی قراردےکران کی پوجاکی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ ان کی عبادت گاہوں میں آج بھی برہنہ مردوزن کےمجسمےنظرآتےہیں، جادوکارواج عام تھا,شگون کی تاثیرات بتانےوالوں کی گرم بازاری تھی,محرمات ابدی کےساتھ تزوج کوبرانہیں سمجھاجاتاتھا۔ چنانچہ راجہ داہرنےانہی پنڈتوں کی ایماپراپنی سگی بہن سےشادی کررکھی تھی,اس کےعلاوہ سب سےبڑی قباحت یہ تھی کہ یہ لوگ ذات پات کی تقسیم میں بری طرح جکڑےہوئےتھےاوراس قدرانتہاپسندتھےکہ ان کی اچھوت ذات جسےیہ ’’شودر‘‘ کہتےہیں ان کےمتعلق ان کی کتاب ’’منوشاستر‘‘ میں لکھاہےکہ:

اگرشودرکسی برہمن کوگالی دےتواس کی زبان تلوےسےکھینچ لی جائےاوراگریہ دعوی کرےکہ وہ کسی برہمن کوتعلیم دےسکتاہےتواس کوکھولتاہوا پانی پلایاجائے,ذات پات کےنظام کےباعث عورت کامقام اس قدرگرگیاتھاکہ اگرکسی عورت کاخاوندمرجاتاتواسےدوسری شادی کی اجازت نہ تھی بلکہ شوہرکی چتاکےساتھ جل مرنےپرمجبورکیاجاتااس نظام کی وجہ سےمعاشرےمیں عجیب وغریب قسم کےنشیب وفرازنمودارہوگئےتھے۔ ان کی مذہبی کتاب ’’وید‘‘ صرف برہمن ہی پڑھ سکتےتھے، کشتری کوصرف ویدسننےکی اجازت تھی۔ اورشودرتوبےچارےتوسننےتک کی اجازت سےمحروم تھے۔ اگرکوئی شودرویدسن لیتاتھاتواسےبھیانک سزاسےدوچارکیاجاتاتھا۔

ان کاپیشہ زراعت تھا,وہ کھیتی باڑی کرتےاوراپنی ضروریات کےمطابق اجناس خوردنی کی کاشت کرتےجواناج پیداہوتااس میں صرف ضرورت کےمطابق حکومت وقت کوبطورخراج اداکرتےاوربقیہ سےاپنی ضروریات پوری کرتے۔ اس وقت عالی شان محلات اوربڑےبڑے شہروں کوآبادکرنےکاعام رواج نہ تھااس لیےیہ لوگ کچےمکان یاسرکنڈےکی جھونپڑیاں بناکرگاؤں میں اپنی زندگیاں بسرکرتےتھے۔  لباس کےطورپردھوتی کااستعمال کرتے,سوامی وویکانندکےمطابق، ان میں قماربازی اورسودخوری عام تھی۔

شہنشاہ بابر جب ہندوستان آیاتب اس نےہندوستان کوجس حالت میں دیکھااس کی منظرکشی تزک بابری میں یوں کرتاہے:

ہندوستان میں اچھےگھوڑےنہیں، اچھاگوشت نہیں، انگورنہیں، خریزہ(خربوزہ)نہیں، برف نہیں، آب سردنہیں، حمام نہیں، مدرسہ نہیں، شمع نہیں(ایسی روشنی جوہرجگہ,ہرموقع پرکام آسکے)مشعل نہیں، شمع دان نہیں، باغوں اورعمارتوں میں آب رواں نہیں، عمارتوں میں نہ صفائی ہےنہ موزونی، نہ ہوانہ تناسب، عام آدمی ننگےپاؤں لنگوٹی لگائےپھرتےہیں، عورتیں لنگی باندھتی ہیں جس کاآدھاحصہ کمرسےلپیٹ لیتی ہیں اورآدھاسرپرڈال لیتی ہیں۔

زندگی کےہرشعبےمیں ہندوستان کےحالات ناگفتہ بہ تھے، جب مسلمانوں نےیہاں قدم رنجہ فرمایاتواس کوسونےکی چڑیابنادیا۔
ہندوستان میں جب اسلامی حکومت مستحکم ہوئی تودنیاکی دیگرغالب اقوام کی طرح انہوں نےاسےمحض تجارتی منڈی یاحصول دولت ہی کاذریعہ نہ سمجھابلکہ اس کواپناوطن بنالیااورمرنےکےبعدیہیں پیوندخاک ہوئے، انہوں نےعلم وفن، حکومت وسیاست، صنعت وحرفت، زراعت وتجارت، تہذیب ومعاشرت الغرض ہرطرح سےاورہرحیثیت سےاسےترقی دےکرصحیح معنوں میں جنت نشاں بنایا۔ شہنشاہان اسلام نےیہاں تعلیمی ادارےقائم کیے۔ کتب خانےاورلائبریریاں تعمیرکیں۔ تعلیم کوعام کیا، فن خطاطی کوفروغ دیا، رفاہ عامہ کامکمل نظم ونسق کیا، ڈاک کےنظام کوجاری کیا، روزمرہ کی ضروریات کی مختلف الانواع اشیاتیارکرنےکے لیے کار خانے اورصنعتیں قائم کیں، سردیوں کےکپڑوں کےکارخانےبنائے، فن تعمیرکوفروغ دیا، عظیم الشان اور بلندوبالاعمارات تعمیرکیں، ہسپتال بنائے، اوران میں طبیب وجراح مقررکیے، مریضوں کےلیےادویات کی فراہمی کویقینی بنایا، مسافروں کےقیام کےلیےسرائے(ہوٹل)تعمیرکیے۔ تجارت وزراعت کاصحیح زاویہ سکھایا، بازاربنائےاورراستوں کےاطراف میں کثرت سے درخت لگوائے، دیگرترقی یافتہ اورمتمدن ممالک سےروابط کوفروغ دیااورصنعت وحرفت کوبام عروج پرپہنچادیا۔

چنانچہ ہندومذہب پراسلام کےاثرات کاتذکرہ کرتےہوئےمشہورمؤرخ ڈاکٹرکےایم پانیکرلکھتےہیں کہ:

یہ بات توواضح ہےکہ اس عہد میں ہندومذہب پراسلام کاگہرااثرپڑا، ہندوؤں میں خداپرستی کاتصور، اسلام ہی کی بدولت پیداہوا اوراس زمانےکےتمام ہندوپیشواؤں نےاپنےدیوتاؤں کانام چاہےکچھ بھی رکھاہوخداپرستی کی ہی تعلیم دی، یعنی خداایک ہے، وہی عبادت کےلائق ہےاوراسی کےذریعہ ہم کونجات مل سکتی ہے۔ (سروےآف انڈین ہسٹری)

پنڈت جواہرلال نہرواپنی کتاب٫٫تلاش ہند، ، میں ہندستان کی ثقافت اورتہذیب وتمدن پراسلام کےگہرےاثرا ت کااعتراف کرتےہوئےلکھتےہیں کہ:

ہندوستان میں اسلام اپنےساتھ نئی طرزفکراورنئےخیالات لےکرآیاجس نےیہاں کےعقائداوراجتماعی ہیئیت کوبہت متاثرکیا، یہاں کے باشندوں میں وسعت نظری پیداکرکےانہیں اپنےذہنی حصارسےباہرنکالااورہندوستان میں خصوصیت کےساتھ ان نفاست کورائج کیاجواسلامی تہذیب کاحصہ تھی۔  اسی تسلسل میں جنگ آزادی کےرہنماڈاکٹرپٹابی ستیہ رمیہ کہتےہیں کہ:

مسلمانوں نےہمارےکلچرکومالامال کیاہے، اورہمارےنظم ونسق کومضبوط کیا، ملک کےدوردرازعلاقوں کےباہمی روابط کوبحال کیااوران کوایک دوسرےکےقریب لائے، اس ملک کےادب اوراجتماعیت میں ان کی چھاپ بہت گہری نظرآتی ہے۔ (بحوالہ۔ ہندوستانی مسلمان۔)

الغرض مسلمانوں نےاس ملک کوجوفائدہ پہنچایااس سےکوئی انکارنہیں کرسکتا، مسلمانوں کی آمدسےہی اس ملک کی تاریخ میں تعمیروترقی کاوہ روشن باب شروع ہواجسےہندوستان تاقیامت فراموش نہیں سکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔