یومِ وفات اقبال

عبد الرشید ظلحہ

ابتدائی زندگی اور تعلیمی سرگرمیاں:

علامہ محمد اقبال1877میں صوبہ پنجاب کے شہرسیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ان کی پیدائش 1857  ‘‘ تحریک آزادی ’’ سے کچھ ہی عرصہ بعد ہوئی اورانہوں نے ایسے دور میں پرورش پائی جب بر طانوی استعماریت کے طلوع سے قبل مسلم اقتدار تنزل پزیر تھا۔

 اقبال زندگی بھر اپنے وطن میں اسلام کی مذہبی معاشرتی اور سیاسی اطلاقیات کے ساتھ نبرد آزما رہےاور آج بھی ان کی فکروفلسفےپر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور کئی ایک معرض تحریر میں ہیں۔

اپنے دور میں ان کی بھر پور ادبی اور فلسفیانہ  ذہنیت وصلاحیت عدیم المثال تھی؛جنہوں نے اسلام کو سمجھنے اور دنیا میں اس کا جائز مقام واپس دلانے کی خاطر ایک انتہائی سنجیدہ اور کامیاب کوشش کی۔

 اقبال نے مذہبی علوم عربی فارسی اور انگلش میں اپنی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی ۔لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897تک سرایڈون آرنلڈ کے ساتھ تحصیل علم کرتے ہوئے ہی اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا ۔1899میں یہاں سے ایم۔اے فلسفہ کیا اور عربی منظوم شاعری پڑھا نا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا ۔

 یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاءکرنے کے لئے اقبال نے 1905 میں ہندوستان چھوڑا ؛لیکن یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ کر لیا ۔ٹرینٹی کالج میں ہیگل اور کانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ یورپی فلسفہ کے بنیادی رحجانات سے واقف ہو گئے ۔فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907 میں ہائیڈ لبرگ اور میونح پہنچایا جہاں نٹشے نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔

اقبال نے وہیں ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ 1908 میں وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے ۔ واپسی کے بعد جلد ہی وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے ۔

اقبال اور شاعری :

اقبال کا ابتدائی کلام حسن و عشق کی شوخیوں سے معمور ہے ؛لیکن اگر بنظر تعمق دیکھا جائے تو اس میں بھی اس غیر فانی پیغام کے نقوش تلاش کئے جا سکتے ہیں جو آگے چل کر عالم انسانیت کو اخوت و مساوات، حریت و سرفروشی اور خودی و خود شناسی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ یہ اقبال ہی کی اقبال مندی ہے کہ انہیں اپنے حین حیات وہ عزت اور عالمگیر شہرت نصیب ہوئی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے؛ مگر افسوس کہ آج نہ وہ اقبال ہمارے درمیان موجود ہے اور نہ وہ صاحبان بصیرت جنہوں نے اقبال کی پیشانی پر ملت کے شاندار مستقبل کی جھلک دیکھی تھی اور انہیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

 شبلی نعمانی جیسے نابغہ روزگار نے 1911ء میں انہیں ’’ ملک الشعرا‘‘ کا خطاب دیا تھا جب کہ اقبال کی عمر صرف34برس تھی۔

 اسی زمانے میں آزاد بلگرامی نے ’’ حسان الہند‘‘ اور اس کے ایک سال بعد سید سلیمان نے انہیں ’’ فرزدق ہند‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا۔ غالباً یہی زمانہ تھا جب لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی نے ایک موقع پر کہا تھا:

حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں

قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں

بلند پایہ ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے اقبال کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کیا اور انہیں اس دور کا سب سے بڑا شاعر کہا۔ ایک بار فیض سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں علامہ اقبالؒ کا شاعری میں کیا مرتبہ ہے؟ بولے: جہاں تک شاعری میں ، زبان پر عبور اور غنائیت کا تعلق ہے ہم تو انکی خاک پا بھی نہیں، علامہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ فیض ہی نے تو کہا ہے:

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر

آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا

سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں

ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا

تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں

پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

فیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا، فکر اور شعر دونوں میں ہمہ گیر اور آفاقی۔

فیض کراچی جاتے تو ہمیشہ مجید ملک کے ہاں ٹھہرتے ایک بار مجید ملک پوچھنے لگے: فیض، اب تمہاری عمر کیا ہے؟ فیض نے بتایا کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہیں۔ مجید ملک بولے: آپ کو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کیا کچھ کر لیا تھا۔ اسکے بعد مجید ملک نے اقبال کی جملہ تصنیفات نظم و نثر کے نام گنوا دیے اور تان اس پر توڑی کہ فیض کی اب تک فقط دو ہی کتابیں شائع ہوئی ہیں: ’’نقش فریادی‘‘ اور ’’دست صبا‘‘۔ فیض نے بڑے ادب اور انکسار کے لہجے میں جواب دیا: مجید بھائی، اب آپ میرا موازنہ اقبال سے تو نہ کیجئے۔ ان کا تخلیقی جوہر تو ایک شعلہ جوالہ تھا اور میرا ایک ننھی سی شمع کی لو۔

سچے عاشقِ رسول:

علامہ اقبال کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی تھی، اس وجہ سےعلامہ اقبال سچے عاشقِ رسول تھے۔ آپ کی نعتیہ شاعری حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلّم سے والہانہ عقیدت، جذباتی لگاؤ، قلبی شیفتگی اور ذوق وشوق سے مزّین نظر آتی ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ان میں عقیدت کے ساتھ ساتھ سوزو گداز، درد اورتاثیر بھی نمایاں ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی زندگی ایسے بے شمار واقعات سے بھی بھری پڑی ہے جن میں عشقِ رسالت بلندی پر نظر آتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے حوالے سے علامہ کی زندگی میں اس قدر سوز وگداز وسرشاری تھی کہ جب بھی سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ذکر ہوتا آپ بے تاب ہوجاتے تھے اور بسااوقات دیر تک روتے رہتے تھے۔ سیرت ِ پاک کے کسی عنوان پر گفتگو فرماتے تو ایسی عام فہم ، سیر حاصل اور شگفتہ گفتگو کرتے کہ سننے والا ہر موافق اور مخالف حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلّم کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اگر کوئی علامہ کے سامنے کوئی مسلمان حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان عالی اقدس میں کوئی گستاخانہ یا بے باکانہ لفظ بھی استعمال کرتا تو نہایت برہم ہوجایاکرتے تھے۔ آپ کے نزدیک عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم سِرّ دین بھی ہے اور وسیلہ دین بھی۔

عشق کو بوالہوسی کی غلاظت سے نکال کر اسے __

عشق دمِ جبریل، عشق دلِ مصطفیٰ ؐ۔۔۔عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام__ عشق فقیہِِ حرم، عشق امیرِجنود۔۔۔

عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام __

صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق، صبرِ حسین ؓ بھی ہے عشق۔۔۔

معرکۂ ِ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق __

جیسی تقدیس بخشی۔

اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمان کی سرشت ایک موتی کی طرح ہے جس کو آب و تاب بحرِ رسولؐ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسوہ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مومن تو باغِ مصطفویٰؐ کی ایک کلی ہے۔ بہار مصطفویٰؐ کی ہواؤں سے کھل کر پھول بن جاؤ۔اقبال کے نزدیک خالق کائنات نے جب اس دنیا میں اپنی کاریگری کا آغاز کیا اور حضرت انسان کی شکل میں اپنے چھپے ہوئے خزانے کو عیاں کیا پھر جب ارتقاء کے منازل طے ہوتے گئے اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے تو رب العالمین نے محمدؐ کو معبوث فرمایا۔ جو سب کے لئے رحمت ، ہادی ، راہ نما ، اور مہربان تھے۔کلام اقبال میں عشق رسولؐ کے اظہار میں جو شیفتگی و وارفتگی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔

یہ عشق نبوی کا ہی فیض تھا کہ یورپ میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود اقبال ،دین محمدی سے منحرف نہ ہوئے اور نہ ان کے مشرقی اقداروافکار میں ذرہ برابر تبدیلی واقع ہوئی ؛ اس لئے جب وہ وہاں سے لوٹے تو اسی طرح عشق رسول سے سرشار تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے:   ؎

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف

اردو زبان میں بھی اقبال کے کئی ایک اشعار وہ ہیں جنہیں رسول اکرم ا کی مدح سرائی اورثناء خوانی کا شرف حاصل ہے مثلاً : ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

قوت عشق سے ہرپست کو بالاکردے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

ہونہ ہو یہ پھول توبلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہوتوپھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہوتم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

وہ دانائے سبل ختم الرسل ،مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادئی سینا

نگاہ ِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰس وہی طہٰ

خلاصہ یہ کہ عشق رسول اقبال کی رگ رگ میں سرایت تھا، جہاں بھی ہوتے مدح رسول ﷺسے خود کو قوت وتوانائی بخشتے۔

وفات:

علامہ اقبال اپنے وصال سے پہلے قریباً چار برس بیمار رہے اور آخری تین ماہ تو انہوں نے بستر پر ہی گزارے۔ البتہ اس دوران وہ کبھی موت سے خوف زدہ نظر نہیں آئے۔ 20اپریل 1938ء کو آپ کی حالت مزیدخراب ہونا شروع ہوئی ، ڈاکٹروں نے صبح نئے علاج کا کہا، رات کو اچانک آپ کے شانوں میں شدید درد اٹھا، نیند اڑگئی ، فجر کی اذانیں ہوئی ، تودوست احباب سمجھے رات کٹ گئی ، نماز کو چل دیے، پیچھے ایک خدمت گزار علی بخش رہ گیا تھا، اچانک اقبال کے دل میں شدید درد اٹھا، علی بخش نے سہارا دیا، آپ نے اﷲ کہا اور روح پرواز کرگئی۔

 بہرحال 21اپریل1938کو وہ عظیم شاعر ، فلسفی ، مفکر اور عاشقِ رسول اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ اس روز پوراعالم اسلام سوگوار تھا۔ لاہور میں تمام کاروبار، تعلیمی ادارے اور دفاتر بند رہے۔ شام پانچ بجے جاوید منزل سے اس مردِ قلندر کاجنازہ اٹھا تو جلوسِ جنازہ میں سوگواروں کا ایک سمندر تھاجن میں مسلمان ہی نہیں ہندو ، سکھ اور عیسائی اور ہرطبقے اورمرتبے کے لوگ شامل تھے۔ جلوسِ جنازہ میو روڈ سے برانڈرتھ روڈ، سرکلر روڈ، دہلی دروازہ بازار، کشمیری بازار ، ڈبی بازار سے ہوتا ہْوا بعد مغرب بادشاہی مسجد میں پہنچا اور وہیں مسجدکے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی انہیں سپردِ خاک کردیاگیا۔

اپنی وفات سے چند ماہ پہلے علامہ اقبال نے اپنے بارے میں یہ لاجواب رباعی کہی کہ جسے پڑھ کر ان کی عظمت کا شدید احساس دل و دماغ پر چھا جاتا ہے۔ بے شک، وہ ایک ایسی عظیم ہستی تھی کہ صدیوں کے انتظارکے بعد جس کی آمد سے زمانے کی آرزو پوری ہوتی ہے۔    ؎

سرود رفتہ باز آید کہ ناید

نسیمے از حجاز آید کہ ناید

سرآمد روزگار ایں فقیرے

دگر دانائے رازآید کہ ناید

(ترجمہ: سرود رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے، یہ فقیر دنیا سے جا رہاہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے)

ایک پیغام محبین اقبال کے نام :

ملت اسلامیہ کی تنزلی کا درد،اس کی روز افزوں ابتری کا احساس ،عروج واقبال سے پستی وادبار کی ساری داستاں، اقبال کے رگ و ریشہ میں اس طرح سرایت کی ہوئی تھی کہ قوم مسلم کو ان کی بھولی ہوئی تاریخ یاددلانے ،ان کی رگوں کے منجمد خون کو حرکت دینے اور ان میں خودی اور خود داری کو پروان چڑھتا دیکھنے کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی اور ایسے روشن خطوط کے ذریعہ عالم اسلام کی رہنمائی کی کہ

تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے

کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں

اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلام کی عظمت کو اجاگر کیااور اپنے پیچھے علم وفن اور شعر وسخن کا ایسا وسیع سرمایہ چھوڑاکہ ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔