یہ کیسی آزادی ہے؟

جہاں تذلیل ہو انساں کی، جہاں نسلوں کی بربادی وہاں کس چیز کا دعویٰ، کہاں کا جشنِ آزادی؟

خان سمیع اللہ

چند دنوں پہلے آزاد بھارت کی نمائندہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کےپاس ہندؤوں کی ایک بھیڑ جمع  ہوتی ہے، ان کے دو مرکزی نعرے تھے:

ہندوستان میں رہنا ہوگا ۔ جےشری رام کہنا ہوگا

جب مُلّے کا ٹے جائیں گے۔ رام رام چلائیں گے

آزاد بھارت کی عدلیہ نے اس ریلی نکالنے والے سابق بھاجپا لیڈر کو محض ایک دن میں ضمانت دےدی۔اس ریلی کے بعد کانپور میں بجرنگ دل کے ہندوتوا دہشتگردوں کی بھیڑ نے ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور کی لنچنگ کرنے کی کوشش کی اور اس سے جےشری رام کہنے کا مطالبہ کیا، اس دہشتگردی کے مجرموں کو بھی محض ایک دن میں بھارتی عدلیہ نے ضمانت دے د ی۔ لیکن خالد سیفی، شرجیل امام اور عمر خالد جیسے قلم و کتاب کے سپاہی جیلوں میں بند ہیں انہیں ضمانت نہیں ملتی کیونکہ بھارت آزاد ہے۔ راجدھانی دہلی میں ایک پولیس والے نے ایک جنونی ہندوتوا بھیڑ کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکا۔ نتیجے میں اسے فوراﹰ برخاست کردیا گیا۔

” جے شری رام _ جے ہنومان ” اور ہندوتوا کے زہریلے نعروں کے درمیان خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت کے نشے میں چور مرکزي سرکار کے صوبائی کھلاڑی دیگر ریاستوں میں جمہوری طورپر منتخب سرکاريں گرا رہےہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر والے آئین ہند کا ” بھگوا کرن ” کیا جارہاہے، کانسٹی ٹیوشن کی جگہ منوسمرتی کو لانے کی کوششیں ہیں۔ عوامی حقوق پر مشتمل قوانین کو منسوخ کیا جارہاہے، ایک سے ایک ظالمانہ اور آمرانہ قوانین پارلیمنٹ سے پاس کیے جارہےہیں۔ وزیرداخلہ امت شاہ دھڑلے سے پارلیمنٹ میں جھوٹ بول رہےہیں۔ آئین ہند جل رہاہے، ہندوستان کی سب سے معزز کتاب جس کی توہین پر یہ سزا ہے کہ ایسے مجرموں کی ہندوستانی شہریت منسوخ کردی جائے گی، لیکن یہ کتاب جلائی گئی، منوسمرتی کے نفاذ کا الارم بجایا گیا، اور مسلمانوں کی شہریت پر سرکاری حملے ہورہےہیں ۔ غیر قانونی طریقے سے وادئ جنت نظیر کشمیر پر قانون سازی کردی گئی

کشمیر کو بھارتی جمہوریت میں ضم کرنے کا اعلان کردیاگیا  لیکن انہیں بھارت کا حصہ اسطرح بنایاگیا ہے کہ ان کوبنیادی انسانی سہولیات سے محروم کردیاگیاہے، راتوں رات ہزاروں کی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو محصور و محبوس کردیاگیا، چلنے پھرنے، انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور ٹرانسپورٹرز کے تمام ذرائع کشمیریوں سے چھین لیے گئے، انھیں عام بھارت کا حصہ اسطرح بنایاگیا کہ، ان لاکھوں کشمیریوں کو ان کے مذہبي تہوار ” عیدالاضحیٰ ” سے بھی روک دیاگیا اور اب اسی درمیان ” ۱۵ اگست ” کا دن بھی آگیاہے  اور اسی دن کے عنوان سے  نفرتوں اور ظلمتوں کی پرشور وادیوں میں ایک بار پھر غلامانہ آزادی کا یوم فریب برپا ہونے ہے، لیکن آج درحقیقت یوم احتساب ہے، جمہوری قدروں کو ہندوستان نے کس طرح حاصل کیا تھا؟ اور کس لیے حاصل کیا تھا؟ جن بنیادوں پے جمہوریت قائم کی گئی تھی، کیا آج ان کی ساکھ باقی ہے؟  ستر سال سے جاری ہندوتوائی ریشہ دوانیاں اب منہ کھول کر کھڑی ہیں ان کی پیاس تیز ہورہی ہے وہ اپنی بالادستی والے شودر واد کے محل پر اب علانیہ حکم رانی چاہتےہیں۔

 

آپ یوم آزادی ضرور منائیں، لیکن!

گائے کے نام پر قتل ہونے والے سینکڑوں معصوموں کا خون بھی یاد رکھیں! اور جائزہ لیں کہ آپ کے آس پاس ایک بھیڑ ایک جم غفیر خوف اور ہراس کی نفسیات کے ساتھ بوکھلا کر، جشن آزادی کی طرف دوڑتی نظر آئے گی ۔ ڈر ڈر کر آزادی منانے والی یہ بھیڑ دراصل ” حب الوطنی ” کا سرٹیفکیٹ پانے کے لیے قطار تلاش رہی ہے… اور اسی سرٹیفکیٹ کی تلاش میں انہوں نے اپنا ماضی غرقاب کردیا اور یہی رویہ ان کی نسلوں کا مستقبل برباد کردے گا… اور یہ دکھلاوا ان لوگوں کے لیے ہے جو آزادی کی جدوجہد کے دوران انگریزوں کی دلالی کرتےتھے، ایسے نفسیاتی ہراس کےساتھ یہ آزادی کیسی ہے؟

مجھے معلوم ہےکہ زندگی پرستی کے اس دور میں، اپنا پیٹ اور اپنی فیملی خوش تو سب خوش کے اس مادیت زدہ دور میں، آپ کو میری یہ معروضات گراں گزریں گی، گنگا جمنی اَٹکلوں اور بدترین سیکولرزم کے اس دور میں آپ جیسے تیسے اپنی زندگی گزار دینا چاہتےہیں اور آپ نے اس کے لیے اپنی قومی شناخت تک کو روند ڈالاہے ” اسی لیے ” آپ کو میری باتیں پسند نہیں آئیں گی، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی سہی آپ اسے نظرانداز نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ یہ دھوکہ تو اپنی مصلحت کوش زندگی پوری کرنے کے لیے کرجائیں گے، لیکن میرا اور میری نسلوں کا کیا ہوگا؟ اگر آج میں نے خود کو آپکی مصلحت اندوزیوں کے حوالے کردیا تو کل یہ درندے میری نسل کا کیا کرینگے؟ اس ملک کے پجاری طبقے کی تاریخ آپ نے ” گنگا جمنی ” غلامی میں بیچ دی ہوگی، ہم ایسے تاریخ کے مجرم نہیں بننا چاہتے!

کیا آپ نہیں جانتے؟ ہمارے ملک کے سربراہان کا لفظی نعرہ سواسو کروڑ ہندوستانیوں کے لیے ہوتاہے، لیکن اس خوش بیانی کی زمینی حقیقت یہ ہیکہ، ملک بھر کے اہم عہدوں پر RSS کے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کیا جارہاہے،

تقریباﹰ سسٹم پر ایک مخصوص ذہنیت قابض ہوتی جارہی ہے، اُس سسٹم کے مخلص افراد کا حشر جسٹس برج گوپال لویا کی صورت میں سامنے آرہاہے، سنجیو بھٹ کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے، سماج کے مخلص افراد کا حال، گووند پانسرے، اور گوری لنکیش کی صورت میں سامنے آرہاہے، صورتحال اسقدر بے قابو ہوچکی ہے، کہ سپریم کورٹ کے چار، چار ججز کو بھی میڈیا کا سہارا لیکر اعتراف کرنا پڑرہا ہے، کہ جمہوریت خطرے میں ہے،

دوغلے پن کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی جمہوری ملک میں کشمیر کے مظاہرین کے لیے پیلیٹ گنوں کے دہانے کھول دیے جاتے ہیں لیکن اُسی جمہوری ملک میں رام رحیم کے غنڈوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، اسی آزاد ملک میں کانوڑی یاترا کے نام پر کھلے عام سرکاری و عوامی املاک کو نشانہ بنانے والے انتہا پسندوں پر پولیس محکمہ پھول برساتا ہے۔ یوم آزادی کا جشن منانے کو آخر ایسا کیا ہے؟

آئیں، ذرا سوچیں جذباتیت سے پرے بنیادی ضروریات کے متعلق سوچیں، کیا ہندوستان سے بے روزگاری ختم ہوگئی؟

کیا ہماری عوام کو صاف ستھرا کھانا، حفظان صحت اور اچھی تعلیم مل رہی ہے؟ کیا ہمارے ملک سے غریبی کا صفایا ہوگیا؟ کیا خط افلاس سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی؟

کیا لاکھوں کسانوں کو سہارا مل گیا؟ بلکہ اب تو کسانوں کی زمینیں ہڑپ لینے کا مکروہ ارادہ ہے۔

تو پھر ایک انسانی دل و دماغ اور سچے ہندوستانی کی حیثیت سے سوچیں، اتنی گئی گذری اور بپھرتی صورتحال میں کروڑوں اور اربوں کے جشن کا کوئی جواز ہے؟ کاہے کی پریڈ اور کیسی پرچم کشائیاں؟ یہ جشن در  حقیقت:

ہماری عوام کی غربت کا، کسانوں کی خودکشی کا، سسٹم کے چند ہاتھوں میں یرغمالی کا، پھیلے ہوئے کرپشن  بچوں کی غذائی قلت اور ہماری غربت کا جشن ہے ۔ حب الوطنی کے کھوکھلے خول اور سیکولرزم کے پھٹے ڈھول سے سے باہر نکلیں تو حقیقتاً جشن آزادی ایک ظالمانہ اور بھدا مذاق ہے، جہاں نصف سے بھی زائد ہمارے بچے غذائی قلت کے شکار ہوں، 1.25 ملین ہندوستانی آبادی میں سے %75 فیصدی آبادی کھلے طور پر خوفناک غربت اور بدترین ڈر اور خوف کی نفسیات میں جی رہی ہو، جہاں باشندے بنیادی تعلیمی سہولیات کو ترس رہے ہوں، جہاں نئے انڈیا کے نعروں تلے عورتوں پر آج بھی قدیم رواجی مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، مادر رحم سے قتل سے لیکر پیدائش کے معاً بعد اور شادی تک صنف نازک کو قتل کردینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، جہاں کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ برابر جاری ہو، جہاں ہر طرح کی ” اچھی سرکار ” کے باوجود کرپشن ہرطرح اور ہر طرف چھایا ہوا ہو، جہاں کے نیتا اپنی عوام کا استحصال کرتے ہوں، جہاں ” بھگوانوں ” کے نام پر ایک مخصوص طبقے کا خون بہایا جائے، جہاں پارلیمنٹ سے آزادی کا گلا گھونٹا جائے، جہاں ملک کا وزیرداخلہ امت شاہ پارلیمنٹ میں دھمکی آمیز رویہ اختیار کرے، ایسی جگہ پر یوم آزادی کا جشن!! یہ مذاق ہے ایک بدترین مذاق ہے!

ايک انسان ہونے کی حیثیت سے شرمساری کا مقام ہیکہ، ہمارا ملک آج بھی استحصالی ہاتھوں میں ہے، جمہوریت کی باگ ڈور استحصالی ہاتھوں میں ہے، ملک کی اکثریت، مذہب کے نام پر، عقیدت اور حب الوطنی کے نام پر کہیں ماری جارہی ہے، کہیں زندہ جلائی جارہی ہے، تو کہیں بے وقوف بنائی جارہی ہے، ملک کی سیدھی سادھی اور بھولی بھالی عوام یہ سب سہتی ہے، مرتی ہے، کٹتی ہے، ملک کے لیے، مذہب کے لیے، کانسٹی ٹیوشن کے لیے، ایسے میں جشن آزادی مذاق ہے!

اپنی عوام اور برادران وطن کے ساتھ اس مذاق میں آپ شریک ہوجائیں، لیکن میں جاننے کے باوجود اس مذاق میں شریک ہوجاؤں، خدارا اسقدر انسانیت سوز امیدیں مجھ سے قائم نا کریں میرا ضمیر مجھے ایسے ڈھونگ پر آج تک آمادہ نہیں کرسکا ہے۔

ہوسکتاہے آج آپ مجھے منفیت سے موسوم کریں، بالکل کریں، یہ آپ کا فرض ہے، اور میرا اعزاز ہے میرا حق ہے،  لیکن میری یہ معروضات ایک خطرے سے بیداری کا سائرن ثابت ہوں گی، ایک نفسیاتی مرض سے بچاو کا اینٹی وائرس قرار پائیں گی، دراصل اپنے اہل وطن کے ساتھ ہورہے مذاق نے مجھے منفی بنادیاہے، یہاں انسانیت پر جو غیر انسانی بلکہ حیوانی ستم ڈھایا جارہاہے، اس انسانیت کے کرب میں، مجھے ڈھکوسلہ باز مثبتیں نظر نہیں آتیں،جمہوریت کو قتل کرنے کا عزم رکھنے والے جمہوریت کا پرچم اٹھائیں، پوری ڈھٹائی سے اسی کے سہارے اپنے مکروہ عزائم پر عملدرآمد کریں پھر انہی کے ساتھ جشن جمہوریت کے کیا معنی؟ آپ اپنے مثبت اور اعلیٰ ترین دماغ کے ساتھ ایک روشن ہندوستان دیکھتےہیں، لیکن میں اپنے دل و دماغ سے دیکھتا ہوں، تو ہندوستانیوں کو رنجور پاتا ہوں، افسرده و پژمردہ پاتا ہوں۔

 

میں بھی جشن جمہوریت مناؤں گا، لیکن تب، جبکہ میرے ہندوستان کی عوام عمدہ بودوباش سے خوشحال ہوجائے گی، خالد سیفی، شرجیل امام، عمر خالد اور گل فشاں فاطمہ جیسے ہمارے تمام قیدی آزاد ہوجائیں گے، اعلیٰ تعلیم انہیں حقیقی ترقیات کے زینوں پر گامزن کردے گی، میرے دیش واسی اس ملک میں آزاد ہوں گے، آر ایس ایس کے استبدادی پنجوں سے آزاد ہوں گے، خوف سے آزاد ہوں گے، ڈر سے آزاد ہوں گے، نفرت سے آزاد ہوں گے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سچ بولیں، حق بولیں اور حق کریں، اسوقت ہماری آزادی ظلمات کے سائے تلے ہے، یہ آزادانہ سحر ہرگز نہیں ہوسکتی، یہ آزادی ظالموں اور نفرت کے سوداگروں کے گھیرے میں ہے، اسلئے میں اسے آزادی کبھی نہیں کہہ سکتا

مجھے یقین ہے، میرا عقیدہ ہے، میرا عزم ہے، کہ ایسا دن میرے اسی ملک میں ضرور آئے گا، گرچہ ایک طویل جدوجہد کے بعد آئے، میری موت کے بعد آئے، مدتوں بعد آئے، لیکن میں اس کی تاریخ میں مرکر بھی زندہ ہوجاؤں گا، اُس دن میری روح سرشار ہوگی، اس دن میری روح آسمانی بلندیوں اور فضاؤں کی خنکی میں سماکر مادر وطن پر نچھاور ہوگی، اس دن میں جشن مناؤں گا، پھول اور گلاب کی پتیاں لطف و سرور کی کیفیات کے ساتھ آزادانہ نچھاور کروں گا۔

کہ:

میری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نو کی

یہ سحر تجھے مبارک، جو ہے ظلمتوں کی ماری

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔