نہیں ہیں ہم غلامی پہ رضامند

وصی اللہ قاسمی

آج وطنِ عزیز کا 75/ واں جشنِ آزادی ہے

 15 اگست………….یومِ آزادی

یومِ آزادی اور جدوجہدِ آزادی کا تصور ذہن میں آتے ہی آزادی سے ماقبل دورِ غلامی کی پوری تاریخ نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے

آزادی کی جدوجہد سے غلامی کے کربناک دور کی تاریخ مربوط ہے ۔

انگریزی دورِ حکومت میں پوۡرا ملک غلام اور بدحال تھا

انگریزی دورِ حکومت سے قبل مسلم حکمرانوں کے عہد میں بھارت آزاد اور خوش حال تھا، یہاں کی :

مالی

زرعی

صنعتی وتجارتی

اخلاقی

تعلیمی

اور مذھبی صورتِ حال قابلِ اطمینان؛ بلکہ باعثِ فخر تھی

اسی اطمینان بخش صورتِ حال کو دیکھ کر انگریز کی للچائی ہوئی نگاہ اس ملک پر بڑی؛ لیکن وہ اس کے اثرِ بد سے اپنا دامن نہ بچا سکا

انگریز نے جب یہاں قدم رکھا تو صورتِ حال کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا، یہاں کے باشندے

مالی بربادی

صنعتی وتجارتی زوال

اخلاقی فساد

تعلیمی انحطاط

اور فرقہ واریت کے چنگل میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ۔

تاریخ کے ہزاروں اوراق آزادی وخوش حالی اور غلامی وابتری کے ان دونوں ادوار کے بین گواہ ہیں ۔

*سلام* ان تمام مجاہدینِ آزادی کو جنہوں نے اپنی لازوال قربانیاں دے کر اس ملک کو غلامی سے آزادی کا مقامِ بلند عطا کیا

*سلام کی سوغات* ان تمام کفن بردوش جانبازوں کے لیے جنہوں نے کالی کوٹھریوں میں رہنا تو گوراہ کیا لیکن غلام بن کر محلوں میں رہنا نہیں، جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ :

وطن کی پاسبانی تو مری جاں سے بھی افضل ہے

میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں

*ہدیۂ عقیدت ومحبت* ان سرفروشوں کی بارگاہ میں جنہوں نے صلے اور ستائش کی تمنا سے بے غرض ہوکر انگریز افسروں کے سامنے یہ اعلان کرنے سے گریز نہ کیا کہ :

وطن کے جاں نثار ہیں، وطن کے گیت گائیں گے

ہم اس سرزمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے

*سلام اِن کے جذبے، لگن کے لیے ہے*

زمین کو آسمان بنانے کا خواب آزادی کی صورت میں شرمندۂ تعبیر تو ہوا لیکن افسوس صد افسوس کہ اس تعبیر کو پشیمان کرنے کا خواب بھی کچھ عناصر نے دیکھنا شروع کردیا اور 75/ویں جشنِ آزادی تک پہنچتے پہنچتے وہ عناصر، بھارت کو دوسرے دورِ غلامی میں دھکیلنے کی ہرممکن تدبیر کرتے نظر آرہے ہیں ۔

معاشی وصنعتی استحصال اپنے عروج پر ہے

حالیہ برسوں میں ملکی معیشت میں تاریخ کی نمایاں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے

زرعی بدانتظامی کی بات کی جائے تو پچھلے آٹھ مہینوں سے اس ملک کا کسان چیخ رہا ہے؛ لیکن اقتدار کے کان میں پڑی ہوئی روئی ایک سوت بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔

اخلاقی فساد کی تو بات ہی کیا، آئے روز سڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے

تعلیمی انحطاط کی کتنی مثالیں پیش کی جائیں!

اس سے زیادہ کیا لکھا جائے کہ کرسی پر بیٹھنے والے کا جسم عوام کے پسینے سے کمائے ہوئے پیسوں کے لاکھوں روپئے کے سوٹ سے بھاری تو نظر آرہا ہے لیکن اس کے ہاتھ اپنی محنت کی ڈگری سے خالی ہیں، جب اہلِ اقتدار کا شعور علم سے عاری ہو تو وہ بھلا قوم کے حق میں مفید اور نتیجہ بخش تعلیمی فیصلے کیوں کر کرسکتے ہیں ۔

مذہبی صورتِ حال…………………الامان والحفیظ

پچھلے کچھ سالوں سے مسلم طبقہ کو جس طرح ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، برادرانِ وطن کے دلوں میں نفرت کا جو بیج آزادی کے بعد سے بویاجارہا تھا، آج وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اگر اس کی جڑیں کھوکھلی نہ کی گئیں تو اندیشہ اس بات کا ہے کہ :

جسم بوئیں گے ستم گار، اناجوں کی طرح

اور فصلوں کی طرح کاٹیں گے سر اب کے برس

اِن حالات میں آج ملک کا 75/واں جشنِ آزادی تو ہے لیکن سچ کہا جائے تو غم اس بات کا ہے کہ کہیں یہ جشن اب صرف ایک رسم بن کر نہ رہ جائے.

اس لیے……… یادرکھیے!

جشن بھی منانا ہے،. ساتھ ہی اپنے اندر یہ احساس اور عزم بھی بیدار کرنا ہے کہ :

*نہیں ہیں ہم غلامی پہ رضامند*

قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کی حفاظت کرنی ہے

ملک کا حقیقی حسن وجمال بہرصورت بحال کرنا ہے

آزادی کی معنویت کو غلامی کی بھول بھلیوں میں گُم ہونے سے بچانا ہے، کیونکہ :

*نہیں ہیں ہم غلامی پہ رضامند*

اس کے ساتھ ہی باشندگانِ وطن میں یہ احساس عام کرنا ہے کہ

ملک کی مالی صورتِ حال کی بہتری کے لیے اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے

معاشی، صنعتی اور تجارتی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں بحیثیت ایک شہری اپنا رول نبھائیں گے

تعلیمی اور مذہبی امور کے لیے قانون کو بالائے طاق نہ رکھیں گے، نہ رکھنے دیں گے، کیونکہ :

*نہیں ہیں ہم غلامی پہ رضامند*

اور غلامی کی راہ دکھانے والے مجرموں کو یہ للکار سنائیں گے :

ثبوت دیں گے وفا کا یہ اشتباہ غلط

ملاکر خاک میں رکھ دیں گے ہر سپاہِ غلط

بربِ کعبہ وہ آنکھیں نکال پھینکیں گے

اٹھی جو ملک کی جانب کوئی نگاہِ غلط

کیونکہ………….. ہر اِک سانس اپنی وطن کے لیے ہے

 مری زندگانی چمن کے لیے ہے

نیز ملک اور قانون کی حفاظت کی خاطر………..

سب گوارہ ہے تھکن، ساری دکھن، ساری چبھن

ایک خوشبو کے لیے ہے یہ سفر، جیسا بھی ہو

باشندگانِ وطن کو 75/واں جشنِ آزادی مبارک ہو ۔

*اپنے پرچم کا رنگ بھلامت دینا*

تبصرے بند ہیں۔