خاندانی حکومت کے خاندانی جھگڑے، جمہوریت کا مذاق

                ملائم سنگھ یادو چودھری چرن سنگھ کے کئی سیاسی چیلوں میں سے ایک ہے۔ جب مرکز میں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو وی پی سنگھ نے اتر پردیش میں صلاح و مشورے سے ملائم سنگھ یادو کو اور بہار میں لالو پرساد یادو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ ملائم سنگھ یادو کو جب وزارت سے ہٹانے کی بات آئی تو ملائم سنگھ نے چندر شیکھر کے ساتھ مل کر سماج وادی پارٹی کی بنیاد ڈالی اور ذات پات کی سیاست شروع کی۔ کئی بار وہ کامیاب ہوئے۔ 2012ء میں خود وزیر اعلیٰ بننے کے بجائے دوسروں کے مشورے سے اپنے بیٹے اکھلیش سنگھ کو وزیر اعلیٰ کی گدی پر بٹھانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اس وقت ملائم سنگھ یادو کے سب سے چھوٹے بھائی شیو پال یادو نے اس کی مخالفت ضرور کی مگر ان کے مقابلے ملائم سنگھ یادو کے چچا زاد بھائی رام گوپال یادو اور اعظم خان نے اکھلیش کی پرزور حمایت کی۔ بالآخر اکھلیش سنگھ اتر پردیش کے سب سے کم عمر کے وزیر اعلیٰ ہوگئے۔

                اکھلیش سنگھ یادو کی وزارت میں دو ڈھائی سو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ مظفر نگر کا سب سے بڑا فساد بھی انہی کے زمانہ میں ہوا جس میں مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں نیست و نابود کر دیئے گئے۔ اتر پردیش میں چھ سات ماہ کے بعد الیکشن ہونے والا ہے۔ الیکشن سے پہلے چچا بھتیجے یعنی شیو پال یادو اور اکھلیش سنگھ یادو میں اقتدار کی لڑائی شروع ہوگئی۔ اکھلیش اپنے چچا کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے تاکہ ان کو اسمبلی الیکشن میں اپنی پسند کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں کوئی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اکھلیش سنگھ نے اپنے چچا کو وزارت کی کئی کرسیوں سے ہٹا دیا تو شیو پال یادو اس قدر ناراض ہوئے کہ وہ اتر پردیش سماج وادی پارٹی کی ریاستی شاخ کی صدارت سے بھی مستعفی ہوگئے اور کئی وزارتوں سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ پھر دونوں میں لڑائی اس قدر بڑھی کہ ملائم سنگھ یادو کو بیچ بچاؤ کرنا پڑا۔

                فیصلہ ہوا کہ شیو پال یادو اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے صدر بنے رہیں گے اور ان کو دوبارہ پی ڈبلیو ڈی منسٹری کے علاوہ سب منسٹری سونپ دی جائے گی۔ بیٹے کو پارلیمانی بورڈ کا چیئرمین بنا دیا تاکہ ٹکٹوں کی تقسیم میں اس کا اختیار ہو۔ اس طرح بظاہر خاندانی جھگڑا ختم ہوا۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ کے بعد گراس روٹ میں شیو پال یادو کا نام پھیلا ہوا ہے۔ شیو پال یادو کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ دوسری طرف اکھلیش سنگھ یادو نے وزیر اعلیٰ ہونے کے بعد اپنا بھی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اور اعظم خان اور رام گوپال یادو کی انھیں حمایت حاصل ہے۔ خاندانی جھگڑے میں سماج وادی پارٹی کمزور ہوئی کیونکہ دو حصوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جھگڑا ختم ہوا مگر دوسرے ہی دن شیو پال یادو نے رام گوپال یادو کے بھتیجے کو پارٹی کے ایک پوسٹ سے ہٹا دیا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جھگڑا پورے طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔

                اتر پردیش کی حکومت جو اکھلیش سنگھ کی قیادت میں بری طرح ناکام ہوئی ہے ، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا سارا ڈرامہ اکھلیش کے چہرہ کو بچانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ اگر یہ ڈرامہ نہ بھی ہو تو جھگڑے سے ثابت ہوتا ہے کہ خاندانی حکومت جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر جمہوریت کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ یہ صرف اتر پردیش کا حال نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں ایک دو پارٹیوں کو چھوڑ کر سب خاندانی پارٹیاں ہیں اور پورے ملک میں خاندانی حکومتیں چل رہی ہیں۔ اس طرح پورا ملک 15 خاندان کی حکومتوں میں بٹا ہوا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہندستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے مگر جمہوریت کے نام پر خاندانی حکومتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک خاندانی حکومت ختم ہوتی ہے، دوسری خاندانی حکومت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ صرف خاندانی پارٹیوں پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہوگا۔ ثابت ہوتا ہے کہ شخصیت پرستی اور خاندان پرستی عوام میں سرایت ہے۔ جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوگی ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی حکومتیں قائم رہیں گی۔ جس طرح پورے ملک کی دولت پچیس تیس خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے اسی طرح پورے ملک کا اقتدار 15 خاندانوں کے ہاتھوں میں عرصہ دراز تک باقی رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔