اڑی حملہ: قاتل ترا حساب بھی مجھ پر ادھار ہے

پٹھانکوٹ ، پمپور اور اڑی کے بعد قوم کا بچہ بچہ  وزیراعظم نریندر مودی سے وہی سوال کررہا ہے جو وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی  نے ۴ مئی ؁۲۰۰۹ کو سابق وزیراعظم منموہن سنگھ سے کیا تھا ’’میں وزیراعظم سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ کمزور نہیں ہیں ؟ اگر آپ واقعی طاقتور حکومت  ہیں، تو ملک اس کا ثبوت مانگتا ہے۔‘‘ ملک کی عوام مودی  بھکت گری راج سنگھ کو تلاش کررہی ہے کہ کہیں وہ پاکستان تو نہیں پہنچ گئے اس لئے کہ ؁۲۰۱۳ میں انہوں نے سرحد پر ہونے والے ایک حملے کے بعد کہا تھا اگر آج مودی جی وزیراعظم ہوتے تو ہم لاہور میں ہوتے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے بعد وزیراعظم دہلی سے میسور پہنچ گئے تھے اور جبکہ پٹھانکوٹ سے مزید شمال اڑی میں حملہ ہوگیا ہے وزیراعظم مزید جنوب کالی کٹ جا کر للکار رہے ہیں ۔  غربت اور بیروزگاری کے خلاف جنگ چھیڑ رہے ہیں ۔ اس کی توقع تو گری راج کو بھی نہیں رہی ہوگی ۔ ویسےاب نہ کوئی حملہ کشمیرسے مزید شمال میں ہوسکتا ہے اور نہ مودی جی کیرالہ سے نیچے جاسکتے ۔ دہشت گردانہ حملے اور وزیراعظم دونوں اپنی انتہاوں پر پہنچ چکے ہیں ۔

وزیر اعظم گزشتہ سال کے اواخر میں لاہور ہو آئے۔ وہاں انہوں نے نواز شریف کی ماتا جی کے چرن بھی چھوئے اور سالگرہ کا کیک بھی نوش فرمایا ۔ اس کو سنگھ پریوار نے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا لیکن اس کے ایک ہفتہ  بعد ہی پٹھانکوٹ ہوائی چھاونی پر حملہ ہوگیا ۔

پاکستان نےپہلی بار پٹھانکوٹ میں دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ  ہم دل کی گہرائیوں سے حکومت ، ہندوستان کی عوام اورمتاثرہ خاندانوں کی تعزیت کرتے ہیں نیز زخمیوں  جلدازجلد شفایابی کی امید کرتے ہیں ۔اعلیٰ سطحی روابط کی خیر سگالی کے سبب پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کے آسیب کی مکمل بیخ کنی  میں ہندوستان اوردیگر ممالک کا بھروسے مند  شراکت دارہے۔پاکستان کی اس مذمت کو سفارتکاری  کی عظیم کامیابی قرار دے کر پٹھانکوٹ کے زخموں پرمرہم رکھا گیا۔ پاکستان نے جب اپنے تعاون کا یقین دلایا تو اس سے مودی سرکار پھولی نہیں سمائی ۔اعتدال پسندوں  نے حکومت کی تعریف کی اور شدت پسندوں نے اس کے یہ معنیٰ پہنائے کہ پاکستان کی حکومت مودی جی سے ڈر گئی ہے۔

پاکستان نےآگے چل کر اپنے تعاون کیلئے تفتیش کی شرط لگائی تو حکومت ہند نے اس کا استقبال کیا  اور پاکستانی وفد کو دل کھول کر دعوت دے دی۔ حزب اختلاف نے حکومت کو یاد دلایا کہ فوجی چھاونی کے اندر کسی غیر ملکیوں  کو تفتیش کی اجازتکیا معنیٰ ؟ اس سے پہلے حکومت ہند کوئی جواز تلاش کرتی پاکستان نے اپنے وفد کے ارکان کا اعلان کردیا جس میں ایک بدنام زمانہ آئی ایس آئی کا افسر بھی تھا ۔ پاکستان کی اس حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ اس کو یقین تھا کہ اس وفد کو روک دیا جائیگالیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ائیر بیس کو دوحصوں میں تقسیم کرکے نازک تنصیبات  کے علاوہ دیگر مقامات پر پاکستانی وفد کو لیجایا گیا اور اس کی خوب خاطر تواضع اس امید میں کی گئی کہ  اس بارپاکستانی حملہ آوروں  کے ملوث ہونے کی تصدیق ہو جائیگی  لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی وفد نے صاف انکار کرکے ساری توقعات پر پانی پھیر دیا۔اس طرح سفارتکاری کے بجائے صرف  بدنامی ہاتھ آئی ۔

پٹھانکوٹ حملے کے ۸ ماہ بعد جب اڑی کی فوجی چھاونی پر پہلے سے بھیانک حملہ ہوا ۔ ۸ کے بجائے ۱۸جانیں ضائع ہوئیں اس کے باوجود پاکستان کا ردعمل یکسر مختلف تھا ۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا  کہ وہ قبل ازوقت اور غیر مفقود الزامات کی تردید کرتا ہے اور قابل عمل انٹلی جنس پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کےمشیرِ خارجی امور سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ ہندوستان کی جانب انسانی حقوق کی تیزی کے ساتھ  بگڑتی ہوئی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔   ویسے حملے کے چار دن بعد وزارت خارجہ نے پاکستانی سفرتکار کوطلب کرکے ثبوت فراہم کئے ہیں لیکن  کوئی بعید نہیں کہ  حسب روایت  پاکستان ان سب کو مسترد کردے اور سارا معاملہ پھر ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے۔ اگر پٹھانکوٹ حملے کے بعد پاکستان کاردعمل سفارتی کامیابی تھا تو یہ کیا اس کے برعکس حالیہ صورتحال  ناکامی نہیں ہے ؟  غور طلب یہ امرہے کہ دونوں حملے فوجی تنصیبات پر تھے اور اس دوران دونوں میں سے کسی ملک میں حکمراں  بھی نہیں بدلے تھے تو آخر یہ تبدیلی کیوں کر واقع ہوگئی؟

اس تبدیلی  کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کی پشت میں وزیراعظم ہند کا ایک خیرسگالی دورہ تھا اور اڑی حملے کے پس پشت کشمیر کا خلفشار ہے۔ کشمیر کے حالیہ بحران کو تین مہینے ہونے والے ہیں ۔ ۲۵ جون کو کشمیر میں عسکریت پسندوں نے پلواما ضلع میں پمپور مقام پر سی آر پی ایف کے دستے پر گھات لگا کر حملہ کیا  تھا جس  میں ۸ جوان ہلاک اور ۲۲ زخمی ہوئے تھے ۔پمپور میں  دو عسکریت پسند بھی مارے گئے اور ایک فرار ہوگیا تھا۔ ایک ماہ کے اندر حفاظتی دستوں پر وہ چوتھا حملہ تھا اس سے قبل ۳ حملوں میں ۱۷ جوان ہلاک اور کئی زخمی ہوچکے تھے ۔   یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہورہی تھی جبکہ  مرکز اور صوبے میں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے ۔ اس سے جموں میں  بی جے پی کے رائے دہندگان مایوس ہورہے تھے اس لئے کہ ان کی بڑی توقعات وابستہ تھیں ۔ ایسے میں غالباً  اپنے حامیوں کی خوشنودی اور کشمیری نوجوانوں کو خوفزدہ  کرنے کی خاطر برہان وانی کے انکاونٹر کیا گیا۔

 برہان وانی ایک ۲۲ سالہ نوجوان تھا جس پر ۱۵۰ نوجوانوں کو حزب المجاہدین میں شامل کرنے اور دہشت گردی کے چند واقعات میں ملوث   ہونے کا الزام تھا ۔ اگربرہان کوگرفتار کرکےعدالت میں پیش کردیا جاتا اور  اس کے جرائم کی اسے دستور کے مطابق  قرار واقعی سزا سنائی جاتی تو شاید یہ خلفشار رونما نہیں ہوتا ۔ برہان وانی کی عسکریت پسندی کے پسِ پشت عوامل کا پتہ لگا کر اس کا سدِ باب ضروری تھا ۔ برہان کے والد صدر مدرس اور والدہ پوسٹ گریجویٹ استانی ہیں۔ برہان اپنی جماعت کا ذہین ترین طالبعلم تھا لیکن اس کے بے قصور  بھائی خالد  وانی کو آج سے ۷ سال قبل فوجیوں نے بلاوجہ ہلاک کردیا۔ اپنے بھائی کے قتل کا انتقام لینے کی خاطر برہان عسکریت پسندی کی جانب راغب ہوا۔ اگر خالد پر ظلم نہیں ہوتا یا اس کے قاتلوں کو حکومت پھانسی کے تختے پر پہنچا دیتی تو  برہان حکومت کا احسانمند ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایک جائزے کے مطابق وادی میں کل ۱۴۵  متحرک عسکریت پسند ہیں جن میں ۹۱ کا تعلق وادی سے ۵۴ پاکستان سے آئے ہیں ۔ ان عسکریت پسندوں پر قابو پانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں  موجود حفاظتی دستے کافی ہیں لیکن برہان وانی کی ہلاکت نے اس کو راتوں رات کشمیر کا ہیرو بنادیا اور بی جے پی کی سخت گیری نے اسے زیرو کرکے رکھ دیا ۔عمر عبداللہ کا بیان درست ہے کہ  قبر کے اندر برہان وانی  کی موجودگی ذرائع ابلاغ کی بہ نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔  مظاہروں کو سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی نے  کشمیریوں کو بے خوف کر دیا ۔  اب یہ حالت ہے کہ صوبے کی وزیراعلیٰ بے دست و پا ہوگئی ہیں ۔ ان کے ارکان اسمبلی و پارلیمان اپنے گھروں دبکے بیٹھے ہیں ۔ کسی کے گھر پر حملہ ہوتا ہے اور مظاہرین حفاظتی دستوں سے اے کے ۴۷ چھین کر لے جاتے ہیں ۔ کسی کا گھر جلا دیا جاتا ہے اور کوئی استعفیٰ دے دیتا ہے۔ پہلے تو حکومت حریت سے ملاقات کیلئے تیارنہیں تھی مگر اب توحریت  کل جماعتی  پارلیمانی وفد تک سے ملاقات کرنا گوارہ کرنے پر راضی  نہیں ہے۔

برہان وانی انکاونٹر سے شروع ہونے والے احتجاج کی بابت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ڈھائی ماہ چلے گا ۔ اس دوران  دو مرتبہ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کو اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ کرنا پڑا اورممکن ہے اسی سبب سے خودوزیراعظم نے بھی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہوجو حیرت انگیز ہے۔ گزشتہ ڈھائی سالوں کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی براک اوبامہ سے ۸ بار ملچکے ہیں ۔ صدر کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے اجلاس کو خطاب کرنے کےآخری موقع پرمودی جی کا وہاں نہ ہونا حیرت انگیز ہے لیکن غالباً کی کشمیر کی دگرگوں صورتحال ان کے پیروں کی زنجیر بن گئی  ۔

براک اوبامہ نے اپنے آخری خطاب میں نہ کشمیر کا ذکر کرکے ہندوستان کو ناراض کیا اور نہ اڑی کی مذمت کرکے پاکستان  ناراضگی مول لی لیکن یہ ضرور کہا کہ بلاواسطہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوں گے اس کا اطلاق دونوں ممالک پریکساں طور سے ہوتا ہے۔ جس طرح کا حملہ اڑی میں ہوا ایسے حملے ہندوپاک دونوںممالک میں  ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں یکسانیت یہ ہے کہ ہر مقام پر حملہ آور سارےشواہد ساتھ لے کر جاتے ہیں اور انہیں محفوظ رکھتے   ہیں ۔ پاکستان میں ہونے والے حملوں کیلئے ہندوستان کو اور   بھارت میں ہونے والے دہشت گردی  کا الزام فوراًپاکستان پر لگا دیا جاتا ہے ۔ اسی کے ساتھ دوسری جانب سے انکاربھی ہوجاتا ہے ۔ پاکستان کہتا ہے کہ یہ حکومت ہند ازخود کروارہی ہے اور بھارت کے مطابق یہ آئی ایس آئی کے آغوش میں پلنے والے دہشت گردوں کا کارنامہ ہوتا ہے لیکن ان الزام تراشیوں سے قطع نظر اس کی بھاری قیمت عوام اور فوجی چکاتے ہیں ۔

اڑی حملے کی بابت بھی یہی ہوا۔ حکومت ہندکا موقف ہے کہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے انجام دیا جبکہ پاکستان کا الزام ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ حملہ کروایا گیا ہے۔ ہندوستان کی جانب سے دہشت گردوں کے پاس ملنے والے سازوسامان کا حوالہ دیا جارہا ہے اور ان کے جی پی ایس کا ریکارڈ پیش کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان یہ کہتا ہے فوجی چھاونی کے حفاظتی شکنجہ کو توڑ کر کسی کا اندر داخل ہوجانا تقریباً ناممکن ہےیا کشمیری عسکریت پسندوں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اڑی حملے کے سبب عالمی رائے عامہ کا جھکاو اچانک ہندوستان کی جانب ہوگیا ہے لیکن اندرون  مودی جی  کی دبنگ   شبیہ بہت متاثر ہوئی ہے ۔  اس نازک گھڑی میں جبکہ نواز شریف نیویارک پہنچ چکے ہیں وزیراعظم  سرحد پر نہ سہی تو کم ازکم اقوام متحدہ میں جاکر اپنے موقف کا دفاع ضرور کرسکتے  تھے ۔ ذرائع ابلاغ میں حکومت پر تنقید ہورہی ہے اور سوشیل میڈیا میں نت نئے لطیفے بنائے جارہےہیں۔مخالفین مودی جی کی پرانی ویڈیوز کو پھیلا کر انہیں آئینہ دکھلا رہے ہیں ۔چہار جانب سے بدلہ بدلہ کی گہار ہے اور اس درمیان وزیراعظم اپنا پتہ بدل رہے ہیں (ریس کورس  روڈکے بجائے جب کلیان مارگ)

حکومت کے تئیں شدید ناراضگی تو پورےیرقانی پریوار میں ہے لیکن مصلحت کے باعث اس کا اظہار نہیں ہورہا ہے۔ شیوسینا چونکہ ہندوتواوادی ہونے باوجود سنگھ قبیلے سے باہر اس لئے ادھو ٹھاکرے نے اپنے دلی جذبات کا برملا اظہار کردیا۔ انہوں نے کہااب وقت آگیا ہے  کہ وہ پارلیمانی  انتخاب سے قبل عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں ، ہم پاکستان کو اس کی اپنی زبان میں کب جواب دیں گے؟جب اس طرح کے حملے ہوتے ہیں  ہم کچھ روز اس کی مذمت کرکے انہیں بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا اگر جنگ ہونی ہے تو اسے قوم کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ ووٹ کیلئے۔ہم کب پاکستان کی زبان سمجھیں گے؟ ادھو ٹھاکرےکھری کھوٹی سناتے ہوئے بولےاگر آپ  وہی کرتے رہیں گے جو پرانی حکومت کرتی رہی تھی تو یہ دعویٰ کیسے تسلیم  کرلیا جائے کہ ملک کا موحول بدل گیا ہے؟ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا خیال ہے جن کو آنسو بہاناہے بہاتے رہیں  ہم تو پاکستا ن جاکر چائے پیتے رہیں گےوہاں کے فنکاروں اور کھلاڑیوں کا استقبال بھی کرتے رہیں۔ این ڈی اے  میں شامل ادھوٹھاکرے کے بیان کا ترجمان  اسلم غازی کایہ  شعر ہے کہ؎

جتنے بھی زخم کھائے ہیں ان کا شمار ہے                              قاتل ترا حساب بھی مجھ پر ادھار ہے

بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ یشونت سنہا نے بھی نہایت سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بے چینی کا اظہار کیا اورفوجی کارروائی سے قبل  چند مشورے دئیے مثلاً سندھ ندی کی تقسیم  کا معاہدہ ختم کردیا جائے۔ یشونت سنہا نہیں جانتے کاویری کا مسئلہ تو کرناٹک اور تمل نادو کے درمیان الجھا ہوا  ہے اور سپریم کورٹ کی فیصلوں پر تک عملدرآمد نہیں ہوپارہا ہے جبکہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بین الاقوامی تنازع کھڑا کردیا جائےتو اس کے کیا اثرات ہوں  اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے؟ یشونت سنہا کا دوسرا مشورہ قابل عمل ہے ۔ ہندوستان نے پاکستان کو سب سے پسندیدہ ممالک کا درجہ  دے رکھا ہے جبکہ پاکستان نے ہندوستان کو اپنی اس فہرست میں شامل نہیں کیا اس لئے اسے فوراً ترجیحی مقام سے معزول کردیا جائے۔ یشونت سنہا نے جنگ سے گریز کرنے کی رائے دینے کے بعد یہ بھی لکھا کہ ہم سب پاکستان کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی کبھار امن کا راستہ جنگ سے ہو کر گزرتا ہے۔  اگر یشونت سنہا جیسا سنجیدہ شخص ان خطوط پر سوچ رہا تو باقیماندہ لوگوں کے جذبات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اڑی حملے کے بعد ساری دنیا کی توجہ کشمیر کے مسئلہ سے ہٹ گئی لیکن اگر کشمیر کے حالات بہتر نہیں ہوں گے تو یہ عارضی ہوگا ۔ اڑی حملے کے ۴ دن  بعد جموں کشمیر ہائی کورٹ نے پیلٹ گن کے استعمال پر پابندی لگانے کی درخواست مسترد کردی ۔ اس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ پیلٹ گن استعمال کرنے والے افسران کو سزا دی جائے ۔ اس درخواست کو بھی یہ کہہ کر نامنظور کردیا گیا کہ تفتیش کرنے والے حکام کو طاقت کے بیجا استعمال کے شواہد ہی نہیں ملے۔عدالت نے کہا کس قسم کے ہتھیار استعمال کئے جائیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار وہاں موجود افسرکو ہے یعنی کل کو کوئی اے کے ۴۷ استعمال کرے تب بھی عدالت کی نظر میں وہ جائز ہوگا۔

 جموں کشمیر کی بار ایسو سی ایشن نے۳۰ جولائی کو یہ مقدمہ دائر کیا تھا جس پر ۲۱ ستمبر کو فیصلہ آیا ہے کہ وزارت داخلہ نے پیلٹ گن کا متبادل تلاش کرنے کیلئے جو ماہرین کی کمیٹی نامزد کی ہے اس کی رپورٹ کے بغیر کورٹ کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہے ۔ عدالت کم از کم یہ تو پوچھ سکتی تھی کہ رپورٹ کب آئیگی یا اس کی پیشکش کیلئے کوئی مدت مقرر کردیتی اس لئے کہ ۷ ہفتے گزر چکےہیں ۔ اگر اپنے ہی عوام کے تئیں اس  طرح کی بے حسی برتی جائیگی تو غیروں کا اس کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا  ہی رہے گا۔  یہ مسئلہ جبر وجنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہوگا ۔ وادیٔ کشمیر میں گفت و شنید کیلئے ساز گار ماحول تیار کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔  اس کے بغیرپاکستان کو اسے بین الاقوامی فورم میں اٹھانے سے روکنا عملاً ناممکن ہوگا۔ جموں کشمیر کے اندر پائیدار اور مستحکم امن و امان ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے ورنہ  اپنے سرکاری پتہ کےریس کورس روڈ  کا نام جن کلیان روڈ رکھ دینے سے جنتا کلیان نہیں ہوتا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔