چیچنیا میں ہوس پرستوں کا اجتماع

مکرمی! چیچنیامیں کچھ لوگوں نے اجتماع کیا، مقصد تھا کہ وہ اہل سنت والجماعت کو تلاشیں اور یہ پتا لگائیں کہ حقیقی معنوں میں اہل سنت والجماعت کون لوگ ہیں۔ یوں تو اس پروگرام میں ایران، روس، سیریا، ترکی، برطانیہ، لبنان، مصر، جنوبی افریقہ اور جارڈن جیسے ملکوں سے لوگوں نے شرکت کی لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس پرو گرام میں کچھ ہندوستانی مولوی بھی اپنا گیان بانٹنے پہنچے۔ رپورٹوں کے مطابق اس پروگرام کوچیچنیا کے صدر رمضان قادیروف نے منعقد کیا تھا جنہیں روس کے صدر ولادیمیر پوتین کا دلال بھی کہا جاتا ہے۔ اس پروگرام کی صدارت جامعہ ازہر کے بدنام زمانہ وائس چانسلر نے کیا ۔ اس پروگرام میں کسی بھی بڑے سنی ملکوں جیسے قطر، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے علماء کرام کو دعوت نہیں دی گئی بلکہ اکثر ان لوگوں نے ہی اس پروگرام کی زینت بخشی جو کہ سلفی ازم سے جلتے بھنتے ہیں اور عداوت و دشمنی رکھتے ہیں۔
[toggle title=”پورا مراسلہ پڑھیں” state=”close”]بہرحال یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور پوری دنیا سے تشریف لائے نام نہادعلماء نے بحث و مباحثہ کے بعد کانفرنس کی قراردادوں کو جب دنیا کے سامنے پیش کیا تو حیرت و استعجاب کی حد نہ رہی۔ اس کانفرنس میں اہل سنت والجماعت کو اشاعرہ اور ماتریدی عقیدہ کے حاملین، مذاہب اربعہ اور صوفیاء تک محدود کردیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کے علاوہ سبھی لوگ اہل سنت والجماعت کے دائرہ سے باہر ہیں۔اس کانفرنس کے بارے میں جو حقائق سامنے نکل کر باہر آئے ہیں ، ان سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ کانفرنس ایک خالص سیاسی کانفرنس تھی، اس کا علم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کانفرنس میں پوری دنیا سے انہی مولویوں کو دعوتِ شرکت دی گئی تھی جو کہ اپنے ملکوں کی حکومتوں میں کوئی عہدہ یا منصب کے حامل تھے۔ اس کانفرنس کا مزید ایک تعجب خیز پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں سنی اور شیعی ہر طرح کے مولویان نے شرکت کی اور دونوں طرح کے لوگوں نے مل کر سلفیوں کے خلاف یہ نام نہاد فتویٰ صادر فرمایا جبکہ شیعوں اور سنیوں کے مابین عقیدے اور فکر کے لحاظ سے کس قدر خلاء اور بعد ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ اگر اس چیز کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ دینی لباس میں ملبوس ان سیاسی سورماؤں کے جمع ہونے کا مقصد کیا تھا ۔اسی طرح سے مصر اور شام کے مفتیان کرام نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تھی، بہتر ہوتا کہ اپنے ملکوں میں ہورہے مظالم کے خلاف فتوے جاری کرتے اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے لیکن افسوس صد افسوس کہ اس سلسلے میں ان کی زبانیں گنگ رہتی ہیں اور وہ بسااوقات حکومتوں کا آلۂ کار بن کربھی اسلام مخالف سرگرمیوں میں برابر کے شریک رہتے ہیں لیکن جہاں بات آتی ہے اہل حدیثوں کے خلاف ریشہ دوانیوں ،ان کی تکفیرو تفسیق اور تضلیل و تحقیر کی تو پھر وہ لوگ اس میدان کے سپہ سالار اور قائد اعظم دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس اجلاس میں شریک علماء کو ہرمکتب فکر کے علماء نے بالاتفاق نے علماء سوء قرار دیا ہے اور مسلم امہ کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید فرمائی ہے اور اس سازشی ٹولے کے پروپیگنڈوں کو طشت از بام کیا ہے۔ یقینی طور پر یہ اور اس طرح کی حرکتیں باطل طاقتوں کے اشارے پر ہوتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اس طرح کی سازشوں سے ہوشیار رہے اور اتحاد و اتفاق مخالف کاموں سے بالکلیہ احتراز کرے۔ فصیح درانی [email protected][/toggle]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔