یوپی انتخاب: ترقی نہیں تنزلی ہے بی جے پی کا ہتھیار

جنگ آزادی اس حقیقت کی غماز ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور پیار و محبت اس ملک کا وہ عظیم وصف تھا جس سے دنیا کی طاقتیں لرزتیں، کانپتیں اور خوفزدہ رہتی تھیں۔ اسی اتحاد و محبت سے ہندوستان نے سونے کی چڑیا ہونے کا شرف حاصل کیا، اسی طاقت نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دئے تھے، ان کی ہر سازش اور کوشش کو ناکام کیا تھا، ہر محاذ پر اتحاد کا منظر واضح نظر آتا تھا۔ ایک طرف بھگت سنگھ ہیں تو دوسری طرف اسی نظریہ کے حامل اشفاق اللہ خان بھی ہیں۔ اگر مہاتما گاندھی ہیں تو ان کے شانہ بشانہ ابوالکلام آزاد بھی ہیں۔ اس اتحاد نے کہکشاں کی مانند ملک سے غلامی کی تاریکی کو ختم کیا اور یہ ستارے جب یکجا ہوئے تو ملک کا منظر قابل دید ہوگیا۔ اتحاد ہی کی طاقت تھی کہ چند افراد ہندوستان پر ہزار سال حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ظلم جبر و تشدد کی داستانیں بھی نہیں، آزادی سے قبل ہماری صدیوں کی تاریخ، پیار و محبت، اتحاد و اتفاق کی گواہ ہے۔ ہندوستان آزاد ہو گیا اور ستر سال بھی گذر چکے مگر آج بھی ہم انگریزی فکر، کلچر ،تہذیب و ثقافت کے غلام ہیں۔ اپنے مفاد کی خاطر ان کا استعمال کرتے ہیں، حب الوطنی کا ہم دعویٰ کرتے ہیں مگر اپنی تہذیب کا ہمیں پاس ولحاظ نہیں۔ ہماری تاریخ کہتی ہے ایک بیٹا اپنے باپ کے حکم پر چودہ سال کے لئے تخت شاہی کو لات ماردیتا ہے اور دوسری طرف انگریزی کلچر ہے، جہاں ماں باپ کو ساتھ رکھنا عیب ہے۔ غربت ہے، اب کھلی آنکھوں دیکھ لیجیے کہ ہم کس کے غلام ہیں، خاص طور سے ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی آئیڈیالوجی کیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اب چوں کہ یوپی انتخاب قریب ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی تدابیر اور اور اپنے حربہ استعمال کررہی ہیں، فتحیاب ہونے کی ہرممکن کوشش اور جد و جہد کی جارہی ہے، ناقابل تسخیر حربے استعمال کئے جارہے ہیں، خاص طور سے بی جے پی کا طریقۂ کار کچھ ایسا ہے جو سادہ لوح افراد کو متاثر کرسکتا ہے، انہیں کمل کی طرف موڑ سکتا ہے،کیونکہ وہ جذبات سے کھیلنے کی سیاست کررہی ہے، نفرت کا بیج بورہی ہے ،تقسیم کرو اور حکومت کرو کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ ڈھائی سالہ دور حکومت کی ناکامی، عوام کی گالیاں ،اپنے پرائے کی طعنہ زنی نے یہ ذہنوں میں راسخ کردیا ہے کہ یوپی انتخاب ترقی کے نام پر نہیں جیتا جا سکتا،عوام سوال پوچھے گی، پندرہ لاکھ کہاں ہیں؟کالا دھن کہاں ہے؟کون لایا؟ کس نے دیکھا؟ کب لایا؟ملک نے ترقی زیادہ کی یا وزیر اعظم نے سفر زیادہ کئے؟ ان اسفار سے ملک کا فائدہ کتنا ہوا؟’’میک ان انڈیا‘‘ سنا تھا پر دکھا کس کو، وزیر اعظم کا ڈیجٹل انڈیا کہاں ہے؟کیا آپ کا ریلائنس جیو کا فروخت کرنا ملک کو ترقی یافتہ بنائے گا؟ یہ تو آپ نے وہ کام کیا جو ہندوستان کے کسی وزیراعظم نے نہیں کیا ۔،آپ انتظامیہ کا درست طریقہ پر استعمال نہیں کرپاتے ملک کا، عوام کا بے انتہا نقصان ہوتاہے،گجرات کو اس کی مثال کے طور پیش کیا جاسکتا ہے۔ پورے ملک کو گجرات بنانا چاہتے تھے ،کیا ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں یا تنزلی؟ان سوالات کی بوچھار بی جے پی کو حواس باختہ کرسکتی تھی اور ان کے بڑے بڑے رہنما بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے اور یوپی کا تخت شاہی ان کا خواب ہی رہتا۔ بی جے پی نے ان تمام چیزوں کو بھانپا اور ترقی کی جگہ تنزلی، محبت کی جگہ نفرت کے دم پر انتخاب میں حصہ داری کا فیصلہ لیااور کیرانہ سے ممبر اسمبلی حکم سنگھ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم پلاین (ہجرت) کو انتخاب کا اہم مدعی بنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کیا ہے۔ انتخاب سے بالکل قبل اس مسئلہ کو جنم دینا مغربی اترپردیش کے ماحول کو خراب کرنے کوشش ہے تو پلاین کا یہ کھیل تو صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا کے ہر خطہ کے افراد اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر اپنا وطن عزیز گھر اور اپنے دوست و احباب کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے مقام پر بس جاتے ہیں جہاں ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہوں، نہ کوئی سوال نہ جواب، نہ مذہبی باتیں۔ اسی طرح دنیا میں ہوتا رہتا ہے، ہندوستان میں کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں دس بیس گھروں پر (یہ مکان بکاؤہے)لکھا ہوا نہیں پایا جاتا ہے معترض کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اب انتخاب کے وقت این ایچ آر سی کی رپورٹ آنا اور یہ کہنا 346ہندو پریواروں نے کیرانہ چھوڑا ہے اور کوڑیوں کے دام میں اپنے گھروں کو بیچ دیا، یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جرائم کی شرح بڑھی ہے، گناہوں میں اضافہ ہوا ہے، لوگ گھروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور بی جے پی کہتی ہے مذہبی معاملات کی وجہ سے لوگوں نے پلاین کیا ہے۔80.74فی صد آبادی اس خطہ میں مسلم ہے اور ،17.34فی صد آبادی ہندو ازم سے تعلق رکھتی ہے۔1.92 فی صد دیگر مذاہب سے متعلق افراد ہیں، اتنی آبادی مسلمانوں کی ہونے کے باوجود غیر مسلم لیڈران آزادی سے لے کر آج تک کیرانہ میں فتح حاصل کرتے رہے ہیں، خود حکم سنگھ اس علاقے سے کئی مرتبہ اسمبلی میں پہونچے۔ اب سوال یہ ہے 346افراد کتنے دن میں کیرانہ چھوڑ کر گئے، کیا یہ کل کا واقعہ ہے؟ کیا یہ چند ایام کی کہانی ہے؟ اگر تمہیں سچ مچ میں ان افراد سے محبت ہے تو یہ گفتگو انتخاب سے قبل کیوں ؟اور آج تم یہ رونا کیوں رورہے ہو؟کیا تم نے لوگوں کا درد بانٹا اور اپنے دور میں اصلاح کی کوشش کی ؟جواب سب جانتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دعوی کیا گیا کہ پوری مغربی یوپی پلاین کی لپیٹ میں ہے۔آئیے آپ کو کچھ سمجھایا جائے۔ مظفرنگر میں ہندؤوں کی تعداد41.39فی صد، مسلمانوں کی 55.79فی صد، سکھ ڈیڑھ فی صد، جین دو فی صد۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے دو فیصد زیادہ پریشان ہیں یا 41 فی صد؟ تو جواب 41 ہے عقل کے مطابق دو فیصد کو پلاین کرنا چاہئے۔ کثیر تعداد سے متعلق افراد کو نہیں، ممبر اسمبلی خود بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سہارنپور، میرٹھ تمام علاقوں کایہی حال ہے، وہ مغربی یوپی جہاں سے ہندو پریشان ہوکر گھر چھوڑ رہے ہیں، وہاں مسلمانوں کی تعداد 25.89فی صد ہے۔ عجیب سا مذاق ہے جو بی جے پی لوگوں کے ساتھ کررہی ہے لیکن یہ ایسا حربہ ہے جو افراد کو تقسیم کرسکتا ہے ملک کو تنزلی کی جانب لے جاسکتا ہے مگر بی جے پی کو منزل تک پہونچنے کا اس خوبصورت اور آسان راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ ہندوستان کے ہر شخص کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں تنزلی کے بل پر انتخاب میں کامیاب ہورہی ہیں یا کامیابی کے خواب دیکھ رہی ہیں تو جمہوریت کے لئے کتنا بڑا خطرہ اور انسانیت کے لئے کتنا بھیانک اور ڈراونا معاملہ ہے اگر انہیں انسانوں کی سچی محبت ہوتی تو مظفرنگر فساد کے بعد ہوئے پلاین پر بھی یہ گفتگو کرتے احتجاج اور مظاہرے کرتے ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب سے متعلق افراد کی بھی خبر لیتے بلکہ مذہب کیوں درمیان میں لاتے، انسانوں کو کیا تکلیف ہے انہیں کیا دکھ ہے اس کی خبر گیری کرتے؟ انہیں روٹی ملتی ہے یا نہیں دال کا کیا بھاؤ ہے سبزیوں کی قیمت کیا ہے؟ عام آدمی پیٹ بھر کر سوتا ہے یا بھوکا؟ بے روزگار کتنے ہیں؟ نوجوان تعلیم حاصل کر پارہے ہیں یا نہیں؟ ملک کا تعلیمی نظام کس مرحلہ میں ہے؟ بخار سے مررہے سینکڑوں افراد کے بچائے جانے کا کیا طریقہ ہے؟ فوراً اطباء کو جمع کیا جاتا، ان سے گفتگو کی جاتی اور حل تلاش کیا جاتا ۔ان تمام مسائل پر کوئی گفتگو نہیں اور مذہب کو بنیاد بنا کر تفریق کرنا درست ہے؟یہ سوال ہر ہندوستانی کے سامنے ہے۔ اسی سوال کا جواب ہمارا ووٹ ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہمارا جواب کیا ہے ہم عقل کا استعمال کرتے ہے یا نہیں جو لوگ ہمارے اندر نفرت گھول رہے ہیں انہیں بتانا ہوگا کہ ہم ہندوستانی ہیں محبت ہمارا شیوہ اور عادت ہے۔ ہم نفرت کے نام پر نہیں محبت پر ووٹ کرتے ہیں ہم تنزلی نہیں ترقی کو منتخب کریں گے، ہم ملک کے سچے وفادار ہیں۔ اس انتخاب میں ہمیں ان باتوں کو ثابت کرنا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں جب کوئی بھی خودغرض لیڈر کھڑا ہوگا اور ہمیں آپس میں لڑائے گا ہردن کعبہ و کاشی کی حرمت پامال ہوگی سینکڑوں جانے جائیں گی بھوک مری کے واقعات سامنے آئیں گے، روٹیاں میسر نہیں آئیں گی اور ملک کا زوال و انحطاط ہوگا جو کسی ہندوستانی کو منظور نہیں تو ہمیں ایسا بننا ہے کہ ہمارے جذبات سے کھیل کر کوئی اپنا محل تعمیر نہ کرسکے۔

راحت علی صدیقی قاسمی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔