ممتازقادری قتل کیس کے بارے میں مزید وضاحت

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی
ممتازقادری کی موت کوشہادت کا درجہ قراردینے سے متعلق مذہبی جماعتوں کے مطالبہ پر راقم نے جن تاثرات کااظہارکیاتھاان کاجواب جناب ڈاکٹرغیث المعرفۃ صاحب نے دیاہے ۔ان کے جواب کوپڑھ کران کی سطحیت اور عامیانہ خیالات پر افسوس ہوا۔
پہلی بات تویہ ہے کہ ہم نے اہانتِ رسول کے قانون کی مخالفت نہیں کی ہے ،نہ کرسکتے ہیں۔ہاں اس قانون کا جوغلط استعمال ہوتاہے جس کوغیث المعرفہ جیسے لوگ بڑھاوادیتے ہیں،اس سے ہمیں تشویش ہے۔اسی طرح ہم نے سلمان تاثیرکی بھی کوئی وکالت نہیں کی ۔ہم نے توصاف لکھاتھاکہ سلمان تاثیرکا جیل میں اہانتِ رسول کی ملزمہ سے ملنے جاناغلط تھا۔اسی طرح تاثیرنے مذکورہ قانون کوجوکالاقانون کہاتھاوہ بھی غلط تھا۔تاہم اس کی یہ غلطی ایسی نہ تھی کہ کوئی بھی اپنے طورپر اس کوشاتمِ رسول مان لے اوراس کی جان لے لے۔اس کے لیے عدالت کا دروازہ کھلاتھا،وہاں جاکروہ سلمان تاثیرعدالتی کاروائی کے ذریعہ سزادلواسکتاتھا۔اسلامی قانون کی یہ بھی تودفعہ ہے کہ:ادرأواالحدودبالشبہات :اس کا مفادیہ ہے کہ جہاں کیس پوری طرح ثابت نہ ہواوراس میں ذراسابھی شبہ ہووہاں حدودکے نفاذمیں احتیاط برتی جائے گی اورملزم کوسزانہیں دی جائے گی ۔غیث صاحب اس اسلامی قانون کومانتے ہیںیانہیں؟
دوسرے قانونِ اہانت رسول کوکالاقانون کہنے کاپس منظریہ ہے کہ پاکستان میں اس کا غلط استعمال ہونے کی شکایت بہت معتبرعلمانے بھی کی ہے ۔ لوگ ذاتی رنجش مٹانے کے لیے اس کااستعمال کرتے آرہے ہیں جس کی متعددمثالیں ہیں۔1980میں یہ قانون پاکستان میں متعارف ہواتھااور1987سے لیکر2014تک اس میں 1300کیس رجٹسٹرڈہوئے ۔جن میں سے 50ملزمین کوان کی ٹرائیل مکمل ہونے سے پہلے ہی اہانتِ قرآن کے جرم میں مارڈالاگیا۔(ملاحظہ کریں:Milli Guzzette16-30 April,16)غیث المعرفہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ کسی بھی ملزم کوسزاہی نہیں ہوئی ۔عدالت سے سزاتوبعدمیں ہوتی ان کوتولوگوں نے ازخودسزادے ڈالی تھی!!
غیث نے لکھاہے کہ :’’البتہ سلمان تاثیر کے طرز گفتگو اور طرز عمل نے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے اندر اشتعال پیدا کیا، واقعہ قتل سے پہلے ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کے درمیان ایک مکالمہ بھی ہوا جس کے گواہ ایک دوسرے کانسٹیبل وقاص شیخ بھی تھے، سلمان تاثیر نے تب بھی دوبارہ اشتعال انگیز گفتگو کی جس پر ممتاز قادری نے اشتعال میں آ کر اسے قتل کردیا‘‘۔سوال یہ ہے کہ وہ مکالمہ کیاتھایاوہ اشتعال انگیزگفتگوکیاتھی ،اس کوسامنے کیوں نہیں لایاجاتاہے ؟اس کے بعدہی توپتہ چلے گاکہ اس دلیل میں کتنادم ہے جب تک آپ وہ الفاظ سامنے نہیں لاتے ہم اس کوعذرِگناہ بدترازگناہ کے قبیل سے ہی سمجھیں گے ،اورآپ کی عقل پر ماتم کریں گے ۔
غیث المعرفہ صاحب نے ممتازقادری کے کیس کی جووکالت کی ہے ۔اس کی دلیل ان کے الفاظ میںیہ ہے:’’برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے مسلمان عشق رسول کی ایک خاص ترکیب رکھتے ہیں۔ علم وعمل سے بیگانہ، گناہوں اور بْرائیوں میں لت پت اور سرورِ دنیا میں مخمور ہوں گے لیکن محبتِ رسول کے اظہار اور شان رسالت مآب میں ہر عمل سے گزر جائیں گے۔ اگرچہ ایک جمہوری ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے ان جذبات کی ترجمانی کرے اور انہیں قانونی تحفظ فراہم کرے جو دنیا کی تمام جمہوریتیں کرتی ہیں، عوام کی اچھی ہی نہیں بْری خصلتوں اور جذبات کی بھی عملی طور محافظ بنتی ہیں‘‘۔غیث صاحب معاف کیجئے اسلامی قانون آفاقی ہے ،پوری دنیائے انسانیت کے لیے ،آپ کوجانناچاہیے کہ اسلام کے قانون میںآپ کی بیان کردہ برصغیرکی مذکورہ ذہنیت کی تسکین کا کوئی سامان نہیں ہے !! اس ذہنیت کی تو اصلاح ہونی چاہیے۔
کہ اندھابہرامزعومہ عشقِ رسول اسلام کومطلوب نہیں جوبات بات پر لوگوں کی گردنیں ناپ دے !اسلام کومطلوب ہے عمل پرابھارنے والاسچاحبِ رسول جوصحابہؓ کے اندرتھا۔جس کا تقاضاہے خداورسول سے غیرمشروط وفاداری اوران کی اطاعت پر ابھارنا(فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران: 31 )ان المحب لمن یحب مطیع ۔(سچامحبت کرنے والااپنے محبوب کی اطاعت کرتاہے )خالی خولی عشقِ رسول کے دعوے کس کام کے جورسولِ رحمت اوردینِ رحمت کی شبیہ دنیامیں خراب کرتے ہوں۔غیث صاحب جمہوری حکومت کی دہائی دے رہے ہیں کہ وہ ’’ عوام کی اچھی ہی نہیں بْری خصلتوں اور جذبات کی بھی عملی طور محافظ بنتی ہیں‘‘اوراس لیے چاہتے ہیں کہ حکومت عوام کے مطالبہ کوپوراکرے ۔غیث صاحب یہ نہیں جانتے کہ اس کوجمہوریت نہیں کہتے ،اس کا نام ہے :Mobocracy عوام کی بھیڑکے پیچھے چلنا،بجائے ان کی شعوری تربیت کے ان کومن مانی کرنے دینااوران کوان کی من پسندغزلیں سنانا۔جوبدقسمتی سے پاکستان کے حکمراں بھی اوراس کی مذہبی وسیاسی جماعتیں بھی کررہی ہیں!اورغیث صاحب جیسے لوگ بھی کررہے ہیں۔اہلِ ایمان کا کام یہ نہیں ۔قرآن تواسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بتاتاہے کہ :الذین ان مکناہم فی الارض اقاموالصلاۃ وآتوالزکوۃ وامروابالمعروف ونہواعن المنکر(الحج :41 ) ۔ اس حکم کے مطابق اسلامی حکومت عوام کے اچھے برے جذبات کی تسکین نہیں کرتی پھرے گی بلکہ معروف کا حکم دے گی اورمنکرسے روکے گی ۔اوریہی رویہ اسلام پسندوں اورمذہبی جماعتوں کا بھی ہوناچاہیے ۔غیث لکھتے ہیں:
’’اس عدالتی بانجھ پن نے ممتاز قادری جیسے سپوت پیدا کر دیے جنہوں نے ایک سماجی رویے کو ثابت کیا کہ جب کسی معاشرے میں انصاف عدالتوں میں نہیں ہوا کرے گا بلکہ خود اقتدار پر بیٹھے لوگ قانون کو توڑنا شروع کر دیں گے تو پھر یہ جذبات قانونی دائرے سے خود بخود نکل جائیں گے۔ ان 1274 کیسوں میں سے 51 کیسوں کو ماورائے عدالت خود منصفی کے تحت نبٹا دیا گیا۔‘‘یہ الفاظ کسی عاقل وباشعورانسان کے نہیں ہوسکتے پتہ نہیں موصوف کس ترنگ ہیں جوایسی بولی بول رہے ہیں!!ذرااسی منطق کواورآگے بڑھائیے ،اس کی روسے توطالبانِ پاکستان جوکچھ کررہے ہیں وہ صحیح ہے کیونکہ ان کی منطق یہی ہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا،چونکہ پاکستان کی حکومتیں اسلام کونافذنہیں کررہی ہیں،اس لیے ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم اپنااسلام خودنافذکریں۔بچوں کوماریں،بم دھماکے کریں وغیرہ ۔سوال یہ ہے کہ پھرطالبان جوکچھ کررہے ہیں اس پر پاکستان کے لوگ( علمادانشور،سول سوسائٹی کیوں ہنگامہ کھڑاکرتے ہیں!!اس منطق کی روسے ممتازقادری جیسے اورلوگ بھی قانون کواپنے ہاتھوں میں لینے لگیں توآپ کا معاشرہ انسانی معاشرہ رہ جائے یاجنگل بن جائے گا،آپ ہی بتائیے؟

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔