امیٹھی کے 11 لوگوں  کا قتل؟ذمہ دار کون؟ سچ کیا؟

امیٹھی جو کبھی ہمارا ضلع بھی تھا، آج ہمارا پڑوس بھی ہے، وہاں  11 افراد کی دردناک موت کا واقعہ … جو کچھ سمجھ میں  آیا وہ بہت ہی تکلیف دہ ہے. ملک کے سب سے بڑے  سیاسی  گھرانے کے لیڈر راہل گاندھی کے اپنے پارلیمانی علاقے اور مرکزی  وزیر اسمرتی  ایرانی کے انتخابی علاقے میں  ایک ایسا غریب کنبہ بھی رہتا تھا، جس کا سربراہ جمال الدین جو ایک مسلمان بھی تھا،اسے یہ بھی پتہ تھا کہ قتل اور خودکشی حرام ہے، لیکن مقامی پولیس اور میڈیا نے اس پورے قتل عام کا ذمہ دار خاندان کے سربراہ جمال الدین کو ٹھہرایا ہے. اس واقعہ نے ملک کے نظام، سسٹم کی فعالیت، رہنماؤں  کے اپنے علاقہ کے عوام  کے تئیں  احساس بیداری اور ان کے تئیں  ذمہ داری کی سوچ  جیسی چیزوں  کو جھوٹا ثابت کر دیا. آج پورا امیٹھی ہی نہیں  پورا ملک شرمسار اور سوگوار ہے، ہر کسی کے دل و دماغ میں  نظام کی شکست کا غم ہے،ایسے ناجانے کتنے  کنبے اس ملک میں  ہیں  جن کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اور پھر اسے خودکشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے. اتر پردیش کے امیٹھی میں  دل دہلا دینے والا  یہ واقعہ بدھ کو پیش آیا، ایک ہی خاندان کے 11 افراد کو دھاردار ہتھیار سے کاٹ کر ان  قتل کر دیا گیا. مرنے والوں  میں  6 بچے ہیں .

گھر کے سربراہ کی لاش پھندے پر لٹکی ملی. اس حادثے کی وجہ کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟  اس کا ابھی تک پتہ نہیں  چل پایا ہے. علاقے میں  اس سے بڑا واقعہ پہلے کبھی نہیں  ہوا.  اس واقعہ کے بعد سے دیہاتیوں  میں  ہلچل مچی ہوئی ہے.اور ہر اور ہو کا عالم ہے. میڈیا کے مطابق بہت سے گاؤں  والوں  کا خیال ہے کہ خاندان کے سربراہ جمال الدین  نے سب کو نشہ آور مادہ کھلا کر ان کا گلا ریت دیا اور پھر بعد میں  خود پھانسی لگا لی.45 سالہ جمال الدین بیٹری کا کام کرتا تھا. مرنے والوں  میں  اس کے دو بھائی اور باقی چھ  بچے ہیں .

لیکن اس پورے واقعے میں  مقامی پولیس اور میڈیا کے روئیے پر بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں . کیونکہ پولیس پہنچتی ہے اور قتل کی وجوہات کا پتہ لگانے کا کام شروع ہوتا ہے۔ لیکن جب پولیس ناکام ثابت ہو رہی ہے تو خاندان کے 11 افراد کے قتل کا الزام خاندان کے مكھيا جمال الدین پر ڈالا جا رہا ہے. جبکہ جائے وقوع کی تصاویر کچھ اور ہی بیان کرتی ہیں۔  ایسا لگتا ہے کہ جمال الدین کو  پہلے  مارا گیا.  پھر پھندے پر لٹکایا گیا ہے. ایسا اس لیے لگتا ہے

1.کیونکہ  جمال الدین کی لاش کے پاؤں  سے چپل  تک نہیں  گری، حالانکہ پھانسی کے پھندے پر لٹکنے والا چھٹپٹاتا ہے۔

  1. لاش کے پاس سلینڈر رکھا ہوا ہے جبکہ پھانسی کے پھندے پر لٹکنے والا کرسی / سلنڈر یا دیگر کسی چیز کا سہارا لے کر گلے میں پھندا ڈال کر پاؤں کی ٹھوکر سے سلنڈر یا کرسی وغیرہ کو گراتا ہے، لیکن یہاں  پر سلنڈر تھوڑے سے فاصلے پر دیکھا جاتا ہے اور سلنڈر فرش پر گرتا بھی نہیں ؟ |

03.اور تو اور کیا ایسا ہو سکتا ہے 11 لوگوں  کا بے رحمی کے ساتھ تیز دھار دار اسلحہ  سے گلا ریت دیا جائے اور قاتل کے کپڑے اور ہاتھ پر خون کا ایک بھی چھينٹ نہ ملے ؟؟

04.مارے جانے والوں   میں  جمال الدین کے دو بھائی بھی ہیں، جمال الدین کی صحت دیکھ کر یہ بالکل بھی نہیں  لگتا کہ اس نے اپنے بھائیوں  پر حملہ کیا ہوگا،اور انہوں  نے بچاؤ کی کوشش نہ کی ہوگی.؟

  1. وقوعہ پر کوئی بھی ایسا ثبوت  نظر نہیں آیا جس سے یہ لگے کہ جمال نے اتنے لوگوں کا قتل کیا ہو.اور ان 11 میں  سے کسی نے بھی خود کو بچانے کی کوشش کی ہو؟

06.حادثہ میں  شدید زخمی ہو کر بے ہوش ہونے والی جمال الدین کی بیوی زاہدہ نے بھی اپنے شوہر پر ہی الزام لگایا ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت

جمال 10 لوگوں  کا گلا ریت رہا تھا تو کیا زاہدہ کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ وہ اپنے پڑوسیوں  کو خبردار کرتیں ، ؟

07.جمال الدين کا گھر گھنی آبادی میں  تھا، کیا 11 لوگوں  کی چیخیں  بھی پڑوسیوں  کے کانوں  تک نہیں  پہنچی.

08.اگر گاؤں  والوں  نے قاتل جمال الدین کو ہی بتایا تھا تو پھر میڈیا والوں  کی گاڑی کو کیوں  جلایا گیا؟ اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں  جو اس واقعہ کو خودکشی کے بجائے پوری طور پر سازش کرکے بہیمانہ  قتل کا واقعہ ثابت کرتے ہیں . مقامی پولیس  تو پوری طرح خون کا الزام جمال الدین کے سر پر ڈال کر فائل کو بند کرنے کی کوشش میں  ہے،

 میڈیا بھی وہی دکھا رہا ہے جو ان انتظامیہ بتا رہا ہے .. اس بے رحم و جھنجھوڑ دینے والے  واقعہ کا سچ کیا ہے؟ وہ کون لوگ ہیں  جو اپنی سیاست چمکانے کے لئے غریبوں  کی لاشوں  پر کھیل کھیل رہے ہیں .یہ سب تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا، وزیر اعلی اکھلیش یادو اس واقعہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ جس لاء اینڈ آرڈر کو سامنے رکھ کر وہ اپنے باپ سے لڑ جاتے ہیں، کیا اسی  لاء اینڈ آرڈر کے نفاذ کا احساس انہیں  اس پورے قتل کی تحقیقات  سی بی آئی سے کرانے پر ابھارےگا؟ امیٹھی کے ایم.پی راہل گاندھی اپنے علاقے میں  ہوئے اس شرمناک اور دردناک واقعہ پر کیا کچھ کریں  گے؟

مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی جنہیں  امیٹھی کے باشندوں   سے بڑی محبت ہے، اور وہ ہارنے کے باوجود بار بار یہاں  آتی ہیں،  اور کہتی ہیں  کہ وہ یہاں  کے لوگوں  کا درد ساجھاکرنے آتی ہیں. وہ کیا اس درد کا  بھی احساس کر پائیں  گی؟ یہ تو وقت ہی بتائے  گا لیکن  آج11 لوگوں  کے جنازوں  کو ایک ساتھ کاندھا دینے والوں  کے دل سے اس درد کی ٹيسیں  کبھی بھی ختم نہیں  ہونگی.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔