ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

سماج وادی پارٹی کے بانی اور یوپی کے یادو لیڈر ملائم سنگھ یادو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سائیکل سے کیا تھا۔ شیو پال یادو کے بیان کے مطابق وہ سائیکل سے ہی گائوں  گائوں  گھومتے تھے اور اسکول میں  پڑھاتے بھی تھے۔ ایم ایل اے بن جانے کے کافی دنوں  کے بعد انھوں  نے ایک پرانی موٹر سائیکل خریدی تھی اور کئی برس کے بعد ایک جیپ پرانی لے لی تھی جس کے پٹرول کے لیے اکثر جلسہ کے بعد چندہ کیا جاتا تھا اور بعد میں  وہ دوسرے جلسہ کے لیے روانہ ہوجاتے تھے۔

بیشک یہ محنت کا ہی پھل تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ بھی بنے اور ملک کے وزیر دفاع بھی۔ لیکن اس کی تعریف کی جائے گی کہ انھوں  نے اپنی پوشاک نہیں  بدلی اور وہ آج بھی گائوں  کے یادو لیڈر نظر آتے ہیں  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے ان کی زندگی میں  امر سنگھ داخل ہوئے اس کے بعد سے ان کے اندر بہت کچھ بدل گیا۔ اسی زمانے میں  سچ یا جھوٹ کچھ کہانیاں  بھی زبانوں  پر آئیں  اور اس کے بعد سے ہی ان کی سالگرہ ایسی ہونے لگی کہ اس میں  نیم عریاں  ڈانس بھی ہونے لگے اور وہ سب کچھ ہونے لگا جو عوامی لیڈر کے لیے زہر کہا گیا ہے۔ اور جو اس میں  پھنسا وہ پھر پاک صاف نہیں  رہا۔

اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لیڈر بھی سامنے ہوتے ہیں جن کی اقتدار کی عمر ان سے کہیں  زیادہ ہوتی ہے اور ان کی سادگی ان کا زیور رہتی ہے۔ جیسے بنگال کے ’’جیوتی بسو‘‘ جو 35 سال وزیر اعلیٰ رہے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی رخصت ہوگئے اور آج بھی ہر کسی کے دل میں  ان کا وہی احترام ہے۔ تمل ناڈو کی جے للتا، دہلی کی شیلا دکشت، چودھری چرن سنگھ جو 1957سے وزارت سے جڑے تو وزیر اعظم بن کر الگ ہوئے۔ اوراب ممتا بنرجی ایک مثال ہیں  کہ چھ سال کے بعد بھی ہر بات وہی ہے۔ ملائم سنگھ اگر ایسے ہی رہتے جیسے وہ 2002میں  تھے تو ناممکن تھا کہ اکھلیش ان کے سامنے سر اٹھاتے۔ کوئی بھی بیٹا چاہے وہ کتنا ہی قابل ہو جائے باپ کے سامنے سر نہیں  اٹھا سکتا اور اکھلیش بار بار اس کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ جب طلب کیے جاتے ہیں یہ جواب نہیں  دیتے کہ’’ اب فیصلہ تلوار کرے گی‘‘ بلکہ فوراً حاضر ہوتے ہیں۔  وہ پارٹی کو اپنے ہاتھ میں  رکھنا چاہتے ہیں  اس لیے انھوں  نے اپنے اقتدار کے زمانہ میں  ایک بھی سالگرہ مایاوتی کی طرح منا کر اپنے چھوٹے پن کا ثبوت نہیں  دیا۔ وہ اگر امر سنگھ کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں  ہیں  تو وہ حق بجانب ہیں  اس لیے کہ ان کے باپ کو امرسنگھ نے ہی بدنام اور ان کے گھر کو برباد کیا ہے۔

ملائم سنگھ کے گھر میں  شریمتی سادھنا امرسنگھ کی سفیر ہیں  اور ان کے بیٹے اور بہو کے ہوتے ہوئے اب باپ بیٹے ایک نہیں ہوسکتے۔ وہیں  یہ بات کہ ’’سماج وادی پارٹی پھٹ گئی تو بی جے پی آجائے گی‘‘ مسلمانوں  کو نہیں  کہنا چاہیے۔ دنیا کا مالک اپنی کتاب عظیم میں  کہہ چکا ہے کہ ملک اس کا ہے ،وہ جسے چاہے دیتا ہے اور جس سے چاہے لے لیتا ہے۔ اسے اگر یوپی کو مودی کے اقتدار سے باہر رکھنا ہے تو پوری دنیا بھی اسے نہیں  دے سکتی اور اب اگر یوپی مودی کو دینا ہے تو کوئی بچا نہیں  سکتا اور یہ ماننا پڑے گا کہ غلطی ملائم سنگھ کی یہ ہے کہ انھوں  نے رشتہ کے بھائی اور پارٹی کے سب سے پرانے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کو بار بار پارٹی سے اس طرح نکالا کہ کوئی گھر کے نوکر کو بھی نہیں نکالتا اور یہ صرف امرسنگھ سادھنا اور شیو پال جیسے کے کہنے سے۔ وہ بالکل بھول گئے کہ رام گوپال پارٹی کی شان اور اس کا دماغ ہیں اور خود ان کا ایک مقام ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے بیٹے یادو سنگھ کے جال میں  پھنسے ہیں  اور ان سے کہا گیا ہے کہ اگر سماج وادی پارٹی کو توڑ دو تو بیٹے کو جال سے نکال دیا جائے گا۔

ملائم سنگھ جب الیکشن کمیشن میں  اپنا مقدمہ لے کر گئے تو انھوں نے نہیں دیکھا کہ نہ لکھنؤ سے لیڈروں کی فوج ان کے ساتھ تھی نہ دہلی میں  کوئی ان سے ملنے آیا۔ صرف اس لیے کہ پارٹی کے ورکروں  نے ان سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ شاید انہیں  یاد ہو کہ جب کانگریس کے پارٹی الیکشن بھی باقاعدہ ہوا کرتے تھے تو ڈاکٹر سمپورنانند وزیر اعلیٰ تھے یوپی سی سی کے صدر کا الیکشن تھا جس میں  ایک امیدوار چندر بھان گپتا تھے ا ور مقابلہ پر منیشوردت اپادھیائے تھے جنھیں  ڈاکٹر سمپورنانند کی اتنی حمایت حاصل تھی کہ انھوں  نے اعلان کردیا تھا کہ اگر منیشوردت ہار گئے تو میں  استعفیٰ دے دوں گا۔ اور جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو وہ تین ووٹ سے ہار گئے تھے۔ اس وقت جب سمپورنانند پنڈت نہرو کے پاس گئے تو انھیں  رخصت کرنے سیکڑوں  آدمی اسٹیشن آئے تھے۔

سمپورنانند نے جب پنڈت جی سے کہا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے تو ان کا جواب تھا کہ جب آپ کہہ چکے تھے کہ استعفیٰ دے دوں گا تو دے دیجئے۔ یہ خبر دہلی سے لکھنؤ آگئی اور جب وزیر اعلیٰ واپس آئے تو لکھنؤ کے اسٹیشن پر ایک آدمی بھی ان کا استقبال کرنے والا نہیں  تھا۔ اکیلے اترے اور بید کی کنڈی ہاتھ میں  لٹکائے اپنی گاڑی میں  آکر بیٹھ گئے اور گورنر کو استعفیٰ دے کر گھر گئے۔ اگر ملائم سنگھ کو یہ واقعہ یاد ہوتا تو شاید وہ صرف شیوپال کو اپنے قریب پاکر دہلی جانے کا فیصلہ ملتوی کردیتے اور اکھلیشکو بلا کر پارٹی کا جو کچھ بھی ان کے پاس ہے وہ بھی انہیں  دے دیتے۔ لیکن ایک بات اور ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر سمپورنانند کے گھر میں  کوئی سادھنا نہیں  تھیں  اور مقابلہ پر پہلی بیوی کا بیٹا نہیں تھا۔

امر سنگھ کے ساتھ ہر وقت جیاپردہ رہتی ہیں  اور اب ان سب کے ہوتے ہوئے اعظم خاں  یا کسی کی بھی کوشش فضول ہے، اس لیے کہ سائیکل کسی کو نہیں  ملے گی لیکن ملائم سنگھ کو لے کر امرسنگھ ہر حال میں  الیکشن لڑیں گے اور ہوسکتا ہے وہ ا کھلیش کو اندازہ سے زیادہ نقصان پہنچادیں  اور پھر باپ بیٹے کی دوریاں  ا تنی بڑھ جائیں  کہ وہ ملائم سنگھ کی آواز پر جواب دینا بھی بند کردیں  یا اس کا نتیجہ ملائم سنگھ کے لیے زیادہ برا ہوگا کیوں  کہ ان کے چہرہ پر ورم آگیا ہے اور آنکھیں  بھی بند ہوئی جارہی ہیں  اور اکھلیش کے سامنے پوری زندگی ہے وہ اب نہیں  تو 22میں ، نہیں  تو 27 میں  اپنی جگہ بنالیں گے اس لیے کہ ان کے اوپر کوئی امر سنگھ سوار نہیں  ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔