اسمبلی انتخابات میں سماجوادی کا جھگڑا اورمسلمانوں کی ذمہ داری!

آزاد ہندوستان کے سبھی انتخابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں  عین ووٹنگ کے زمانے میں  خود کو سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں  اپنی برتری کا احسا س دلانے کیلئے ہمیشہ اقلیتوں  کوکئی ٹکڑوں میں  منقسم کرکے انہیں  تتر بتر کرکے مفلوج کرتی رہی ہیں  اور مسلمانوں  کے ووٹ کو منتشر کرنے کرنے کیلئے سارے سازشی حربے اختیار کرتی رہی ہیں۔ اس کا غلط نتیجہ یہ برآ مد ہوتا ہے مسلمان الیکشن کے دن تک جبکہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے پولنگ بوتھوں  جارہے ہوتے ہیں  اس وقت تک بھی یہ طے نہیں  کرپاتیکہ اسے کیا کرنا چاہئے اور اقلیتوں  کا سواد اعظم کس سیکولر جماعت کے حق میں  اپنا حق رائے دہی استعمال کرے گا۔ اس اہم مسئلہ کو  مزید پیچیدہ بنانے کیلئے  جیبی تنظیمیں  اور صاحبان جبہ و دستار بھی اپنے ذاتی منفعت کی روٹی سینکنے کیلئے جس پارٹی کی طرف سے انہیں  جتنا زیادہ ملتا ہے،  اسی کے بقدر کام کرتے ہیں  اوراس طرح مسلمانوں  کے ووٹ کئی ٹکڑوں  میں تقسیم ہوکر بے معنی بن جاتے ہیں ،  جس کا براہ رسات فائدہ فاشسٹ طاقتوں  کو ملتا ہے اور بی جے پی کو بنا کسی محنت کے بازار مارلینے کا آسان موقع فراہم ہوجاتا ہے۔مسلمانوں  کو کونسی طاقتیں  پس وپیش میں  ڈال کر بی جے پی کوراست فائدہ پہنچانے کی ٹھیکیداری کرتی ہیں ۔ اگر ان کے نام لکھیں  جائیں  تو کئی خوبصورت چہرے سے مسلمانوں  کی ہمدردی کا دکھاوٹی  کا لبادہ اترجائے گا اور وہ اپنی کالی کرتوتوں  کی وجہ سے عوام کی نظروں  میں اعلیٰ درجہ کا منافق اورقابل ہزار نفرت بن جائے گا۔ذہن نشین رہے کہ ہے بی جے پی کے اہداف کو کامیابی سے ہم آ ہنگ کرنے کیلئے یہی ملت فروش طبقہ چھوٹی چھوٹی رفاہی تنظیموں  کے بینر دکھا کر سیاسی جماعتوں  سے سوادا کرتا ہے اور جانے یا انجانے میں  بی جے پی کو راست فائدہ پہنچا تاآ رہا ہے۔رفاہ عامہ کے بینر دکھاکر یہی طبقہ مسلمانوں  کے جذبات کو گرم گوشت کی دکان کی طرح کھنکھناتے سکے کہ عوض بیچتاہے اور ملت اسلامیہ کواپنی لچھے دارتقریروں  کے ذریعہ پھانستا ہے اور انہیں  کنفیوژن کی کیفیت میں  مبتلا کرکے اپنی جیبیں  گرم کرلیتا ہے۔اس سے اگرچہ اقلیتوں  اور سیکولر قوتوں  کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے،  مگر ان کی دکانیں  خوب چلتی ہیں  اور مسلمان خوب الو بنائے جاتے ہیں۔  ممکن ہے کہ ہماری مندرجہ بالا توجیہ سے بعض لوگوں  میں  جوخاص طور پر ملت فروشی دکانیں اور ان کے ٹھیکیداروں  کو اعتراض ہو۔مگر یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ ملک کے طول وعرض میں عموماً صاحبان جبہ و دستار مسلما نو ں  کی جیبی تنظیمیں  انتخابات کے زمانے میں  برساتی مینڈک کی طرح شورو غوغا مچاکر بڑی سیاسی جماعتوں  کے وڈیروں  کو یہ احساس دلانے میں  بھر پور کامیاب رہتی ہیں  اور ان کی منہ مانگی مراد بھی پوری ہوجاتی ہے۔  اپنے وطن کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اس جمہوریت دشمن اور مسلم فروش قوتوں  کے گریبان پکڑ نے چاہئیں  اور ان سے یہ سوال ضرور کیا جانا چاہئے کہ تم مسلمانوں  کے درمیان اضطراب اورکنفیوژن کا ماحول بناکر بی جے پی کو راست طور پر فائدہ دلانے کیلئے پوری ملت کوبیچنے پر کیوں  تلے ہوئے ہو۔اس وقت چونکہ اتر پردیش سمیت کم ازکم5ریاستوں  میں  انتخابی بگل بچا یا جاچکا ہے اور مسلم چھاپ جیبی تنظیمیں  ملک کی سب سے بڑی ریاست یعنی اتر پردیش میں  چند ماہ پہلے سے ہی کام پرلگا دی گئیں  ہیں۔ گزشتہ ہفتہ  ڈکٹر ایوب کی قماش کے لوگ ایک مخصوص سنگھی اخبار کو لاکھوں  روپے کے اشتہار دے کریہ اشارہ ضرور دے چکے ہیں  کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں  ماضی کی طرح بی جے پی کو پولرائزیشن کا فائدہ دلانے میں  کوئی کسر باقی نہیں  رکھیں  گے۔چونکہ اس وقت جن ریاستوں  میں  اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے،  ان میں  آ بادی کے لحاظ سے اتر پردیش میں  مسلمانوں  تعداد بڑی اہمیتوں  کی حامل ہیں  اور قومی دارالحکومت کا راستہ بھی اترپردیش سے ہوکر ہی گزرتا ہے،  لہذ اس وقت بیشتر جیبی تنظیموں  کا جماؤڑا لکھنؤسے دہلی تک زیادہ سرگرم نظر آتا ہے۔ المیہ یہ ہیکہ گزشتہ کئی انتخابات سے اب چھٹ بھئے اخبار مالکان کی دکانیں  بھی آراستہ ہونے لگی ہیں،  اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ان چھوٹے اخباروں  کے چھٹ بھئے مالکان کے قلب و نظرمیں  ملت اسلامیہ کی ہمدردی کا مخلص جذبہ صرف دکھاوے کیلئے ہوتا ہے اوراس کے طفیل یہی چھٹ بھئے اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ملی ہمدردی کا راگ الاپتے ہیں ۔ اطلاعات ہیں  کہ کل ہی دہلی میں  اسی خیمے کے چھٹ بھیؤں  نے ایک دکان آراستہ کی تھی اور ڈسپلے کیلئے کے کچھ ابن الوقتوں  کو ساتھ لے کر تالیاں  بٹوری ہیں۔ اب اندازہ لگائیے کہ کل کی  دکان سچ مچ اقلیتوں  کے ووٹوں  کو انتشار سے بچانے کیلئے کھولی گئی تھی یا ملت کے نام پراپنی کائنات بنانے اور امپر یل کھڑا کرنے کیلئے ڈسپلے کی گئی تھی،  اس کا فیصلہ خود آپ کو ہی طے کرنا چاہئے۔یو پی میں  مسلمانوں  کی قابل لحاظ تعداد کے پیش نظر ان کے ووٹوں  کی اہمیت ہر حال قابل توجہ رہتی میں  ہے۔ ان کو متحد کرکے منقسم نہ ہونے دینے سے روک کر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے برخلاف مسلمانوں  کے ووٹوں  کو منقسم و منتشر کرکے بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح بی جے پی نے2014 کے لوک سبھا انتخابات میں  زبردست کامیابی حاصل کی تھی یا 2011 میں  مسلم ووٹوں  کو اپنے لئے  متحد کرکے سماج وادی پارٹی نے اسمبلی میں  زبردست اکثریت حاصل کی تھی۔  ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ 2017 کے یو پی کے اسمبلی انتخابات میں  مسلم ووٹوں  کو منتشر کرنے کی سازش کو کامیاب بنانے کیلئے وہی راہ اختیار کی جارہی ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس قسم کی غلیظ حرکتیں  انجام دینے کی سب سے زیادہ ضرورت بی جے اور دیگر فاشسٹ طاقتوں  کو ہی ہے۔اس تلخ سچائی کوہضم کرنااگرچہ آسان نہیں  ہو۔مگر اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں  کوکنفیوژن سے محفوظ رکھنے سے زیادہ یوپی میں  دھما چوکڑیوں  پر فوکس ہونا چاہئے،  جس میں  سماجوادی سپریمو ملائم سانگھ یادو سوالوں  کے گھیرے میں  زیادہ نظر آ تے ہیں  اور ان کا ’لوہیا کے اصولوں  کاپابند‘ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوتا جارہا ہے۔گزشتہ دوماہ سے یو پی کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی یعنی سماجوادی ریاست اترپردیش میں  حکمراں  جماعت سماج وادی پارٹی میں  سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔اس وقت ملت کے ہمدردوں  کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کسی طرح بھی ملائم سنگھ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے کہ آپ کی ضد اور ہٹ سے مسلمانوں  کا ہی،  بلکہ آپ کا بھی شدید نقصان ہونے والا ہے، جس کی تلافی شاید آپ آخری دم تک نہیں  کرپائیں  گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔