رسول اکرم ﷺکی عادات
مختلف روایات متفق ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم جسم اور لباس کی طہارت و صفائی کا بیحد خیال رکھتے تھے۔ کبھی کبھار آپؐ بال بھی بڑھا لیتے تھے مگر بالوں کو نہایت صاف ستھرا اور کنگھی سے سنوار کر رکھتے تھے۔
آپؐ تیز تیز چلتے تھے حتیٰ کہ ان کے صحابہؓ کو ان کے ساتھ قدم ملانے میں دقت پیش آتی تھی، مگر وہ گفتگو نہایت آہستہ آہستہ کرتے تھے۔ ایک راوی کے مطابق ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے کہ ان کے ہر لفظ کا ایک ایک حرف بآسانی گنا جاسکتا تھا‘‘ چونکہ رسولؐ کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ قانون تھا لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ وہ جو کچھ کہیں ، سننے والے اسے اچھی طرح سمجھ لیں۔ وہ سادہ اور شستہ زبان استعمال کرتے تھے، خواہ وہ کسی فرد سے گفتگو کر رہے ہوں یا مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے ہوں، ان کا طرز تکلم ہر طرح کے تصنع سے پاک ہوتا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ اپنے جوتوں کی خود مرمت کرتے، اپنی بکریوں کا دودھ دوہتے اور اس کام کیلئے اپنے خادم کو تکلیف دینا بھی گوارا نہ کرتے۔ ان کے ذاتی خادم حضرت انسؓ کا کہنا ہے: ’’میں نے دس سال رسولؐ اللہ کی خدمت اقدس میں گزارے، انھوں نے مجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا یا کیوں کیا ہے؟ وہ ہمیشہ مجھ سے نہایت شفقت فرماتے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ننھے منے بچوں سے بڑا پیار کرتے تھے اور جہاں کہیں بچوں کو دیکھتے خوش ہوجاتے اور بچوں کو ہنسانے کیلئے ان سے مذاق بھی کرتے۔ فطری طور پر وہ اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے بھی بیحد محبت کرتے۔ بسا اوقات وہ نماز کے دوران بھی ان میں سے ایک کو بازوؤں میں اٹھا لیتے۔ جب آپؐ سجدہ میں جاتے تو نواسے کو پاس کھڑا کرلیتے اور سجدہ سے اٹھ کر اسے پھر گود میں لے لیتے۔ جب دونوں بچے ذرا سیانے ہوئے تو وہ مسجد نبویؐ میں ادھر ادھر دوڑتے پھرتے، نماز باجماعت کے دوران کبھی کبھار وہ رسولؐ اللہ کی ٹانگوں میں سے گزر جاتے، رسولؐ خدا انھیں کچھ نہ کہتے۔
اللہ کے رسولؐ ہر ایک سے مشفقانہ برتاؤ کرتے، حتیٰ کہ معمر خواتین ان سے لمبی لمبی بے سرو پا باتیں بھی کرتیں مگر رسولؐ خدا کوئی اکتاہٹ محسوس نہ کرتے۔ یہ خواتین انھیں بازو سے پکڑ کر ٹھہراتیں اور رسولؐ خدا نہایت شفقت سے ان کی باتیں سنتے اور اپنا بازو بھی نہ چھڑاتے۔
سفر کے دوران وہ قافلہ کے ہر فرد کے ساتھ رابطہ رکھتے اور بار بار لوگوں کے پاس جاتے تاکہ وہ خوش رہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر وہ اپنے پرانے دوست حضرت جابرؓ کے پاس گئے جو اپنے بوڑھے اونٹ پر سوار جارہے تھے۔ حضورؐ نے خود پر اس طرح سنجیدگی طاری کرلی کہ کوئی بھی دیکھنے والا سمجھ سکتا تھا کہ نبیؐ مذاق فرما رہے ہیں۔ پھر انھوں نے جابرؓ سے کہا ’’اچھا؛ کیا تم اپنا اونٹ میرے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں ! مگر ایک شرط پر کہ میں اونٹ مدینہ واپس جاکر آپ کے سپرد کروں گا‘‘۔ جابرؓ نے جواب دیا۔
’’ لوگے کیا؟‘‘
’’آپ بتائیے‘‘۔
’’ایک درہم میں بیچوگے؟‘‘ رسولِؐ خدا نے کہا۔
’’اے اللہ کے نبیؐ! آپ مجھے لوٹنا چاہتے ہیں ‘‘ جابرؓ پکارا۔
’’تو چلو؛ دو درہم لے لو‘‘۔
’’ہر گز نہیں ‘‘۔
’’تو تین، چار، پانچ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت بڑھائی اور بالآخر چالیس درہم تک پہنچ گئے اور حضرت جابرؓ رضا مند ہوگئے۔ پھر رسولؐ اللہ نے چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور قافلے میں کسی اور شخص سے ملاقات کیلئے روانہ ہوگئے۔ مدینہ واپس پہنچ کر جابرؓ نے اپنی زوجہ سے تمام ماجرا کہہ سنایا اور بتایا کہ کس طرح دورانِ سفر رسولؐ خدا سے خوشگوار ملاقات ہوئی تھی۔ نیک بخت کچھ زیادہ ہی محتاط تھی اور اس نے حضرت جابرؓ سے اصرار کیا کہ وہ رسولؐ اللہ کی بات کو مذاق تصور نہ کریں بلکہ اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر لے جائیں۔ جب رسولؐ اللہ کو اطلاع ملی تو وہ مسکرائے اور انھوں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ جابر کو چالیس درہم ادا کر دیئے جائیں۔ رسولؐ اللہ نے وہ اونٹ بطور تحفہ دوبارہ جابرؓ کے حوالے کر دیا۔ یہ اونٹ اس کے بعد بھی کئی سال تک حضرت جابرؓ کے پاس رہا۔ جب بھی جابر کو اس واقعہ کی یاد آتی اور وہ رسولؐ پاک کے اس یادگار تحفے کو دیکھتے تو نبیؐ کی یاد میں کھوجاتے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر بھی بڑی شفقت فرماتے۔ ایک روز حضورؐ فوجی دستے کی معیت میں جارہے تھے کہ ایک صحابیؓ حضورؐ کے پاس کسی پرندے کے چند چھوٹے چھوٹے بچوں کو لایا، ان کی ماں بھی ساتھ تھی، رسولؐ خدا نے اس سے پوچھا تو صحابیؓ نے بتایا ’’میں نے ان بچوں کو ایک گھونسلے میں دیکھا، جونہی میں ان کے قریب گیا ان کی ماں پرواز کر گئی، میں نے تمام بچوں کو اپنے رومال میں لپیٹ لیا، جب میں چلا تو ان کی ماں بھی میرے سر پر منڈلانے لگی۔ میں نے رومال کو زمین پر کھول کر رکھ دیا تو ماں بھی بچوں کے پاس آگئی اور میں نے اسے بھی بچوں ساتھ رومال میں لپیٹ لیا۔ اب یہ سب آپ کے سامنے ہیں ‘‘۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیؓ کو حکم دیا کہ وہ فی الفور واپس جائے اور بچوں کو ان کی ماں سمیت ان کے گھونسلے میں چھوڑ کر آئے۔
اسی طرح ایک مرتبہ رسولؐ پاک نے فوج کے ہمراہ جاتے ہوئے ایک کتیا کو دیکھا جس کے بچے ماں کا دودھ پی رہے تھے، حضورؐ نے ایک سپاہی کو کتیا کے پاس کھڑا کر دیا، اسے حکم دیا گیا کہ وہ ساری فوج گزرنے تک کتیا پاس کھڑا رہے اور کسی کو اسے پریشان نہ کرنے دے۔
ایک روز مدینہ میں ایک اونٹ بھاگتا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا۔ فوراً ہی چند افراد بھی وہاں پہنچ گئے جو اونٹ کو پکڑنا چاہتے تھے۔ رسولؐ خدا نے ان سے ماجرا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’اونٹ بہت بوڑھا ہوگیا ہے اور اب وہ کنویں سے پانی کھینچنے کا کام نہیں کرسکتا؛ چنانچہ ہم اسے ذبح کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔ رسولؐ اللہ کو اونٹ پر رحم آگیا۔ انھوں نے کہا ’’اسے چراگاہ میں چھوڑ دو، اس نے تمہاری طویل عرصے تک خدمت کی ہے، اسے اب ’’پنشن‘‘ پر جانے کا حق ملنا چاہئے‘‘۔ اونٹ کے مالک رسولؐ اللہ کی بات سے متفق ہوگئے اور اونٹ کو واپس لے گئے۔
ایک اور سفر کے دوران حضورؐ چند دوستوں کی معیت میں تھے۔ انھوں نے صحرا میں ملنے والے ایک گڈریے سے بھیڑ خریدی۔ حضورؐ کے ایک رفیق سفر نے کہا’’میں بھیڑ کو ذبح کرلیتا ہوں ‘‘۔ تو میں اس کی کھال اتار دوں گا‘‘۔ دوسرے صحابی نے ذمہ داری لی۔ تیسرے صحابی نے گوشت پکانے اور کھانا تیار کرنے کی ہامی بھرلی۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کام اپنے ذمے لے لیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ’’میں جاکر خشک لکڑیاں اکٹھی کرتا ہوں ‘‘۔ تمام صحابہؓ نے جو موجود تھے کہاکہ یا رسولؐ اللہ!یہ کام بھی ہم سب کئے لیتے ہیں مگر رسولؐ پاک نے فرمایا: ’’میں لکڑیاں ضرور لاؤں گا، یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ آپ سب لوگ تو کام کریں اور میں کوئی مدد نہ کروں ‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ سے مذاق بھی فرمایا کرتے تھے اور صحابہؓ اس سے لطف اٹھاتے۔ حضورؐ کا ایک سادہ لوح سا صحابی تھا جو کوئی زیادہ خوش رو نہ تھا۔ ایک دن رسولؐ اللہ نے اسے مدینہ کے بازار میں جاتے دیکھا، حضورؐ دبے پاؤں پیچھے سے اس کے پاس گئے، اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا اور بولے: ’’کیا کوئی یہ غلام خریدنا چاہتا ہے‘‘۔ صحابی نے گردن موڑ کر دیکھا کہ اسے کس نے بازوؤں میں لے رکھا ہے۔ رسولؐ اللہ کو دیکھ کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے اپنی حضورؐ کے سینے کے ساتھ زور سے لگاتے ہوئے کہا ’’یا رسول اللہ! اس غلام کی فروخت سے آپ کو کچھ زیادہ رقم نہیں ملے گی‘‘۔ رسولؐ اللہ نے اسے چھوڑ دیا اور بولے ’’مگر خدا کی نظروں میں تمہاری قدر و قیمت بہت زیادہ ہے‘‘۔
ایک روز ایک اجنبی رسولؐ اللہ کے پاس آیا۔ رسولِؐ خدا نے اسے کھلایا پلایا اور رات گزارنے کیلئے بستر بھی دیا۔ وہ کوئی نادان دشمن تھا، اس نے بستر خراب کر دیا اور علی الصبح چلاگیا۔ یوں وہ اللہ کے رسولؐ سے اپنی تصوراتی دشمنی کا انتقام لینا چاہتا تھا۔ کچھ دور جاکر اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی تلوار تو رسولؐ اللہ کے گھر میں ہی چھوڑ آیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس آیا، اس نے دیکھا کہ اللہ کے رسولؐ اس کے گندے کئے ہوئے بستر کو اپنے دست مبارک سے دھو رہے ہیں۔ جب رسولؐ پاک نے ’’مہمان‘‘ کو دیکھا تو انھوں نے اس کی تلوار اٹھا کر اس کے حوالے کردی، اجنبی کو ملامت تک نہ کی۔ اَکھڑ بدو پر حضورؐ کے اس اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے رسولؐ اللہ سے معافی طلب کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
ایک روز مسجد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس کی داڑھی الجھی ہوئی تھی اور سر کے بالوں میں کنگھی تک نہیں کی گئی تھی۔ رسولؐ اللہ نے اسے مسجد سے باہر جاکر ہاتھ منہ دھونے اور بالوں میں کنگھی وغیرہ کرنے کو کہا۔ جل ہی وہ حجام کی دکان سے واپس آیا تو رسولؐ پاک نے کہا ’’کسی خوفناک شیطان کی مانند نظر آنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے؟‘‘ ایک اور موقع پر رسولؐ پاک نے ایک مسلمان کو نہایت خستہ حالت میں دیکھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور بدن پر جھول رہے تھے۔ جب رسولؐ اللہ نے اس سے ایسی حالت کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا ’’یا رسولؐ اللہ!میں کوئی غریب شخص نہیں، اللہ نے مجھے کافی دولت دی ہے مگر میں سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیتاہوں اور خود جھوٹے موٹے پر اکتفا کرتا ہوں ‘‘۔ اس پر رسولؐ اللہ نے کہا ’’یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جن نعمتوں سے نوازا ہے وہ بندے کو ان نعمتوں سے مستفید ہوتے دیکھنا بھی پسند کرتا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی بامعنی اور روحانی اصلاح کرنے والی باتوں پر دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں مگر اوپر جو بیان ہوا ہے اس سے رسولِؐ خدا کی بہترین انسانی صفات اور آپؐ کے مثالی معاشرتی رویہ کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔