جان ایمان:اطاعت الٰہی و عشق رسول ﷺ

الحمد للہ رب اللعالمین !تمام خوبیاں  اللہ رب العزت کو جو مالک و پالنہار ہے سارے جہان والوں  کا اور لاکھوں ، کروڑوں  احسان ہے بے شمار نعمتیں  عطا فرمانے والے رب کریم کا کہ ایمان جیسی اعلیٰ نعمت سے بھی مالامال فرمایا اور ایمان کی جان محبت رسول اللہ  ﷺ سے بھی سرفراز فرمایا۔ چونکہ یہ نعمت سب کو نہیں  ملتی، اللہ جسے چاہتاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے بندوں  کے بارے میں  ارشاد فرمارہاہے:قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوْا لْفَضْلِ الْعَظِیْم (القرآن،  سورہ آل عمران، آیت 73۔74) ترجمہ: تم فرمادو کہ فضیلت اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔(کنزالایمان) اللہ کے بعض خاص بندے محبت رسول سے اپنی زندگی کو مزین فرماکر رضائے الٰہی میں  فدا رہتے ہیں  تو اللہ رب العزت ان کو اپنے مقبول بندوں  میں  شامل فرما کر ولایت کاشاندار تاج عطا فرماتا ہے۔  عطائے ربی ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔  یہ اس کی رحمت ہے۔

ایمان کی جان محبت رسول: نبی کریم  ﷺ نے فرمایا:قال : قال النبی ﷺ :ولایومن احدکم حتیٰ أکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعینترجمہ: نبی کریم  ﷺ نے فرمایا تم میں  سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہوگا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں  سے زیادہ اس کے دل میں  میری محبت نہ ہوجائے۔ (بخاری شریف، باب: رسول کریم  ﷺ سے محبت رکھنا ایمان میں  داخل ہے۔)راوی حضرت یعقوب بن ابراہیم، عبد العزیز بن صہیب،  حضرت انس، حضرت آدم ابن ابی یاس نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ وغیرہ وغیرہ سے روایت فرمایا ہے۔ حدیث نمبر 15، 16،17،21،425۔مسلم شریف حدیث نمبر166، حدیث نمبر 240وغیرہ وغیرہ۔ احادیث کے ذخیرہ میں  اور بھی احادیث کریمہ موجود ہیں ، مطالعہ فرمائیں ۔

 قرآن کریم میں  بھی ایمان کی جان محبت رسول ہی بتایا گیا ہے۔ قُل ْاِنْ کَانَ آبَا وُ کُمْ وَاَبْنَائُ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعِشِیْرَ تُکُمْ۔۔۔۔۔۔الخ (القرآن سورہ توبہ، آیت 9) ترجمہ: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں  اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں  ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں  اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں  لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں  تو راستہ دیکھو یہاں  تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں  کوراہ نہیں  دیتا۔(کنز الایمان) دوسری جگہ سورہ آل عمران کی آیت مبارکہ 31،32،33 پھر سورہ نساء آیت 64 وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم واحادیث میں بہت جگہ یہ حکم موجود ہے۔ (خوش عقیدوں  کے لئے اتنا ہی کافی ہے فاسقوں ،  بد عقیدوں  کے لئے اللہ سے ہدایت کی دعا ہے)صحابہ کرام، تابعین،  تبع تابعین،  ائمہ مجتہدین و بزرگان دین،  اولیاء کرام کی محبت رسول وعشقِ رسول کے بہت سے واقعات مستند کتابوں  میں  موجود ہیں ۔ دلِ بینا و عشقِ رسول سے بھرا سینہ ہوجائے تو توفیق و ہدایت سے نصیبہ میں  اضافہ ہوگا۔

  اولیاء کرام اور صوفیا بزرگوں  کی تو بات ہی نرالی ہے۔ اللہ سے عشق اور محبت رسول کی ہی وجہ سے تو ان پر انعامات کی بارشیں  ہوئی ہیں  اور آج بھی جاری و ساری ہیں ۔ صوفیا بزرگوں  کی بیاض (Diary)میں  بہت دلچسپ واقعات صاحبِ بصیرت کے لئے سبق آموز ہوں  گے۔ مشہور بزرگ عارف باللہ،  سیدی علامہ احمد برنسی معروف بہ شیخ رزوق رحمۃ اللہ علیہ 899 ہجری ماہ صفر، 1493عیسوی اپنی کتاب (الجمع بین الشریعۃ والحقیقۃ) میں  فرماتے ہیں  کہ تصوف کی تقریباً دوہزار تعریفیں  اور تفسیریں  آئی ہیں ۔ ان سب کا حاصل اللہ تعالیٰ کی طرف سچی توجہ ہے جس شخص کو مولائے کریم کی طرف سچی توبہ اور رسول سے محبت حاصل ہے اسے تصوف کا ایک حصہ حاصل ہے۔ (فقہ و تصوف 94،95 مصنف شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔  ترجمہ علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری،  اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی)مشہور بزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے تصوف کے بارے میں  پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:(1) مخلوقات کی موافقت سے دل صاف کرنا(2) طبعی یا نفسانی اوصاف سے جدا ہونا(3) نفسانی خواہشات سے گریز کرنا(4) روحانی صفات کا طلبگار ہونا(5) حقیقی علوم سے متعلق ہونا(6) دائمی اچھے کاموں  کا اختیار کرنا(7) تمام امت کا خیر خواہ ہونا(8) حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہونا (9) شریعت میں  رسول اللہ  ﷺ کا پیروکار ہونا(10) اور شریعت کی تمام صفات اور برکات کا حامل ہونا وغیرہ وغیرہ۔  (فقہ تصوف صفحہ 93،94، مصنف شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)

آج کے صوفیوں  کو تصوف کی صحیح تعلیم پر نظر رکھناچاہئے۔ علم وعمل کے ساتھ رسول اللہ  ﷺ کی شریعت کا پابند ہونا انتہائی ضروری ہے ورنہ سب بیکار ہے۔

نبی رحمت ﷺ کے در پر حاضری:   کون ایسا مسلمان ہے جو آقا کے در پر حاضری کا خواہاں  نہ ہو یوں  تو بزرگوں  کو حضور کی زیارت نصیب ہوتی رہتی ہے پر عاشقوں  کی بات ہی نرالی ہے وہاں  جاکر بالمشافہ ملاقات یہ تو اللہ کی نعمت ہی ہے اور رسول  ﷺ کی عنایت ہی تو ہے۔ شاہ مدینہ کے در پر حاضری کا تصورآہاآہاآہا۔۔۔۔کوئی کیا لکھے کیا بتائے سب کو حضور سے محبت کے اعتبار سے انعام سے نوازا جاتا ہے۔ کوئی بھی خالی نہیں  لوٹتا۔ ناچیز بھی حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوچکا ہے اور حضور کے در پر حاضری بھی نصیب ہوئی۔  اے کاش، حضور کرم فرمادیں  پھر بلاوا آجائے آمین!

  ادب گاہیست زیر آسماں  از عرش نازک تر                             جنیدو بایزید ایں  جا نفس گم کردہ می آید

دربار رسول پر حاضری جہاں  جنید وبایزید اور بڑے بڑے ولیوں  کی سانسیں  تھم جاتی ہیں  بن مانگے جھولیاں  بھر جاتی ہیں  پر مانگنے والے بھی خوب ہیں  اور کیا مانگتے ہیں  اور کیسے نوازے جاتے ہیں ، مطالعہ فرمائیں ۔ بہت سی کتابوں  کے مصنف حضور علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور تفسیر جلالین شریف جو کہ ہر مکتبہ فکر کے مدرسوں  میں علمائے کرام کو پڑھائی جاتی ہے، نو یں صدی(791۔864 ہجری) کے بزرگ جلالۃ المحلی جنہوں  نے جلالین شریف کے شروع کے پندرہ پاروں  کی تفسیر فرمائی پھر بعد کے پندرہ پاروں  سے آخر تک حضور علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ جو دسویں  صدی ہجری (791۔911) نے اپنی کتاب ’’الحاوی‘‘ شریف میں  تحریر فرماتے ہیں  کہ حضرت شیخ السید احمد کبیر الرفاعی رضی اللہ عنہ جو مشہور بزرگ اکابر صوفیا میں  سے ہیں  ان کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ ۵۵۵ہجری میں  حج سے فارغ ہوکر سرکار اعظم  ﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور قبر انور کے سامنے کھڑے ہوئے تو دو شعر پڑھے۔

ِفیْ لَۃِ الْبُعْدِ رُوْحِیْ کُنْتُ اُرْسِلُھَا                     تُقَبِّلُ الْاَرْضَ عَنِّیْ وَھِیَ نَائِبَتِیْ

  ترجمہ: یعنی میں  دور ہونے کی حالت میں  اپنی روح کو خدمت مبارکہ میں  بھیجا کرتا تھا جو میری نائب بن کر حضور کے آستانہ ٔ مقدسہ کو چوما کرتی تھی۔

وَھٰذِہٖ دَوْلَۃُ الْاَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ                     فَاَمْدُ یَمِیْنَکَ کَیْ تَخَطّٰی بِھَا شَفَتِیْ

 ترجمہ:یعنی اب جسموں  کی حاضری کا وقت آیا ہے،لہٰذا اپنے دست اقدس کو عطا فرمائیے تاکہ میرے ہونٹ اس کو چومیں ۔

شاہ من سلطان عالم سید احمد کبیررفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس عرض پر سرکارِ اقدس  ﷺ نے قبر انور سے اپنے دست مبارک کو باہر نکالا جس کو آپ نے چوما۔ البیان المشید میں  ہے کہ اس وقت کئی ہزار کا مجمع مسجد نبوی میں  تھا جنہوں  نے اس واقعہ کودیکھا اور حضور کے دستِ اقدس کی زیارت کی۔ ان لوگوں  میں  محبوب سبحانی حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ سبحان اللہ سبحان اللہ !!(فقہ و تصوف 94،95 مصنف شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ،  ترجمہ علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ خطبات محرم صفحہ ۶۵ مصنف حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی،  کتب خانہ امجدیہ، دہلی،  خانقاہ رفاعیہ، بڑودہ شریف گجرات میں  آپ کی آرام گاہ ہے جہاں  لاکھوں  فرزندان توحید آپ کے فیضان کرم سے مالا مال ہورہے ہیں  اور ماہ جُمادی الاولیٰ میں  آپ کا عرس نہایت تزک و اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے،خانقاہ رفاعیہ ہندوستان کے مشہور و معروف اور قدیم خانقاہوں  میں  سے ہے۔ خانقاہ کے زیر اہتمام کئی اسکول اور انگلش میڈیم اسکول بھی چل رہے ہیں  اس سے ہزاروں  لوگ دین و دنیا کے علم سے آراستہ ہورہے ہیں ۔آج کے صوفیوں  کو تصوف کی صحیح تعلیم پر نظر رکھنا چاہیئے۔علم و عمل کے ساتھ رسول اللہ  ﷺ کی شریعت کا پابند ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔

 یہ ہے اللہ سے عشق و رسول اللہ کی محبت کا انعام۔  اللہ بزرگوں  کے طفیل ہم سب کو مدینہ کی حاضری نصیب فرمائے۔ ان اللہ والوں  کے صدقے ہم سب کو حضور کے دیدار سے مشرف فرمائے اور خدائی اطاعت و رسول اللہ  ﷺ کی محبت سے ایمان کو منورو مجلّی فرمائے۔آمین، ثم آمین !

تبصرے بند ہیں۔