خلیجی ممالک میں ہندوستانیوں کی نوکریاں چھن جانے کے اسباب

خلیجی ممالک میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے ہندوستانی شہریوں کی نوکریاں چھین لیں

امگریشن سسٹم میں غیر ضروری وغیر منطقی تبدیلی کی وجہ سے خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب سے ہندوستانی ملازمین کی لاکھوں نوکریاں پاکستان اور بنگلہ دیش منتقل

پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کافی گرم جوشی دیکھی گئی ہے جس نے دونوں ملکوں کے درمیان مزید معاشی اور ثقافتی رشتوں کو ہموار کیا ہے۔ 1947 میں آزادی کے بعد ہی سے نئی دہلی نے ریاض کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار کر لیے تھے۔ اور دونوں جانب سے اعلی سطحی دوروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں پچھلے سال 2 اپریل کو خادم الحرمين الشريفين شاہ سلمان بن عبد العزيز آل سعود کی دعوت پر ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے 2 دن کے سرکاری دورے پر سعودی عرب کادورہ کیا۔ اس دورے میں دونوں ممالک کے لیڈران نے سیاست، معیشت، سیکورٹی، دفاع، مین پاور اور باہمی روابط کے میدان میں اپنے سودمند روایتی دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی جہت اور بلندی عطا کرنے کی کوشش کی اور ان رشتوں کو اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی سطح تک پہنچانے کے لیے اہم پیش رفت بھی کی۔

ہندوستان اور سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو اس طور سے تشکیل دیا ہے کہ دونوں فریق اس کے ممکنہ ثمرات سے بحسن وخوبی مستفید ہوسکیں ۔ حالیہ دنوں میں دونوں کے درمیان تعلقات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ضروریات کی تکمیل کے لیے دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیںاور کسی بھی باہمی معاملہ میں ہر دو فریق یک طرفہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا ہے ۔

کاروبار اور تجارت کے باب میں، مالی سال 2014-2015 کے مطابق سعودی عرب آج ہندوستان کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 26751۔56 ملین امریکی ڈالر ہے۔ اس ضمن میں چین (70717۔18)، امریکہ (62117۔21) اور متحدہ عرب امارات (49735۔69) ملین کے ساتھ بالترتيب پہلے دوسرے اور تیسرے مقام پر ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب خام تیل کے سب سے بڑے سپلائر کے طور پر ہندوستان کے لیے سب سے اہم توانائی کا ذریعہ بھی ہے جہاں سے ہم اپنی پوری ضرورت کا تقریبا 20 فیصد خام تیل برآمد کر تے ہیں۔

تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافتی روابط کے علاوہ ہندوستان کے خلیج کی سب سے بڑی معیشت والی مملکت کے ساتھ ایک بہت ہی خاص نوعیت کا رشتہ پایا جا تا ہے جس نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مربوط اور مستحکم کیا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق، 2016 تک 3ملین سے زائد مضبوط ہندوستانی کمیونٹی ملازمین اور کارکنان کی شکل میں سعودی عرب میں رہ کر کام کر رہی ہے۔ یہ سعودی مملکت کی سب سے بڑی غیر ملکی کمیونٹی ہے جو مملکت کے اندر رہنے والے 10 ملین غیر ملکی باشندوں کا تقریبا 30 فیصد ہے۔ سعودی ایمپلائرس ہندوستانیوں کو ان کی مہارت، نظم وضبط، قانون کا احترام اور امن پسند مزاج کی وجہ سے ترجیحی بنیاد پر بہت پسند کرتے ہیں۔

اس وقت تقریباً 7 ملین ہندوستانی شہری تیل سے مالا مال خلیجی ممالک میں رہ کر کام کررہے ہیں۔ جن میں سے 40 فیصد سعودی عرب میں اور 30 فیصد متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ پچھلے دس سالوں کے اعداد وشمار کے مطابق سعودی عرب میں ہندوستانی شہریوں کی تعداد بہت تیز رفتاری سے بڑھی ہے۔ 2004 میں ان کی تعداد 13,00,000 تھی جو 2015 میں بڑھ کر 29,60,000 ہوگئی ہے۔ دس سال کی قلیل مدت میں قریب دو گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اور نتیجہ کے طور پر سعودی عرب سے ہندوستان میں ارسال زر(remittance) کی آمد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔

درج ذیل گراف سے پچھلے دس سالوں میں ہندوستان سے سعودی عرب جانے والے مزدوروں کی تعداد میں ہوئے خاطر خواہ اضافہ کو اچھی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔

https://emigrate.gov.in/ext/fetchECReport.action Accessed on 10/02/2017

2008 سے 2015 تک ہندوستان نے ہر سال اوسطاً 3 لاکھ ورکرز سعودی عرب بھیجنے میں کامیابی حاصل کی۔ 2008 میں 2,27,657 سے شروع ہوکر یہ تعداد 2012 میں سب سے زیادہ 3,56,489 تک پہنچ گئی تھی۔ پچھلے دس سالوں میں ہر سال سعودی عرب جانے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ہی ہندوستانی کمیونٹی کو سعودی عرب کی سب سے بڑی غیر ملکی کمیونٹی بنا نے میں اہم رول ادا کیاہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیجي ممالک میں ہندوستانی اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اضافہ کی شرح صرف سعودی عرب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ 2007 کے بعد تمام خلیجی ممالک میں اس طرح کا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وزارت خارجہ کے شعبہ برائے اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ویبسائٹ www.emigrate.gov.in بتاتی ہے کہ 2007 میں 1,73,607 ورکرز ہندوستان سے 6 خلیجی ممالک میں بغرض ملازمت گئے ۔ پھر 2014 اور 2015 میں مذکورہ ممالک میں یہ تعداد بڑھ کر بالترتيب 7,75,846 اور 7,58,684 پہنچ جاتی ہے۔

اگر ہم وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود پچھلے پانچ سال (2016 کو چھوڑکر) کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو ایک اہم پہلو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان سالوں میں ہندوستان نے اوسطاً ساڑھے سات لاکھ ورکرز کو خلیجی ممالک میں ایمپلائمنٹ ویزا پر بھیجا ہے ، جن میں سے تقریباً 3.25 لاکھ سعودی عرب گئے۔ ذیل کے ٹیبل سے ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں پچھلے 5 سالوں میں ہندوستاني ورکرز کی تعداد ان 6 خلیجی ممالک میں کس قدر بڑھی ہے۔

باوجود اس کے حکومت ہند نے اوورسیز ایمپلائمنٹ کی از سر نو تنظیم کاری کے لیے مئی 2015 میں ای مائگریٹ e-migrate نامی ایک نیا کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کرایا۔ گورنمنٹ کی منشا یہ تھی کہ اس نظام کے ذریعے سے کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہندوستانی مزدوروں کو ان کے غیر ملکی ایمپلائرس کے ہاتھوں ممکنہ استحصال سے بچایاجائے گا۔ حکومت نے اس وقت مزید یہ دعوی کیا تھا کہ یہ نظام ایز آف ڈوانگ بزنس کی سہولت کو مزید پروان چڑھائے گا اور اس انڈسٹری کے سارے حصہ داروں کے لیے ہر جہت سے آسان اور فوری کارروائی کا ذریعہ ثابت ہو گا اور ایسا کرتے ہوئے حکومت نے خود اپنی پیٹھ تھپتھپائی تھی کہ اس طور سے این ڈی اے گورنمنٹ عملامینیمم گورنمنٹ، میکسییمم گورنس کے اپنے اس وعدے کو پورا کر رہی ہے جس کا اعلان کرکے مودی جی نے 2014 کے جنرل الیکشن میں ہندوستانی عوام سے کرکے حکومت حاصل کی تھی۔

پچھلے کئی سالوں سے خلیجی ممالک اور دوسرے ان تمام ممالک سے جہاں جانے کے لیے کم تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کو ایمیگریشن کلیرنس کی ضرورت پڑتی ہے، ایک کثیر تعداد میں شکایتیں موصول ہو رہی تھیں۔ 17 نومبر2016 کو راجیہ سبھا میں ایک سوال (مغربی ایشیائی ممالک میں ہندوستانی سفارتخانے کوورکرز کی جانب سے کتنی شکایتیں موصول ہوئی ہیں) کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ میں منسٹر آف اسٹیٹ جناب ایم جے اکبر نے بتایا کہ 2014، 2015 اور 2016 میں بالترتیب 17,801، 16,390 اور 13,132 شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس سسٹم کو لانے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اس کے ذریعہ سے ان شکایتوں کو منظم طریقے سے حل کرنے میں مدد مل سکے اور ورکرز کے حالات کو مزید بہتر بنایاجاسکے۔

مختلف خلیجی ممالک سے پچھلے 4 سالوں میں موصول ہونے والی شکایتوں کا رکارڈ حسب ذیل ہے ۔

گورنمٹ کے اس اعداد وشمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 87 فیصد شکایتیں ان ہندوستانی ورکرز کی جانب سے موصول ہوتی ہیں جو خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی درست ہےکہ ہندوستان کے وہ ورکرز جن کے پاس ای سی آر پاسپورٹ ہے، ان میں سے 87 فیصد سے زیادہ انہیں 6 خلیجی ممالک میں رہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو شکایتوں کےیہ اعداد وشمار اتنے زیادہ تشویشناک نہیں ہیں جتنی تشویش بعض ہندوستانی میڈیا رپورٹوں میں پیش کی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تعداد تناسب کے لحاظ سے معقول ہے اور زیادہ پریشان کن نہیں ہے اگر ہم اس کا موازنہ ان تمام شکایتوں سے کرتے ہیں جو دوسرے ای سی آر ممالک سے ہمیں موصول ہوتی ہیں۔

گورنمٹ کے اس اعداد وشمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 87 فیصد شکایتیں ان ہندوستانی ورکرز کی جانب سے موصول ہوتی ہیں جو خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی درست ہےکہ ہندوستان کے وہ ورکرز جن کے پاس ای سی آر پاسپورٹ ہے، ان میں سے 87 فیصد سے زیادہ انہیں 6 خلیجی ممالک میں رہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو شکایتوں کےیہ اعداد وشمار اتنے زیادہ تشویشناک نہیں ہیں جتنی تشویش بعض ہندوستانی میڈیا رپورٹوں میں پیش کی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تعداد تناسب کے لحاظ سے معقول ہے اور زیادہ پریشان کن نہیں ہے اگر ہم اس کا موازنہ ان تمام شکایتوں سے کرتے ہیں جو دوسرے ای سی آر ممالک سے ہمیں موصول ہوتی ہیں۔

ان شکایتوں کے سد باب کے لیے اور ہندوستانی مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جو نیا سسٹم متعارف کرایا گیا تھا وہ سارے غیر ملکی ایمپلائر س سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ای مائگریٹ سسٹم پر رجسٹر کرائیں۔ ہر اس غیر ملکی ایمپلائر کے لیے جو ہندوستان سے بلو کالر ورکرز کو اپنے یہاں بلانا چاہتا ہے، اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ ایک رجسٹریشن فارم کو پر کرے جو پھران کے متعلقہ سفارتخانہ کے افسران کے ذریعہ سے تفتیش کی جائے گی۔ اور اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ صرف اس سسٹم کو اختیار کرکے ہی کوئی غیرملکی ایمپلائر ہندوستانی ورکرز کو اپنے یہاں پر بلا سکتا ہے۔ اور یہ سارا کام آن لائن ہوگا۔ چاہے تو وہ بلاواسطہ ورکرز کو بلائے یا کسی ایجنٹ کے توسط سے۔ یہ نظام کئی مراحل میں نافذ کیاگیا ۔ سب سے پہلے21 مئی 2015 میں اسے متعارف کرایاگیا اور جزوی طور پر نافذ کیاگیا ۔ اور بالآخر یکم اپریل 2016 سے مکمل طورپر نافذ کردیا گیا۔

حالیہ سالوں میں، اس نظام کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ حکومت ہند نے غیرملکی ایمپلائرز کے لیے ایک اور نئی ہدایت جاری کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستانی مزدوروں کی تنخواہ میں اضافہ کریں۔ اس طرح سے ہندوستان نے خلیج کے غیر ملکی اپمپلائرز پر دباؤ ڈالنا چاہا تاکہ وہ ہندوستانی مزدوروں کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ پر مجبور ہوجائیں اور ہندوستان مزید کروڑوں ڈالر ایک نئی آمدنی کے طور پر کما سکے۔ حکومت کی اس ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے بحرین، کویت، قطر، عمان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سفارت خانے کے اہلکاروں نے اچانک سرکاری اور نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کی کم از کم تنخواہ کی سطح کو بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں ہندوستانی سفارت خانے نے مجوزہ کم از کم تنخواہ جو کہ ہر ماہ 12 سو سعودی ریال تھی، بڑھا کر 17 سو ریال کر دی۔ متحدہ عرب امارات میں بعض قسم کی مزدوری کے لیے کم ازکم تنخواہ 12 سو درہم کو بڑھا کر 15 سو درہم کردیا گیا۔ (ہر قسم کی مزدوری کی کم از کم مجوزہ تنخواہ کو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں(https://emigrate.gov.in/ext/preMrwSearch.action)۔ اس وقت اس بات کی توقع ظاہر کی گئی تھی کہ چونکہ ہندوستان خلیجی ممالک کو لیبر سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اس لیے اس کی اس کوشش اور خواہش کو غیر ملکی ا یمپلائرز مکمل طور سے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اور اگر خلیج میں اپنے شہریوں کو اعلی تنخواہ دلانے میں ہندوستان کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ مزید کئی بلین امریکی ڈالر بطور ارسال زر (remittance) کما کر اپنی معیشت کو بھی ایک حد تک مضبوط کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ خلیج میں رہنے والے زیادہ تر ہندوستانی مزدور اپنی کمائی کا بیشتر حصہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان ہر سال تقریباً 70 بلین امریکی ڈالر بطور ارسال زر (remittance) اپنے ان ورکرز سے حاصل کر رہا ہے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس 70 بلین ڈالر میں سے 52 فیصد حصہ خلیج میں رہنے والے ہندوستانیوں کا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ تنخواہ کو بڑھانے کی اس مہم کا منفی رد عمل بھی ہوسکتا ہے اور ہندوستان کی لیبر انڈسٹری کو اس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جس سے نتیجتاً ہندوستان میں وه ارسال زر (remittance) کی مد متاثر ہو سکتی ہے جو 4 فیصدتک ہمارے ملک کے جی ڈی پی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ان دونوں ضوابط کے تناظر میں دیکھا جائے تو پچھلے دو تین سالوں میں یکے بعد دیگرے جو صورتحال ابھر کر سامنے سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ خلیج جانے والے ہندوستانی ورکرز کی ایک بڑی تعداد پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ہندوستانی مزدوروں کے باہر جانے کی تعداد میں بھاری کمی آئی ہے اور بالخصوص سعودی عرب میں پچھلے دو سالوں کے دوران زبردست گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس بھاری گراوٹ کے اسباب کو جاننے سے پہلے آئیے سال 2016 کے اس اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور پھر اس کا پچھلے دو سال (2014 اور 2015) سے موازنہ کرتے ہیں۔

جب ہم 2015 اور 2016 کا موازنہ کر تے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک خلیجی ملک میں 2016 میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں بڑی تیز گراوٹ ہوئی ہے۔ صرف کویت کو چھوڑ کر (جبکہ وہاں پر بھی 2014 کے مقابلے میں کمی آئی ہے) ۔ مجموعی طور سے2015 کے مقابلے 2016 میں ہم 2،51،388 ہندوستانی ورکرز خلیجی ممالک نہیں بھیج پائے۔ لیکن حیران کن انکشاف یہ ہے کہ سب سے بڑی گراوٹ سعودی عرب میں درج کی گئی ہے جہاں ایک سال کی مدت میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ ورکرز کم بھیجے جا سکے۔ یہ خلیج اور بالخصوص سعودی عرب میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں بہت بڑی گراوٹ ہے جس کی ماضی میں کو کوئی مثال نہیں ملتی ۔

خلیجی ممالک میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں گراوٹ کے اسباب

اس تحقیق کے مطابق، بنیادی طور پر دو عوامل کی وجہ سے یہ صورتحال ابھر کر سامنے آئی ہے؛ 1) مجوزہ کم از کم تنخواہ، 2) لمبا ای مائگرریٹ پروسیجر۔ یہ دونوں چیزیں اصلا باہر ممالک میں ہندوستانی ورکرز کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے متعارف کرائی گئی تھیں لیکن اس نے لاکھوں ہندوستانی مزدوروں کو جو پہلے ہی سے خلیج میں کام کر رہے تھےیا وہ جو وہاں جانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک پریشان کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے ۔

1۔ کم از کم مجوزہ تنخواہ (Minimum Referral Wages (MRW: حکومت ہند نے ابھی کچھ ہی سال پہلے ہندوستان سے باہر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے کم ازکم اجرت پانے کا ایک معیار متعین کیاتھاتاکہ ای سی آر (Emigration Checked Required)ممالک میں مختلف پیشوں (مثلا کارپینٹر، راج مستری، ڈرائیور، فٹر، نرس اور گھریلو نوکر) سے جڑے ہندوستانی ورکرز کی تنخواہوں کو اچھے طریقے سے ریگولیٹ کیا جاسکے۔ ای سی آر سسٹم ہندوستان کے ساتھ ایک خاص نوعیت کا نظام ہے۔ اس کے تحت مختلف النوع قسم کے پاسپورٹ مختلف تعلیمی لیاقت رکھنے والے لوگوں کے لئے الگ الگ بنائے جاتے ہیں۔ ای سی آر پاسپورٹ کے حاملین ہندوستانیوں کو ملک سے باہر 18 نامزد ممالک میں سے کسی میں بھی زورگار حاصل کرنے کے لیے وزارت خارجہ کے شعبہ برائے تحفظ مہاجرین (Protector of Emigrants) سے ایک امیگریشن کلیرنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنی ہوتی ہے۔

اجرت کا یہ کم از کم معیار اس لیے متعین کیا گیا ہے کہ یہ اس لیبر انڈسٹری میں مشغول سارے حصہ داروں (بھرتی کرنے والی ایجنسی، آجر، مہاجر مزدور) کے لیے ایک ریفرنس کے طور پر کام کرےگا۔ اور اس آئیڈیا کو لانے کے پیچھے – جیسا کہ وزارت خارجہ کے ایک بیان سے ظاہر ہوتا ہے – بنیادی منطق اور دلیل یہ تھی کہ اس سے ہندوستان کے مہاجر مزدوروں کو اجرت کے تعیین کے سلسلے میں ان کے مالکوں کے ہاتھوں ناموافق صورتحال سے بچانے میں مدد ملے گی ۔ اس لیے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ان کو جو اجرت دی جائے وہ اس سے بہت کم ہو جو میزبان ملک یا خود ہندوستان میں اس طرح کے کام کے لیے عموماً دی جاتی ہے۔ اس وقت جب یہ ہدایت جاری کی گئی تھی تو ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان وای ایس کٹاریا نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز(Reuters)کو ایک انٹرویو میں بتایاتھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی مزدوروں کو بہتر تنخواہیں ادا کی جائیں۔ اور اس فیصلے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان میں مہنگائی، ہندوستانی کرنسی کی (گرتی) قدر اور خلیج میں زندگی گزارنے کے لئے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں دن بدن ہو رہے اضافے قابل ذکر ہیں ۔”

عام طور سے دنیا کے مختلف ممالک میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کم از کم اجرت کے معیار کے نفاذ سے ورکرز کی نقل مکانی کی رفتار اور پھر اس سے پیدا ہونے والی آمدنی، دونوں کے لیےخاصی الجھنیں اور دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیںاور رہی ہندوستان کی بات تو یہاں کے مہاجر ورکرز پر اس ریگولیشن کے منفی اثرات کا پڑنا اور جگہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ صاف اور واضح ہے۔ اس لیے کہ مجوزہ کم از کم اجرت کا معیار، ای سی آر پاسپورٹ والے ہر اس ہندوستانی کو جو باہر ممالک میں ملازمت کے لیے جانا چاہتا ہے، امیگریشن کلیرنس دینے کے لیے پیشگی شرط سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص باہر ممالک میں کام کرنے تبھی جا سکتا ہے جب اس کے ملازمت کے معاہدے میں ماہانہ تنخواہ اس متعلقہ پیشہ کے کم از کم اجرت کے معیار کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔

ستمبر 2016 میں شائع ہوئی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی ایک رپورٹ کے مطابق ان سبھی ملکوں کے مقابلے میں جو خلیج میں ورکرز بھیجتے ہیں، ہندوستان کا اپنے شہریوں کے لیے مجوزہ کم از کم اجرت کا معیار سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے اول روز سے اس ضابطے کو سارے خلیجی ممالک کے ریکروٹنگ ایجنٹس اور فارن امپلائرز کی جانب سے شدید احتجاج اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اور حد تب ہو گئی جب دو خلیجی ممالک نے اس وقت دھمکی بھی دے دی کہ وہ ہندوستان سے ملازمین کی تعداد کو کم کریں گے اور ان کی جگہ وہ مزید کم اجرت والے ملازمین پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بلائیں گے۔ 2014 میں یو اے ای کی ایک ریکروٹمنٹ ایجنسی اورسیز لیبر سپلائی کے مینیجنگ ڈائریکٹر محمد جندران نے اس ضابطے کے ممکنہ منفی نتائج کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ “یقیناً یہ نیا ریگولیشن خلیج کی کمپنیوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اب نئے ملازمین کو اپنے ملک میں بلانے کے لیے بہتر اور زیادہ قابل عمل آپشن کے طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرف رجوع کریں۔ مزید یہ کہ مزدوروں کی نقل مکانی کے امور کے بہت سے ماہرین اس نئے ضابطے کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں اور بہت سے مواقع پر یہ کہا ہے کہ ہندوستانی ملازمین کے لئے کم از کم اجرت کے معیار کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ قدم آجروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ ہندوستان سے مزید ملازمین کو نہ بلائیں۔

خلیجی ممالک کے بعض سرکاری حکام نے بھی اس نئے ضابطے کے سلسلے میں اپنی ناراضگی اور عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ اس ضابطہ کو نافذ کرتے وقت مختلف خلیجی ممالک میں رائج مخصوص معیارات کو مد نظر رکھا گیا ہے نہ ہی اس کی کسی ایسی کمیٹی نے سفارش کی ہے جس میں اس کے سارے متعلقہ اسٹیک ہولڈر س شریک رہے ہوں۔

اس گفتگو کے بعد اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ اجرت کی شرح میں اضافہ نے خلیج میں ہندوستانی ملازمین کی تعداد کو گھٹانے میں کیا رول ادا کیاہے؟ جس سے مزید اس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان خلیجی ممالک نے ملازمین کی اپنی ضروریات کو کہاں سے پورا کیا ہوگا؟ یقیناً انہوں نے ہندوستان کو چھوڑ کر کافی حد تک پاکستان اور بنگلہ دیش سے مزید ملازمین کو بلایا ہے اور اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان دو ممالک سے ملازمین ہندوستان کے مقابلہ میں کم اجرت پر دستیاب ہیں ۔ ہم آگے اس کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش نے پچھلے دو سالوں میں جب سے یہ ریگولیشن نافذ ہے، خلیجی ممالک میں کتنے ملازمین بھیجے اورماضی میں ان کے اعداد وشمار کیا تھے پھر ہندوستان کےحالیہ اعداد وشمار سے اس کا موازنہ کریں گے۔

2۔ طویل ای مائیگریٹ پروسیجر eMigrate lengthy procedure: جیسا کہ ہم پہلے ہی اس سسٹم کے بارے میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں، اس لیے دوبارہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہاں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس بات کی جانچ پڑتال کریں کہ یہ نظام کیسے اور کیوں خلیج میں ہندوستانی ملازمین کی تعداد گھٹنے کا سبب بنا ہے۔ ای مائیگریٹ کا پورا منصوبہ دراصل اس مقصد کے ساتھ بنایا گیا تھا کہ اس سے ہندوستانی ملازمین کے ساتھ ہونے والی ممکنہ دھوکہ دہی سے بچایا جاسکے گا اور کم ازکم تنخواہ کے متعین معیار کے مطابق ان کو اجرت دلائی جاسکے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ غیر ملکی ا یمپلائرز نے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان اور بنگلہ دیش سے ملازمین کو بلانا شروع کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی کہ خلیجی ممالک میں جو اسپانسرس اور ایمپلائرز ہیں وہ عام طور سے ماڈرن ٹکنالوجی سے بہت زیادہ باخبر نہیں ہیں یا یوں کہہ لیں کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کو پیشہ ورانہ طور پر استعمال کی ان کو ابھی ویسی عادت نہیں ہے جیسی کہ دیگر ممالک کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔

ہندوستانی ملازمین کے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں حکومت ہند کی منشا اور نیت پر کوئی شک نہیں کرسکتا۔ لیکن بیوروکریٹک طریقہ کار نے اس پورے منصوبے کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ بیوروکریسی نے اس نظام کی منصوبہ بندی کے وقت یہ بات ذہن میں نہیں رکھی کہ ایک غیرملکی ایمپلائرہندوستان سے ملازمین کو بلانے کے لیے کیوں اس قدر تکلیف دہ الجھنوں کا سامنا کرنا چاہے گا جبکہ اسے اسی طرح کے ملازمین کم اجرت پر، کسی ایسے سخت پریشان کن پروسیجر کو بروئے کار لائے بغیر دوسرے ممالک میں آسانی سے دستیاب ہیں ۔

صرف کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی کے استعمال کی الجھنیں ہی اس کا سبب نہیں ہیں، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی سارے موانع ہیں جو اس گراوٹ کا سبب بنی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ اس منصوبے کے نفاذ کے ابتدائی مرحلے میں اس کا آن لائن ویب سسٹم -e-migrateبہت سست روی سے کام کر رہا تھا۔ شروع شروع میں اس سے ہر مہینے تقریباً 8 ہزار پاسپورٹ ہی کلیئر ہوپا رہے تھے۔ جبکہ پچھلے سسٹم کے تحت وزارت خارجہ ہر مہینے 40 ہزار سے زائد پاسپورٹ کا امیگریشن کیلیئرنس کر رہی تھی۔ اس سست رفتاری کی وجہ سے کئی مہینوں تک پاسپورٹس کے کلیئرنس میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہوتی رہی اور صرف کچھ مہینوں کے اندرہی ایک لاکھ سے زائد پاسپورٹس ہندوستان بھر میں 10 پروٹکٹر آف امیگرنٹ کے دفاتر میں اکٹھے ہو گئے۔ چنانچہ اسی سست رفتاری اور حد سے زیادہ تاخیر کی وجہ سے ہزاروں ویزوں کی میعاد ختم ہوگئی اور وہ ورکرز باہر نہیں جاسکے۔ یہ غیر ملکی ا مپلائرز کی جیب پر ایک بہت بڑا خسارہ تھا اس لیے کہ وہ ہزاروں ریال اور درہم خرچ کر کے ان ویزوں کو اپنے ملک میں حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ پاسپورٹ کے کلیئرنس میں تاخیر، ای مائیگیریٹ سسٹم میں وقتا فوقتاً تکنیکی خرابی اور ویزوں کے میعاد کا ختم ہونا، ان سب چیزوں نے مل کر فارن امپلائرز کو بہت زیادہ ناراض اور ہتاش کردیا اور بالآخر انہوں نے ان سب باتوں سے پریشان ہوکر ہندوستان کے حصے کی ملازمتوں کو دوسرے ممالک کی طرف منتقل کرنے کا ذہن بنا لیا۔

کس کا فائدہ، کس کا نقصان؟

عربی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ مصائب قوم عند قوم فوائد (کسی کا نقصان کسی کے لیے فائدہ کا موجب بن جاتا ہے) اس محاورے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص یا ملک کسی چیزکوکھو دیتا ہے تو کوئی دوسرا شخص یا ملک اس چیز کو حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک نظام فطرت ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کی ہار دراصل کسی اور شخص کی جیت ہوتی ہے۔ بالکل یہی چیز اس مسئلے میں بھی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ ہندوستان خلیجی ممالک کی ملازمتوں کا جیسے ہی ایک بڑا حصہ گنواتا ہے، ویسے ہی پاکستان، بنگلہ دیش اور کچھ دوسرے ممالک ان ملازمتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آئیے اب ہم سعودی عرب کی کیس اسٹڈی کرتے ہیں، جہاں ہندوستانی ملازمین کی تعداد میں سب سے زیادہ گراوٹ درج کی گئی ہے ۔ صرف سعودی عرب میں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے، 2016 میں یہ گراوٹ تقریباً ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ گراوٹ معقول اور قابل جواز ہے؟ اور کیا یہ گراوٹ ہندوستان کے علاوہ ان ممالک کے اعداد وشمار کی رپورٹس میں بھی جھلکتی ہیں جو خلیج کی مملکتوں میں اپنے شہریوں کو ملازمت کے لئے بھیجتے ہیں؟ پیش ہے ایک تجزیاتی جائزہ۔

پچھلے کئی سالوں سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں اس طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ خام تیل کی قیمتوں میں گراوٹ، عرب ممالک میں سیاسی عدم استحکام، داعش کا ظہور اور سعودی عرب کی یمن کی حوثی جماعت سے جنگ کی باعث خلیجی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کی معیشت خستہ حالی کی شکار ہوچکی ہے۔ اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ اس خطے کے سیاست دان اور حکام ملکی بجٹ میں تخفیف کرنے اور عوامی سبسڈی کو ختم کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ یہ ساری باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن اس ضمن میںآئی حالیہ گراوٹ کا سبب یہی ہے یا اس کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں؟

جدہ سے جاری ہونے والے معروف انگریزی اخبار سعودی گزٹ نے 28 نومبر 2016 کو ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے اعداد وشمار (General Authority for Statistics) کے حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اس سال کے تیسرے سہ ماہی کے سروے تک سعودی عرب میں غیر ملکی ملازمین کی آمد میں 12.17 فیصد کا اضافہ درج ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سروے کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ سعودی عرب میں غیر ملکی باشندوں کی تعداد 11.6 ملین پہنچ گئی ہے جو کہ 2015 میں صرف 10.2ملین تھی۔ یعنی ایک سال کی مدت میں تقریبا 14 لاکھ کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب میں غیر ملکی ملازمین کی آمد نہ کبھی رکی ہے اور نہ اس میں گراوٹ آئی۔ بلکہ 12.17فیصد کا اس میں مزید اضافہ درج ہوا۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ غیر ملکی ملازمین سعودی عرب میں کہاں سے آئے؟

اس پیچیدہ صورتحال کو حل کرنے کے لیے، میں نے انٹرنیٹ پر ان دوسرے ممالک کے اعداد وشمار کو تلاش کرنا شروع کیا جو ہندوستان ہی کی طرح خلیجی ممالک میں اپنے شہریوں کو بطور ملازمین بھیجتے ہیں۔ اور بالآخر میں حکومت پاکستان اور بنگلہ دیش کی ان ویب سائٹس تک پہنچ گیا جو ان دونوں ملکوں کے اوورسیز امپلائیمنٹ اور اس کے لیے اعداد و شمار کی دیکھ ریکھ کے لیے مختص ہیں۔ 1)   بیورو آف مین پاور، امپلائیمنٹ اینڈ ٹریننگ (BMET) http://www.bmet.gov.bd/BMET/index   یہ حکومت بنگلہ دیش کی ویب سائٹ ہے جو ملک سے باہر بھیجے گئے سارے ملازمین کا اعداد وشمار رکھتی ہے۔ 2) بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز امپلائیمنٹ (BEOE)  http://www.beoe.gov.pk/ یہ حکومت پاکستان کی ویب سائٹ ہے جو ملازمت کی غرض سے ملک سے باہر جانے والے تمام شہریوں کا ریکارڈ رکھتی ہے۔

ان دونوں ویب سائٹس پر موجود اعداد وشمار پر غور کرتے ہوئے مجھےاس وقت شدید حیرانی ہوئی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان دونوں ممالک سے سعودی عرب کے لیے جانے والے ملازمین کی تعداد میں 2015 اور 2016 میں زبردست اضافہ درج ہوا ہے۔ آئیے اس ٹیبل کو دیکھتے ہیں۔ اس سے معاملہ اور واضح ہو جائے گا۔

2014 تک صورتحال یہ تھی کہ (یہ وہی سال ہے جس کے آس پاس حکومت ہند نے اوورسیز امپلائیمنٹ کی نئی تنظیم کاری کے لیے 2 نئے ضابطے متعارف کرائے تھے) پاکستان اور بنگلہ دیش ہر سال سعودی عرب کے لیے بالترتیب تقریباً 3 لاکھ اور تقریباً 10 ہزار ملازمین ارسال کرتے تھے۔ لیکن اچانک یہ دیکھنے کو ملا کہ 2015 اور 2016 میں پاکستان نے تقریباً 5 لاکھ اور بنگلہ دیش نے 2015 میں 60 ہزار اور 2016 ایک لاکھ 40 ہزار ملازمین سعودی عرب بھیجنے میں کامیاب ہوا ۔

ایک دوسرے زاویہ سے ہم اس کو اس طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ سعودی عرب میں ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی ملازمین کی کل تعداد میں بنگلہ دیش کا شیئر کئی سالوں سے تقریباً 2 فیصد رہتا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور سے 2015 اور 2016 میں بڑھ کر بالترتيب 7 اور 19فیصدہوگیا۔ اور جہاں تک رہی پاکستان کے شیئر کی بات تو وہ ہمیشہ ہندوستان سے کم رہا ہے، لیکن 2015 اور 2016 میں پاکستان نے ہندوستان کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ناقابل یقین حد تک 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو پہلے تقریباً 45 فیصد اوسطاً ہر سال رہتا تھا۔ اور ہندوستان کا شیئر جو 2011 میں 55 فیصد اور 2014 میں 50 فیصد تھا، حیران کن طور سے گر کر 2015 میں 34 فیصد اور 2016 صرف 21 فیصد رہ گیا ہے۔ درج ذیل چارٹ سے اس کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔

یہ چارٹ اور پچھلی ٹیبل دونوں سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش نہ صرف یہ کہ خلیج میں ہندوستانیوں کے حصے کی ملازمتوں کو چٹ کر گئے ہیں بلکہ ملازمتوں کے پیدا ہونے والے نئے مواقع بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

اس صورتحال پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ آئیے سب سے پہلے ان دو چارٹس پر غور کرتے ہیں اور ان کاآپس میں موازنہ کرتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش نے اس موقع سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ اس طور سے کہ 2014 تک وہ سعودی عرب صرف 2 فیصد ملازمین بھیجتا تھا۔ لیکن 2 سال کی قلیل مدت میں اس نے سعودی عرب میں اپنے ملازمین کے بھیجنے کی تعداد میں تقریبا دس گنے کا اضافہ درج کیا ہے اور 2016 میں 19 فیصد ملازمین سعودی عرب بھیجے ہیں۔ اتنی چھوٹی مدت میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنا کسی ملک کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ اور رہی پاکستان کی بات تو ان کا سعودی عرب میں پہلے ہی سے ملازمت کا ایک بڑا شیئر تھا، لیکن اس نئے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں پاکستان بھی سعودی عرب میں ملازمت کے اپنے شیئر کو مزید 25 فیصد بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے اور 48 فیصد سے 60 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ بد قسمتی سے اس پورے منظرنامے کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو ہندوستان کے حصے میں آیا ہے، جو 2014 تک سعودی عرب میں تقریبا 50 فیصد ملازمین بھیجتا تھا، لیکن 2016 میں وہ بری طرح سے گھٹ کر محض 21 فیصد پر آگیا۔

یہ ہندوستانی معیشت کا بہت بڑا مالی خسارہ ہے۔ اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے ہمارے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ اس طور پر اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان دونوں ملکوں کی ہندوستان کی معیشت بالخصوص اس کے خلیج سے حاصل ہونے والی رقوم (remittance) پر ایک خطرناک سرجیکل اسٹرائک ہے جس کے مواقع ہم نے خود فراہم کیے ہیں ۔ وزارت خارجہ اپنے ایک بیان میں کہتی ہے کہ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں میں ہندوستان نے 70 بلین امریکی ڈالر بطور ارسال زر (remittance) دینا بھر میں پھیلے ہندوستانیوں سے حاصل کی ہے۔ اور یہ دوسرے ملکوں کو حاصل ہونے والے ارسالات زر کے مقابلے میں سب بڑی مقدار ہے۔ مزید یہ کہ ہر سال ہندوستان جو رقم فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ (FDI)کے تحت حاصل کرتا ہے، یہ رقم اس مقدار کا تین گنا زیادہ ہے۔ اس لیے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس 70 بلین امریکی ڈالر کی ہندوستان کی معیشت میں کیا اہمیت اور ضرورت ہے۔ اس 70 بلین ڈالر میں سے تقریباً 52 فیصد خلیج میں رہنے والے ہندوستانیوں کی طرف سے آیا ہے۔ اور اس میں سے 30 فیصد سعودی عرب سے اور 38 فیصد متحدہ عرب امارات سے موصول ہوا ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے پچھلے 2 سالوں کے دوران سعودی عرب سے تقریباً 50 فیصد اور پورے خلیج سے 35 فیصد ملازمتوں کو گنوا دیا ہے تو اس کا مطلب بالکل صاف ہے کہ مالی سال 2016-2015 اور 2017-2016 میں ہم ارسال زر (remittance) کی مد میں ایک بڑے خسارے کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔

خسارے کی وسعت

خلیجی ممالک جانے والے ہندوستانی ملازمین کی تعداد میں اچانک پیدا ہونے والی اس کمی سے، ہندوستانی مزدوروں، ان کے فیملیز اور ہندوستانی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ہند کی جانب سے کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہے۔ حال ہی میں، اسی سال 9 جنوری کو بنگلور میں منعقد ہوئے یوم مہاجرین ہند (Pravasi Bhartiya Diwas) کی تقریب میں بھی اس مسئلہ کا ذکر تک نہیں کیا گیا چہ جائے کہ اس خود ساختہ الجھن سے ابھر نے اور اسے حل کرنے کی بات کی جاتی۔

پورے خلیج میں ہم 2015 کے مقابلے میں 2016 میں 2،51،388 ملازمین نہیں بھیج سکے۔ آیئے ہم فرض کرتے ہیں کہ اگر یہ ساری ملازمتیں ہندوستانی ورکرز کو دی جاتیں، تو ان ملازمین، ان کے اہل خانہ اور ہندوستان کی معیشت پر اس کے کیا مثبت اثرات منتج ہوتے؟ یقیناً ان سبھی کے حق میں یہ ایک بہت ہی عمدہ اور بہترین کامیابی سمجھی جاتی۔ اور اب جبکہ یہ ساری ملازمتیں ہندوستانیوں کو نہیں مل سکیں، تو اس کے کیا منفی اثرات ان مزدوروں کی زندگیوں پر، ان کے اہل خانہ اور ہندوستان کی معیشت پر پڑ نے والے ہیں؟ اس سوال کا جواب یقیناً پریشان کن ہے۔ میں یہاں کوشش کر رہا ہوں کہ اس کا جواب بھی ایک مفروضے میں ہی دینے کی کوشش کروں۔ یہ ایک کھلا راز ہے جسے ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہر ایک ہندوستانی مزدور خلیجی ممالک سے ہر مہینہ تقریباً 20 ہزار ہندوستانی روپے اپنے گھر بھیجتا ہے۔ کوئی بھی اس اعداد وشمار سے انکار نہیں کر سکتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت سے ہندوستانی ملازمین اس سے بھی زیادہ رقم ہر مہینے اپنے وطن ارسال کرتے ہیں، لیکن ہم نے بیس ہزار کے مبلغ کو بہت ہی احتیاط سے اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ میری گفتگو کی بنیاد مضبوط اور مبالغہ آرائی سے پاک ہو۔ اب ہم اس رقم کو ان سارے ملازمتوں سے ضرب دیں جو ہم نے پچھلے ایک سال میں کھو دی ہیں (251388 × 20000 = 502,77,60,000) تو کل رقم ہر مہینہ 500 کروڑ ہندوستانی روپے سے زیادہ ہوگی، اور پھر اسکو 12 مہینے سے ضرب کردیں (502,77,60,000×12=6033,31,20,000) تو یہ ایک سال میں 6 ہزار کروڑ سے زیادہ ہوجائے گا۔

اس مفروضے سے میں حکومت کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یہ 6 ہزار کروڑ روپے کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ یہ لاکھوں ہندوستانیوں کے گھروں میں چراغ روشن کرسکتی ہے۔ اگر یہ نیا امیگریشن سسٹم پچھلے والے سسٹم کی طرح ہی آسان ہوتا تو ہندوستان نہ صرف ان ملازمتوں کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوتا بلکہ 2014 کے مقابلے میں 2015 اور 2016 میں خلیجی ممالک میں اور زیادہ اپنے ملازمین بھیجنے میں کامیاب ہوتا۔ یعنی یہ کہ ہر سال ساڑھے سات لاکھ سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ خلیجی میڈیا کے بہت سے مستند ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ کئی ایک خلیجی ممالک نے 2015 اور 2016 میں مہاجرین کے روزگار کے کوٹے میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں کافی اضافہ کیا ہے۔ جس کا بیشتر حصہ پاکستان اور بنگلہ دیش نے حاصل کرلیا۔

یہ ہندوستانی ملازمین جو ہماری ہی پالیسی کی وجہ سے خلیجی ممالک کام کرنے نہ جا سکے، اب حکومت ہند کی ذمہ داری بن چکے ہیں کہ حکومت انہیں یہیں نوکری فراہم کرے اور مختلف عوامی سبسڈیز کے ذریعہ سے ان کے کھانے اور رہنے کا بندوبست کرے۔ جبکہ دوسری طرف ملک کے اندر صورتحال یہ ہے کہ یہاں پر پچھلے کئی سالوں سے ملازمت کے مواقع میں حد درجہ کمی محسوس کی جارہی ہے۔ پانچویں آل انڈیا سالانہ سروے برائے روزگاری وبے روزگاری (Fifth Annual Employment-Unemployment Survey At All-India Level) کے مطابق ہندوستان میں 77 فیصد گھروں میں کوئی بھی باقاعدہ تنخواہ دار فرد نہیں ہے۔ 29 ستمبر 2016 کو ایک رپورٹ میں دی انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی کہ2010 سے لیکر اب تک 2015-2016 میں ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ مرکز کی این ڈی اے حکومت کے لیے یہ اعداد وشمار اپنے آپ میں ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں وجوہات کی بنا پر موجودہ حکومت نے اس ضمن میں کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے مزید ملازمتوں کو پیدا کیا جاسکے۔ میک ان انڈیا مہم بھی اسی کی ہی ایک کوشش ہے جسے ایک بہت ہی دلچسپ نعرے “ملازمت پیدا کرنے والے بنیں، نہ کہ ملازمت حاصل کرنے والے” کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔ لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جب حکومت کو خود ملک کے اندر ملازمتوں کو پیدا کرنے میں اس قدر دشواریوں کا سامنا ہے، تو وہ کیوں اور کیسے اپنے اوورسیز ملازمتوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی، اور خاص طور سے وہ ملازمتیں جو ہندوستانی شہریوں کے لیے خلیجی ممالک میں دستیاب تھیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کے لیے مختص تھیں، اس لیے کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستانی ملازمین کو خلیج میں ترجیحی بنیادوں پر پسند کیا جاتاہے۔

سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ہندوستانی ریاستیں

ہندوستان کے ایک معروف کاروباری اخبار “بزنس اسٹینڈرڈ” نے 19 جنوری 2017 کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے ای مائیگرٹ سسٹم کے تحت 2016 میں کسی بھی ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہندوستانی ملازمین اترپردیش اور بہار سے ای سی آر ممالک میں ملازمت کی غرض سے گئے۔ جیسا کہ آپ درج ذیل ٹیبل سے اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

اخبار نے پروٹکٹر جنرل آف ایمگرنٹ (PGE) ایم سی لوتھر کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ 2016 میں ای سی آر ممالک میں ملازمت حاصل کرنے میں اتر پردیش اور بہار کا شیئر بالترتيب 30 اور 15 فیصد ہے۔ جبکہ تمل ناڈو اور کیرلہ صرف 7 اور 6 فیصد کے ساتھ بہت پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ ماضی میں یہی دونوں ریاستیں ان ممالک میں ایسے ہندوستانی ملازمین کو بھیجنے کی اہم ریاستیں سمجھی جاتی تھیں۔

پروٹکٹر جنرل آف ایمگرنٹ کے ذریعہ فراہم کردہ یہ معلومات کلی طور پر صحیح نہیں ہیں۔ یہ بات تو حقیقت پر مبنی ہے کہ اتر پردیش اور بہار 2016 میں سر فہرست رہے۔ لیکن ان دونوں ریاستوں نے پہلی مرتبہ اول مقام حاصل نہیں کیاہے۔ بلکہ 2014 سے لگاتار یہ دونوں ریاستیں سر فہرست رہی ہیں اور 2016 لگاتار تیسری مرتبہ تھا۔ مزید یہ کہ میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمام ہندوستانی ریاستوں میں جو ای سی آر ممالک کو ملازمین ارسال کرتی ہیں، اتر پردیش اکیلا ہی 2009 سے اب تک سر فہرست چلا آرہا ہے۔ کیرلہ تو صرف 2008 میں سر فہرست رہا ہے۔ چنانچہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس اعداد وشمار کو 2016 کی بڑی کامیابی کے طور کیوں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ یہ کامیابی تو پچھلے 2 سالوں سے لگاتار حاصل ہو رہی تھی۔

اس تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گرچہ اترپردیش اور بہار نے دوسری ہندوستانی ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ملازمین باہر ممالک بھیجے ہیں، مگر یہی دو ریاستیں ہیں جن کا خلیجی ممالک میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں اس اچانک ہونے کمی سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اور یہ صرف نئے متعارف ہوئے ای مائیگرٹ سسٹم اور کم از کم مجوزہ تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 2010 سے   یہ دونوں ریاستیں کتنے لوگوں کو ای سی آر ممالک میں ملازمت کی غرض سےبھیجتی تھیں۔

2010 سے ہی ان دونوں ریاستوں سے باہر ممالک جانے والے ملازمین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ اوپر والے چارٹ سے واضح ہے۔ اور صرف انہیں ریاستوں تک یہ چیز محدود نہیں ہے، دیگر ریاستوں میں بھی اسی قدر اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مشاہدہ کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ (https://emigrate.gov.in/ext/preViewPdfGenRptAction.action) ،  2010 میں اتر پردیش اور بہار نے بالترتيب 1،40،501 اور 60،414 ورکرز ملک سے باہر ملازمت پر بھیجے تھے۔ جن کی تعداد 5  سال کے عرصے میں بڑھ کر 2015 میں اترپردیش سے 2،36،495 اور بہار سے 1،07،285 ہوگئی۔ لیکن 2016 میں دونوں ریاستوں کو اپنے ملازمین کی تعداد میں زبردست گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔2015 میں 2،36،495 سے گرکر اترپردیش 2016 میں 1،43،737 پر آگئی (یعنی 92،758 کی گراوٹ) اور بہار 1،07،285 سے گر کر 76،384 پر آگئی (یعنی 30،901 کی گراوٹ) ۔ اگر ہم وزارت خارجہ کے اوورسیز ایملائمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ www.emigrate.gov.in پر موجود ڈاٹا پر غور کریں تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ یہ گراوٹ سارے ہندوستانی ریاستوں کو محیط ہے۔ ہاں، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اترپردیش اور بہار کی ریاستیں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں اس لیے کہ یہی دونوں ریاستیں سب سے زیادہ ملازمین کو باہر بھیجتی تھیں۔ درج ذیل ٹیبل سے دیگر ریاستوں سے بھی باہر ملازمت کے لئے جانے والے ورکرز کی تعداد  میں کمی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ ٹیبل ظاہر کرتاہے کہ ہندوستان کے امیگریشن پروسیجر میں حالیہ سالوں میں نئے متعارف ہوئے ریگولیشن کی وجہ سے اتر پردیش (92،758-) بہار (30،901-) اور تمل ناڈو (20،475-) سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

اترپردیش اور بہار خاص طور اس وجہ سے متاثر ہوئے ہیں کہ ان دونوں کا ملازمت کا شیئر سعودی عرب میں بہت گھٹ گیا ہے جہاں ان دونوں کا شیئر پچھلے کئی سالوں سے کافی زیادہ ہوا کرتا تھا۔ درج ذیل ٹیبل پر غور کیجئے۔

20162016 میں اتر پردیش کے (92،758-) گراوٹ میں سے (68،452-) صرف سعودی عرب میں آئی، اور بہار کے (30،901-) گراوٹ میں سے (18،951-) صرف سعودی عرب میں آئی ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی دونوں ریاستیں ہی سب سے زیادہ متاثر اس لیے ہوئیں کیوں کہ ان کا شیئر سعودی عرب میں غیر متوقع طور پر بہت گر گیاہے۔

یہ ہیں وہ سارے نقصانات جس کا ہندوستانی ملازمین نے پچھلے 2 سالوں میں خلیجی ممالک میں اور بالخصوص سعودی عرب میں سامنا کیاہے۔

خلاصہ کلام

بلاشبہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت ہند اور اس کے وہ ادارے جو امیگریشن سے متعلق معاملات کی دیکھ ریکھ پر مامور ہیں، ان پالیسیوں اور سسٹم پر از سرِ نو غور کریں جن کے بارے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں اس بڑی گراوٹ کے اصل عوامل ہیں۔ اور جلد از جلد اس میں ہندوستان اور اس کے شہریوں کے مفاد میں خاطر خواہ مثبت تبدیلی لے آئیں تاکہ جو نقصانات ہوئے ہیں اس کی وقت رہتے تلافی ہوسکے۔

اس موقع پر میں کچھ ایسی چیزوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جس پر غور وفکر کرکے حکومت اس پورے امیگریشن کیلیئرنس سسٹم کو اپنےہندوستانی ملازمین کے حق میں مفید بنا سکتی ہے جو خلیجی ممالک میں کام کرنے جاتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہندوستان کی معیشت کو مزیدتقویت پہنچانے کے لیے خلیج میں زبردست مواقع موجود ہیں اور خاص طور پر کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہندوستانی شہریوں کے ملازمت کے باب میں اس خطہ میں بہت سارے مواقع ہیں۔

1) ہندوستانی شہریوں کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وہ مزید ملازمتیں نہ کھودیں، حکومت کو چاہیے کہ ای مائگرٹ سسٹم پر غیر ملکی آجروں کے رجسٹریشن کی شرط کو ختم کردے اور 2015 سے پہلے خلیجی ممالک کے لئے امیگریشن کیلیئرنس کا جو پروسیجر نافذ تھا اس کو واپس لے آئے۔

2) کم از کم مجوزہ تنخواہوں (MRW) کی جہاں تک بات ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اس بزنس میں جو بھی شیئر ہولڈرس ہیں ان کو اس بات کا موقع دے کہ وہ گفت وشنید کرکے ایک درمیانی راستے کو اختیار کر سکیں جو نہ تو آجر کو گراں گزرے اور نہ ہی ملازم کی حق تلفی ہو۔

اخیر میں، اس بات کا میں ایک بار پھر ذکر کرنا چاہوں گا کہ ای مائگرٹ سسٹم کو اس دعوے کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے اس کاروبار میں جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام ہوتے ہیں اس کو روکا جائے گا اور جب ہندوستانی ورکرز کی جانب سے باہر کسی ملک کے متعلقہ سفارت خانے کو کوئی شکایت موصول ہوگی تو اس وقت فوری اور مؤثر انداز میں ایکشن لیا جائے گا۔ اس طرح کے نظام کو نافذ العمل لانے کے پیچھے جو منشا اور مقصد ہے وہ بہت ہی قابل تعریف ہے۔ لیکن باہر ملک سے موصولہ کسی بھی شکایت کو دور کرنے اور اسے حل کرنے کا جو طریقہ اس نئے سسٹم میں متعارف کرایا گیا ہے وہ وہی ہے جو اس سے پہلے کے سسٹم کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نئے نظام کو ایک ایسے مقصد کے ساتھ نافذ کرنے کا کیا فائدہ جب وہ مقصد پچھلے والے نظام میں ہو بہو حاصل ہو رہا تھا؟

راجیہ سبھا میں 15 دسمبر 2016 کو ایک سوال (کیا حکومت کو پچھلے ایک سال کے اندر خلیج میں کام کر رہے ہندوستانی ملازمین کی طرف سے شکایتیں موصول ہوئی ہیں؟ اگر ہاں، تو اس کی تفصیلات کیاہیں اور حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے گئے؟) کاجواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ میں منسٹر آف اسٹیٹ ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ نے مزید یہ کہا کہ…

جب بھی ہمارے سفارت خانے کو کسی ملک میں شکایتیں موصول ہوتی ہیں تو ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں غیر ملکی ایمپلائر، ہندوستانی ریکروٹنگ ایجنٹ اور اس ملک کی مقامی حکومتی اتھارٹی سے بات کرکے شکایتوں کو حل کیا جاتا ہے…اور اگر وہ شکایت کرنے والا مہاجر مزدور رجسٹرڈ ریکروٹنگ ایجنٹ کے ذریعہ باہر کام پر بھیجا گیا ہوتا ہے تو، اس رجسٹرڈ ریکروٹنگ ایجنٹ کو جس کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہے، ایک وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا جاتاہے اور اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس شکایت کو دور کرے اور حل کرنے کی کوشش کرے۔

راجیہ سبھا میں وزیر موصوف کے اس بیان سے صاف واضح ہے کہ اس نئے امیگریشن سسٹم میں بھی ریکروٹنگ ایجنٹ ہی ورکرز کی شکایتوں کو حل کرنے کے لیے اکیلےہی ذمہ دار ہے جیسا کہ اس نظام کے آنے سے پہلے تھا۔ چنانچہ جب ریکروٹنگ ایجنٹ اکیلے ہی باہر ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانی ملازم کے اچھے برے کا ذمہ دار ہے تو کیا ضرورت ہے فارن ایمپلائرکو مجبور کر نے کی کہ وہ اپنے آپ کو ای مائگرٹ سسٹم پر رجسٹر کرے جبکہ یہ سسٹم یا حکومت ہند ہندوستانی مزدور کے سلسلے میں اس پر کسی قسم کی ذمہ داری یا جوابدہی کا بوجھ نہیں ڈالتی۔ یہاں پر حکومت ہند سے میری عاجزانہ اپیل ہے کہ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ خلیجی ممالک میں ہندوستانی ورکرز کی تعداد میں مزید گراوٹ نہ ہو، تو ایمپلائر کی جانب سے ای مائگرٹ سسٹم پر اس کا رجسٹریشن اور اسی کی جانب سے ڈیمانڈ لیٹر، پاور آف اٹارنی اور ایمپلائمنٹ کانٹرکٹ کو اپلوڈ کر نے کی شرط جتنی جلدی ہو سکے ختم ہوجانی چاہیے۔ اس لیے کہ فارن ایمپلائرس پہلے ہی سے ہندوستان کو چھوڑ کر بآسانی پاکستان اور بنگلہ دیش سے ملازمین بغیر کسی ایسی فارمیلیٹیز کو اپنائے ہوئے حاصل کرنے لگا ہیں ۔ اس نئے نظام کے نافذالعمل ہونے سے پہلے، ڈیمانڈ لیٹر، پاور آف اٹارنی اور ایمپلائمنٹ کانٹرکٹ کو اپنے فارن ایمپلائرس سے بلاواسطہ وصول کرنے کے بعد، ہندوستان ہی میں مقامی ریکروٹنگ ایجنٹ وزارت خارجہ کی متعلقہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرتے تھے، اس طرح غیر ملکی آجروں پر ایسے کام کا بوجھ نہیں ہوتا تھا جسے یا تو وہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے یا کرہی نہیں سکتے ۔ اس لیے بہتر ہوگاکہ اسی پروسیجر کو بغیر کسی مزید تاخیر کے بحال کیا جانا چاہیے تاکہ ہندوستان اپنے اس وقار اور فائدے کو دوبارہ حاصل کر سکے جو اسے ان خلیجی ممالک میں 2014 سے پہلے حاصل تھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔