لوگو! میں کام یاب ہوگیا ہوں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

چند ماہ قبل کی بات ہے ، مرکز جماعت اسلامی ہند میں کام کرنے والے اور اطراف میں رہنے والے ظہر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف رواں دواں تھے _ اسی دوران بھائی معین الدین ، جو مرکز کے شعبہ مالیات میں کام کرتے ہیں ، اپنے بچے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ‘اسکالر اسکول’ کی طرف سے آرہے تھے _ بچے کی عمر چار پانچ برس ہوگی _ یعنی اس نے ابھی اسکول جانا شروع کیا تھا _ اس کے دوسرے ہاتھ میں رزلٹ کارڈ تھا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ چند ماہ کی تعلیم کے بعد پہلی مرتبہ اسے رزلٹ ملا تھا _ بچہ اتنا خوش تھا کہ اسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا_ راستے میں جو بھی ملتا، اسے روک کر اپنا کارڈ دکھانے لگتا _ اس کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا :”میں پاس ہوگیا ہوں _” اس کے باپ اسے گھر کی طرف لے جانے کے لیے اسے کھینچتے ، لیکن وہ بار بار ان سے ہاتھ چھڑا کر راستے میں ملنے والے ہر شخص کو مخاطب کرتا ، اسے اپنا کارڈ دکھاتا اور اپنے پاس ہونے کی خبر سناتا _

کل ترکی میں ، آئندہ کے لیے مجوّزہ صدارتی نظام کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں ، رجب طیّب اردوان کی فتح کی خبر جب سے ملی ہے ، میں بھی اسی ننّھے منّے بچے کی طرح خوشی سے سرشار ہوں _ یہ کسی دور دراز ملک میں کسی الیکشن یا ریفرنڈم میں ، کسی پارٹی یا کسی شخص کی کام یابی نہیں ہے ، بلکہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ یہ میری کام یابی ہے ، اس لیے میں ہر شخص کو بتادینا چاہتا ہوں کہ "میں کام یاب ہو گیا ہوں _”

میں اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہتا ہوں اپنی بوڑھی ماں کو ، جو اس وقت بسترِ مرگ پر ہیں (اللہ ان پر رحم فرمائے) اپنی اہلیہ کو، جو اپنی بیماریوں کی وجہ سے برابر اسپتال کے چکّر لگا رہی ہیں ، اپنے بچے کو ، جس نے تعلیم میں انہماک کی وجہ سے اپنی دوسری سرگرمیاں کم کرلی ہیں ، اپنے مہمانوں کو ، جو برابر میرے یہاں آتے رہتے ہیں ، اپنے ملاقاتیوں کو ، جو مسلسل مجھ سے رابطہ رکھتے ہیں ، اپنے دفتر والوں کو ، جو میرے ہم فکر و ہم خیال ہیں _ میں چاہتا ہوں کہ جو بھی میرے رابطہ میں آئے ، یا جس کے پاس سے میرا گزر ہو ، چاہے وہ میری طرف توجہ کرے یا نہ کرے ، میری بات سننے پر آمادہ ہو یا نہ ہو ، لیکن میں اسے روک کر بتاؤں کہ ترکی میں میں کام یاب ہوگیا ہوں _

ترکی میں خلافت عثمانیہ کا شان دار ماضی رہا ہے _ وہاں کے حکم رانوں نے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی ہے _ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا جب وہاں اسلام کا نام لینا جرم قرار پایا _ اذان، نماز، قرآن، حجاب اور داڑھی وغیرہ پر پابندی عائد کردی گئی اور اسلام کے دیگر شعائر اور علامتوں کو کھرچ کھرچ کر مٹانے کی کوشش کی گئی _ لیکن اسلام پسندوں نے ہمّت نہیں ہاری _انھوں نے نہ صرف اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی، بلکہ اسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتے رہے _ اس کوشش میں نہ جانے کتنے لوگوں کو بدترین ایذا و تعذیب کا نشانہ بنایا گیا، کتنوں کے سر قلم کردیے گئے اور کتنوں کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا ، لیکن ان بے مثال قربانیوں کی بدولت رفتہ رفتہ تاریکی کے بادل چھٹتے گئے اور شمع اسلام کی لَو تیز سے تیز تر ہوتی گئی _ شیخ سعید نورسی، عدنان مندریس اور نجم الدین اربکان تو صرف چند علامتی نام ہیں ، ورنہ ترکی میں اسلام کے احیا میں بے شمار لوگوں کی قربانیاں ہیں _ان میں سے کچھ لوگ اپنے حصے کا کام پورا کرکے اللہ کے حضور پہنچ گئے اور کچھ اب بھی جدّوجہد میں لگے ہوئے ہیں ، جن میں موجودہ صدرِ ترکی رجب طیّب اردوان اور ان کے رفقائے کار بھی ہیں _

معلوم نہیں کیوں ، ترکی میں اردوان کی کام یابی مجھے اپنی کام یابی لگ رہی ہے _ میری خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی ہے _ کوئی پوچھے یا نہ پوچھے، میں ہر ایک کو بتادینا چاہتا ہوں : اسلام پسندوں کو ، غیر جانب دار لوگوں کو ، سیکولروں کو ، ملحدوں کو ، لبرلس کو ، اسلام سے چِڑھنے والوں کو ، اسلام سے دشمنی رکھنے والوں کو ، سب کو کہ میں ترکی میں کام یاب ہوگیا ہوں _
لوگو ! سن لو! میں کام یاب ہوگیا ہوں _

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


4 تبصرے
  1. اشھد جمال ندوی کہتے ہیں

    بھت ہی اچھا مضمون،لگتاہے،اپنےمیرے منھ کی بات چھین لی۔

  2. محمد ریاض کرمانج کہتے ہیں

    بہت پر کشش، دلچسپ اور شاندار اسلوب میں لکھی ہوئ تحریر ہے۔ مولانا کے علمی اور تحقیقی مقالات کی ندرت، سلاست اور روانی کا تو میں پہلے ہی قائل رہا ہوں۔ اس تحریر کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ مولانا کو جذبات نگاری میں بھی بڑا ملکہ ہے۔اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے۔

  3. شاہ عبدالوہاب دھولیہ کہتے ہیں

    مولانا محترم واقعی ترکی میں ہم کامیاب ہو گئے.اللّہ سے دعا ہے کہ دنیا کے چپّے چپّے میں ‘ہم کامیاب ہو گئے’ کی گونج بلند ہو.
    شاہ عبدالوہاب دھولیہ مہاراشٹر

  4. علی احمد ندوی کہتے ہیں

    اللہ تعالیٰ ہمیں اور کامیابی عطاکرے

تبصرے بند ہیں۔