کیا  ہندوستان کا ہر دوسرا مسلمان طلاق ثلاثہ کا غلط استعمال کر رہا ہے؟

مشرّف عالم ذوقی 

لکھنؤ میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے بڑا فیصلہ لیا .معروف عالمی ادارے بھی شامل ہوئے .جو خبر ملک بھر میں سرخیاں بن گین ،دراصل یہی سرخیاں آر ایس ایس کے مشن کا حصّہ ہیں .مسلمانوں اور انکے علما سے یہ بیان جاری کراؤ کہ طلاق ثلاثہ کو لے کر مسلم عورتوں کی زندگی خطرے میں ہے . آج کی پہلی خبر ہے ،طلاق ثلاثہ کا غلط استعمال کرنے والوں کا بائیکاٹ ہوگا .اس خبر کے ذریعہ ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہندوستان کا ہر دوسرا مسلمان  طلاق ثلاثہ کا غلط استعمال کر رہا ہے .اور علما کی طرف سے یہ بیان جاری ہو گیا .ایسا ہی  ایک بیان پچھلے  برس مسلم  نوجوانوں کو لے کر جاری کیا گیا تھا ،کہ ہم اپنے بچوں  کو د ا عش میں جانے سے روکیں  گے .جیسے ہر مسلمان نوجوان د ا عش کی ٹریننگ لے رہا ہو .بار بار غلطیاں اس لئے ہو رہی ہیں کہ علما بورڈ اور کونسل میں وہی چہرے شامل ہیں جنکے پاس آر ایس ایس کی شاطرانہ چالوں کا کویی موثر جواب موجود نہیں .یہ وہی چہرے ہیں جنہیں مسلمانوں کی اکثریت اپنا قاید  تصور نہیں کرتی .پھر بھی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انکی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جاےگا . آج اسی خبر کے ساتھ مودی ہے بی جے پی کی طرف سے بھی ایک خبر شایع  ہوئی کہ ہم مسلم خواتین کے ساتھ ہیں ..یہ اسی خبر کا رد عمل ہے ..یعنی  طلاق ثلاثہ کے بڑھتے ہوئے معاملے نے حکومت کو پریشان کر دیا .اور حکومت بیچاری  مسلم عورتوں کے ساتھ کھڑی  ہو گی .

ابھی ضرورت یہ بیان جاری کرنے  کی تھی کہ حکومت طلاق ثلاثہ کے نام پر جھوٹ پھیلانے کا سوانگ رچ رہی ہے . طلاق کا فیصد ہندوؤں میں زیادہ ہے .طلاق ثلاثہ کے بہانے حکومت مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے .لیکن ایک ایسا بیان جاری ہوا جو حکومت کے منشا کے مطابق تھا .اور حکومت نے خاموشی سے ہنستے ہنستے اس بیان پر مہر لگا دی .

اگر طلاق ہندوستان  میں خواتین کے پسماندہ رہنے کی بنیادی وجہ ہے، تب ہندوستانیوں کی ازدواجی حیثیت کے بارے میں 2011 مردم شماری کے نتائج  مودی حکومت کے لئے تشویش ناک ہونے چاہییں . خاص طور پر  ہندو خواتین میں طلاق کا فیصد کہیں زیادہ ہے اور ہندوؤں کی ازدواجی زندگی کو زیادہ خطرہ درپیش ہے . ہندو عورتوں کی حالت زیادہ نازک ہے، جو مسلم خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں – سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کا معاملہ اٹھاے  جانے کے بعد ہندو عورتوں کے جو اعداد و شمار   سامنے آ رہے ہیں وہ وہ بہت زیادہ  ہیں جبکہ سارا زور مسلم عورتوں کی سیاست پر ہے . یہ اعداد و شمار  اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ اگر طلاق ہی خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی مساوات کے لئے ایک رکاوٹ ہے تب مسلم خواتین کے مقابلے میں ہندو خواتین کی جانب توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے-طلاق کے معاملے  میں 68 فیصد ہندو آگے  ہیں ، جبکہ صرف 23.3 فیصد  مسلمان ہیں — انڈیا سپینڈ  ارگنزشن نے اپنی  ایک رپورٹ میں کہا ، اعدادوشمار کے مطابق ناکام شادی کے معاملات  شہروں کے مقابلے میں دیہات  میں زیادہ ہیں کیونکہ وہاں اب بھی بھارت کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے – اسی رپورٹ میں ہندو عورتوں کی شادی کو لے کر ناکامی کی وجہ بھی بتایی گیی  اور کھا گیا کہ ہندو عورتوں میں طلاق کا فیصد  بڑھ رہا ہے .

مردم شماری 2011 سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1000 میں سے 5.5 ہندو شامل  ہیں ، اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہیں ان کے شوہروں نے چھوڑ رکھا  ہے. اس فہرست میں ایک نام  وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی کی بیوی مسز جسودا بین کا بھی ہے. لہذا قانونی طور پر طلاق شدہ  خواتین 1.8 کی تعداد کے ساتھ علیحدگی کی شکار خواتین کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہندوؤں کے درمیان ایسی خواتین کی تعداد 1000 میں 7.3 ہو جاتی ہے. اس حقیقت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوؤں کے درمیان طلاق یا علیحدگی کی شرح مسلمانوں کے درمیان طلاق کے شرح سے بہت زیادہ ہے . مردم شماری 2011 کے بعد چھ برسوں میں ان میں اضافہ ہی ہوا  ہے .

در حقیقت لکھنؤ کانفرنس میں یہی باتیں اٹھانے کی تھیں .ہم آر ایس ایس کے جھانسے میں آ گئے اور خود کو ہی کمزور ثابت کر دیا .اب یہی لوگ اگر سوشل میڈیا کا استعمال کرینگے تو آپ سوچ سکتے ہیں ،ہماری لڑایی  حکومت سے کس حد کمزور پڑ  جائے گی .

تبصرے بند ہیں۔