افسانوی مجموعہ ’’حدوں سے آگے ‘‘ کا نفسیاتی مطالعہ
عام طور پر اکیسویں صدی کو ناقدینِ ادب نے فکشن کی صدی قرار دیا ہے۔کیوں کہ اس صدی میں فردِ واحد کی اہمیت ،افادیت و انفرادیت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔1980کی دہائ کے بعد اُردو افسانہ نۂ تجربوں کے ساتھ قاری سے روبرو ہوا۔اس دورکے افسانہ نگاروں نے عام روش سے ہٹ کر انسان کی زندگی میں دخل اندازی کر اُسے صفحۂ قرطاس کی زینت بناکر اسے افسانے کی شکل عطا کی یا۔قاری کا تجسس اور دلچسپی ان افسانوں میں بڑھنے لگی۔1992 میں بابری مسجد کے سانحے کے بعد افسانہ نگاروں کی توجہ ایک بار پھر فسادات کے موضوعات کی جانب مبذول ہوء۔لیکن آٹھ سال کے بعد بیسویں صدی اپنے اندر طرح طرح کے تجربات ،مشاہدات اور اندراجات لیے اختمام پذیر ہو جاتی ہے۔اُردو افسانہ بھی پریم چند سے لیکر نئ لکھنے والوں تک تقریباً ایک صدی کا سفر مکمل کر لیتا ہے۔
نئی صدی یعنی اکیسویں صدی میں جن لکھنے والوں نے اپنے نام ،کام اور مقام سے اُردو افسانے کو نئی سمت و جہت عطا کی ان میں صغیر رحمانی،یوسف عارفی،خورشید جبیں،ڈاکٹر عفّت آرا،عبدالعزیز خاں ،نجمہ محمود،پروفیسر ابنِ کنول،طارق چھتاری،شموئل احمد،سلام بن رزاق،احمد رشید،کہکشاں انجم،عابد ضمیر ،مشرف عالم ذوقی،انیس رفیع ، عبدالصمد،کیدار ناتھ شرما،اختر آزاد،حنیف سیّد ،شاہین سلطانہ،ترنم ریاض،اسرار گاندھی،ساجد رشید ،مبین مرزا،اقبال حسن آزاد،دیپک بدکی،سیّد ظفر ہاشمی،شاہین نظر،قدیر زمان ،نعم کوثر ،عابد سہیل،غضنفر،رشید امجد،احمد صغیر،صغیر افراہیم،کیول دھیر،خالد جاوید، طاہر نقوی،مشتاق احمد وانی،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری،جیلانی بانو،شوکت حیات،نگار عظیم،فرقان سنبھلی،اور ڈاکٹر محمد مستمر کا نام قابلِ ذکر ہے۔
اس افسانوی کہکشاں میں زیادہ تر افسانہ نگار گذشتہ صدی سے لے کر رواں صدی میں بھی اپنے قلم کے سحر سے قاری کو باندھے ہوئے ہیں۔لیکن میں جن افسانہ نگارکے افسانوں ،اس کی نفسیات اور اسلوب پر ناقدانہ بحث کروں گا اُس کا نام ڈاکٹر محمد مستمر ہے۔ڈاکٹر محمد مستمر نے 2008میں اپنا پہلا افسانہ ’’شاخ مرجھا گئی‘‘ تخلیق کیا۔ان کے اس افسانے کی خوب پذیرائی ہوئی۔ان کا یہ افسانہ جنسی نفسیات کی نمائندگی کی بہترین مثال ہے۔در اصل محمد مستمر کو نفسیات پر مکمّل دسترس حاصل ہے۔کیوں کہ دہلی یونی ورسٹی میں ان کی تحقیقی مقالے کا موضوع’’اُردو افسانوں میں نفسیاتی عناصر کی عکاسی‘‘تھا۔اس لحاظ سے ان کے افسانوں میں انسان کی نفسیات کو خاص جگہ دی گئی ہے۔اسی بنا پر محمد مستمر نے اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات کو قاری کے سامنے پیش کرنے بھرپور کی سعی کی ہے۔بدلتے ہوئے ماہول میں قاری بھی کرداروں کی نفسیات سے واقف ہو کر اس نئے انداز کو خوب پسند کر رہا ہے۔فکشن کے مشہور ناقد وقار عظیم نے کرداروں کی نفسیات کی جانب بہت پہلے ہی توجہ مبذول کر لی تھی۔وہ اپنی مشہور کتاب ’داستان سے افسانے تک‘میں نفسیات پر یوں اظہارِ خیال کیا ہے۔
’’واقعات کی اہمیت کے ساتھ ساتھ کرداروں کی شخصیت اور انفرادی کشمکش کو موضوع بنانے
کا ایک ہرا ثر اس دور کے افسانوں پر پڑا ہے کہ کرداروں کے ہر عمل کے پیچھے جو نفسیاتی محرکات
کام کرتے ہیں ان کے مطالعوں کی اہمیت کا احساس بہت شدید ہو گیاہے۔افسانہ نگار نے
خارجی عمل اور داخلی کشمکش اور اس کشمکش کی مختلف کیفیتوں کے پیچیدہ رشتے کو زندگی کی ایک
نا گزیرحقیقت سمجھ کر اسے اپنے افسانوں کی بنیاد بنا لیا ہیاور اس طرح کوئی عمل جو بہ ظاہر بالکل
بے حقیقت اور غیر اہم معلوم ہوتا ہے۔جب اپنے نفسیاتی متعلقات کے ساتھ افسانے میں ظاہر
ہوتا ہے تو پڑھنے والے پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔‘‘
(داستان سے افسانے تک،صفحہ237،وقار عظیم ،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس،علی گڑھ 2015)
در حقیقت فن کار اپنے وقت کا نبّاض ،ملک اور معاشرے کا مورِخ اور اپنے عہد کا شاہدبھی ہوتا ہے ۔وہ نا ہمواریوں کے خلاف اپنا قلم اُٹھاتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے نئی سمت و جہت کے راستے وا کرتا ہے۔وہ معاشرے میں پھیلی بے اثباتی ،ظلم ،تشدد،اور معاشرتی وہ معاشرے کی دہلیز عبور کر انسان کی ذاتی زندگی کی کشمکش کو قاری کے سامنے پیش کرتاہے۔ آج وہی افسانہ نگار کامیاب ہے جو ہونٹوں اور کوٹھوں کی پُر اسرار باتیں اپنے قوتِ تخیل کے ذریعے صفحہۂ قرطاس پر تحریر کرتا ہے۔قاری کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنے کرداروں میں قلمی روح پھونکتا ہے۔تاکہ قاری افسانے کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ محسوس کرے کہ اس کہانی میں جو حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں اُن سے میری گہری وابستگی ہے یہ افسانہ میری ذاتی زندگی کا ترجمان ہے۔یہی افسانے کا نقطہء عروض ہے اور افسانہ نگار کے فن کی کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔
محمد مستمر نے بھی قاری کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ’’حدوں سے آگے‘‘ تخلیق کیا ہے۔اس سے قبل محمد مستمر کی دو کتابیں ’’علیمؔ اختر مظفرنگری کی شاعری ؛ایک مطالعہ ‘‘اور ’’تنقیص و تقریظ‘‘منظرِ عام پر آکر ناقدینِ ادب سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔افسانوی مجموعوں سے آگے کے سرورق پر ،نیلے آسمان میں اُمڈتے ہوئے بادل،ٹھاٹے مارتے ہوئے سمندر کے کنارے چٹّان پر کھڑی ہوئی نیم برہنہ لڑکی اپنی باہیں پھیلائے ،لہراتی ہوئی زلفیں ،ہوا میں اُڑتا ہوا لباس،مانو لڑکی سمندر کو اپنے آغوش میں لینا چاہتی ہے یا سمندر میں خود کو غرق کر دینا چاہتی ہے۔دونوں ہی صورتوں میں قاری غور و فکر کرنے پر مجبور ہے۔اس سرِ ورق کی کشش میں قاری غوطہ زن ہے۔اس دل فریب منظر کو دیکھ کر قاری کااپنی نفسیات کو قابو میں رکھنا نا ممکن ہے۔یہی افسانہ نگار کے فن کا کمال ہے۔یہ تصویر قاری کے لیے کسی معمے سے کم نہیں۔اس افسانوی مجموعے کے انتساب کو محمد مستمر نے اُستاد شاگرد کے رشتہ کے نام یعنی اسلم جمشید پوری کے لیے نذر کیا ہے۔اس مجموعے میں 10؍افسانے شامل ہیں۔نا آسودگی6؍صفحات،تحریک12؍صفحات،قدموں کو نشاں 22؍صفحات،امتزاج20 ؍صفحات،میرا قصور 6؍صفحات،شاخ مرجھا گئی6؍صفحات،حدوں سے آگے 19؍صفحات،چولا5؍صفحات،میرے اُستاذ17؍صفحات اور کل جُگ میں 20؍صفحات پر مشتمل ہیں۔
اس افسانووی مجموعے کے ا فسانوں کو عام طور پر دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک جانب وہ افسانے ہیں جن میں محمد مستمر نے حُسن و سلیقے سے زندگی کی نفسیاتی گرہوں کو فن کارانہ طریقے سے کھولا ہے۔انسانی رشتوں کی کم ہوتی قدر و قیمت کو بڑے دل کش انداز میں پیش کیا ہے۔عام انسانوں کی زندگی ان کا دائرہ، ان کے جذبات ،احساسات اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا برملا اظہار ان کے افسانوں میں ہوا ہے۔دوسرے جانب وہ افسانے ہیں جن میں جگہ جگہ ان کی سماجی وابستگی کو بہت رقیق طریقے سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔مجموعے کے10 ؍افسانوں میں سے نا آسودگی ،تحریک،امتزاج،شاخ مرجھا گئی،حدوں سے آگے،اورچو لا جنسی نفسیات،جنسی بے راہ روی بُری صحبت اور معاشرے میں ہو رہی نفسیاتی تبدیلی کے مسائل پپر لکھے گئے افسانے ہیں۔4افسانے قدموں کے نشاں، میرا قصور، میرے اُستاذاور کل جُگ میں،سماجی کشمکش اور عصرِ حاضر کے تانے بانے پر مبنی ہیں۔
محمد مستمر کے افسانوں میں ہمیں فرائڈ کے نفسیاتی نظریات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔محمد مستمر نے جنس کوصرف لذّت کے لیے استعمال نہیں کیا بل کہ جنس کو ایک ضرورت کے طورپر اپنے افسانوں میں شامل کیا ہے۔کئی ماہرِ نفسیات اور میڈیکل سائنس کے تجربہ کار لوگوں کا بھی ماننا ہے کہ انسان کو صرف زندہ رہنے کے لیے کھانے کی درکار نہیں ہوتی بل کہ اُ سے پُر سکون ز ندگی گزارنے کے لیے جنسی خوراک بھی چاہیے۔جب انسان میں جنسی خوراک کا فقدان ہو جاتا ہے تو وہ اپنا جسمانی اور دماغی توازن برقرار نہیں رکھ پاتا۔یعنی انسان اپنا جنسی جذبہ کسی بھی صورت اور کسی بھی حالت میں دبا نہیں سکتا۔یہ ایک فطری عمل ہے۔جنسی نقطۂ نظر کو ہر دور میں انسان نے مقدم رکھا ہے۔اگر وہ اس عمل کو فوقیت نہیں دیگا تو اُس کے پاگل ہونے کے بھی امکان قوی ہو جاتے ہیں۔محمد مستمر نے انھیں نظریات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے افسانہ ’نا آسودگی‘،امتزاج،تحریک،چولا،اور حدوں سے آگے جیسے افسانے تخلیق کیے اور ان افسانوں میں جنسی مسائل کو سائنٹفک طریقے سے قاری کے سامنے پیش کیا۔یہ طریقہ اُنھیں اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے منفرد مقام عطا کرتا ہے۔
افسانے میں تمہید اور انجام کی اہمیت اور افادیت مسلّم ہے۔تمہید کے بغیر ے افسانہ انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔محمد مستمر کے یہاں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔افسانے کا آغاز بہت ہی نارمل طریقے سے ہوتا ہے۔لیکن افسانہ اپنے انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری کو دم بہ خود کر دیتا ہے۔افسانہ ’نا آسودگی ‘اس کی عمدہ مثال ہے۔یہ افسانہ چنڈی گڑھ کے ایک ایسے شخص کے روزنامچے کی روداد ہے جسے دُنیا نیم پاگل سمجھتی ہے۔حالاں کہ مصنف کی نگاہ میں وہ ایک معمہ ہے۔مصنف کی آمد و رفت اُسی چوراہے سے ہوتی ہے جہاں پر پاگل آدمی کا بسیرہ ہے۔اُس شخص کو مصنف تقریباً3؍4برسوں سے watchکر رہا ہے۔مصنف کے ساتھی مصنف کو اس پاگل شخص سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔لیکن مصنف اُس کی حرکت و عمل پر طائرانہ نگاہ رکھتا ہے۔جیسے جیسے افسانہ آگے بڑھتا ہے قاری کی دلچسپی پاگل اور مصنف دونوں میں بڑھنے لگتی ہے۔مصنف ،پاگل کے معمہ کو حل کرنے کے لیے بے قرار ہے۔افسانہ اختمام کی جانب گامزن ہے۔لیکن محمد مستمر نے افسانے کے اختمام سے قبل ہی پاگل آدمی کے معمے کو جنسی ناآسودگی کے طور پر حل کیا۔دُنیا جس آدمی کو خُفیا ایجنسیوں کا کارندہ سمجھ رہی تھی در اصل وہ ذہنی، جنسی اور نفسیاتی طور پر نا آسودہ تھا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دور غلاظت میں رہنے والااور جس کے تن پر کپڑے بھی نہیں ،کھانے کے لیے دانے بھی نہیں،جس کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت بھی میسّر نہ ہو،ایسا شخص بھی اپنی جنسی خواہشات کو اپنے ہاتھوں سے مٹارہا ہے۔اس قسم کی افسوسناک کیفیت کو افسانے کی شکل میں پیش کرنا ایک ماہرِ نفسیات کا ہی کمال ہو سکتا ہے۔ممکن ہے اس افسانے کو پڑھ کر جب قاری کسی نیم پاگل آدمی کو دیکھے تو اُسے نا آسودگی افسانے کا انجام یاد آ جائے ۔بہ قول محمد مستمر۔
’’سردی کا موسم جا چکا تھااور ہلکی ہلکی گرمی کی شروعات ہو چکی تھی۔موسم میں سہانا پن تحلیل تھا۔صبح صبح اس موسم میں
ہوا کے جھونکوں میں لو کی تمازت محلل نہیں ہوتی ہے۔جیسے ہی میں تیز قدموں سے دفتر کی جانب چلا جا رہا تھا اور اس
کے مسکن کے قریب پہنچتا ہوں میں اُس کی حرکت و عمل کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں۔میری زیر و بم سانسیں یکا یک رُک
جاتی ہیں،آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں اور منھ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔میں انوکھا ہی منظر دیکھتا ہوں کہ وہ شخص جو مجھے
بالکل حس نظر آتا تھا ،گم صم سا رہنے والا گویا کہ اس کے میکانیکی آخذہ کے علاوہ اندرونی آخذہ بھی کام نہیں کرتے ،جس کو
پاکی نا پاکی کا کوئی خیال نہیں۔سرِ رہ گزر بیٹھا ہوا ،بڑی ہیزانی کیفیت کے ساتھ جلق لگا رہا ہے۔میں نے دیکھا کہ اس کا
جنسی جذبہ نہایت نقطۂ عروض پر تھا۔ایسا جنسی جذبہ جو تندرست توانااور حساس مرد میں ہی پایا جا سکتا ہے۔میرے تمام
ہوائی قلعے اس شخص کے متعلق مسمار ہو جاتے ہیں اور جو گذشتہ کئی سالوں سے معمہ بنا ہوا تھا،اس معمہ کا پردہ وا ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح ’تحریک‘ بھی جنسی موضوعات پر لکھا گیا بہترین افسانہ ہے۔محمد مستمر نے اس افسانے کے ذریعے قاری تک اپنا پیغام بہ خوبی پہنچایا ہے کہ ’تخم تاثیر صحبتِ اثر‘یعنی انسان کی فکر صحبت سے بھی متاثر ہوتی ہے۔اس افسانے کے مرکزی کردار ’کامنی‘ کی فکر بھی اپنے ساتھ کام کرنے والی اُستانیوں کی فکر سے متاثر ہے۔کامنی ،سرکاری اسکول میں اُستانی کے عہدے پر فائض ہے ،اس کی شادی کو محض 8ماہ ہوئے ہیں اور وہ اس دوران اپنے شوہر کے ساتھ جنسی وصل کے خوب مزے لوٹتی ہے۔اسی اثنا میں کامنی کے اسکول میں آرتی نامی اُستانی دوسرے اسکول سے تبادلہ ہوکر آتی ہے۔آرتی کی مرد ذات اور sexکے تیءں منفی فکر کا اثر کامنی کی پُر بہار زندگی میں خزاں بن کر دکھائی دینے لگتا ہے۔آرتی کی مردوں کے تیءں نفرت انگیز باتوں نے کامنی کوجنسی آسودگی سے کوسوں دور کر دیا۔کامنی کا شوہر بھی اس کی منفی سوچ سے پریشان ہو جاتا ہے ا ور ان کی ازدواجی زندگی میں ایک بھونچال آ جاتا ہے۔مباشرت کا تصوربھی کامنی کے لیے زحمت بننے لگتا ہے۔کیوں کہ آرتی کا منفی وژن کامنی کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا تھا۔رفتہ رفتہ کامنی کی زندگی سسک سسک کر گزرتی ہے۔پانچ برس بعدکامنی کا تبادلہ دوسرے اسکول میں ہو جاتا ہے۔اُس اسکول میں پشپا اور دامنی دواُستانیاں طلبا کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہوتی ہیں ۔دونوں اُستانیاں کامنی سے عمر میں بڑی ہوتی ہیں۔دونوں نے رومانی انداز پایا ہے۔ان دونوں کا جنسی وصل اور مباشرت کے تیءں نظریہ مثبت تھا۔اب کامنی کواپنی مردہ ہو چکی فکراور امنگوں میں ایک نئی روح پھونکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور بے جان جسم میں عجیب سی حرارت و شرارت نظرآنے لگتی ہے۔کامنی اب اپنے شوہر کے وصل اور لمس کو پانے کے لیے بے قرار ہو جاتی ہے۔کامنی کی ٹھہری ہوئی زندگی میں موجیں ہلورے مارنے لگتی ہیں۔جنسی خواہشات کا سوتہ ایک بار پھر پھوٹنے لگتا ہے۔کامنی نے اُس منفی فکر کے لبادے کو اُتار پھینکاتھا جس نے اُسے اپنے شوہر سے علاحدہ کر دیا تھا۔محمد مستمر نے ’تحریک‘ افسانے کو سائنٹفک انداز میں لکھا ہے۔در حقیقت یہ افسانہ شعور اور لا شعور کے درمیان کی کڑی ہے۔
افسانہ’ قدموں کے نشاں‘میںbasic education systemکی بد عنوانیوں،کھوکلے نظا م ،افسران کی رشوت خور لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی اور mid day mealمیں ہونے والی گھپلے بازی پر طنزیہ انداز میں زبردست چوٹ کی گئی ہے۔یہ افسانہ ایک ایماندار، سلیقہ شعار، اپنے پیشے کے تیءں وفاداراور اپنے والد کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے والی ایک بہادر راُستانی کی روداد ہے۔محکمۂ بنیادی تعلیم میں جب مڈ ڈے میل میں توانہ خوراک کے نام پر ہونے والی دھاندلی کے خلاف اُستانی بہ بانگ دہل آواز بلند کرتی ہے تو گاؤں کے پردھان سے لے کر b.e.oاور b.s.aتک اعلا حکّام اُستانی کے خلاف ایک محاز بنا لیتے ہیں ۔بد عنوانی کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا کے طور پر اُستانی کا تبادلہ دور دراز علاقے میں کر دیا جاتا ہے۔جہاں پر جانا کسی خطرے سے کم نہیں۔لیکن اُستانی ہمّت نہیں ہارتی ۔بل کہ بد عنوان لوگوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہو جاتی ہے۔اُستانی کو آواز بلند کرنے کی پاداش میں تبادلوں کی شکل میں خمیازہ اُٹھانا پڑتا ہے۔یعنی اُس کی کُل سروس کی مدّت کم اور تبادلوں کی فہرست زیادہ ۔لیکن کھوکلہ سسٹم اُس کے آہنی ارادوں کو ٹس سے مس نہ کر سکا۔اس افسانے کو بد عنوانی کے خلاف ایک جنگ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
افسانہ’ امتزاج‘شائع ہونے کے بعد محمد مستمر کو افسانوی ادب میں منفرد مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔کیوں کہ یہ افسانہ میڈیکل سائنس کے اصولوں اور جنسی آسودگی کے لیے انسان کی ذاتی طریقہ کار پر مبنی ہے۔ اس افسانے میں ایک تندرست و توانا شخص کی جنسی نفسیات اور جنسی نا آسودگی پر محمد مستمر نے ہمدردانہ طریقے سے کھل کر بحث کی ہے۔کئی نقادوں نے اس افسانے کو فُحش قرار یا۔فُحش اور غیر فُحش پر بحث اُردو ادب میں 1932ء سے لے کر آج تک چلی آ رہی ہے۔’امتزاج‘ میں ایک ایک ایسے جنسی نفسیاتی مریض راکیش کی آپ بیتی بیان کی گئی ہے جو طبّی لحاظ سے صحت مند ہے۔اُس میں مردانہ قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔راکیش اپنی شریکِ حیات سے جتنی محبّت کرتا ہے اُس سے بھی زیادہ بے پناہ محبّت اُس کی ہمراز اُس سے کرتی ہے۔پورا افسانہ ایک ڈاکٹر اور مریض کے مابین ہونے والی طبّی گفتگو پر مبنی ہے۔اس طرح افسانہ بیانہ شکل لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر ماہرِ جنسیات کے ساتھ ساتھ بہ صلاحیت سرجن بھی ہے۔راکیش دورانِ گفتگو ڈاکٹر سے بتاتا ہے کہ اُس کی شادی کو پورے پانچ سال گزر گئے ہیں۔شروعات میں تو اُس کی بیوی دامنی اسے جنسی مباشرت سے سیراب کرتی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ دامنی جنسی وصل کے نام سے دور بھاگنے لگتی ہے۔راکیش جنسی وصل کے لیے بے قرار رہتا ہے۔وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔راکیش کے سامنے دو راستے ہیں ایک یا تو وہ دامنی کو طلاق دے دے،اوردوسرا کسی لڑکی سے شادی کر اپنے جنسی فعل سے آسودگی حاصل کرے۔لیکن راکیش سب سے جدا گانہ راستہ اختیار کرتا ہے۔وہ اپے عضوِتناسل کا آپریشن کرانا چاہتا ہے تا کہ ہمیشہ کے لیے آختہ ہو کر اپنے جنسی عناصر کا خاتمہ کر اپنی بیوی کو لذتِ وصل سے آزاد کر سکے۔ افسانے کا ایک پیراگراف ملاحظہ ہو۔
’’ڈاکٹر ۔۔۔اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ تو میں آپ کو بتا ہی طکا ہوں کہ نہ میں جنسی کجروی
اختیار کر سکتا ہوں اور نہ دوسری شادی !آختہ ہونے پر اگر چہ میری خواہش مکمل طور پر معدوم تو نہ ہوں گی اورنہ ان کا
دمن کیا جا سکتا ہے۔مگر میری چوبِ لحم میں تناؤکی کیفیت تو نہ ہوگی اور میرا نقطہء عروج جو آنے والی ہر شب مجھے پریشان
کرتا ہے اس سے ضرور نجات مل جائے گی۔‘‘
دورانِ گفتگو ڈاکٹر راکیش کی نفسیات سے واقف ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر راکیش کو آختہ کرنے اور اس گناہِ عظیم میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر ،راکیش کو مفید اور کار آمدمشورے دے کروداع کر دیتا ہے۔ڈاکٹر کچھ دنوں بعد آگرہ جیل میں پاگلوں کا معائنہ کرنے کے لیے جاتا ہے۔ وہاں پر اُس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا جب اُسے پاگلوں کے درمیان راکیش بھی مل جاتا ہے۔راکیش ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر تھوک دیتا ہے ۔وہ تیز آواز میں رونے اور ہنسنے لگتاہے راکیش کی اس نا زیبا حرکت سے ڈاکٹرہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔یہاں پر افسانہ قاری کے لیے کئی سوال قائم کرتا ہے کہ اوّل راکیش کو پاگل بنانے میں کس کا رول زیادہ رہا۔ڈاکٹر کا ،اُس کی بیوی دامنی کا یا خودراکیش کا؟
افسانہ ’میرا قصور‘ میں محمد مستمر نے عصرِحاضر میں بے قصور مسلمانوں کے ساتھ سرکاری افسران کی ظلم و زیادتی اور بُرے سُلوک کی عمدہ عکاسی کی ہے۔ افسانے میں التمس نامی نوجوان اپنے دفتر کے کام سے چنڈی گڑھ سے دہلی جاتا ہے۔اس نوجوان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ’ہمالہ کوین‘ کے ٹکٹ پر’شانِ پنجاب‘ٹرین سے دہلی ریلوے اسٹیشن پر اُتر جاتا ہے۔یہیں سے اسکی پریشانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔ٹی۔ ٹی اسٹیشن پر التمس سمیت دس پندرہ مسافروں کو روک لیتا ہے۔التمس سے اٰس کا نام دریافت کرنے کے بعد اسے زبر دستی جرمانہ بھرنے کے لیے کہا جاتا ہے،جب کہ ا کے پاس ٹکٹ موجود ہے۔التمس ٹی۔ٹی سے لاکھ منتیں کرتا ہے،لیکن نقّار خانے میں طوطی کی آواز کون سننے والا تھا۔اس سے جرمانہ بھروایا جاتا ہے اس تاقید کے ساتھ کہ افسران سے زبان نہ لڑائے۔
’’شاخ مرجھا گئی‘‘محمد مستمر کا تحریر کردہ اوّلین افسانہ ہے۔اس افسانے کے منظرِ عام پر آنے کے بعدمحمد مستمر شناخت ماہرِنفسیات و جنسیات کے طور پر ہونے لگی۔اس افسانے کا مرکزی کردار ’زینب ‘ ہے۔زینب کی شادی اپنے ماما کے بیٹے ’عیان‘ کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے۔زینب کے سارے ارمانوں پر اُس وقت پانی پھر جاتا ہے ،جب عیان سہاگرات میں اُس سے مباشرت کئے بغیر نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔زینب کی تمام خوشیاں کافور ہو جاتی ہیں ۔اگلے دن گھر اور محلّے کی ’تجربہ کار عورتیں زینب کی چال اور ڈھال سے سارا ماجرہ سمجھ لیتی ہیں۔زینب اُسی دن سسرال سے اپنے میکے آجاتی ہے۔اُس کی سہیلیاں اُس سے سہاگرات کے بارے میں چلبلے سوالات کرتی ہیں،لیکن زینب خاموشی کی چادر اوڈھ لیتی ہے۔زینب ،اپنی شادی کی پہلی رات کی کڑوی یادوں کو بھلا دینا چاہتی ہے۔دو ماہ بعد جب زینب اپنے میکے سے سسرال جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر تیار کرتی ہے اور لذتِ وصل کا پیالہ پینا چاہتی ہے۔رات کے وقت زینب اپنے شوہر کے ساتھ مباشرت کے لیے تمام حدوں کو پار کر جاتی ہے۔زینب اپنی ہر کوشش میں ناکام ہوجاتی ہے۔اُس کے مچلتے ارمانوں پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔کیوں کہ زینب ا،س حقیقت سے آشکار ہو جاتی ہے کہ عیان نامی درخت کی شاخ ہمیشہ کے لیے مرجھا گئی ہے۔زینب کی ذہنی اور جنسی کیفیت کومحمد مستمر نے اس طرح بیان کیا ہے۔
’’عیان اُس کا درخت تھا۔جس کے سایہ میں اسے زندگی گزارنی تھی آج اس پیڑکی مرجھائی شاخ میں جان ڈالنے
کے لیے وہ ہر ہتھکنڈے اور فارمولے اپنانے کے لیے تیار تھی۔زینب پرجھائی شاخ کو اپنے مرمری ہاتھوں سے پکڑتی
ہے۔بار بار سہلاتی ہے۔اوپر اُتھا کر دیکھتی ہے۔برابر سے دیکھتی ہے۔بائیں سے دیکھتی ہے اور شاخ کے نیچے دو پتیاں
شاخ کی خوب صورتی کو بڑھا رہی تھیں۔اُنھیں بھی بار بار اپنی نازک اور گرم گرم اُنگلیوں سے سہلاتی ہے۔ مگر ہر طرح
سے ناکام رہتی ہے۔اب وہ شکستہ ہو چکی تھی ۔شاخ مرجھائی ہوئی تھی۔صرف درخت سے جڑی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ
درخت کی جڑ سے بہنے والا اس میں،گاڑھا لیس دار رقیق بند ہو گیا تھا۔‘‘
افسانہ ’حدوں سے آگے‘جس کے نام پر اس مجموعے کا نام ہے،جدید تہذیب اور معاشرے کے سیاہ اور بدترین نفسیاتی اور جنسی پہلوکی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔آج نام نہادموڈرن کلچر کے نا م پر high ,fighمعاشرہ ہر طرح کی سماجی برایئیوں میں ملوث ہو کر بھی سوسائٹی کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے،یہ ہمارے لیے لمحہء فکرہے۔نئی تبدیلیاں معاشرے کے لیے منفی اور مثبت پہلو لے کر آتی ہیں۔مغربی طرزِ زندگی اور modernityکے نام پر جب موڈرن لڑکیاں اپنے بستروں میں کتّوں کو سلائیں گی تو انجام ہماری سو چ کی ’حدوں سے آگے‘ ہی ہوگا۔western cultureکو اپنانے اور میٹروپولیٹن شہروں کی بھاگ دوڈ بھری life styleکی وجہ سے بہت سے والدین اپنی ذات میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دے پاتے ہیں ۔ جس وجہ سے بچّوں میں اخلاقیات کا فقدان ہو جاتا ہے ۔ایسے خان دانوں میں انسانوں سے زیادہ کتّوں کی خاطر داری کی جاتی ہے۔انسان بھوکے پیٹ لبِ سڑک اپنا گزر بسر کرتا ہے۔لیکن سماج کی موڈرن سوسائٹی کے علم بردار اپنے کتّوں کو انسانی زیست پر فوقیت دیتے ہیں۔وہ اُنھیں مقوی غذا کے ساتھ ساتھ نرم بستر بھی فراہم کرتے ہیں۔محمد مستمر نے اس افسانے میں موڈرن طرزِ زندگی اور مغربی فکر و نظر کے فلسفے کے پرکھچّے اُڑا دئے ہیں۔افسانہ ’حدوں سے آگے ‘کا مرکزی کردار ایک کتّا ہے۔اس کے علاوہ دیگر کرداروں میں ’ّآہنہ،مسٹر بترا اور مسز بترا ہیں۔اس افسانے میں میں کتّے نے انسانوں کی ’حیوانیت ‘ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتّا پہلے پلّا تھا۔اس پلّے کو آہنہ کا خان دان اپنی جدیداور کھوکلی آن ،بان اور شان کی خاطر خرید لیتا ہے۔اس پلّے کی تربیت جدیدُ اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔آہنہ، عنفوانِ شباب کے پندرہویں سال میں غوطہ زن ہے۔پلّے کا بستر آہنہ کے کمرے میں لگایا جاتا ہے۔اسے موڈرن انسانوں کے گھر میں رہنے کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔پلّے کے بیمار ہونے پر اس کا علاج dog speaclistڈاکٹروں سے کرایا جاتا ہے۔آہنہ کو رات میں ٹیڈی بیئر کے ساتھ سونا پسند ہے۔ایک دن پلاّ ٹیڈی بیئر کو چاک کر دیتا ہے۔کیوں کہ پلّہ ،دھیرے دھیرے تندرست و توانا کتّے میں تبدیل ہو ررہا تھا۔آہنہ کتّے کی ہر تبدیلی سے واقفیت رکھتی ہے۔ آہنہ ٹیڈی بیئر کی جگہ اب اپنے بستر میں کتّے کو سلانے لگتی ہے۔کتّا ،ّآہنہ کے جسم اور سانسوں کی گرماہت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔آہنہ ،اپنے محبوب کتّے کے رات کے قصوں کو مزے لے لے کراسکول میں اپنی سہیلیوں کو سناتی ہے۔ایک رات آہنہ اپنے محبوب کتّے کے ساتھبستر میں dog porn filmدیکھتی ہے۔آہنہ اپنی جنسی خواہشات کو کتّے کے ساتھ پورا کرنا چاہتی ہے۔ dog porn دیکھنے کے بعدکتّے کے اندر تو انسانیت باقی رہتی ہے،لیکن آہنہ کی حیوانیت جاگ اُٹھی تھی ۔کتّااس گناہِ عظیم کو کرنے سے کب تک انکار کرتا۔آہنہ روزانہ برہنہ ہو کر کتّے کے ساتھ اپنی انسانیت کو تار تار کرتی ہے۔یہ گناہ نئی تہذیب کے پرستاروں کے لیے عام فعل تھا۔آخرکار کتیّ کی حیوانیت ایک دن جاگ اُٹھتی ہے اور افسانے کا انجام بھانک ہوتا ہے۔جسے قاری اپنے تخیلِ پرواز میں سما نہیں سکتا۔محمد مستمر نے اپنے فن کا رانہ کمال سے اس افسانے کو عروج بخسا ہے۔جو اس افسانے کی کامیابی کی ضمانت ہے۔انسانیت اور حیوانیت کے مٹتے ہوئے فاصلوں پر کتیّ کے نظریات جدید تہذیب کے پرستاروں کے لیے مشکل راہ ہیں۔
’’پھر ایک دن کیا ہوتا ہے ،جیسا کہ میں اپنے معمول کے مطابق اپنے فعل کو انجام دے رہا تھا اور ہم دونوں دُنیا و مافیہا سے
بے خبر،لذّت میں مسرور ،بے کراں سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔نہ جانے کیوں ہم دونوں کے جسم میں اس قدر شدت
و حرارات پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے پر بے تحاشہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔میری حیوانیت مجھ پر ایک طرح سے
حاوی ہو جاتی ہے۔لیکن آہنہ تو حیوان نہیں تھی……وہ تو ایک انسان تھی،نسلِ آدم تھی…..مگر میں پل بھر میں ہی فیصلہ
کر لیتا ہوں کہ وہ تو پچھلے تین سالوں سے حیوانیت کی سرحدوں میں داخل ہو چکی ہے۔وہ تمام حدوں کو تجاوز کر جاتی
ہے۔اس کا ہیجان اور جذبہ ء خواہش نقطہء عروج پر آ جاتا ہے میں اس کے جسم کو اپنے تیز پنجوں سے زخمی کرنے لگتا ہوں۔
مگر میں دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ آہنہ آہ اور ہلکی ہلکی چیخوں کے ساتھ اس درد میں اتنی ہی لذّت حاصل کرتی ہے،
جتنا اس کو درد دیتا جاتا ہوں۔میں ایسی لذّت سے سرابور ہو جاتا ہوں جس کو بیان کرنا میرے لیے محال ہے۔اچانک
مجھے ایک جھٹکا لگتا ہے۔میں گبھرا جاتا ہوں۔آہنہ کا چہرہ بھی فوراً زرد ہو جاتا ہے اور اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں فوراً
شبنم کی بوندوں کی طرح ابھر آتی ہیں۔میں لاکھ کوشش کرتا ہوں لیکن کامیابی مجھ سے کوسوں دور تھی۔میں بُری طرح آہنہ
کی طرح گھبرا جاتا ہوں۔ہم دونوں کے شریر کانپنے لگتے ہیں۔اسی کشمکش میں صبح ہو جاتی ہے۔دروازے پر دستک پر دستک
ہوتی رہتی ہے۔ہماری آوازیں گلے میں اٹک کر رہ جاتی ہیں۔دھڑام سے دروازہ ٹوٹ جاتا ہے۔مسٹر بترا اور مسز بترا یہ
سب دیکھ کر ہکّا بکّا رہ جاتے ہیںْایک زور کی چیخ اُن کے گلے سے نکلتی ہے۔جو کمرے کی دیواروں میں یقیناًشگاف کر
دیتی ہے۔‘‘
افسانہ ’’چولا‘‘میں محمد مستمر نے ایک ایسی سہاگن کی کہانی قاری کے سامنے بیان کی ہے جوشادی سے قبل اپنی دُبلی کایا سے پریشان رہتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد شوہر کے لمس سے اس کی کایااور حسن دونوں میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔اُس کے بدن کا ہر حصہ دمک اُٹھتا ہے۔اپنے بدن اور حسن میں آئی اس تبدیلی سے وہ حیران بھی ہے اور مسرور بھی۔بار بار آئینہ میں اپنے آپ کو نہارنا اسے راحت بخشتا ہے۔یہ افسانہ عورت کی نفسیات کی عمدہ عکاسی کرتا ہے ۔عورتوں کو اپنی تعریف دوسرے لوگوں سننا اچھا لگتا ہے۔اس افسانے میں عورت کے جذبہ ء جنس اور جذبہء شہوت کی بھرپور نمائندگی کی گئی ہے۔عورت جب اپنے قدرتی نسوانی رنگ کی رنگینی سے ٖفضا کو معطراور رنگین کرتی ہے ،اس دیو مالائی کیفیت کا بیان محمد مستمر نے اپنے کردار سے اس انداز سے کرایا ہے کہ قاری کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہلچل مچ جائے۔بہ قول افسانہ نگار۔
’’میری کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے کوئی سانپ کینچلی میں سے نکل کر چاند کی طرح نہایت چمکیلا اور خون صورت ہو جاتا
ہے۔میں نے بھی تو آخر کینچلی بدلی تھی،چولا تبدیل کیا تھاْ۔کنوارے پن کی کینچلی اُتار کر میں بھی تو سہاگن کے چولے
داخل ہوئی تھی۔‘‘
افسانہ ’’میرے اُستاذ‘‘ اُستاد اور شاگرد کے پاکیزہ رشتوں کی سچّائی کو بیان کرتا ہے۔ایک شاگرد کا اپنے اُستاد کے اُصولوں کی پیروی اور ان کا احترام کرنا کتنا نا گزیر ہے، یہ فلسفہ محمد مستمر نے خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔آج ،اس جدید دور میں جب انسانی زندگی برق رفتاری سے دوڈ رہی ہے اور انسانی قدروں کی پامالی ہو رہی ہے تو ایسے پُر آسوب ماہول میں مثالی اُستاد کا ملنا بھی مانواندھیرے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ا س افسانے میں مرکزی کردارماسٹرجمیل کا ہے۔پورے افسانے میں اُن کی شخصیت اور ان کے سماجی اثر و رسوخ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ماسٹر جمیل کی شخصیت سے اُن کا شاگرد بھی مرعوب اور متاثرہے۔ پورے گاؤ ں میں جب شاگرد کو کمرہ کِرائے پر نہیں ملتا ہے تو آخر میں شاگرد کے کام اُستاد ہی آتا ہے۔ماسٹر جمیل صاحب شاگرد کو اپنا خالی کمرہ کیرائے پر دے دیتے ہیں شاگرد اپنی آپ بیتی قاری کو سُناتا ہے۔افسانے کا ایک پیراگراف ملاحظہ ہے۔
’’جمیل صاحب اپنے آپ کو بہت کلوز اور رِزرو رکھتے تھے۔لوگوں سے بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ وہ کم گو
واقع ہوئے تھے۔بلکہ اُن کا اپنا نظریہ تھا کہ لوگوں سے آپ جتنی گفتگو کریں گے ،اُتنے ہی آپ محفوظ رہیں گے۔برائی سے
بچے رہیں گے ۔وہ لوگوں کی دوگلی حِکمتِ عملی ریا کاری اور مفاد پرستی جیسی صفات سے بہ خوبی واقف تھے۔جب وہ میرے
ساتھ باتوں میں منہمک ہوجاتے تو واقعی اپنی زندگی کے اپنے تلخ تجربات پیش کرتے اور اپنے واقعات بتاتے کہ جو عبرت
ناکاور سبق آموز ہوتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگ انسان اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پر بعض اوقات ایسی کار
آمد اور مفید باتیں بتا جاتے ہیں جو جو ڈھونڈھنے پر کتابوں میں بھی نہیں ملتی ہیں۔اور یہ وصفِ خاص میں نے اپنے اُستاد
کی ذات میں بہ خوبی دیکھا اور میں نے ان سے جو باتیں سیکھیں وہ آج میرے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو رہی ہیں۔‘‘
اس مجموعے کا آخری افسانہ’کل جُگ میں……؟‘ایک سوالیہ نشان کے ساتھ قاری سے روبرو ہے۔یہ افسانہ ہریانہ کے ایک گاؤں کے حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔حقیقی واقعے کو افسانے میں ڈھالنے کے ہُنرسے محمد مستمر بہ خوبی واقف ہیں۔یہ افسانہ سماجی تانے بانے اور انسانی رشتوں کو ایک مضبوط ڈور میں باندھنے کی بہترین کاوش ہے۔اس افسانے میں دو مرکزی کردار ہیں۔اجے ورما اور اُن کے مرحوم بیٹے ارجُن کی جوان بیوہ جوہی۔ثانوی کردار میں جوہی کی ساس کوشلیہ دیوی ہے۔ارجن کی اچانک موت سے پورا کنبہ سکتے میں آ جاتاہے۔اجے ورما جوہی کو اپنی بیٹی مان کر اُسے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا مصمم عزم کرتے ہیں۔جوہی کا داخلہ j.b.tکے کورس میں کرا دیا جاتا ہے۔دورانِ کورس جوہی کے class mateاس کے کردار پر طرح طرح کے سوال داغتے ہیں۔لیکن جوہی کسی بھی سوال کا جواب دینے کے بجائے خاموسی کی چادر اوڈھ لیتی ہے۔j.b.tکا کورس مکمل کرنے کے بعد جوہی c.t.e.tکا امتحان بھی پاس کر لیتی ہے اور اُستانی کے عہدے پر فائض ہو جاتی ہے۔جوہی نے آج جس مقام و مرتبے کو حاصل کیا تھا وہ سب اس کے سسر اجے ورما کا کارنامہ تھا۔ملازمت میں آنے کے بعد اجے ورما جوہی کے لیے رشتہ پکہ کر دیتے ہیں۔جوہی کی شادی کے دن پورے گاؤں کو دُلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔جب جوہی کو دُلہن کا کا لباس پہنایا جاتاہے تو اُسے پہلی مرتبہ دُلہن بننے اور ارجُن کے خیال ستانے لگتے ہیں ۔وہ اپنے جذبات کو قابو میں کرتی ہے۔منڈپ کی جانب گاؤں کے لوگوں کا سیلاب اُمڈ رہا ہے۔ہر کوئی اس مثالی اور انوکھی شادی میں شریک ہونا چاہتا تھا۔آج ہر کسی کی زبان پر اجے ورما کا نام تھا۔کیوں کہ اجے ورما نے گاؤں والوں اور میڈیا کے سامنے اپنی تمام جائداد رچنا ،کویتااور جوہی میں تقسیم کر دی تھی۔کہانی کے انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری اس میں گُم ہوئے بغیر نہیں رہ پائگا۔کہانی کا پلاٹ اتنا مضبوط ہے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔اس افسانے میں محمد مستمر نے شادی کی تقریب کی منظر کشی دل چسپ انداز میں کی ہے۔
’’جوہی اگنی کُنڈ کے سامنے ایستادہ ،ایسی محسوس ہو رہی تھی۔جیسے ساکشات کوئی دیوی کھڑی ہو۔آج کے یُگ کی دُرگا
اکیسوصدی کی جلیل القدر ناری۔مضبوط ارادوں والی عورت۔۔۔نہیں نہیں۔۔ بلکہ وہ مضبوط ارادوں والی جس کے زندگی
کا معرکہ سر کر لیا تھا۔دُلہن بنی سولہ سنگار کیے ہوئے۔اگنی کُنڈ کے پاس کھڑی ہوئی جو ہی کیفیت اور خود اعتمادی دیکھنے لائق
تھی۔پاس میں بیٹھا ہوا دُلہا ،جس کے ساتھ اُسے اُسے سات پھیرے لینے تھے۔اگنی کو ساکشی مان کر ،وچن بدھ ہو کر ۔۔
اسے اپنا پتی پرمیشور سویکار کرنا تھا۔وہ بھی بھونچکا سا عجیب عجیب نظروں سے یہ سب نظارہ دیکھ رہا تھا۔ایسا محسوس ہو رہا تھا۔
کہ جیسے جن سیلاب آ گیا۔ہر ایک منڈپ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔….جوہی کی طرف سب سے آگے میڈیا کا وفد تھا۔
اور ان کے عقب در عقب لوگوں کا ہجوم اُمڈا چلا آ رہا تھا۔دھکّا مکّی شروع ہو گئی تھی۔ہر کوئی اپنے زاوئے پر اپنے آپ
کو سنبھالے ہوئے تھا۔جو جوگ پستہ قد تھے وہ ایڈیوں پر ایستادہ ہو کر گردن اُٹھا اُٹھا کر جوہی کو دیکھنے کے لیے بے قرار
تھے۔‘‘
محمد مستمر نے اپنے افسانوں میں سماج کی اُن رو پوش حقائق کو قاری کے سامنے پیش کیا جن کی جانب کم لوگوں کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔واقعہ ،بھلے ہی چھوٹا ہو یا بڑا،معروف ہو یا غیر معروف اس پر قلم اُٹھانا ،پھر اسے افسانے کی شکل میں منظرِ عام پر لانا ایک مشکل عمل تو ہے لیکن نا ممکن بالکل نہیں۔لیکن محمد مستمر نے اُن تمام واقعات کو قلم بند کیا ہے،جنھیں انھوں نے دیکھا،سُنا ،پڑھااور برتاہے۔ان کے کئی افسانے خالصتاً جنسی نفسیات اور جنسی آسودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔جنسیات پر لکھنا افسانہ نگاروں کا محبوب ترین موضوع مشغلہ رہا ہے۔لیکن جنس کو قاری کے سامنے اس انداز میں پیش کرنا کہ اُسے جنسی کہانی پڑھے بغیر چین نہ آئے اس ہنر سے کم لوگ ہی واقف ہیں۔یہ نفسیات کی بند گرہوں کو کھولنے کا اعلا ن ترین طریقہ ہے۔جنس یات کے بھی اپنے رو پوش مسائل ہوتے ہیں۔ان مسائل کو اُجاگر کرنا افسانہ نگار کا کام تو ہے لیکن ان کا حل یا علاج اس کے پاس نہیں ہوتا۔بلکہ افسانہ نگار بڑی چالاکی سے ان مسائل کو قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔تاکہ قاری کے بند دماغ کے دریچوں میں ہل چل پیدا ہو سکے اور اس کی نفسیات میں حِسّیت کا جذبہ پنہاں ہو۔جس قاری نے ’انگارے‘لحاف،کھول دو،بو ،کالی شلوار ،کا مطالعہ بہ غور کیا ہوگا،وہ ان مسائل سے بہ خوبی واقف ہے۔
آج اُردو افسانوں میں دیہات کا ذکر ، منظر کشی او راس کی ترجمانی تقریباًختم ہوتی جا رہی ہے۔لیکن ہمیں تعریف کرنی ہوگی محمد مستمر کی کہ اُنھوں نے اپنے کئی افسانوں میں دیہات کی بہترین نمائندگی کی ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان کی جڑیں دیہات سے جُڑی ہوئی ہیں۔دیہات کی منظر کشی کے حوالے سے انھوں نے اپنے افسانے ’قدموں کے نشاں ‘ میں ،اینکھ کے کھیت،بیابان جنگل،سُنسان راستے،فصل کے لیے تیار کھیت،اور ان کھیتوں سے آتی بھینی بھینی خوشبو،کھیتوں میں عورتوں اور مردوں کے غول کے غول،گاؤں کے راستوں میں ٹہلتے ہوئے مویشی وغیرہ کا ذکر سلسلے وار طریقے سے کیا ہے۔اسی طرح اپنے افسانے ’کل جُگ میں‘ بھی محمد مستمر نے دیہات کی زندگی کی ترجمانی کی ہے۔اس افسانے میں انھوں نے دیہات کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس کو قاری کے سامنے نہ پیش کیا ہو۔بہینس کا دودھ ،گیہوں کی فصل ،جانوروں کے چارے کے لیے برسم کا استعمال،اور سب سے بڑھ کرپڑوسی کسانوں کا ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹانے کا ذکرطوالت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔دیہات کی منظر کشی کاکا بیان محمد مستمر نے بڑے دلکش انداز میں کیا ہے۔ملاحظہ ہو۔
’’بسنت کا مہینہ آچکا تھا۔ہر پیڑ پر لال،جامنی جامنی کونپلے نکل کر سبز کاہی رنگ اختیار کر چکی تھیں اور پتوں کی شکلیں
تبدیل ہو چکی تھیں۔آم کے درختوں پر بور کی بھینی بھینی خوشبو یءں چاروں اور فضا میں تحلیل ہو کر دماغ کی خلیوں میں
اُتر رہی تھیں۔اجے ورما کے کھیتوں کے علاوہ گھر اور گھر کے وسیع و عریض آنگن میں بھی نیم ،جامن اور آم کے درخت
کھڑے ہوئے ہیں۔آم کے تین درختوں میں ایک پیڑ دسہری کی قسم کا ہے اور دو لنگڑے کی قسم کے ہیں ۔جامن کا پیڑ
پیوندی ہے۔جس پر ہمیشہ موٹی موٹی جامن لگتی ہیں۔جنھیں آدمیوں کے علاوہ گھر سلیں ،گلہریاں اور طوطے بڑے چاؤ
سے کھاتے ہیں۔اور قطر قطر کرکے ڈالیوں سے نیچے گراتے رہتے ہیں۔آنگن کے ایک کونے میں بٹوڈے کے پاس
امرود کا پیڑ بھی کھڑا ہواہے۔جس پر سفید سفید کلیاں کھل رہی ہیں اوربھورے ، جامن ،بور اور امرود کی شگفتہ کلیوں پر
منڈلا رہے ہیں۔شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہت ایک الگ ہی قسم کا سما عی پیدا کر رہی ہیں۔‘‘(افسانہ کل جُگ میں)
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ محمد مستمر اکیسویں صدی کے افسانہ نگار ہیں۔بیسویں صدی کے اپنے مسائل تھے اور اکیسویں صدی کے اپنے مسائل ہیں۔آج زمانہ برق رفتاری سے دوڈ رہا ہے اور مسائل بھی اُسی رفتار سے انسان سے روبرو ہو رہے ہیں ۔ اس لیے افسانہ نگار کانئے مسائل کو نئے طرز پر لکھ کر قاری کے سامنے لانا قابلِ رشک مرہلہ ہے۔محمد مستمر اپنے دور کے مسائل کی نمائندگی بہ خوبی کر رہے ہیں۔محمد مستمر اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں موضوعات میں وسعت کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوں میں ہندی کے مشکل الفاظوں ،منتھن ،کارن،سادھن ،شُبھ مہرت، گمبھیر سمسیا،لالن پالن ،گربھ،منڈپ،سنسکار،ور ودھو،آلینگن ، سوڈول ،بھویسہ وغیرہ کا استعما ل ضرورت کے حساب سے بہ خوبی کیا ہے۔ساتھ ہی انگریزی کے لفظوں کا بھی جگہ جگہ استعمال کیا ہے۔افسانوں میں تازگی ،روانی اور دلچسپی قائم رکھنے کے لیے انھوں نے اُردو کے بر محل اشعار کے ساتھ ساتھ زبان زد خاص و عام محاورات کا بھی سلیقے سے استعمال کیا ہے۔الغرض!محمد مستمرنے شہری اور دیہاتی زندگی کے مسائل پر گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد افسانے تحریر کیے ہیں۔وسعتِ مطالعہ ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
تبصرے بند ہیں۔