کانگریس کے ڈوبتے جہاز کے کپتان کی تبدیلی
حفیظ نعمانی
سنتے سنتے کان پھٹے جارہے ہیں کہ راہل گاندھی کو کانگریس کا صدر بناؤ اور حیر ت اس پر ہے کہ وہ نائب صدر ہوتے ہوئے ہی جب سب کچھ ہیں تو صدر بن جانے کے بعد اور کیا بن جائیں گے؟ کون نہیں جانتا کہ ہر تنظیم میں نائب صدر سب سے گھٹیا اور کم تر درجہ کا عہدہ ہوتا ہے۔ کسی کسی پارٹی میں تو دس دس نا ئب صدر ہوتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ جس نے بھی کہا کہ آپ نے ہمیں کوئی عہدہ نہیں دیا۔ تو اسے فوراًنائب صدر بنا یا جاتا ہے۔ خود ملک میں صدر جناب پر نب مکھرجی اور نائب صدر جناب حامد انصاری کے درمیان کا فرق دیکھ لیجئے۔ کیا کانگریس کی صدر اور نائب صدر کے درمیا ن اتنا ہی فرق ہے؟ صدر شری پرنب مکھر جی ایک کوٹھی میں نہیں ایک محل میں رہتے ہیں۔ وہ محل جس میں ایک ہزار مکان بن سکتے ہیں۔ اس میں ایک پوری دنیا آباد ہے۔ سنا ہے صدر محتر م کوکوئی چیز باہر کی بنی ہوئی نہیں کھلائی جاتی۔ وہ صرف سال میں ایک بار پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں اور جس تام جھام کے ساتھ آتے ہیں اور جس پر سکون ماحول میں دونوں ایوانوں کے ارکان کو خطاب کرتے ہیں۔ اس کا نمونہ سال میں صرف ایک بارہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب کہ نائب صدر صاحب راجیہ سبھا میں ہر دن وہ کردار ادا کرتے ہیں جو انتہائی شریر طلبہ کے کلاس کو کنٹرول کرنے والے ماسٹر کرتے ہیں اور عاجز آتے ہیں تو چھٹی کی گھنٹی بجا کر گھر چلے جاتے ہیں۔
اور ایک صدر مسز سونیا گاندھی اور نائب صدر مسٹر راہل گاندھی ہیں جنکے درمیان صرف اتنا فرق ہے جتنا وہ قو م کے سامنے ظاہر کرنا چاہیں۔ ورنہ دونوں صدر بھی ہیں اور دونوں ہی نائب صدر بھی ۔ہر تنظیم میں ایک عہدہ جنرل سکریٹری کا ہوتا ہے جو صدر کے بعد دوسرا اہم عہدہ ہوتا ہے ۔جسکی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ نائب صدر بھی اس سے وقت لیکر ملتے ہیں ۔کانگریس میں جنرل سکریٹری بھی ہیں لیکن وہ نائب صدر سے وقت لیکر ملتے ہیں ۔اور اگر کوئی بات کہنا ہو تو نائب صدر سے اجازت لیکر کہتے ہیں ۔کانگریس کے صدر نائب صدر جنرل سکریٹری اور ورکنگ کمیٹی پارلیمنٹری بورڈ ۔سب کچھ صرف سونیا گاندھی اور راہل گاندھی ہیں جنکو انکی عمر سے دوگنی عمر کے سیف الدین سوز صاحب بھی راہل جی کہنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
ہمارے نزدیک بات صرف اتنی سی ہے کہ قدم قدم پر نا کامیوں کی طرف سے بچے کھچے کانگریسیوں کا ذہن ہٹانے کے لئے یہ ڈرامہ کیا جارہا ہے کہ صدر تھک گئی ہیں ،صحت بھی کمزور ہے ۔اور یہ بھی چاہتی ہیں کہ کانگریس کی روایتوں کی پابندی کرتے ہوئے ہر فیصلہ خود کریں اور اس میں اور زیادہ تھک جاتی ہیں ۔اس لئے قدم بہ قدم پارٹی پیچھے جارہی ہے ۔اگر جواں سال راہل گاندھی کو صدر بنا دیا جائیگا تو وہ آندھی طوفان کی طرح پورے ہندوستان کو دھن کر رکھ دیں گے ۔اور کانگریس کو وہیں لے آئیں گے جہاں وہ راجیوگاندھی کے وقت تھی۔
راہل گاندھی کو صدر بنانے کے بعد کتنے بزرگ آرام کرنے چلے جائیں گے ۔اور کتنے جوانان کانگریس ذمہ داریاں قبول کریں گے ۔یہ تو اسوقت معلوم ہو جائے گا جب راہل گاندھی کو صدر بنا دیا جائیگا ۔ہمارے ذہن میں تو یہ ہے کہ جب کانگریس کی صدارت بلکہ ملکیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ فیروز گاندھی کا خون اور اندراگاندھی کا دودھ ہو تو راہل گاندھی کے بعد کیا ہوگا ؟سونیا جی نے شاید راہل کی شادی اس لئے نہیں کی کہ انہوں نے اپنی ساس اندراگاندھی کو دیکھا تھا کہ وہ سنجے گاندھی کی شادی مینکا سے کرنے کے بعد کیسے ایک کنارے بیٹھا دی گئی تھیں ۔اور جو کچھ ہو رہا تھاوہ صرف سنجے اور مینکا کے حکم سے ہورہا تھا ۔اور سنجے گاندھی کی حیثیت یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کا کوئی ٹکٹ انکی مرضی کے بغیر نہیں دیا جاسکتا تھا ۔انتہا یہ تھی اندرا گاندھی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ہر فیصلہ سنجے کرتے تھے ۔جبکہ راجیو گاندھی بڑے بیٹے اور سونیا گاندھی بڑی بہو تھیں ۔لیکن انہیں اسکی بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے ؟
کانگریس میں سارا زور اس پر ہے کہ راہل کو صدر بنا یا جائے ۔اور کسی کو اسلئے صدر نہیں بنا یا جائیگاکہ وہ اندرا گاندھی کا بیٹا یا پوتا نہیں ہے ۔اگر یہی معیار ہے تو مسٹر راہل کے بعد کیا ہوگا ؟وہ کب شادی کریں گے ۔کب اولاد دینے والا اولاد دیگا ۔اور دیگا تو بیٹا کب دیگا ؟پھر وہ کب اس قابل ہوگا کہ کانگریس کا صدر بن سکے ۔اگر اس میں 40یا50بر س لگ گئے تو درمیان میں کیا ہوگا ۔اور اگر دنیا کے پالن ہار نے بیٹی ہی بیٹی دی اور اس نے بھی کسی رابرٹ واڈرا جیسا جیون ساتھی منتخب کرلیا تو کیا ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ان سب باتوں پر ابھی غور کرلیا جائے۔ اس لئے کہ ملک کی صورت حال سب دیکھ رہے ہیں کہ صرف ایک احتجاج کے موقع پر رابرٹ کا فوٹو پوسٹر میں لگا دیا تھا تو فوراً لندن کے ایک بے نامی مکان کی خریداری اور ایک اسلحہ کے بدنام سودا گر سے انکے رشتے نکل آئے ۔اور سونیا گاندھی کو پہلی مرتبہ آپے سے باہر ہو کر وزیر اعظم پر ذاتی حملہ کرنا پڑا ۔اور کہنا پڑا کہ تحقیقات کیوں نہیں کراتے کہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے؟
امیٹھی میں 2014کے الیکشن میں پرینکا گاندھی اپنے بھائی کی حمایت میں مہم چلارہی تھیں۔ مودی صاحب نے امیٹھی سے اسمرتی ایرانی کو کھڑا کردیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ دنیا نے دیکھا وہ سیاست کانمونہ نہیں بلکہ خاندانی جھگڑا جیسا مظاہرہ تھا ۔مودی صاحب ہر قیمت پر راہل کو ہرانا چاہتے تھے۔ انھوں نے بے ضرورت اسمرتی ایرانی کو اپنی چھوٹی بہن کہہ دیا اور الیکشن کو اپنی ذات سے جوڑ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے پرینکا پر جیسے حملے کئے اور جیسے ترکی بہ ترکی جواب سنے یہ انکی شان کے خلاف تھا لیکن یہ اس لئے ہوا کہ پرینکا رابرٹ کی بیوی بھی تھیں ۔
راہل گاندھی کے صدر بننے نہ بننے کا مسئلہ برسوں سے کانگریس کا موضوع بنا ہوا ہے۔ پنڈٖت نہرو کا یہ کبھی خاندانی مسئلہ نہیں رہا ۔صرف ایک بار اندرا گاندھی کو صدر بنا دیا تھا۔ جس وقت اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنا یا گیا تھا اس وقت بھی کانگریس کے صدر کا مراج تھے۔ کانگریس کا صدر کوئی بھی ہواندرا گاندھی خاندان کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔ آج اگر گاندھی جی کے پوتے بے سہارا بزرگوں کے آشرم میں زندگی گز ارنے پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی جی کانگریس کے کبھی کچھ نہیں رہے۔ بلکہ بقول خود چار آنے کے ممبر بھی کبھی نہیں رہے۔ لیکن اندرا گا ندھی صدر بھی رہیں اور وزریر اعظم تو سب سے زیادہ رہیں اور انہوں نے ہی کانگریس کو خاندان کا کلب بنا دیا۔ اب اچھا یہ ہوگا کہ سونیا گاندھی کسی تیز طرار آدمی کو صدر بنا دیں اور لگا م راہل کو دے دیں۔پھر ماں بیٹا بیٹی وہ سب کریں جسکی پارٹی کو ضرورت ہو اور اگر پھر حکمرانی کاموقع مل جائے تو راہل یا پرینکا کسی کو بھی وزیر اعظم بنا دیں۔
سونیا اپنے داماد کی فکر اس لئے نہ کریں کہ آزاد ہندوستان کی یہ روایت ہے کہ ملک کے بڑے صرف ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ کسی کو نہ ہتھ کڑی لگواتے ہیں نہ بیڑیاں پہناتے ہیں اور نہ سزا دلواتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ جب ہم کسی کے ساتھ برا نہیں کریں گے تو کوئی ہمارے ساتھ بھی برانہیں کریگا ۔یہ تماشہ ملک 1977سے دیکھ رہا ہے اور یہ اس فراخ دلی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے درجنوں دولت مندوں نے بینکوں کا لاکھوں کروڑروپیہ ہضم کر لیا۔ اور بینکوں نے معاف کردیا ۔یہ کل بھی ہوا تھا یہ آج بھی ہو رہا ہے ۔اور یہ کل بھی ہوگا ۔اس لئے کہ یہ باہمی معاہدہ ہے جو لکھا پڑھا نہیں ہے۔ رابرٹ واڈرا سے بہت بڑی بے ایمان جیہ جے للتا اور کروناندھی بھی اسکی مثال ہیں اور ان کے ووٹر ان کی پوجا کرتے ہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔