’انصاف‘ کی روح قبض نہیں ہوگئی؟

شاہدالاسلام
گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں طویل انتظار کے بعد بالآخر فیصلہ آگیااور خصوصی عدالت نے ثبوت و شواہد کی روشنی میں 24فسادیوں کو مجرم اور36دیگر کو بے قصور قرار دے دیالیکن اِس فیصلے کو نہ تو’مثالی انصاف‘ کہاجاسکتا ہے اور نہ ہی اِس فیصلہ کوبنیاد پر ہندوستانی نظامِ عدل و انصاف کی پگڑیاں اچھالی جاسکتی ہیں۔البتہ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں انصاف ہو گیایا نہیں،اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی خصوصی عدالت نے گلبرگ سوسائٹی کے مقدمہ میں24افراد کو قصورواراور36لوگوں کو بری قرار دیا،یہ سوال کھڑا کیاجانے لگا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ 24 لوگ مل کر 69 لوگوں کو مار ڈالیں گے؟بہ ظاہر یہ ممکن نہیں دکھائی دیتالیکن دوسرا سوال تو یہ بھی ہے کہ عدالت کیا ایسے لوگوں کو بھی ’مجرم‘ کی صف میں کھڑا کردے،جن کا جرم ’کمزوردلیلوں‘ ، ’ناکافی ثبوتوں‘اور ڈرے وسہمے گواہوں کے بیانات کی وجہ سے ثابت ہی نہیں ہوسکا۔ظاہر ہے کہ عدالتیں اپنے دائرۂ اختیار سے تجاوز نہیں کرسکتیں کیونکہعدالتیں صرف اور صرف ’ثبوت‘ و شواہد کو پیش نظر رکھ کر گواہوں کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ کو انجام تک پہنچایا کرتی ہیں اور یوں کچھ لوگ’’ قصور وار‘‘اوربہت سے لوگ ’’بے قصور‘‘ قرارپاجاتے ہیں۔گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں بھی بہ ظاہر گمان یہی گزرتاہے کہ عدالت میں ملزمان کو مجرم قراردلانے کی جو بھی کوشش ہوئی،وہ تسلی بخش نہیں تھی،جس کی وجہ سے اتنے لوگوں کو بھی سزا نہ ہوسکی،جتنے لوگ اس سوسائٹی میں فسادیوں کی درندگی کے شکار بنے تھے۔گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس اُن چند مقدمات میں سے ایک ہے جس میں بد قسمتی سے انصاف بہ ظاہر رسوا ہوتادکھائی دے رہاہے اورتاثریہ بھی ابھررہاہے کہ انسانیت کو سر عام نیلام کرنے والے لوگ بھی قانون کی نگاہوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجارہے ہیں۔انصاف کا تقاضا تویہ تھا کہ وحشی درندوں کا رول نبھانے والے حیوانوں کی قانون ایسی خبر لیتا جو عبرت ناک کہلا سکے مگراِس ستم ظریفی پر قربان جائیے کہ گنہ گاروں کی گردن مروڑ کر رکھ دینے والا فیصلہ سامنے آتا دکھائی نہیں دے رہاہے،بلکہ اِس کے برخلاف 36افراد کواِس مقدمہ میں بری کئے جانے سے یہی تاثرابھرتا ہے کہ اس فیصلہ سے انصاف کی روح بھی قبض ہورہی ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ عدالت نے استغاثہ کے پیش کردہ ناکافی ثبوت و شواہد کی بنا پر36ملزمان کو بری کیااوراگر یوں انصاف رسواہورہاہے تواس کیلئے عدالت پر سوال کھڑا کرنا یا عدلیہ کی ایمانداری کو کٹہرے میں کھڑا کردینا بڑی حماقت ہوگی بلکہ اس کے برخلاف یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگاکہ ایسے حالات کیلئے پورے طورپراستغاثہ کوہی ذمہ دارقراردیاجاسکتا ہے ۔ قانون کے بہت سے جانکاروں کی اِس رائے سے عدم اتفاق مشکل ہے کہ استغاثہ اس کیس کو ٹھیک ڈھنگ سے عدالت میں پیش نہیں کرسکایا پھر استغاثہ کی یہ کوشش رہی کہ ملزمان کو زیادہ سے زیادہ راحت دلانے میں کامیابی حاصل ہو۔غالباًیہی وجہ رہی کہ ملزمین کے خلاف ثبوت و شواہد کو منظم انداز میں پیش نہیں کیا گیا،جس کا راست فائدہ اُن36ملزمان کو حاصل ہوگیا،جنہیں خصوصی عدالت نے مستحق سزا نہ گردانا ۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقدمہ کو انجام تک پہنچانے کے عمل میں عدالتیں پورے طورپر ’اندھی‘ ہوتی ہیں۔ یعنی مقدمہ سے متعلق عام رائے کیا ہے،عقلی دلیلیں کیا کہہ سکتی ہیں یا کہتی ہیں؟ ان باتوں سے عام طورپر عدالتوں کو کوئی سروکار نہیں ہوا کرتا بلکہ اِس کے برعکس یہ دیکھاجاتا ہے کہ کسی بھی مقدمہ میں ملزمین کے خلاف کیاالزامات عائد کئے گئے ہیں،اِن الزامات کو ثابت کرنے کے حوالہ سے فریق استغاثہ کے پاس ثبوت وشواہد کیا ہیں اور یہ بھی کہ فریق دفاع اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کہاں تک کامیاب ہے؟انہی نکتوں پر عدلیہ کی توجہ مرکوز ہوا کرتی ہے اور انہی کی روشنی میں مقدمات فیصل ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ گلبرگ سوسائٹی کے مقدمہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہواہوگا اور یوں عدالت نے مخصوص دائرے میں رہ کر مقدمہ فیصل کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ممکن ہے کچھ نکتوں پر عدلیہ کی توجہ مرکوز نہ رہی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ قابل غور اور لائق توجہ نکات نظرانداز ہوگئے ہوں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ تمام واضح ثبوتوں اور شواہد کو پس پشت ڈال کرخصوصی عدالت نے 36ملزمان کو کلین چٹ دے دی۔
ویسے عدالت عظمیٰ نے کبھی یہ تبصرہ کیا تھا کہ مقدموں کوصرف جلد فیصل ہی نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہئے۔اب اس مقدمہ میں کم از کم یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر نظرآرہا ہے۔ عدالت عظمیٰ حالانکہ انصاف میں تاخیر کو بھی ’’بڑی ناانصافی‘‘ تصور کرتی ہے لیکن اِسے کیا کہاجائے کہ 2002کے فسادات کا یہ مقدمہ کوئی 14سال بعد خصوصی عدالت کے ذریعہ اپنے انجام کو پہنچ رہاہے اور یوں سمجھئے کہ آئندہ 6جون کوجب 24مجرمین کیلئے سزاؤں کا تعین ہوجائے گا تب کہیں جاکر یہ مقدمہ خصوصی عدالت سے فیصل سمجھاجائے گااور پھر اِس کے بعد شروع ہوگااپیل در اپیل کا ایک نیا سلسلہ جس میں پہلے عدالت عالیہ کے دروازے پر دستک دی جائے گی اور بعدازاں عدالت عظمیٰ سے بھی یقینارجوع کیا جائے گا۔اپیل کے دروازے چونکہ مقدمہ سے متعلق تمام فریق کیلئے کھلے ہوں گے،یعنی متاثرین کیلئے بھی،ملزمان کیلئے بھی،مستحق سزاقرارپانے والوں کیلئے بھی،کلین چٹ پانے والوں کیلئے بھی، اِس لئے کسی بھی فریق سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اِس سہولت کا فائدہ نہ اُٹھائے۔ایک طرف اگر24گنہگار قرار پانے والے ’مجرمین‘سزاؤں کے تعین کے بعد ملنے والی سزاؤں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے اعلیٰ عدالت سے رجوع کریں گے،تو دوسری جانب اُن ملزمان کو سزادلانے کیلئے بھی متاثرین عدالت عالیہ و عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے جنہیں خصوصی عدالت سے بری قرار دے دیا گیا ہے۔گویا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اِس مقدمہ کے تعلق سے حقیقی معنوں میں چارہ جوئی کا سلسلہ تب تک ختم نہیں ہوگا،جب تک عدالت عظمیٰ کی جانب سے آخری فیصلہ نہیں آجائے گا،جس میں ابھی کافی تاخیر ممکن ہے۔بہ الفاظ دیگر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ نظام عدل کا جو طریقہ ہمارے یہاں مروج ہے،اُس کی روشنی میں قانونی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے عدل و قانون کی بالادستی کومکمل طور پر یقینی بنانا آسان نہیں ہے۔اِس کیلئے مزیددسیوں برس درکارہے،جب کہیں جا کر یہ تصویر واضح ہو سکے گی کہ ہماراقانون گنہگاروں کو قرارواقعی سزائیں دلانے میں کامیاب ہوگا یا گنہگاروں کی اکثریت جان بچالینے میں کامیاب ہوگی۔
بہرحال 14برسوں بعد عدالت کی چارہ جوئی کا عمل جس نہج پر اپنے اختتام کے قریب پہنچا ہے،اسے دیکھتے ہوئے قانون کا معمولی جانکار بھی یہ رائے قائم نہیں کرے گا کہ یہ مقدمہ حصولِ انصاف کی امیدیں پالنے والوں کوبہت زیادہ تقویت پہنچانے کا سبب کہلائے گا۔28فروی 2002کو احمد آباد کے پوش علاقہ میں واقع گلبرگ سوسائٹی کے اپارٹمنٹ میں فسادیوں کے ذریعہ لگائی گئی آگ میں 69افرا د کی موت واقع ہوگئی تھی۔ہلاک شدگان میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی شامل تھے۔ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جن فسادیوں نے یہاں قتل وغارت کا ننگا ناچ کیا،کیا اُن کی تعدادمحض24ہوسکتی ہے؟مطلب واضح ہے کہ 69 لوگوں کومارنے کیلئے صرف 24افراد ذمہ دار قرار پارہے ہیں،جن کو عدالت نے گنہگار تصور کیا ہے؟اِن میں سے بھی صرف 11 مجرموں کو قتلِ عمد کی دفعہ 302 کے تحت مجرم قرار دیا گیا ہے۔باقی ماندہ ملزمان کوغالباًمعاونت کے جرم میں سزا سنائی جائے گی۔سوال یہ کیاجاسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ دو درجن افراد مل کریہاں خون کی اتنی بڑی ہولیاں کھیل لیں جس میں انہیں69افرادکو جلا کر مارڈالنے میں کامیابی مل جائے؟ اس سوال کا جواب عدالت سے تو نہیں پوچھا جاسکتا لیکن حکومت سے ہر کسی کو یہ سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ کیااِن مٹھی بھر لوگوں نے ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیااور خونریزی کے ذریعہ گجرات فساد کامکروہ باب لکھ ڈالا؟
سوال صرف یہ نہیں ہے کہ 36ملزمان کیسے بری ہوگئے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ خون کی ہولی کھیلنے والے لوگوں میں اگر یہ36لوگ شامل نہیں تھے تو وہ لوگ کون تھے اور انہیں کس نے انصاف کے کٹہرے پرلاکھڑاکرنے سے انتظامیہ کو روکا؟گجرات کے گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام کیس کا یہ فیصلہ اِس وجہ سے بھی کچھ زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اِس سے متعلق معاملہ میں ہمارے وزیر اعظم یعنی نریندرمودی کی گرن بھی پھنستے پھنستے بچی ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ اِس معاملہ میں موجودہ وزیر اعظم نریندرمودی سے بھی باز پرس ہوئی تھی۔سچ ہے کہ ایس آئی ٹی نے موجودہ وزیر اعظم اور گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مودی ایس آئی ٹی سے کلین چٹ ملنے کے باوجود اپوزیشن کی نظر میں بالخصوص اور گجرات فسادات کے متاثرین کی نگاہوں میں بالعموم ایک ’’گنہ گار‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اپوزیشن کا جو موقف ہے ،اُسے سیاست زدہ قرار دے کر نظر انداز تو کیاجاسکتا ہے لیکن گجرات فسادات کے اُن مظلومین کے موقف کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ،جنہیں حصول انصاف کی صبر آزما لڑائی کے درمیان کبھی بھی مودی کی قیادت والی گجرات سرکار کی جانب سے یہ پیغام نہیں دیاگیا کہ سرکار اِن کے تئیں انصاف پسندانہ سلوک اختیار کرنے کی خواہاں ہے۔بلکہ اِس کے بر خلاف قدم قدم پر فسادیوں کی یا تو اعانت کی گئی یا پھر اِن کے تئیں حکومت وقت کا رویہ مشفقانہ رہا۔چنانچہ ایسے ماحول میں انصاف کی لڑائی لڑنا کسی مجاہدے سے کم نہیں تھا لیکن یہ بڑے جگر گردے کی بات ہے کہ حکومتِ وقت سے خائف ہوئے بغیر حصول انصاف کی جنگ لڑنے والوں نے قانونی معرکہ آرائی کاسلسلہ ہی دراز نہیں کیا،بلکہ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ قانون کو مجبور محض بناتے ہوئے فسادیوں کی اعانت کی جارہی ہے تو انہوں نے عدالت عظمیٰ کے در پر بھی دستک دینے سے گریز نہیں کیا۔اس کے باوجود اگر اِس مقدمہ میں تمام فسادیوں کو سزا نہیں مل پارہی ہے اور چند لوگوں کو اِس فساد کیلئے ذمہ دار قرار دے کر باقی ماندہ گنہ گاروں کو راحت پہنچانے کی کوشش ہورہی ہے تو یہ بھی حیران کن نہیں کہلاسکتا۔اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے مقدموں میں عموماًپولس انتظامیہ کا رول نہایت اہم ہوا کرتا ہے۔بہ الفاظ دیگر یہ کہاجاسکتا ہے کہ عدلیہ خواہ کسی قدر فعال ہو،غیر جانبدار ہو اور انصاف کی فراہمی کے تئیں کو شاں بھی،پھر بھی اگر پولس انتظامیہ یہ چاہ لے کہ وہ ملزمان کو کلین چٹ دلاکر رہے گی تو عام طور ایسے حالات کے درمیان عدالتیں بے بس ہوجایا کرتی ہیں اور منتظمہ بالخصوص پولس انتظامیہ اپنی شاطرانہ کوششوں سے مخصوص معاملوں میں خاص لوگوں کے تئیں نرم دلی کااظہار کرنے میں کامیاب ہوجایا کرتی ہے اور یوں نتیجہ وہی برآمد ہوتا ہے،جس طرح کی تصویر ہمیں گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2002کے گجرات فسادات کے حوالہ سے ریاستی حکومت کا رول کیا تھا اور بہ حیثیت وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے اُس وقت ’’راج دھرم‘‘ کس طرح نبھایا۔بھارتیہ جنتاپارٹی کے’’گاڈ فادر‘‘اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کا وہ تبصرہ آج بھی ہمارے دماغ میں محفوظ ہے،جس میں موصوف نے نریندر مودی کی فرائض کے تئیں لاپروائی پرسخت الفاظ سے سرزنش کی تھی اورکہتے ہیں کہ گجرات میں ’’راج دھرم‘‘ نبھانے میں مودی کی ناکامی پر ہی انہوں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’وہ اب بیرون ملک کیا منہ دکھائیں گے‘‘۔حالانکہ یہ زیر تحقیق معاملہ ہے،البتہ یہ تو مسلمہ سچائی ہے کہ انہوں نے مودی کو راج دھرم نبھانے کا پاٹھ پڑھایا تھا ۔یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ باجپئی نے کبھی بھی عوامی طورپر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اُن کی نصیحتوں کا کوئی اثر مودی پر ہوا بھی آیا نہیں؟گردش ایام کے تحت اب مودی ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں اورباجپئی کے لفظوں میں’راج دھرم ‘نہ نبھانے کا داغ جھیلنے والے ہمارے وزیراعظم کا ’راشٹر دھرم‘نبھانے کیلئے ملک کی قیادت فرمارہے ہیں۔گلبرگ سوسائٹی کیس میں اِن کی زبان خاموش ہے تو حیران کن بھی نہیں ہے۔یہ گجرات فساد کی تاریخ کا ایک عجیب وغریب باب ہی کہلائے گاکہ جب مودی سی ایم تھے،گلبرگ سوسائٹی میں خون سے ہولیاں کھیلی گئیں اوراب جبکہ وہ پی ایم ہیں،انصاف کی رسوائی کااحساس عام ہورہاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔