عرض داشت- محمد علی: بہادر کی طرح جیے

عالمی باکسنگ میں ایک مثال کی طرح سے دوست اور دشمن دونوں کے لیے محمد علی یادگار بنے رہیں گے،اُن کی وفات سے دنیا میں اسپورٹس کی پہلی سیاہ مملکت کا اختتام

صفدر امام قادری
ہمارے ہوش سنبھلنے کے زمانے ابھی آیا ہی چاہتے تھے جب اردو اخباروں بالخصوص ہفتہ وار سنسنی خیز خبریں پیش کرنے والے ترجمان اپنی سُرخیوں میں بار بار دنیا میں بہادری کی واحد مثال کے طور پر محمد علی کا نام شائع کرتے تھے۔ سیاہ فام چھے فِٹ تین انچ کے اُس شخص کی مٹھّیاں بھنچی ہوتی تھیں اور ایسا لگتاتھا کہ دنیا میں جو اُس کے سامنے آئے گا، وہ ڈھیر ہو جائے گا۔ آنکھیں اُسی طرح تیز اور روشن، ارجُن کی طرح مچھلی کی آنکھ پر نظر رکھنے والی۔جسم کی زبان صاف صاف بولتی ہو کہ جو ہم سے ٹکرائے گا ، وہ چوٗر چوٗر ہو جائے گا۔
دنیا میں کالے اور گورے کی جنگ کی عجیب و غریب تاریخ رہی ہے۔ سیاست اور سماج کے عمومی سوالوں کو چھوڑ دیجیے اور صرف اپنی بات کھیل کوٗد کے دائرے میں سمیٹ لیجیے ،تب بھی یہ ایک سچّائی ہے کہ یہاں بھی کالوں کو کسی نے انصاف نہیں دیا اور سفید چمڑے والوں سے بہت تگ و دَو کے بعد کئی گُنی طاقت سے انھیں جیتنے کی مہم شروع کرنی پڑی تب جاکر کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ امریکہ میں آج جس جمہوری ذائقے کو چکھتے ہوئے براک اوباما ملک کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے، اس کے لیے پچاس سال کی محنت کرنی پڑی۔ 1960ء میں جب سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ دینے کے حقوق حاصل ہوئے ، اس کے بعد محض نصف صدی میں سیاسی قائد ایک سیاہ امریکی کو حاصل ہو گئے۔ لیکن اسپورٹس کی دنیا میں یہ جنگ اور پہلے سے شروع ہوئی تھی۔ ایتھلیٹکس کی دنیا کا سب سے بڑا ہنر ور جس جے ۔سی ۔اونس کو تسلیم کرتی ہے، اُسے اُس جگہ تک پہنچنے کے لیے کانٹے دار جوتے پہننے پڑے۔ اولمپک میں الگ گاؤں میں ٹھہرایا گیا اور اُسی دوران جوتے کی دکان میں جز وقتی ملازمت کرنی پڑی تاکہ وہ اپنے ڈائٹ اور فائنل مقابلے تک خود کو قائم رکھ سکے۔
سیاہ فام دنیا کی بادشاہت جب جے۔سی۔اونس کے ہاتھ میں آئی، اولمپک کا وہ بھی کیا منظر ہوگا جب دنیا کا سب سے تنگ نظر ڈکٹیٹر ہٹلر ملک کے سربراہکی حیثیت سے انعام دینے کے لیے اسٹیڈیم میں موجود تھا۔ جب لگاتار چار سونے کے تمغے حاصل ہوئے تو ہٹلر میدان سے باہر چلا گیا۔
دنیا میں کالے اور گورے کی جنگ صرف مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا نے نہیں لڑی۔ ہمیں یا د ہے کہ جب اٹھّار ہ برس کی عمر میں پہلی بار محمد علی نے 29؍اکتوبر 1960کو دنیا کا پہلا خطاب جیتا تھا ، اس دن سے اُس کے پیچھے سیاہ فام ہونے کی ایسی پرچھائیں چلی جس کی وجہ سے اُسے بار بار نفرتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آسانی سے اُس عہد میں یہ کوئی ماننے والا نہیں تھا کہ کوئی سیاہ فام شخص گوروں کی طاقت کو روندتے ہوئے اپنی فتح یابی کا جشن منائے گا۔ ورلڈ ہیوی ویٹ مقابلے میں محمد علی تین بار فاتح ہوئے۔ کسی نے کامیابی کا ایسا ذائقہ ہنوز نہ چکھا ہے۔ پوری زندگی میں پانچ بار شکست محمد علی کے حصے آئی۔ اُس میں بھی تین شکستیں تو آخری دور چھتیس سے انتالیس برس کی عمر میں ۔ یعنی صرف دو بار محمد علی اپنے عروج کے زمانے میں ہارے۔ 1971ء میں جویو فریزئر سے اور 1973ء کین نارٹن سے ۔ دونوں سے دوبارہ لڑکر خطاب حاصل کیا۔
محمد علی پر پہلے سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اختلاف کی صورت ہوتی تھی اور سفید فام دنیا دل سے یہی چاہتی تھی کہ محمد علی شکست کھائیں۔ لیکن اچانک جب محمد علی نے اسلام مذہب قبول کر لیا اور خدا کی یکتائی اور قادرِ مطلق ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے مغرب میں اختلاف کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی۔ باکسر کی زندگی میں ٹھنڈا پن نہیں ہوتا۔محمد علی سخت باتیں کہنے لگے اور جب فریزئر نے انھیں ہرایا تھا تو اخباروں نے محمد علی کا بیان اس طور پر شائع کیا کہ فریزئر خدا کا دشمن ہے اور شکست اُس کا مقدّر ہے۔ یہ تاریخ کا حصّہ ہے کہ چند مہینوں میں محمد علی نے اُس سے چیمپئن ہونے کا خطاب چھین لیا۔
محمد علی نے جب باکسنگ سے رٹائر منٹ لیا ، آج اس کے پینتیس برس بیت گئے۔ 1981ء سے محمد علی رِنگ سے باہر رہے لیکن رفتہ رفتہ اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ کالے کھلاڑیوں میں پیلے اور محمد علی نے کھیل کے اختتام کے بعد اپنی مختلف طرح کی کارکردگیوں کے سبب اپنی مقبولیت کا گراف کبھی گِرنے نہیں دیا۔امریکہ میں مختلف طرح کی فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر وہ کچھ اس طور پر مشغول رہے کہ کالے لوگوں کی دنیا میں انھیں مزید مقبولیت ملتی رہی۔ 1975ء میں انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور دنیا کے صوفیوں کی تعلیمات سے گہرے طور پر متاثّر تھے۔ بعد کے زمانے میں وہ ایک منکسر مزاج ، شیریں زبان اور محبت دار انسان کے طور پر پہچانے گئے۔ یہ ممکن ہے کہ ان کی شخصیت کی اس تبدیلی نے مذہبِ اسلام کی تعلیمات اور لگاتار جدّو جہد کے نتیجے میں حاصل شدہ کامیابیوں کا بڑا ہاتھ ہو۔
قدرت کا یہ عجیب و غریب معاملہ ہے کہ محمد علی کو آخری دور میں ایک ایسے مرض سے دوچار ہونا پڑا جسے پارکنسن کہتے ہیں۔ وہ شخص جس کے اشارے سے جری اور بہادر کانپ اُٹھتے ہوں، وہ 1984ء میں پارکنسن کے مرض میں مبتلا ہوا۔ آج جب اُن کی موت ہوئی تو وہ اسی مرض کے اسیر تھے۔ خود سے نہ ایک کاغذ اُٹھا سکتے تھے اور نہ جسم کسی کی محتاجی کے بغیر چند قدم کا فاصلہ طے کر سکتا تھا۔ گذشتہ تین دہائیوں میں محمد علی اسی طرح اپنی زندگی سے لڑتے رہے لیکن تحریر، تقریر یا دوسرے لوگوں کی مدد سے امن اور محبت کا پیغام دینے کے کام میں کبھی رُکاوٹ نہ بنے۔ اِسی لیے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
ہندستان میں قاضی نذر الاسلام بھی لاعلاج مرض میں زندگی کے آخری تیس برس کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ محمد حسین آزاد جنون کے مرض میں آخر بیس برس زندہ لاش بن کر دنیا کے لیے مقامِ عبرت بنے رہے۔محمد علی بھی اپنی زندگی کی آخری تین دہائیوں میں ایک وجودِ محض بن کر دنیا کے سامنے تھے۔ آدمی جب اپنے کام کے عروج پر ہو، ٹھیک اُسی وقت جسمانی صحت کے ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے صرف زوال ہی زوال ہو، محمد علی کی زندگی اس انسانی قوّت اور قدرت کے کھیل کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ طاقت کی بلندی پر صحت کا ایسا امتحان سامنے آیا جس سے کبھی فراغت نصیب نہ ہو سکی۔ محمد علی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ زندگی میں جو قیمتی وقت ملے اس کا پہلی فرصت میں استعمال کرکے دنیا کو فیض پہنچا لینا چاہیے ۔ ورنہ زندگی اور صحت کا کیا بھروسا۔ سیاہ فام برادری کا دنیا کا سب سے طاقت ور آدمی آج رخصت ہوا۔ بہ قولِ شاعر : آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے۔

تبصرے بند ہیں۔