6 دسمبر 1992 : پارٹ 2؟

مدثراحمد

جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہوتاہے تو ایسے موقعوں پر بحث کرنا، عدالتی کارروائی پر سوال اٹھانا، عدالت کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرنا اور عدالت کی کارروائی میں رکاوٹیں پیدا کرنا خلاف قانون ہے اور اسے عدالت کی توہین ماناجاتا ہے، لیکن ہندوستان کے سب سے بڑے متنازعہ فیصلے کے سلسلے میں آج کل جو سیاست ہورہی ہے اس سیاست کے تئیں نہ صرف ہندوستانی عدلیہ خاموش بیٹھا ہو اہے بلکہ ہندوستان کی سیکولر جماعتیں، سیکولر لوگ یہاں تک کہ خود مسلما ن بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

6دسمبر1992کوبابری مسجد کے انہدام کے بعد سے لیکر آج تک ہندوستان بھر میں اس معاملے کو سیاسی معاملہ بنایا جاچکا ہے، وہیں مسلمان بھی اس مدعے کو لیکر شروعات میں تو خوب جوش میں رہے لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں کو جوش بھی ٹھنڈا ہونے لگا۔ جب جب ہندوستان میں انتخابات کاموسم آتا ہے اس وقت بابری مسجد کے معاملے کو لیکر سیاست کی جاتی ہے۔ تمام قومی پارٹیاں اس معاملے کو اپنا سیاسی ایجنڈا بنا چکی ہیں۔ فرقہ پرست جماعتیں بی جے پی، شیوسینا، سری رام سینا جیسی جماعتیں ہندوئوں کو خوش کرنے کیلئے رام مندر کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ کانگریس سمیت تمام سیکولر جماعتیں بابری مسجد کا حوالہ لیکر مسلمانوں کوخوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سنوائی ہے، اس لئے اس معاملے پر نکتہ چینی کرنااور اس پر سیاست کرنا ایک طرح سے عدلیہ کی توہین ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود مسلسل ہندوستان بھر میں بابری مسجد کے معاملے کو لیکر خوب سیاست کی جارہی ہے۔ سنگھ پریوارکے وی ایچ پی، آر ایس ایس، شیو سینا، بجرنگ دل کے کارکنا ن جان بوجھ کر ایودھیا میں رام مندرکے تعلق سے سیاست کررہے ہیں۔ 1992 سے پہلے بھی اسی طرح کے حالات پیدا کئے گئے تھے اور مسلمانوں کو تذبذب کا شکار بنایاگیا تھا، مسلمانوں میں خوف پیدا کیا گیا تھاکہ بابری مسجد کے معاملے میں اگر مسلمان منہ کھولینگےتو ان کا خاتمہ کردیا جائیگا۔ آج اسی طرح کے حالات دوبارہ پیدا کئے جارہے ہیں۔ جیسے جیسے6 دسمبر آرہا ہے اسی تیزی کے ساتھ سنگھ پریوارکے لوگ ایودھیا کے قریب ہوتے جارہے ہیں اور اندازاً25 ہزار رضاکاروں کو رام مندرکی تعمیر کیلئے ایودھیا میں جمع کئے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت مرکزی حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ رام مندرکی تعمیر کیلئے خصوصی احکامات جاری کریں تو بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ اس معاملے کو عدالت باہر حل کرنے کی بات کررہے ہیں۔

وہیں شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کابیان ہے کہ اگر رام مندر بنے گا تو ایودھیا میں ہی بنے گا، اس کے علاوہ وی ایچ پی لیڈران رام مندرکی تعمیر کے تعلق سے کسی بھی حد کو پارکرنے کیلئے تیار ہیں، اس کیلئے ان کے ہزاروں ہتھیار بند کارکنا ن کوبھی تعینات کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ ہندوستان جمہوری ملک ہے اور اس ملک میں جہاں حکومت راج کرتے ہے وہیں عدلیہ کے پاس بھی اپنے اختیارات ہیں۔ لیکن عدلیہ اس طرح کے حالات کو دیکھتے ہوئے بھی اس طرح کی خاموشی اختیارکی ہوئی ہے وہ سوالات کے دائرے میں ہے۔ سب سے افسوسناک بات ہے کہ آج ہندوستانی مسلما ن بھی ڈرپک و مفادپرست بن چکے ہیں۔

کانگریس، جے ڈی ایس، ایس پی، بی ایس پی، عام آدمی پارٹی، آرجے ڈی، مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے مسلمانوں پر سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ ان نازک موقع پر بھی خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں میں بھی ایسا سناٹا چھایا ہو اہے کہ وہ خود چاہے رہے ہوں کہ حالات مزید بگڑیں اور آخر میں مذمتی بیانا ت دیتے رہیں۔ جس طرح سے سنگھ پریوارکیلئے ہندوستان کی عدالتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ویسے ہی ہندوستان کی سیکولرجماعتوں اور مسلمانوں کیلئے بھی عدالتیں موجود ہیں، مگر وہ ان عدالتوں سے رجوع کرنے کے بجائے صرف اخباروں میں مذمتی بیانات دینے میں لگے ہوئے ہیں۔

آج ایودھیا میں جن حالات کاتذکرہ سوشیل میڈیا میں کیا جارہا ہے اس سے یہ خدشہ پید اہورہا ہےکہ کہیں دوبارہ1992 جیسے حالات پیدا نہ ہوجائیں۔ اگر ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو یقینی طو رپر ہندوستانی مسلمانوں کیلئے مشکل ترین دور ثابت ہوسکتا ہے اور اگر ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں اور مسلمان اس کا شکار ہوتے ہیں تو مسلمانوں کی بازآباد کاری کیلئے پھر ایک دفعہ نصف صدی درکار ہوگی۔ پھر مسلمانوں کو لاچار و بے یار ومددگار زندگیاں گذارنی پڑسکتی ہیں۔ مسلم عمائدین، قائدین، جماعتیں، تنظیمیں اور اداروں کے ذمہ داران فوری طور پر اس معاملے میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرتے ہوئے مسلمانوں کے تحفظ کی اپیل کرتے ہیں تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ متنازعہ مقام پر ریاستی پولیس اہلکاروں کے بجائے فوجوں کی تعیناتی کروائی جاتی ہے تو اور بھی حالات بہتر ہوسکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ عدالت میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے کہ جو لوگ بابری مسجد کے متنازعہ مقام کو لیکر سیاست گرمارہے ہیں، ان پر عدالت کی جانب سے گرفت ہو۔ اگر یہ کام ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے نہیں کرتے ہیں تو پھر ایک دفعہ مسلمانوں کی جان، آن، ومال و عزتیں پامال ہوجائینگی۔ پھر وہی ہوگا کہ مسلمانوں کے بقاء کیلئے چندے اٹھائے جائینگے، مسلمانوں کو مظلوم بتا کر چادریں پھیلائی جائینگی۔ ہم مسلمانوں کوآج چندےکرنے والی تنظیموں کی نہیں بلکہ انہیں سماجی و معاشی تحفظ کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔