کاش کہ دل میں اتر جائے بات

مدثراحمد

آج دنیا کی سب سے مظلوم ترین قوم مسلمان، دنیا کی سب سے بڑی قوم مسلمان، دنیا بھر میں  مسائل سے جوجھ رہی قوم مسلمان، اقتصادی و معاشی بحران کا شکار مسلمان، اخلاقیات اور کردار میں گراوٹ کا شکار مسلمان۔ غرض کہ مسلمان ہوکر بھی ہم آج سب سے زیادہ پریشان حال قوم ہیں جب کہ ہم مسلمانوں کی دنیا و آخرت میں بھلائی کا وعدہ خود اللہ نے کیاہے۔ دراصل ہم مسلمانوںنے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اس قدر اپنی مرضی کے تحت پلٹ رکھا ہے کہ خدا کی قدرت ہم مسلمانوں پر ایک طرح سے عذاب ڈھا رہی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ غربت، لاچاری اور استحصال کا شکار ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ شرک، خرافات و بدعات میں ملو ث ہوتا جارہاہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی مسلمانوں نے دنیا کو ہی اپنی جنت بنالی ہے اور ہر اس چیز کو اپنانے لگے ہیں جسے اسلام نے منع کیاہے اور ہر چیز کو جھٹلارہے ہیں جسے اسلام نے اپنانے کی ہدایت دی ہے۔ ہم میں سے کئ مسلمانوں نے پانچ فرضوں کو ہی پورا اسلام مان لیاہے اور باقی قرآن کی آیتوں پر عمل کرنا ہمارے نزدیک ناقابل قبول بات ہوگئ ہے۔

 پچھلے کئ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس مال و دولت کو کس طرح سے خرچ کرنا ہے اوراسکا استعمال صحیح کاموں پر کیسے کرنا ہے اس کا کوئی اندازہ انکے پاس نہیں ہے۔ بس و ہ اللہ کی دی ہوئی دولت کو اپنی پسند کے مطابق خرچ کرنے کو ہی اپنا فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ قوم مسلم کا ایک بڑا طبقہ بے یار مدد گار ہے اور وہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اللہ کی ذات اور اللہ کی مخلوق سے امیدیں جوڑے ہوئے بیٹھا ہے۔ آج غربت و افلاس کے ماروں کی مدد کو ہم نے فیشن بنالیاہے جبکہ ان غریبوں و بے سہارا لوگوں کی مدد کو ہمیں اپنا فریضہ بنانا چاہئے تھا۔ ٹھنڈ کا موسم آتاہے تو ہم کچھ لوگوں کو کمبل دیتے ہیں، گرمی کا موسم آتاہے تو کچھ لوگوں کو پانی پلادیتے ہیں۔ رمضان کا مہینہ آتاہے تو عیدکٹس اور افطار کٹس تقسیم کردیتے ہیں۔

عیدالاضحی کا موقع آتاہے تو چرم قربانی کے چند سکوں کو غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور اس پورے کام کو انجام دے کر ہم اپنے آپ میں یہ تسلی کرلیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کیا اب باقی اللہ مالک ہے۔ لیکن ہم نے کبھی بھی کسی غریب کو اس کی غربت سے باہر نکالنے کے لئے کوئی تدبیر نہیں کی۔ زکوٰۃ کی ہی بات لے لیں، جس زکوٰۃ کو غربت دور کرنے اور مفلسی دور کرنے کے لئے استعمال کیاجاسکتاہے اسی زکوٰۃ کو ہم ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہوئے زکوٰۃ لینے والے کو اگلے سال بھی زکوٰ ۃ لینے پر مجبور بنائے رکھتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے ایسی مدد کی جائے کہ زکوٰۃ لینے والا دوسرے سال تک خود زکوٰۃ دینے والا بنے، مگر یہ کیا ہمیں تو زکوٰۃ دینے والوں کی بھی فہرست تیار کرنی ہوتی ہے کہ ہماری اتنی زکوٰۃ میں سے اتنے لوگوں کو تقسیم کیاگیا۔ اسی طرح سے کچھ لوگ کمبل بانٹتے ہوئے گھومتے ہیں لیکن کیا کمبل بانٹنے سے غریب کا مسئلہ حل ہوجائیگا؟

 ہم نے کسی غریب کی مفلسی کی وجہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، ہر غریب کو ہم نے مانگنےوالا مان لیا، جب کہ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اسکی غربت کی کیا وجہ ہے اسکا مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتاہے ؟۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت خلیفہ تھے اس وقت وہ اپنی رعایا کے حالات جاننے کے لئے رات بھر گشت کرتے، لوگوں سے معلوم کرتے کہ کون کس حال میں ہے ؟۔ کون ضرورتمند ہے اور اسکی ضرورت کیسے پوری کی جائے، حالات کو جاننے کے بعد خود خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرورتمند کے دروازے پر جاتے اور اسکا مسئلہ مستقل طورپر حل کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر ہمارے یہاں آج حالات اس قدر بدتر ہیں کہ کوئی ضرورتمند صاحب استطاعت کے گھر کی دہلیز پر جانے کے باوجود بھی اسے کہہ کر گھر سے واپس بھیج دیا جاتاہے کہ انکو جو کچھ صدقہ، خیر خیرات کرنا تھا وہ رمضان میں ہی کرچکے ہیں اب انکے پاس کچھ نہیں ہے۔

یقیناََ رمضان میں زیادہ سے زیادہ دوسروں کی مدد کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن اللہ نے قرآن پاک میں کہیں بھی یہ نہیں کہاہے کہ تم اپنے مالوں کو صرف رمضان میں ہی تقسیم کرو۔ انسان کو اسی وقت کھانا کھانا ہوتاہے جب اسے بھوک لگتی ہے، بے وقت کوئی کھانا نہیں کھاتا اسی طرح سے مدد کرنے کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔ حال ہی میں ہمارے سامنے ایک مریض کا مسئلہ آیا، اسکے آپریشن کے لئے اسے پیسے درکار تھے، اس نے کئی مالداروں کا دروازہ کھٹکٹھایا مگر اسے یہ کہہ کر خالی ہاتھ واپس بھیج دیا گیا کہ اگر وہ رمضان میں آتا تو اسکی کچھ مدد کی جاسکتی تھی مگر اب کچھ نہیں ہے۔ جب اس مسئلے کی خبر اخبار میں آئی تو خدا کے ایک نیک بندے نے تقریباََ 50.4لاکھ روپیے کی بڑی رقم بغیر کسی سوچ کے اس مریض کو بھجوادئے اور شرط بھی ایسی رکھی کہ اس کار خیر کی اطلاع اخبار والوں کو نہ دے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے والوں کے اوصاف ایسے ہوتے ہیں۔

ہم نے بعض ایسے بھی مالداروں کو دیکھا ہے جنہیں کار خیر کرنے کے لئے اسٹیجوں پر ہی بلانا ہوتاہے اگر گھر میں جاکر کسی کا مسئلہ بیان کیا جاتاہے تو وہ معذرت چاہ لیتے ہیں اور مدد مانگنے والے کو گھر کی دہلیز پر بھی قدم رکھنے کا موقع نہیں دیتے۔ کہتے ہیں کہ جس وقت خلافت عثمانیہ کا زوال قریب آیا اس موقع پر مسلمان اس قدر اپنے شوقوں، اپنی عیاشیوں اور اپنی دنیا داری میں مصروف تھے کہ انہیں ہوش بھی نہیں تھا کہ تارتاری قوم انکا خاتمہ کرنے پہنچی ہے، وہ اپنی دولت کے نشے میں چور تھے اور غریب مسلمانوں کا استحصال کررہے تھے۔

 اسی نشے کی حالت میں خلافت عثمانیہ کا زوال ہوا، ہمیں اندیشہ یہ ہے کہ جس طرح سے آج پھر ایک مرتبہ مسلمان خرافات اور دنیا داری میں مصروف ہوکر حقوق العباد سے گمراہ ہورہی ہے کہیں پھر ایک مرتبہ مسلمانوں پر مکمل زوال کا دور نہ آجائے۔ ویسے بھی ہندوستان میں کئی علاقوں پر ظالم حکمرانوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے باوجود اسکے مسلمان ان حالات سے سبق لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تھے پورے ملک کے مسلمانوں پر فرعون حکومت کرنے لگے گا پھر اس فرعون کی حکومت میں سارے مسلمان تباہ وبرباد ہوجائینگے۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ کم از کم ہم اپنے اللہ کی رضا اور مخلوق کے فائدے کے لئے پیش رفت کرتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔