ریزہ کاری: تنقیدی و تجزیاتی مضامین کا مجموعہ

تعارف و تبصرہ : وصیل خان  

مصنف :  اشتیاق سعید

ضخامت : 160 صفحات۔ قیمت : 107روپئے

ملنے کا پتہ:  مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، پرنسس بلڈنگ، ابراہیم رحمت اللہ روڈ ممبئی ۸۔ کتاب دار،

 جلال منزل، ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی ۸۔ راعی بکڈپو، پرانا کٹرہ، الہ آباد (یوپی )۔ بک

 ایمپوریم، سبزی باغ، پٹنہ۔

’ریزہ کاری ‘اشتیاق سعید کی تازہ کتاب ہے جس میں کل۲۴؍مضامین شامل ہیں جو مختلف النوع موضوعات پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بڑی حد تک مربوط و منسلک نظر آتے ہیں، ان میں سماجی ناہمواریوں اور غیر انسانی عناصر سے دو دو ہاتھ کرنے کی پوری قوت موجود ہے اور مصنف کا یہی وصف اسے اپنے ہم عصر قلمکاروں کے درمیان ایک خاص انفرادیت فراہم کرتا ہے۔ ان کی تحریروں میں کھرا پن ہر جگہ صاف نظر آتا ہے، جس نے ان کی تخلیقات میں صاف گوئی کا رنگ نمایاں کردیا ہے جہاں ریاکاری اور مکرو فریب کا گزرنہیں، ورنہ مادیت اور صارفیت کے اس گھٹن زدہ ماحول میں جس نے زندگی کےتمام ترشعبوں پر اپنا تسلط جمالیا ہے، جس سے ادب بھی مستثنیٰ نہیں رہ سکا، ہمارے شعراو ادبا کی اچھی خاصی تعداد بھی ان فسوں کاریوں سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی اور ان کی تحریروں میں زندگی کی وہ معنی خیز چمک دمک باقی نہ رہی جو ادب کا اصل الاصل تقاضاہوتا ہے ۔ نتیجتا ً آج ادب کا ایک بڑا فیصدمادیت اور صارفیت کی زد میں آکر اپنی وہ شگفتگی کھوچکا ہےجوکبھی انسانی معاشرہ کیلئے باد بہاری کا نقیب ہوا کرتا تھا۔ ادیب کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوتا اس کی نشوونما اسی زمین پرپروان چڑھتی ہے، وہ عام انسانوں سےقدرےمختلف ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کے حالات کا جائزہ بڑی گہرائی سے کرتا ہے اوراپنے احساسات کو انسانی اور معاشرتی مفاد کی غرض سے اس طرح ضابطہ ٔ تحریر میں لاتا ہے کہ اس سے تہذیب و ثقافت اور معاشرت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔ لیکن اب جوکچھ بھی ہورہا ہے برعکس ہورہا ہے۔ اشتیاق سعید کے بیشتر مضامین ان ہی حالات اور کیفیات پر نشتر زنی کرتے ہیں جو وقت کے لحاظ سے بروقت بھی ہے اور برمحل بھی۔ کچھ مضامین تجزیاتی و تبصراتی نوعیت کے ہیں جن میں مختلف شعراءو ادباء کی تخلیقات کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے دودھ اور پانی کو الگ کرنے کے عمل کا بڑی چابکدستی سے مظاہرہ کیا گیا ہے، سلام بن رزاق کی ادبی تعیین پر تحریرکردہ مضمون اس کی بہترین مثال ہے۔ کچھ مضامین  میں  ایسے حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرمصنف اس پر قلم نہ اٹھاتے تو وہ پردہ ٔ خفا ہی میں رہتے۔ ایک اہم مضمون’ اردو زبان و ادب اور اکادمیوں کا کردارمیں اردوزبان کی حالت زار اور محبین اردو کی استحصال زدہ ذہنیت کا بڑا دلدوز نقشہ کھینچا گیا ہےجس سے موجودہ صورتحال بالکل واضح اور نمایاں ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’کہا جاتا ہے کہ نومبر سے مارچ تک کانفرنسوں اور سیمیناروں کا موسم ہوتا ہے۔ اس موسم کے آتے ہی عہدہ او ر رتبہ کی مناسبت سے کسی کو فلائٹ، کسی کو سیکنڈ، تو کسی کو تھرڈاے سی کی ٹکٹیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان سیمیناروں میں صدفیصد پروفیسرزاور ان کے حوارین جو ریسرچ اسکالر ہوتے ہیں باہم دگری یا آدان پردان کی طرز پر بلائے جاتے ہیں۔ سیمیناروں کے موضوعات وعنوانات زیادہ تر  ملتے جلتے ہیں تاکہ ایک ہی مقالے کو موصوف معمولی ردو بدل کے ساتھ کئی جگہوں پر پڑھ سکیں اور زیادہ سے زیادہ رقم بٹورسکیں۔ ‘‘  کتاب کئی اعتبار سے قابل ستائش ہے ایوان ادب میں اس کا خیرمقدم ہونا چاہیئے۔

تبصرے بند ہیں۔