شجاعت و بہادری کے پیکر: حضرت زبیر بن عوامؓ

راحت علی صدیقی قاسمی

        دنیا میں مختلف انبیا، صلحا، قائد و رہنما پیدا ہوئے ہیں، جن کا تعاون کرنے کے لئے بہت سے افراد ہوتے تھے اور ان کے مقصد کی تکمیل کے لئے لمحہ بھر کی فروگذاشت نہیں کرتے تھے، اللہ تبارک تعالیٰ نے ایسی چنندہ شخصیات پیدا کیں، جو اپنے قائدین کے مقصد کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھے، ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا، ان کے مشن کی اشاعت کرنا وہ مقصد زیست سمجھتے تھے، اس کے لئے راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کردیتے تھے، ان کی آنکھوں میں ایک ہی خواب سجتا تھا کہ وہ اپنے قائد کے منشاء و مقصد کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچائیں ؟  جذبہ صادق سے مملو ان افراد کا تذکرہ تاریخ کے صفحات پر موجود ہے، جو ان کی عظمت و رفعت اور اپنے آقا سے محبت کی کھلی دلیل ہے، آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو وہ بلند اوصاف اصحاب عطا کئے جو نایاب تھے، چونکہ آپ کا مشن پوری کائنات میں خدائی قانون نافذ کرنا تھا، اس کے لئے محنت و مشقت اور سچے جانثار درکار تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم افراد عطا کئے، جن کی محبت و عقیدت، جانثاری وفداکاری بے مثال ہے، جو اپنے آقا کے تھوک کو اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں، جو آپ کے اشارے پر اپنی جان گنوانے کے لئے تیار رہتے ہیں، جن کے لئے مال و منال عزت عظمت کوئی مقام نہیں رکھتا، ان کی نظر میں اگر کوئی چیز قابل تعظیم ہے، تو وہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، چنانچہ کفار بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور عروہ بن مسعود اسلام لانے قبل یہ کہتے ہیں کہ میں نے قیصر و کسریٰ کا دربار دیکھا ہے، محبت و عقیدت کا جو منظر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں دیکھا وہ دنیا کے کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھا۔ آپ کے اصحاب باکمال تھے، اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو عظیم ترین ساتھی عطا فرمائے، انہی ساتھیوں میں ایک شخصیت وہ بھی ہیں، جن کو آپ نے حواری ہونے کا شرف عطا فرمایا، اور فرمایا ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کے لئے حواری بنایا ہے، تم میرے حواری ہو‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اُس شخصیت کی عظمت کو ثابت کرتے ہیں، جو حسب و نسب کے اعتبار سے عالی مقام رکھتا ہے، جس کا نسب آقائے نامدار سے ملتا ہے، جس کو آپ سے ایک نہیں کئی کئی نسبتیں حاصل ہیں، جو آپ کے پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں اور آپ کے ساڑھو بھی، ان کی شخصیت ان نسبتوں کی امین ہے، شجاعت و بہادری ان کے مزاج کا حصہ ہے، دلیری ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں دین کی خدمت کے لئے قبول کرلیا ہے، انہیں اشاعت دین میں داد شجاعت لوٹنی ہے، انہیں اپنی تلوار بازی کے فن کا مظاہرہ کرنا ہے، دشمنان دین سے مقابلہ کرنا اور انہیں جہنم رسید کرنا ہے، میدان جہاد میں تاریخ رقم کرنی ہے، آقائے نامدار کی اطاعت وفرماں برداری کاحق ادا کرنا ہے، اس فریضہ کی ادائیگی میں جان قربان کرنی ہے، اسلام کی خاطر سخت ترین تکلیفیں جھیلنی ہیں، زخم اٹھانے ہیں، مشقتیں برداشت کرنی ہیں، ظاہر ہے یہ عام آدمی کا کام نہیں ہے، اس کے لئے مخصوص مشق ومحنت کی ضرورت ہے، خاص تیاری درکار ہے، محنت و مشقت کی ضرورت ہے، اس کا بھی خداوند قدوس نے انتظام فرمادیا ہے، اور آپ کی والدہ کو مشق و ٹریننگ کرانے لئے مقرر کردیا ہے، خلاق کائنات کا نظام تو دیکھو والدہ اس بچے کو حرب و ضرب کی مشق کرارہی ہیں، مردِ میدان بنانے میں مشغول ہیں، سخت ترین ٹریننگ ہے، اس مشق کی سختی اور شدت کا عالم یہ ہے کہ آپ کے چچا بھی اس تکلیف سے بلبلا اٹھتے ہیں اور ان کے قلب کی تکلیف زبان پر ان جملوں کا روپ لے کر ظاہر ہوتی ہے، کیا اس بچہ کی جان لوگی؟ لیکن وہ اپنے بیٹے کو کامیاب مجاہد بنانا چاہتی تھیں، ان کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا مال غنیمت حاصل کرے کامیابی حاصل کرے، عزت و عظمت حاصل کرے، انہیں کیا علم تھا کہ یہ محض مالِ غنیمت ہی حاصل نہیں کرے گا، بلکہ آقائے نامدار کے حواری ہونے کا شرف بھی حاصل کرے گا اور دنیا ہی میں کامران نہیں ہوگا بلکہ آخرت میں بھی کامیاب و سرخ رو ہوجائے گا اور اس کی کامیابی اتنی عظیم ہوگی کہ دنیا میں ہی اسے اخروی کامیابی کی بشارت دیدی جائے گی، یہ عظیم ترین شخصیت حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی ہے، ابتدائی دور میں ہی مسلمان ہوئے، ہرموقع پر آپ صلی علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اسلام کی آب پاشی و آبیاری انہوں نے اپنے خون سے کی، اسلامی تاریخ میں ان کی شجاعت و بہادری مثالی ہے، میدان جنگ میں نکلتے تو صفیں الٹ دیتے، کفار کے خیمے میں ہلچل پیدا کردیتے، جنگ کی تصویر بدل دیتے، جوش میں آتے تو بجلی کی طرح کوندتے، میدان جہاد میں ان کی تیزی قابل دید تھی، ان کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ غزوہ بدر میں انہوں نے ایک مضبوط ترین شخص کو واصل جہنم کیا اور جب عبیدہ بن سعید پورے جسم پر لوہے کی زرہ پہن کرآیا تو انہوں نے اس کی آنکھ میں اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ پار نکل گیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ کر نیزہ کھینچا تو نیزے کا پھل مڑ گیا، اس سے ان کی شجاعت و بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ نیزہ اسلامی تاریخ میں یادگار بن گیا اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاریخی نیزہ کو بطور یادگار اپنے پاس رکھا آپ کے بعد خلفاء راشدین میں خلیفہ ثالث تک سلسلہ وار یہ نیزہ بطور یادگار خلفائے راشدین کے پاس رہا،اس بات کو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے، اسلامی تاریخ ہی نہیں تاریخ عالم میں اس طرح کا واقعہ تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے،عزوہ بدر ہی نہیں تمام اسلامی غزوات ان کی شجاعت و بہادری کے قصہ بیان کرتے ہیں، غزوہ احد میں انہوں نے مثالی کارنامہ انجام دیا، غزوۂ خندق، غزوۂ خیبر، فتح مکہ ہر موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہے، کوئی موقع، کوئی مقام ایسا نہیں ہے، جب آپ نے تکلیف و شدت کی بناء پر یاقلبی خواہش کی بناء فرمان رسول کی پابندی نہ کی ہو۔ جنگ کے میدان میں انہوں نے جہاں دوسروں کو جہنم رسید کیا، وہاں خود بھی زخم کھائے، درد برداشت کیا، حتی کہ عروہ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک زخم آپ کی گردن پر ایسا تھا، جس میں ہم انگلی ڈال کر کھیلا کرتے تھے، آپ کے جسم پر اس طرح کے دو زخم تھے، جن میں بچے انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے، ان زخموں کی کیفیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، آپ نے دین کی خدمت کس درجہ کی ہے اور آقائے نامدار کی محبت میں جان کی بھی پرواہ نہیں کی ہے۔

        آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نے حضرت زبیرؓ کو افسرہ کردیا تھا، آپ ٹوٹ کر بکھر چکے تھے، اس کے باوجود جب جب آپ کی ضرورت پیش آئی، آپ آلات حرب و ضرب سے لیس ہوکر میدان جہاد میں نکلے اور کفار کے دانت کھٹے کردئیے، جنگ یرموک، فسطاط، اسکندریہ، ان مواقع پر آپنے طاقت و قوت کا مظاہرہ کیا، شجاعت و بہادری کے وہ نمونے پیش کئے کہ سیرت کا طالب علم دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جائے، مجاہدین بھی آپ کی تیزی کے سامنے پیچھے رہ جاتے تھے، آپ کی تدابیر فیصلہ کن ثابت ہوتی تھی، اس طرح اسلام کا یہ عظیم مجاہد زندگی بھر ثابت قدم رہا،اسلامی تاریخ کا وہ دور بھی آیا، جس کو بیان کرتے ہوئے زبان کانپتی ہے، اور قلم لرزنے لگتا ہے، یہ وہ موقع ہے جب خلیفہ ثالث کی شہادت ہوچکی ہے۔ مسلمان دو گروہ میں تقسیم ہوچکے ہیں، ایک جماعت کی قیادت ام المومنین حضرت عائشہ فرما رہی تھیں اور دوسری جماعت کی سیادت حضرت علی رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے، مقام ذی قار میں دونوں اپنی فوجوں کے ساتھ حق کی حفاظت میں نکلے تھے، آقائے نامدار کے تربیت یافتہ حق کی حفاظت کی، محبت و اخوت سے صرف نظر کرتے ہوئے میدان کارزار میں نکلے تھے، مقصد حق کی حفاظت تھی، ذاتی رنجش، نفرت و تعصب، عہدہ و منصب، عزت و جاہ کے متلاشی نہیں حق کے محافظ تھے، اجتہادی بھول نے محبین کو میدان جہاد میں صف آراء کردیا تھا، چنانچہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر کو آقائے نامدار کا فرمان یاد دلایا تو فوراً میدان چھوڑ کر چلے گئے، اس سے بے خبر کہ یہ راستہ انہیں ان کی منزل مقصود کی طرف لے جارہا ہے، چنانچہ آپ یہاں سے نکلے، ابن جرموز آپ کے ساتھ ہوا، درمیان میں گفت و شنید ہوئی، امان دی، کچھ دور پہنچنے کے بعد نماز پڑھنے لگے، سجدہ ریز ہوئے، ابن جرموز نے آپ کا سر تن سے جدا کردیا، اس طرح حواری اسلامی، تاریخ کا عظیم مجاہد، آقائے نامدار کا شیدائی، آپ کے فرمان کی اطاعت کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوگیا،64 سال اس عالم میں بقا رہا اور 36 ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔ السباع مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا، کل جس کے قدموں کی چاپ سے زمیں لرز اٹھتی تھی، جس کے گھوڑے کی ٹاپوں سے اٹھتی دھول کفار و مشرکین کے چہرے گرد آلود کردیتی تھی، جس کی تلوار ناقابل تسخیر معلوم ہوتی تھی، آج وہ منوں مٹی میں دفن کردیا گیا، لیکن حق محبت ادا کرگیا، آپ کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیاں عطا فرمائیں تھیں، عمدہ اخلاق، ایثار و وفا محبت و اخوت، ہمدردی و رواداری، سخاوت، خشیت الٰہی، دعوت الی اللہ یہ وہ اوصاف تھے جو آپ کی ذات میں موجود تھے، ہر شخص سے محبت کرتے تھے، مساوات وبرابری کا عالم یہ تھا کہ غزوۂ احد آپ کے ماموں زاد بھائی اور حضرت حمزہ جام شہادت نوش کئے ہوئے تھے، ایک ہی کفن تھا، چنانچہ آپ نے اس کے دو ٹکڑے کئے اور آدھا اپنے بھائی کو آدھا حضرت حمزہ دے دیا، بہت زیادہ رقیق القلب تھے، اللہ تعالیٰ نے حواری رسول کو جو اوصاف عطا کئے تھے، وہ قابل رشک اور قابل عمل ہیں، وہ زندگی کو خوبصورت ودلکش بنانے کا ذریعہ ہیں، انسان ان اوصاف کی اتباع و پیروی کرکے دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔

         حضرت زبیر کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اطاعت خداوندی اور محبت رسول ہی کو ہماری زندگی میں اولیت ہونی چاہئے، اس کے سامنے کائنات کی ہرشئے ہیچ ہے، ہمیں اپنی زندگی کے موقع پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔