حضرت جرير بن عبد الله بجلیؓ اور ان کا جذبۂ خیرخواہی

اور موجوده حالات ميں اس كی ضرورت

عابد شہزاد

(متعلم:جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی)

نبی کریم ﷺجامع صفات و کمالات تھے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام میں ہر صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، منجملہ صفات میں سے ایک صفت خیرخواہی بھی ہے، یہ صفت بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اکمل و اتم درجہ میں موجود تھی، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی مختلف صفات کا عکس مختلف صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں نظر آتا ہے، چنانچہ کسی میں آپ کی صفت جمال کا پرتو، تو کسی میں صفت جلال کا عکس، کسی میں صفت عفت و حیا کا، تو کسی میں شجاعت و بہادری کا غلبہ نظر آتا ہے، اسی طرح کسی میں آپ کی صفت صبر و قناعت کا، تو کسی میں جذبہ خیر خواہی کا عکس اور غلبہ نظر آتا ہے۔

ان میں سے ایک حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ان سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر بیعت لی تھی، انہوں نے اس بیعت کی اس قدر پاسداری کی کہ جذبہ خیر خواہی ان کی طبیعت کا حصہ بن گئی، اگر یہ کہا جائے کہ نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی صفت جذبہ خیرخواہی کا غلبہ اور عکس مجسم طور پر کسی میں دیکھنا ہو تو ان کی زندگی کو دیکھ لیا جائے، خیرخواہی والا جذبہ اور اس کا استحضار ان کی حیات کے مختلف پہلوؤں میں نظر آتا ہے۔

مختصر حالات زندگی:

ان کا پورا نام ابو عبد الله جرير بن عبد الله بن جابر بن مالك بن نضر بن ثعلبہ بجلی احمسی ہے، وہ  یمن کے شاہی خاندان قبیلہ بجیلہ سےتعلق رکھتے تهے،سن 10ہجری   کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

آپ رضی اللہ عنہ  بہت حسین و جمیل تھے، دراز قد تھے،کہا جاتا ہے کہ ان کا قد مبارک چھ ذراع اور ان کے نعلین کا طول ایک ذراع  تھا، داڑھی مبارک پر زعفران کا خضاب لگایا کرتے تھے، ا ن کے حسن وجمال کی  وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ان کو «یوسف هذه الأمة»(اس امت كا يوسف)کا لقب عنایت فرمایا۔

آپ رضی اللہ عنہ کے  قبول اسلام  کا واقعہ انتہائی عجيب اور دلچسپ  ہے، جس وقت یہ تشریف لائے، نبی کریم  ﷺخطبہ ارشاد فرما رہے تھے،آپ نے دوران خطبہ ان کے آنے کی خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا کہ ابھی تمہارے پاس اس دروازے سے  یمن کا ایک شخص آئے گا، اس کے چہرے پر بادشاہت کے آثار ہوں گے۔

اسی خطبہ کے دوران آپ مجلس کے مکمل آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے خدمت میں حاضر ہوئے،آپ رضی اللہ عنہ کو قرائن و آثار سے محسوس ہوا کہ شاید آپ علیہ الصلا ۃ و السلام ان کے بارے میں گفتگو فرما رہے ہیں،چنانچہ اس کی تصدیق کے لیے ساتھ بیٹھے ہوئے صحابی سے پوچھا، تو صحابی نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ابھی آپ کے پاس یمن کا ایک باشندہ آئے گا،اس کے چہرے پر بادشاہت کے آثار ہوں گے۔

آپ رضی اللہ عنہ اگرچہ  تاخیر سے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں ،لیکن اس کے باوجود آپ سے تقریبا ً سو روایات مروی ہیں، جبكہ علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سےدو سو روایات مروی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کےبیٹے عبد اللہ، منذر، ابراہیم اور آپ کے پوتے ابو زرعہ ہرم آپ سے روایت کرتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں قیام کیا، مشاجرات صحابہ کے زمانہ میں کوفہ سے قرقیسا چلے گئے، اور  وہیں سن ۵۱ ہجری میں انتقال ہوا۔

مجلس نبوی میں آپ رضی اللہ عنہ کا اکرام:

    ایک مرتبہ حضرت جریر رضی اللہ عنہنبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، تو ازدحام اور رش کی وجہ سے دروازے پر کھڑے ہو گئے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے دائیں بائیں دیکھا، جب کہیں بھی جگہ نظر نہ آئی تو ان کو اپنی رداء مبارک عنایت فرما کر اس پر بیٹھنے کا فرمایا، اور ارشاد فرمایا: «إذا أتاكم كريم قوم فأكرموه»، (جب تمہارے پاس کسی قوم کامعززشخص آئے تو اس کا اکرام کرو)۔

آپ رضی اللہ عنہ نے  چادر مبارک کو اپنے جسم سے لگایا، بوسہ لیا اور یہ کہہ کر واپس لوٹا دی ، «أكرمك الله یارسول الله كما أكرمتني»(اللہ تعالیٰ آپ کا بھی ایساہی  اکرام کرے جیسا کہ آپ نے میرا اکرام کیا)۔

    جب بھی آپ رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تو آپ علیہ الصلوۃ و السلام ان کو دیکھ کر مسکرادیتے تھے۔

آپؐ کے زمانہ میں ان کی ذمہ داریاں:

    آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی عادت مبارکہ یہ تھی، جس شخص میں جس چیز کی اہلیت دیکھتے ، وہ کام اس کو سونپ دیتے، یہی طرز عمل خلفاء راشدین میں بھی آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت کی برکت سےموجود تھا، اور اس کے نمونے بکثرت کتب سیر وتاریخ میں ملتے ہیں، چونکہ آپ رضی اللہ عنہ میں بادشاہت، امارت، فہم و فراست کے آثار  طبعی طور پر موجود تھے، اس لیے ان کے ذوق ومزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ علیہ الصلاۃ و السلام اور خلفاء راشدین نے ایسے ہی کام ان کے سپردکیے۔

حجۃ الوداع اور آپ رضی اللہ عنہ  کی ذمہ داری:

حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ بےمثال حسن و جمال کے ساتھ ساتھ دراز قد کے بھی مالک تھے، چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے  لوگوں کو خاموش کرانے کا کام ان کے سپرد کیا۔

آپؓ اور یمن کا کعبہ:

 زمانہ جاہلیت میں عرب کے مختلف قبائل نے کعبۃ اللہ کی طرح مختلف عبادت خانے قائم کر رکھے تھے، وہ ان کی ایسے ہی تعظیم کرتے تھے جیسا کہ بیت اللہ کی  تعظیم کی جاتی  تھی، اسی طرح وہ اس کا طواف بھی کرتے اور اس پر نذرانے بھی پیش  کرتے تھے، چنانچہ    یمن کےتین قبائل دوس، خثعم اور بجیلہ  نے بھی  کعبۃ اللہ کے مقابلے میں ایک کمرہ تعمیر کروایا  جس میں انہوں نے بت رکھے، تاکہ  لوگ ان کی عبادت کریں، اس کا طواف کریں، جس کو ذوالخلصہ اور کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کا یہ عمل ناگوار گزرتا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فتح مکہ کے بعد حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کو قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو شہسواروں  کا امیر بنا کر  اسے  گرانے کے لیے بھیجا، اس موقع پر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و  آلہ و سلم کے سامنے گھوڑے پر جم کر نہ بیٹھ سکنے کی شکایت کی، نبی کریم ﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ مارا، اور یہ دعا دی، « اَللّٰهُم ثبته واجعله هاديا مهديا»۔

    حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں  اس کے بعدگھوڑے سےکبھی نہیں لڑکھڑایا۔

    آپ رضی اللہ عنہ نے  جا کر اسےگرا  دیا اور پھر آگ لگا دی، بعد ازاں انہوں نے آپ علیہ الصلاۃ  و السلام  کو خوشخبری دینے کے لیے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو  روانہ کیا ، جب وہ آدمی  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کے پاس آیا، تو اس نے کہا : يا رسول الله!  اس ذا ت كی  قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میں اس کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آیا ہوں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے پانچ مرتبہ قبیلہ احمس کے شہسواروں اور پیادہ لوگوں کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔

اسود عنسی کا قتل اور آپ رضی اللہ عنہ کا کردار:

    نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم  نے اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کے لیے ذو الکلاع  الحمیری اور ذو ظُلیم حوشب بن طخیۃ  سے تعاون کرنے کا پیغام دے     کر حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا،یہ دونوں اپنے اپنے قبیلہ کے سردارتھے۔چنانچہ ان دونوں سرداروں نے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے پیغام کو سرِ تسلیم خم کیا۔

حضرت جرير رضی اللہ تعالی عنہ  کی ذمہ داریاں خلفائےراشدین کے دور میں:

    حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں نجران کا عامل مقرر کیا، عہد فاروقی میں قادسیہ کی جنگ میں شریک ہوئے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں  اپنے زمانہ خلافت میں ہمذان کاعامل مقرر کیا ، اور  عہد عثمانی  ہی میں آپ رضی اللہ عنہ  نے آرمینیہ  کوفتح کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنا نائب بنا کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے  بیعت لینے کے لیے بھیجا تھا۔

حضرت جریر رضی اللہ عنہ  کی خیر خواہی پر بیعت:

    جب حضرت  جریر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے لیےحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ان سے ”ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنے“پر بیعت لی، چنانچہ خود فرماتے ہیں:

    «بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ»

اپنے اصحاب کے ساتھآپ رضی اللہ عنہ  کا جذبہ خیر خواہی: 

    50 ہجری ميں جب  حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توآپ رضی اللہ عنہ عہدِ خیرخواہی کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے کھڑے ہوئے، اور لوگوں میں مختصر خطبہ دیتے ہوئے حمدو ثنا کے بعدفرمایا:

    میں تم کو  اللہ وحدہ لاشریک کے ڈر کی دصیت کرتا ہوں، جب تک کوئی دوسرا امیر تمہارے پاس نہیں آجاتا اس وقت تک وقار اور سکینت کو لازم پکڑو، دوسرا امیر تمہارے پاس آ ہی رہا ہوگا، اور اپنے سابقہ امیر(حضرت مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ) کے لیےعفو و درگزر طلب کرو؛ کیونکہ وہ عفو کو پسند کرتے تھے، پھر فرمایا:

    «فإني أتيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ، فقلت: أُبايعك على الإِسلام، فشرط عَلَيّ : والنُّصْحَ لكل مسلم، فبايعته على هذا، ورَبِّ هذا المسجد، إني لكم لنَاصح، ثم استغفر ونزل».

    یعنی یہ بات میں اس لیے کررہا ہوں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےمجھ سے ”ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی“ پر بیعت لی تھی، اور میں تمہارے حق میں خیرخوا ہ ہوں، پھراپنے امیر کے لیے استغفار کیا اور نیچے اتر آئے۔

    اس واقعہ میں  اپنے اصحاب کے ساتھ خیرخواہی کر کےاس طرح انہوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا۔

اپنے امیر کےساتھ آپ رضی اللہ عنہ كا جذبہ خیرخواہی:

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں  شروع شروع میں کوفہ کا گورنر سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ کو بنایا،  اہل کوفہ کو  ان کے متعلق کچھ بے  ساختہ اعتراضات تھے، جن کی شکایت  انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہسے کی۔

    چنانچہ جب حضرت جریر رضی اللہ عنہ کوفہ سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے متعلق حالات دریافت کرتے ہوئے پوچھا:آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو کیسا پایا؟

    حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حق میں تعریفی کلمات کہے، جو درحقیقت اپنے امیر کےساتھ ان کے جذبہ خیر خواہی کو واضح کر رہے ہیں :

«تَرَكْتُهُ أَكْرَمَ النَّاسِ مَقْدِرَةً، وَأَقَلَّهُمْ فَتْرَةً، وَهُوَ لَهُمْ كَالْأُمِّ الْبَرَّةِ تَجْمَعُ كَمَا تَجْمَعُ الذُّرَةَ، مَعَ أَنَّهُ مَيْمُونُ الطَّائِرِ مَرْزُوقُ الظَّفَرِ، أَشَدُّ النَّاسِ عِنْدَ الْبَأْسِ، وَأَحَبُّ قُرَيْشٍ إِلَى النَّاسِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ النَّاسِ، قَالَ: هُمْ كَسِهَامِ الْجَعْبَةِ، مِنْهَا الْقَائِمُ الرَّائِشُ، وَمِنْهَا الْعُصْلُ الطَّائِشُ، وَابْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ثِقَافُهَا يَغْمُدُ عُصْلَهَا وَيُقِيمُ مَيْلَهَا، وَاللهُ أَعْلَمُ بِالسَّرَائِرِ يَا عُمَرُ».()

    جس کا حاصل یہ ہے:  میں نے ان کو لوگوں میں سے سب  سےزیادہ قدرومنزلت والا، نیک بخت، جنگ کے وقت لوگوں میں سب سے زیادہ سخت، قریش میں سب سے زیادہ محبوب پایا ہے، آپ لوگوں کے لیے اس جنگلی  ماں کی طرح ہیں جو اپنے بچوں کو ایسے جمع کرتی ہے جیسا کہ مکئی اپنے دانوں کو جمع کیے ہوتی ہے۔

معاملات ميں آپ رضی اللہ عنہ كا جذبہ خیر خواہی:

    ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کو گھوڑا خرید کر لانے کاکہا، اس نے تین سو درہم میں گھوڑا خرید لیا، جب انہوں نے گھوڑے کودیکھا تو ان کو وہ پسند آگیا، اور اس میں موجود اوصاف کے مقابلے میں اس  کی جتنی قیمت ہونی چاہیے تھی غلام  نے بہت کم قیمت پر اس کو خرید لیا تھا، چنانچہ انہوں نے  مالک کو واپس بلا  کر فرمایا: آپ کا گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے اور پھر  مسلسل سوسو درہم کا اضافہ کرتے رہے، بالآخر آٹھ سو درہم میں اس کو خرید لیا۔

    جب بائع چلا گیا تو اپنے غلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے یہ اس لیے کیا؛ کیونکہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی بیعت کی تھی۔

    اسی طرح جب کوئی سامان فروخت کرتے تو اس کے خریدار کو اس چیز کے تمام عیوبات سے مطلع کرنے کے بعد فرماتے: اب تمہیں اختیار ہے، چاہو تو لے لو یا چھوڑ دو۔

بعض لوگ ان کے اس طرز عمل کو دیکھ کر کہتے: اس طرح تو کوئی بھی آپ کے اس سامان کو نہیں خریدے گا، (آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت اور آپ سے کیا ہوا عہد جو ان کی طبیعت کا حصہ بن چکا تھا، اور جس کا استحضار ہر وقت رہتا تھا)، لوگوں کی بات سن کر فرماتے: میں نے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی پر بیعت کی ہے۔ (چاہے اس میں مجھے نقصان ہی ہو، پھر بھی لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہی کروں گا)۔

ان واقعات کی رو سے معلوم ہوا کہ انسان کو خود غرض ہونے کی بجائے اپنے مسلمان بھائی کے حق میں خیرخواہ ہونا چاہیے، کسی کے بھولےپن، نا واقفیت یا مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھوکہ دہی پر نہیں اترنا چاہیے بلکہ صاحب شریعت علیہ الصلاۃ و السلام اور ان کی صحبت یافتہ جماعت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کے لازمی اور بنیادی وصف خیرخواہی کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

موجوده حالات مىں خير خواہی کی صورتیں:

    موجودہ حالات میں جب کہ ملک پاکستان کا تقریبادو تہائی حصہ سیلاب کی زد میں ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک بھی اس قدرتی آفت کاشکار ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ بھوک و افلاس میں مبتلا ہیں، اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے ہیں، روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ان کی فصلیں اور جمع پونجی تباہ ہو چکی ہے، کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں، پینے کے لیے صاف پانی نہیں، پہننے کے لیے کپڑے نہیں، ان علاقوں میں بیماریاں وباء کی صورت اختیا ر کر گئیں ہیں، ان کے علاج ومعالجہ کی ممکنہ صورتیں تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں، بخار کے علاوہ نت نئی  بیماریاں عام ہو رہی ہیں، ادھیڑ عمر، نوجوان ،بالغ و نابالغ مرد وعورت حتی کہ نوزائدہ بچے تک اس صورتحال سے متاثر ہیں،یہیں تک بس نہیں بلکہ بےزبان جانور بھی ان سنگین حالات سے دوچار ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں،چارہ نہ ملنےکی وجہ سےوہ نہ صرف لاغر اور کمزور ہو گئے ہیں بلکہ بے شمار جانور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،  متاثرين ان چندمصائب کےعلاوہ  بہت سے آلام ومصائب کی لپیٹ میں ہیں۔

    اس صورتحال کے پیش نظر انسانیت کی مجموعی طور پریہ ذمہ داری ہے کہ ان متاثرین کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں، اس  کی مختلف صورتیں ہیں۔

حکومت کی طرف سے خیرخواہی کی صورتیں:

    ان حالات میں حکومت کی طرف سے خیر خواہی کی صورتیں یہ ہیں کہ اولا ان علاقوں میں موجود پانی کے  نکالنے اور خشک کرنے کا انتظام کیا جائے، ان کی مال و جان  اور عزت و آبرو کی حفاطت کی جائے، اور ان کے لیے قومی خزانے سے وظائف مقرر کیے جائیں، ان سے ہر قسم کےٹیکس معاف کیے جائیں، ان کے علاج معالجہ کے لیےمفت معیاری طبی کیمپ اور ان کی نئی نسل  کی  ترقی کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، ان کو روز گار کے مواقع فراہم کیے جائیں، اور سب سے بڑھ کر اس کے قدرتی آفت ہونے کے ساتھ ساتھ حکومتی انتظامی کمزوریوں پر بھی غور وفکر کیا جائے، پانی کی کثرت سے  فائدہ اٹھانے کے لیے  ڈیم تعمیر کروائے جائیں، اور اس کے ساتھ ساتھ نہروں اور دریاؤں کے نظام کو منظم بنایا جائے۔

تاجروں کی طرف سے خیرخواہی کی صورتیں:

    ان نازک حالات  میں ہمارے تاجر حضرات کی طرف سے خیر خواہی بڑی اہمیت رکھتی ہے، جیسا کہ  وہ کسی حد تک اپنے  اس جذبہ خیرخواہی کا اظہار کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاء اور مالی امداد کی صورت میں  کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مزید خیر خواہی کی صورتیں بھی ہیں،جن کوآج کل صرف نظر  کیا جارہا  ہے، حالانکہ وہ صورتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

    وہ  یہ ہیں کہ اشیاء خوردہ   اور ضروریات زندگی کی چیزوں کو مناسب قیمت پر فروخت  کیاجائے، اور ان کی ذخیرہ اندوزی سےبچا جائے، تاکہ مناسب داموں اور  وافر مقدار میں اشیاء ضرورت ان تک با آسانی پہنچ سکیں، خیرخواہی  کا سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان متاثرین کی زمینیں ،جانور، اور دیگر اشیاء کو  ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سستے داموں میں نہ خریدا جائے بلکہ ان کے ساتھ ان کی اصل قیمت  پر معاملہ کیا جائے۔

علماء کی طرف سے خیرخواہی کی صورتیں: 

    ان سنگین حالات میں جب کہ لوگ بھوک و افلاس اور طرح طرح کے مصائب کا شکار ہیں ،ان حالات کے انجام کو دیکھتے ہوئے علماء کی طرف سے خیر خواہی کا میدان سب سے اہم ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ علماء کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ ان متاثرین کے ایمان کی فکر کریں، تاکہ عیسائی ، قادیانی اور دیگر لامذہب مشنریاں ان کے ایمان کو نقصان نہ پہنچا سکیں، اور حالات  کے دیگر منفی نتائج لوٹ مار، قتل وغارت اور رہزنی  کی وعیدات سے آگاہ کریں، ان کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی انفرادی او ر اجتماعی دعاؤں میں یاد رکھیں، ان کو صبر واستقامت کی تلقین کریں، اس کے لیے وقتا فوقتا بیانات اور تبلیغی جماعتوں کا سلسلہ جاری کیا جائے،اوران کی دلجوئی کے لیے گاہے بگاہے علماء کے وفد روانہ کیے جائیں، بالخصوص ان کے بچوں کی  دینی تعلیم کے لیے مکاتب قائم کیے جائیں۔

عوام کی طرف سے خیرخواہی  کی صورتیں:

    عوام پر بھی ان حالات میں خیر خواہی کی ذمہ داریاں عائد ہیں، جس کی نوعیتیں مختلف ہیں، چنانچہ عوام مندرجہ ذیل صورتوں پر عمل کر کے اپنے متاثریں بھائیوں کے ساتھ خیر خواہی  کر سکتی ہے، وہ یہ کہ ان کو کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء مہیا کریں،اپنی ضرورت سے زائد مکانات اور رہائش گاہوں میں ان کو جگہ دیں، ان کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے  فلٹر اور پلانٹ لگائیں، ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائیں ،ان کو موردِگناہ ٹھہرانے کی بجائے ان کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں۔

تبصرے بند ہیں۔