خلافتِ راشدہ (قسط:1)

شفیق احمدابن عبد اللطیف آئمی

خلیفہ اوّل:حضرت ابو بکر صدیق

   تمام مسلمانوں نے اتفاق ِ رائے سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ اول منتخب کر لیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ سید الانبیاءصلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمت میں آپ رضی اﷲ عنہ سب سے افضل ہیں اور آپ رضی اﷲ عنہ کی موجودگی میں کسی اور کو خلیفہ بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کا پورا دور خلافت اس بات کا گواہ ہے کہ آپ رضی ا ﷲ عنہ نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔اﷲ تعالیٰ ”خلیفہ ¿ اول“حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔آمین۔آپ رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کے حالات بیان کرنے سے پہلے ہم آپ کی خدمت میں آپ رضی ا ﷲ عنہ کا نام ،لقب ،سلسلہ نسب اور حالات زندگی مختصراً پیش کررہے ہیں۔اس کے بعد انشاءاﷲ دور خلافت کے حالات پیش کریں گے۔اﷲ کی مدد سے۔

حضرت ابوبکر رضی عنہ کا خاندان

   حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ قبیلہ قریش کی شاخ یا خاندان”بنو تیم“میں سے ہیں۔سید الانبیاءصلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتویں دادا ”حضرت مُرّہ بن کعب“کے تین بیٹے تھے۔ایک کانام”کلاب بن مُرّہ“ہے،ان کی نسل میں سید الانبیاءصلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔دوسرے کا نام”تیم بن مُرّہ“ہے،ان کی نسل میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے۔تیسرے بیٹے کا نام”یقنطہ بن مُرّہ“ہے،ان کی نسل میں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے۔قبیلہ بنو تیم ،یا خاندان بنو تیم،قریش کے معزز خاندانوں میں سے ایک ہے۔قریش نے مختلف قبیلوں یا خاندانوں میں مختلف عہدے بانٹ رکھے تھے۔مقدموں کے فیصلے کا محکمہ ”بنو تیم “کے پاس تھا۔اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ قریش کے ”جج“تھے۔

نام اور سلسلہ نسب

   حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا نام اسلام قبول کرنے سے پہلے ”عبد الکعبہ“تھا۔جب آپ رضی اﷲ عنہ نے اسلام قبول کیا تو سید الانبیاءصلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ رضی اﷲ عنہ کا نام ”عبد اﷲ “ رکھ دیا۔آپ رضی اﷲ عنہ کے ایک بیٹے کا نام ”بکر“ہے ،اسی لئے آپ رضی اﷲ عنہ کی کنیت ”ابو بکر“ہے۔

سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔حضرت ابوبکر(نام عبد اﷲ)صدیق رضی اﷲ عنہ بن ابو قحافہ(نام عثمان)بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرہ۔یہاں آکر آپ رضی اﷲ عنہ کا سلسلہ نسب سید الانبیاءصلی اﷲ علیہ وسلم سلسلہ نسب سے مل گیا ہے۔

لقب عتیق

   حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا ایک لقب”عتیق “ہے اور یہ لقب زیادہ مشہور نہیں ہے۔کچھ علمائے کرام اسے نام بھی کہتے ہیں۔اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں۔”میں ایک دن گھرکے دالان میں بیٹھی ہوئی تھی اور دالان میں پردہ پڑا ہوا تھا۔صحن میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔اتنے میں والد ِ محترم تشریف لائے اُنہیں آتا دیکھ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جو کوئی ”عتیق من النار“(دوزخ سے آزاد)شخص کو دیکھنا چاہتا ہو وہ ابو بکر صدیق رضی ا ﷲ عنہ کو دیکھ لے۔تب سے آپ رضی اﷲ عنہ کا نام یا لقب ”عتیق“مشہور ہوگیا۔“(مسند ابو یعلیٰ،المستدرک امام حاکم،)اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں۔”ایک روز میرے والد محترم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ!اﷲ تعالیٰ نے تم کو”عتیق من النار“(آگ سے بری) فرما دیا ہے۔“اُسی دن سے آپ رضی اﷲ عنہ ”عتیق “کے لقب یا نام سے مشہور ہو گئے۔(جامع ترمذی،المستدرک)

لقب صدیق

   حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ایک اور لقب”صدیق“ہے۔اس لقب کے بارے میں کئی روایات ہیںلیکن اس بات پر اکثرعلمائے کرام کا اتفاق ہے کہ ”سفرِ معراج “کی تصدیق کی وجہ سے آپ رضی اﷲ عنہ ”صدیق “کے لقب سے زیادہ مشہور ہوئے۔جب آپ رضی اﷲ عنہ کو ”سفر معراج“کے بارے میں معلوم ہوا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ مشرکین آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہنس رہے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ آکر بیٹھے تو قریش کے مشرکین نے کہا ۔اِن کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک رات میں ”بیت المقدس “جا کر واپس آئے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا:”یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم!میں نے اور یہاں پر موجود کئی لوگوں نے ”بیت المقدس“دیکھا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کے بارے میں بتائیں۔“اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ”بیت المقدس “کردیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اُسکی نشانیاں بتانے لگے اور ہر نشانی پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ عرض کرتے ”صَدَّقتَ “یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم“ ۔اِس طرح آپ رضی اﷲ عنہ کی تصدیق سے قریش لاجواب ہو گئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ”صدیق“کا لقب عطا فرمایا۔امام محمد بن اسحاق اور حضرت قتادہ رحمتہ اﷲ علیہم کا بیان ہے کہ ”شب معراج “کی صبح سے ہی آپ رضی اﷲ عنہ ”صدیق “کے لقب سے مشہور ہو گئے۔اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش کے مشرکین نے میرے والد ِ محترم کے پاس آکر کہاکہ آپ کو کچھ خبر ہے کہ آپ کے دوست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ رات کو ”بیت المقدس“پہنچائے گئے تھے۔آپ رضی ا ﷲ عنہ نے فرمایا:”کیا واقعی وہ ایسا ہی فرماتے ہیں؟“انہوں نے کہا:”ہاں وہ یہی کہتے ہیں“۔یہ سن کر آپ رضی ا ﷲ عنہ نے فرمایا:”تب تو بے شک وہ سچ فرما رہے ہیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو ہمیں صبح شام آسمانوں کی خبریں دیتے ہیں اور میںاُ ن کی تصدیق کرتا ہوں۔“اسی بنا پر آپ رضی اﷲ عنہ کو ”صدیق “کہا جاتا ہے۔(المستدرک،امام حاکم)اسی حدیث کو امام طبرانی نے اپنی ”المعجم “میں حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہم کی روایت سے بیان کیا ہے۔

قبول اسلام سے پہلے

   حضرت ابو بکر صدیق رضی ا ﷲ عنہ کی اسلام قبول کرنے سے پہلے کی زندگی انتہائی صاف ستھری ہے۔آپ رضی اﷲ عنہ نے کبھی جھوٹ نہیں کہا،اور ہمیشہ سچ ہی فرمایا۔شراب کو کبھی ہات نہیں لگایااور نہ ہی کبھی زمانہ¿ جاہلیت میں عربوں کی طرح شعرو شاعری کی۔ہر ایک کی مدد فرماتے تھے۔ کمزوروں کی مدد کرنا اور ظالموں سے مقابلہ کرنا آپ رضی اﷲ عنہ کا شیوہ تھا۔نہ زبان سے کوئی بُری بات نکالی اور نہ کسی کو کبھی لعنت و ملامت کی۔ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کی،خاص طور سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب بچپن میں بھی رہے،جوانی میں بھی رہے اور آخری وقت تک ساتھ رہے۔تجارتی قافلوں کے ساتھ ملک شام،ملک حبشہ اور دوسرے ممالک کا سفر بھی کیا۔قریش آپ رضی اﷲ عنہ کی بہت عزت کرتے تھے ۔ آپ رضی اﷲ عنہ اُن کے جج تھے اور اُن کے مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔عام طور سے قریش کا پیشہ تجارت تھا اسی لئے آپ رضی اﷲ عنہ نے بھی یہی پیشہ اپنایا۔دیانت داری اور سلیم الطبع فطرت کی وجہ سے آپ رضی اﷲ عنہ بہت جلد مکہ مکرمہ کے ممتاز تاجر بن گئے اور بہت بڑے پیمانے پر کپڑوں کی تجارت کرنے لگے۔ اس سلسلہ میں کئی مرتبہ ملک شام اور ملک یمن کے سفر بھی کئے۔مکہ مکرمہ کے مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کے بعد بھی آپ رضی اﷲ عنہ شرک سے بہت دور رہے۔ کبھی بت پوجا نہیں کی اور مشرکانہ رسوم و رواج میں بھی کبھی حصہ نہیں لیا۔آپ رضی اﷲ عنہ کا مکان بنو جمح کے محلہ میں تھاجہاں قریش کے ممتا ز تاجر سکونت پذیر تھے۔وہیں اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا بھی مکان تھا۔نکاح کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہیں منتقل ہو گئے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے سے ہی مراسم تھے۔یہاں منتقل ہونے کے بعد اور قریبی تعلقات ہوگئے۔

قبول اسلام

   حضرت ابو بکر صدیق رضی ا ﷲ عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔بعض علمائے کرام حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا نام ذکر کرتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پہلے اسلام قبول کیالیکن اُس وقت آپ رضی اﷲ عنہ مرد نہیں بلکہ بچے تھے اور آپ رضی اﷲ عنہ کی عُمر دس یا گیارہ سال تھی جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی عُمر چالیس سال کے آس پاس تھی۔امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کے مطابق خواتین میں سب سے پہلے اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے اسلام قبول کیا۔مَردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے اسلام قبول کیا۔غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ نے اسلام قبول کیا اور بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسلام قبول کیا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو جیسے ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فوراًاسلام قبول کرلیااور ایک منٹ بھی نہیں سوچا۔حضرت عباس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی،اُس نے میرے کلام کو لوٹا دیا(یعنی انکار کیا یا پھر غورو فکر کے لئے وقت مانگا)سوائے ابن ابی قحافہ(حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ) کے۔میں نے جیسے ہی اُن کو اسلام کی دعوت دی ،انہوں نے فوراً قبول کر لیااور اُس پر ثابت قدم رہے۔(دلائل النبوة،امام ابو نعیم،تاریخ ابن عساکر)حضرت ابو الدردا¿ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے لو گو!کیا تم میرے دوست(حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ)کو چھوڑنا چاہتے ہو،جبکہ میں نے لوگوں سے کہا کہ میں اﷲ کا رسول ہوں ،تو لوگوں نے مجھے جھٹلایا،تو اُس وقت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے میری تصدیق کی۔(صحیح بخاری)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ قوم فرعون کے مرد مومن سے بہتر

   حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اُس وقت حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی عُمر دس یا بارہ سال تھی اور اُن کو رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی پال پوس رہے تھے۔اسی لئے حضرت علی رضی اﷲ عنہا ہروقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔بچے ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے تھے اورصرف دیکھتے رہتے تھے۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ ،خلیفہ¿ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بہادری کا ایک واقعہ سناتے ہیںکہ ایک مرتبہ قریش کے مشرکین نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نرغے میں لے لیا اور مارنے پیٹنے لگے۔ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم ہی وہ ہو جو کہتے ہو کہ اﷲ ایک ہے۔اﷲ کی قسم ! کسی کو اِن مشرکین سے مقابلہ کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مار مار کر دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخص کو ایذا(تکلیف) پہنچا رہے ہوجو یہ کہتا ہے کہ ”میرا رب صرف ایک اﷲ ہے“۔اتنا فرما کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنی چادر پر منہ رکھ کر اتنا روئے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کی داڑھی انسوو¿ں سے تر ہو گئی۔پھر فرمایا:”اے لو گو!اﷲ تمہیں ہدایت دے! بتاو¿ کہ قوم فرعون کے مرد مومن اچھے تھے یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ اچھے تھے؟“(قوم فرعون کے مرد مومن کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے سورہ المومن میں تفصیل سے کیا ہے۔)یہ سن کر لوگ خاموش رہے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:”لوگو!جواب کیوں نہیں دیتے؟اﷲ کی قسم!حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی ایک ساعت قوم فرعون کے مرد مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر اور برتر ہے۔اس لئے کہ وہ اپنا ایمان(ڈر کی وجہ سے)چھپاتے تھے،اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی شجاعت

   حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے لوگوں سے دریافت فرمایا:”بتاو¿ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟“لوگوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اﷲ عنہ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:”میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں،پھر میں سب سے بہادر کیسے ہوا؟“تم یہ بتاو¿ کہ سب سے بہادر کون ہے؟“لوگوں نے کہا کہ حضرت ہمیں نہیں معلوم،آپ رضی اﷲ عنہ ہی بتائیں۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:”سب سے زیادہ بہادر اور شجاع حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ ہیں۔سنو!غزوہ ¿ بدر میں ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنایاتھا۔ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ (اس سائبان کے نیچے)رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ کردے۔اﷲ کی قسم !ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھاتھا کہ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ شمشیر برہنہ ہاتھ میں لیکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی مشرک کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آنے کی ہمت نہیں پڑی۔اگر کسی نے ایسی جر ا¿ت کی بھی توآپ رضی اﷲ عنہ فوراً اُس پر ٹوٹ پڑے۔اس لئے آپ رضی اﷲ عنہ ہی سب سے بہادر ہیں۔(مسند البزار)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اُمت کے سب سے بڑے عالم

   حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ صحابہ کرام رضی اﷲعنہم میں سب سے بڑے عالم تھے۔علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ تما م صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سب سے زیادہ قرآن پاک کا علم رکھتے تھے۔اسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ رضی ا ﷲعنہ کو نماز میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا امام بنایا تھا۔رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ امام قرآن پاک کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہونا چاہیئے۔اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس قوم میں ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ موجود ہوں اُن کے سوا کوئی دوسرا امامت نہیں کر سکتا ۔(جامع ترمذی)آپ رضی اﷲ عنہ سب سے زیادہ احکام رسالت سے آگاہ تھے اور بکثرت احادیث یاد تھیں،جنہیں بوقت ضرورت بیان فرما دیا کرتے تھے۔کیونکہ سب سے زیادہ آپ رضی ا ﷲ عنہ ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب رہے ہیں ۔اس کے علاوہ یاداشت بھی بہت اچھی تھی۔اس کے باوجود آپ رضی اﷲ عنہ سے کم احادیث مروی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ بمشکل تین(۳)سال زندہ رہے ،اور بہت کم تابعی آپ رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کر سکے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ کی خلافت کی طرف اشارہ

   حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ملنے لگا تھا۔حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میرے بعد تم ابو بکر اورعُمر رضی اﷲ عنہم کی پیروی کرنا۔(جامع ترمذی،المستدرک )حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خد مت اقدس میں ایک خاتون (کسی کام سے)آئیں (کام پورا ہونے کے بعد )رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا©:(اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو)پھر آنا۔اُن خاتون نے عرض کیا کہ اگر میںآئی ،اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں پایا تو؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم مجھے نہ پاو¿ تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس آنا۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)یہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے اپنی علالت کے دوران فرمایا:”تم اپنے والد اور بھائی کو بلالو تاکہ میں کچھ انہیں لکھ کر دے دوں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے بعد کوئی خواستگار ِخلافت نہ کھڑا ہوجائے۔“پھر فرمایا:”رہنے دو(مت بلاو¿)کیونکہ ابو بکرصدیق رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ بنانا حق ہے اور اﷲ تعالیٰ اور مومنین ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے سوا کسی اور کو خلیفہ نہیں مانیں گے۔(صحیح مسلم)امام احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین اِس حدیث کو اِن الفاظ میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں مجھ سے ارشاد فرمایا کہ عبد الرحمن بن ابو بکر کو بلالو،تاکہ میں ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے لئے وصیت لکھ دوںتاکہ میرے بعد اُن سے کوئی اختلاف نہ کرے۔“پھر فرمایا:”اچھا رہنے دو! اﷲ نہ کرے کہ ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے معاملہ میں مومنین اختلاف کریں۔(مسند احمد)

بیعت سقیفہ بنو ساعدہ

   رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کی خبر سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ہوش و حواس اُڑ گئے تھے اور ایسے سنگین وقت میں صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہوش وحواس قائم تھے۔اس کے بارے میں ہم سلسلہ نمبر ۱ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں تفصیل سے پیش کر چکے ہیںاور اُس میں ہم نے یہ بتایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں جو خطبہ دیا تو اُس سے تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو یقین آگیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔اب یہیں سے آگے بڑھاتے ہیں۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں۔اسی خطبے کے دوران میں ایک صحابی رضی اﷲ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ دیکھو انصار بنو ساعدہ میں جمع ہو کر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیںاور وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک امیر ہو اور مہاجرین میں سے ایک امیر ہو۔اس اطلاع پر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ جلدی سے وہاں پہنچے۔حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے چاہا کہ وہ تقریر کریں مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اُنہیں روک دیا۔حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا :”بہتر ہے! میں نہیں چاہتا کہ ایک دن میں دو مرتبہ آپ رضی ا ﷲ عنہ کی نافرمانی کروں۔“حضرت ابوبکر صدیق نے انصار کو خطاب کیا اور جو جو اُن کے فضائل قرآن پاک سے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانی معلوم تھے،وہ سب بیان کئے اور فرمایا :” تم کو معلوم ہے کہ رسول اﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے یہاں تک تمہارے متعلق فرمایا ہے کہ اگر دوسرے لوگ ایک راستہ اختیار کریں اور انصار دوسرا راستہ اختیار کریں تو میں انصار کے ساتھ چلنا پسند کروں گا۔اے حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ !تم خود جانتے ہو کہ تم موجود تھے اور تمھارے سامنے رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ خلافت کے وارث قریش ہیں۔نیک نیکوں کی اقتداءکریں گے اور بد کار بُروں کی اقتداءکریں گے۔“حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا©:”بے شک !آپ رضی ا ﷲ عنہ سچ فرما رہے ہیں۔لہٰذا اب یہ ہونا چاہیئے کہ ہم وزیر رہیں اور آپ لوگ امیر ہوں۔“حضرت عُمر فاروق رضی ا ﷲ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے فرمایا:”اپنا ہاتھ لایئے! میں بیعت کروں گا۔“حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے فرمایا:”نہیں بلکہ آپ ہاتھ لایئے ،کیونکہ اِس منصب کے اُٹھانے کی قوت آپ میں مجھ سے زیادہ ہے۔“کیونکہ ان دونوں میں حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ زیادہ قوی تھے مگر اُن میں سے ہر ایک دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا تھا اور زبردستی ایکدوسرے کا ہاتھ کھول رہے تھے۔آخر کار حضرت عُمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ کھول لیا اور فرمایا:”میری بیعت قبول کرو اور میری قوت بھی آپ کی قوت کے ساتھ ہے۔“اس کے بعد وہاں موجود سب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت کی۔(تاریخ طبری جلد دوم،حصہ اول)

تبصرے بند ہیں۔