واقعۂ کربلا

ڈاکٹر غلام قادر لون

(یہ ڈاکٹر غلام قادر لون کی ایک تقریر ہے؛ جو انھوں نے بارہمولہ کی ایک تقریب میں کی تھی۔عزیزم سمنان صوفی نے اسے تحریری صورت میں پیش کیا ہے۔ افادہ عامہ کے لئے خذف و اضافہ کے بعد اسے شائع کیا جاتا ہے۔)

واقعہ کربلا کے تذکرے  میں بعض کتابوں میں  آیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اہل بیت کے ساتھ میدان کربلا  میں تھے تو رات کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین سے فرمایا کہ آپ اس جگہ شہید ہوجائیں گے۔ چنانچہ دیکھتےہیں کہ عمربن سعد نے جو پیش کش کی تھی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ٹھکرا دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ ابن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کہا تھا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے نتیجہ کچھ بھی ہو میں وہ کام ضرور انجام دوں گا۔ جب انہوں نے اس  کام کے بارے میں سوال کیا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں وہ  راز افشا نہیں کروں گا جب  تک خدا کے حضور نہیں پہنچ جاؤں گا۔ چنانچہ جب بعض صحابہ نے انہیں  مشورے دئے کہ آپ کوفہ نہ جائیں؛ آپ کے شہید ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ تو انھوں نے یہ تمام مشورے نظر انداز کئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔

شہادت حسین کے واقعہ نے  مسلمانوں کی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس واقعے کا پس منظر جاننےکے لئے ضروری ہے کہ واقعہ سے پہلے کے پچاس برسوں کی تاریخ دیکھی جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو نامزد نہیں کیا تھا البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سترہ نمازوں کی امامت کی تھی جو اس امر کا واضح اشارہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جانشین ہوں گے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے سامنے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہیں ان دونوں میں کسی ایک کی بیعت کرلو مگر ان دونوں کا جواب تھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بیعت کیسے ہوسکتی ہے۔ چنانچہ صحابہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو چن لیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو سال تین ماہ  خلیفہ رہے۔ وفات سے پہلے انھوں نے اپنے جانشین پر غور کیا اور صحابہ سے مشورے کے بعد  انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانشین نامزد کیا جو ان کے رشتہ دار نہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا  دور خلافت مسلمانوں کازریں دورتها۔ دس سال بعد جب آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو شہادت سے پہلے آپ نے چھ صحابہ نامزد کئے۔ ان چھ میں سے خلیفہ چننا تھا۔ چنانچہ ان چھ میں سے حضرت عثمان خلیفہ نامزد کئے گئے۔ان کی خلافت تیرہ سال تک رہی پہلے چھ سال امن میں گزرے مگر آخری برسوں میں ان کے خلاف۔ مختلف علاقوں میں شورشیں اٹھیں اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں صحابہ کو مدینہ میں رہنے کا پابند کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو اجازت دی کہ اسلامی قلمرو کے جس شہر میں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ جن صحابہ نے اسلام کی خاطر جنگیں لڑی تھیں وہ ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ اسلامی فتوحات کے فیض سے جو لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے انہیں صحابہ کی طرح تربیت کا موقع نہیں ملا تھا۔شورشوں میں یہی لوگ حصہ لے رہے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان بے دردی سے شہید کئے گئے۔ جن لوگوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ بیعت کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری بیعت نہیں مانیں گے تو آپ کو بھی قتل کریں گے۔ مجبوراََ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بیعت لی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کیا۔ ان کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔اس لیے حالات بد سے بدتر ہوگے۔ 40ھ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہوگئے۔ ان کے بعد حضرت حسن خلیفہ ہونے وہ صرف چھ ماہ خلیفہ رہے۔ انھوں نے حضرت معاویہ سے مصالحت کی اور 41ھ میں بعض شرائط پر خلافت سے دستبردار ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت معاویہ پورے عالم اسلام کے خلیفہ ہوگئے۔

۲۲ رجب 60 ھ میں حضرت معاویہ کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے یزید  کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ حضرت معاویہ کو اندیشہ تھا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابوبکر ،حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت حسین کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اول الذکر دو حضرات خلافت سے دلچسپی نہیں  رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے بارے میں انہیں سخت خدشہ تھا۔ حضرت معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی ک اگر حضرت حسین کے ساتھ جنگ ہوجائے۔ تو ان پر قابو پانے کے بعد عزت اور احترام سے پیش آنا  یہ ان کی آخری وصیت تھی۔

 حضرت معاویہ کی وفات کے وقت مدینہ منورہ  کے گورنر ولید تھے۔ انھیں جب خبر پہنچی کہ حضرت معاویہ کا انتقال ہوگیا اور یزید ان کے جانشین ہو گیے ہیں تو انھوں نے شام کے وقت حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاوا ںیهجا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھ تیس سپاہیوں کو لے کر ولید کے پاس آئے۔ انھوں نے  سپاہیوں کو دارالامارت کے باہر بٹھایا اور خود ولید  کے پاس اندر گئے۔ ولید نے انھیں حضرت معاویہ کے انتقال اور یزید کے خلیفہ ہونے کی خبر سنائی اور کہا کہ آپ یزید کی بیعت کریں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ مجھ جیسا آدمی تنہا بیعت نہیں کرسکتا۔آپ مسجد نبوی میں کھڑے ہوں میں  وہی جواب دوں گا۔ ولید کے پاس اس وقت مروان بھی تھا۔ اس نے ولید سے کہا کہ آپ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اسی وقت بیعت لیں ورنہ وہ کبھی آپ کے ہاتھ نہیں آئیں گے مگر ولید  نے مروان کی بات نہیں مانی اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو رخصت کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو مسجد نبوی میں رہے۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ شہید ہوجائیں گے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ چلے گئے  اور وہاں تین مہینے قیام کیا۔ مکہ میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس کوفہ کے سرکردہ لوگوں کے خطوط آئے کہ آپ کوفہ تشریف لائیں اور لوگوں سے بیعت لے کر خلافت کا منصب سنبھالیں ۔ یہاں کے لوگ دل وجان سے آپ کی تشریف آوری کے منتظر ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل  کو کوفہ روانہ کیا۔ وہ کوفہ روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستے سے سفر کرتے ہوئے وہ کوفہ پہنچے  کوفہ میں ان کے آنے کی خبر ملی تو پہلے ہی دن دس ہزار لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بیعت کے لئے لوگ جوق در جوق  آنے لگے تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلم من عقیل نے خط لکھا کہ آپ فوراً کوفہ تشریف لائیں۔ یہاں کے لوگ تیار ہیں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس خط پہنچا تو انھوں نے کوفہ روانہ ہونے کی تیاری کی۔ جب یہ خبر مکہ میں پھیلی تو بڑے بڑے صحابہ ان کے پاس آئے اور انھیں کوفہ جانے کا ارادہ ترک کرنے کی استدعا کی۔ کیوں کہ کوفہ کے لوگوں نے حضرت علی اور حضرت حسن کے ساتھ دغا بازی کی تھی۔ مگر حضرت حسین نے ان کی بات نہیں مانی – جب حضرت عبداللہ بن عباس نے دیکھا کہ آپ کوفہ جانے کے لئے مصر ہیں تو کہا کہ کم از کم اپنے بال بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں مگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ مانے۔ یہ دیکھ کرحضرت عبداللہ بن عباس روتے ہوئے ان سے رخصت ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر نے سنا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ جارہے ہیں تو انھوں نے بھی کوشش کی  حضرت حسین کوفہ جانے سے باز رہیں۔ مگر ان کی کوشش بھی بےسود رہی۔ اس وقت کوفہ  کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر تھے۔ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ میں انصار کے یہاں سب سے پہلے یہی پیدا ہوئے تھے ، وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مسلم بن عقیل کی بیعت کر رہے ہیں مگر انھوں نے تعرض نہیں کیا۔ چنانچہ  عمار بن  ولید نے یزید کو ایک خط بیھجکر کوفہ کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ بنو امیہ کے طرف داروں  نے بھی خطوط لکھے کہ نعمابن بشیر سے ان خطرات کا تدارک نہیں ہوسکتا۔

یزید کو اس کے عیسائی مشیر سبرحون نے مشورہ دیا کہ نعمان بن بشیر کو معطل کیا جائے  اور انکی جگہ عبید اللہ ابن زیاد کو گورنر مقرر کیا جائے ابن زیاد اس وقت بصرہ کا گورنر تھا اب کوفہ بھی ان کی ولایت میں دیا گیا ابن زیاد بڑا شاطر تھا اس نے کوفہ جانے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جو مدینہ منورہ سے کوفہ آتا تھا۔ وہ حجازی لباس پہنے  تھا اس کے ساتھ 17  سوار تھےبصرہ میں داخل ہوتے وقت لوگ سمجھے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ  تشریف لائے ہیں وہ لوگوں سے السلام علیکم کہتا تو لوگ وعلیکم السلام مرحبا یا ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے۔قصر امارت تک یہی حال رہا قصر امارت میں حضرت نعمان بن بشیر کو بھی دھوکا ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں انہوں نے قصرامارت کے دروازے بند کیے اور کہا کہ میں تو نہ امارت آپ کے حوالے کروں گا اور  نہ آپ سے لڑوں گا دوسری طرف سے آواز آئی دروازہ کھولو ورنہ میں خود کھولوں گا تو انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اب بھی یہی سمجھے کہ حضرت حسین ہے مگر اندر جا کر معلوم ہوا کہ یہ  ابن زیاد ہیں اس پر حضرت نعمان بن بشیر کو سخت ندامت ہوئی۔ قصر امارت میں داخل ہوکر ابن زیاد نے منادی کرا دی لوگ جمع ہوگئے۔ ابن زیاد لوگوں کے سامنے آیا اور تقریر کی کہ امیرالمومنین یزید نے   مجھے تم پر حاکم بنا کر بھیجا ہے انہوں نے حکم دیا کہ ک فرمان بردار لوگوں پر  احسان کرو اور نافرمانوں پر سختی کروں۔تقریر کے بعد اس نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں کو گرفتار کرلیا اور ان سے ضمانت لی کے وہ کسی مخالف کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دیں گے۔ اگر کسی نے کسی مخالف کو پناہ دے رکھی ہے تو وہ اسے حوالے  کرے گا خلاف ورزی کرنے والوں کے جان و مال حلال ہوں گے۔ میں انھیں قتل کر کے ان کے سر انہیں کے دروازوں پر لٹکادوں گا اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والے کبھی محفوظ نہیں ہوں گے۔

 کوفہ کے لوگ ان دھمکیوں سے مرعوب ہو گئے جن لوگوں نے مسلم بن عقیل کی بیعت کی تھی  ان میں سے صرف پانچ سو شام تک ان کے ساتھ رہ گئے۔اندھیرا چھا گیا تو وہ بھی ایک ایک کر کے رخصت ہوگئے۔ مسلم بن عقیل اس وقت تک مختار بن عبید کے گھر میں تھا انہوں نے حالات کا رخ دیکھ کر مختار کا گھر چھوڑا  اور ہانی بن عروہ کے گھر میں پناہ لی۔ ابن زیاد نے ایک جاسوس کے ذریعے پتہ لگایا کہ مسلم بن عقیل نے ہانی کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس کے بعد مسلم بن عقیل کے پاس کوفہ کے لوگ جمع ہو گئے انہوں نے اپنے جوانوں کو لے کر قصر امارت  کا محاصرہ کیا۔ ابن زیاد نے اپنے محل میں موجود کوفہ کے سرداروں سے کہا کہ

وہ باہر نکل کر اپنے اپنے قبیلہ کے سپاہیوں  کو مسلم بن عقیل کا سر چھوڑنے پر آمادہ کرے ان سرداروں کے  کہنے پر ان کے قبیلوں کے سپاہیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور صرف تیس جوان ان کے ساتھ رہ گئے۔ مغرب کے بعد اندھیرا چھا گیایا تو یہ بھی غائب ہوگئے چنانچہ انہوں نے ایک عورت کے مکان میں پناہ لی۔ ابن زیاد نے منادی کرا دی کہ تمام لوگ شہر کی جامع مسجد میں عشاء کی نماز پڑھیں جامع مسجد میں نماز پڑھا کر ابن زیاد نے تقریر کی اور لوگوں کو ڈرایا دھمکایا اس نے مسلم بن عقیل کو پکڑنے کے لیے حصین بن نمیر کو کوفہ کے ہر گھر کی تلاشی لینے کا حکم دیا۔ مسلم بن عقیل نے جس عورت کے گھر میں پناہ لی تھی اس کے بیٹے نے خود ہی کو کوفہ کے سردار کے بیٹے سے کہا کہ مسلم بن عقیل اس کے گھر میں موجود ہیں سردار کو جب پتہ چلا تو اس نے ابن زیاد کو اطلاع دی اس نے فوراً حکم دیا کہ مسلم کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ مسلم بن عقیل نے اپنی پناہ گاہ کے باہر لوگوں کے شور کی آواز سنی تو وہ سمجھ گئے کہ انھیں گرفتار کرنے کے لئے دشمن کے سپاہی آگئے ہیں وہ ہاتھ میں تلوار لے کر تن تنہا بڑی دلیری سے لڑنے لگے زخموں سے چور ہو کر دیوار کے سہارے کھڑے ہوگئے تو سپاہیوں نے گرفتار کر کے تلوار چھین لی۔ ابن زیاد کے محل میں پہچائے گئے جہاں چھت پر لے جا کر انہیں شہید کیا گیا۔ یہ واقعہ 9 ذالحجہ 60ھ کو پیش آیا ابن زیاد نے ان  کا سر یزید کے پاس دمشق بھیج دیا اس کے بعد ایک شخص ان کے دو کم سن بچوں کے سر  بھی ابن زیاد کے پاس لاۓ جو کربلا کی تاریخ کا ایک اور دردناک سانحہ ہے۔

حضرت حسین اسی دن کوفہ کے سفر پر روانہ ہوئے جس روز مسلم بن عقیل شہید کئے گئے راستے میں مختلف مقامات پر عراق سے آنے والوں نے انہیں کوفہ نہ جانے کا مشورہ دیا مگر آپ نے نہ مانا۔ ثقعلیہ کے مقام پر اطلاع ملی کے مسلم بن عقیل شہید ہو گئے ہیں انہوں نے وصیت کی تھی کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کوفہ  نہ آئے۔ حضرت حسین نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ کوفہ کے حالات بدل گئے ہیں ہمارے لوگوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تم میں سے جو  واپس جانا چاہیے وہ واپس جائے ہماری طرف سے اس پر کوئی الزام نہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سب لوگ چپھنا شروع ہوۓ۔ جو راستے میں ان سے ملے تھے اور صرف وہی لوگ رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے کچھ لوگوں نے رائے دی کہ ہمیں واپس چلنا چاہیے مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں  نے واپس جانے سے انکار کیا۔ چلتے چلتے 6 محرم 61ھ کو ایک مقام پر پہنچ گئے۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقام کا نام دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام کربلا ہے۔

دوسرے دن ابن زیاد کے حکم پر عمر بن سعد چار ہزار سپاہ لے کر اسی جگہ پہچا عمر بن سعد کی کوشش تھی کہ حضرت حسین کو ان کے ہاتھوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے مگر ابن زیاد حسین سے بیعت لینے پر مصر تھا۔ 60 محرم تک عمر بن سعد اور حضرت حسین کے درمیان تھی بعد ملاقات ہوئی بعض مورخین لکھتے ہیں کہ عمر بن سعد نے حضرت حسین سے کہا آپ چلے جائیں جہاں آپ کو جانا ہے حضرت حسین رات کو چلتے تھے مگر صبح کو اسی جگہ ہوتے تھے جہاں سے سفر شروع کرتے تھے۔ اس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ سمجھ گئے کہ مقتل یہی ہے ابن  زیادہ 7 محرم کو ایک خط عمر بن سعد کو بھیجا جس میں اصرار کیا گیا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ یز ید کی بیعت کریں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ  حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ  پر پانی بند کیا جائے چنانچہ عمر بن سعد نے 7 محرم کو حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ  اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا مگر عباس بن علی اپنے ساتھیوں کو لے کر دریا پر پہنچ گئے اور عمر بن سعد کے سپاہیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے مشکوں میں پانی بھر کر لائے

اس دوران عمر بن سعد اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کئ بار ملاقاتیں ہوئیں عمر بن سعد نے ابن  زیاد کو خط لکھا کہ خدا کا شکر ہے کہ فتنہ فرو ہو گیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی نے تین تجاویز سامنے رکھی ہیں امید ہے آپ بھی ان تجاویز کو مانیں گے۔ ابن زیاد نے خط دیکھا تو اس نے  بھی ان تجاویز کو ماننے کا عندیہ دیا مگر شمر آڑے آیا اس نے ابن زیاد سے کہا کہ آپ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیں کہ اپنے آپ اور اپنے ساتھیوں کو آپ کے حوالے کردیں ابن زیاد؛ شمرکے جھانسے میں آیا۔ اس نے عمر بن سعد کو خط لکھا کے تم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈھیل دیتے ہو ہم اس لئے آپ کو نہیں بھیجا ہے۔ اس نے شمر سے کہا کہ اگر عمر بن سعد میرا حکم بجالاۓ تو اس کی اطاعت کرنا اگر وہ حکم عدولی کرے تو اسے ہٹانا اور فوج اپنی ماتحتی میں لینا اور اس کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیجنا۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کے نام خط میں لکھا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں سے بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈالنے  کے لیے کہنا اگر وہ مان جائیں تو سب کو حفاظت میں میرے پاس بھیجنا۔ اگر انکار کرے تو ان پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دو۔ اور قتل کے بعد ان کی لاش گھوڑوں سے روند ڈالو۔شمر نے خط لے جا کا عمر بن سعد  کو دیا۔ عمر نے دیکھا تو سمجھ گیا کہ سارا کچھ شمر نے کروایا ہے۔ شمر نے عمر بن سعد سے کہا کیا تم امیر کے حکم کی اطاعت کرکے دشمن سے جنگ کرو گے تو مجھے بتاؤ اگر نہیں لڑنا ہے تو فوج کو حوالے کر دو۔ شمر کی پھوپھی  ام البنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان سے حضرت علی کے چار بیٹے عباس ،جعفر عبداللہ اور عثمان تھے جو کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ شمر نے ان چاروں کے لئے ابن زیاد سے امان حاصل کی تھی۔ جنگ سے پہلے اس نے ان چاروں کو بلایا اور کہا کہ میں نے ابن زیاد سے  تم چاروں کے لئے امان حاصل کر لی مگر انہوں نے جواب دیا تم پر اور تمہاری امان پر لعنت ہو۔ ہمہارے لئے امان ہے مگر ابن  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امان نہیں تمہاری امان کے ہمیں حاجت  نہیں۔

عمر بن سعدنے  9محرم ہی سے جنگ کی تیاریاں شروع کیں رات کو ان کی ملاقات حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی حضرت عباس سے ہوئی۔ انہوں نے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور استغفار کرلیں عمر بن سعد نے یہ بات مان لیں اور واپس گئے اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کے سامنے تقریر کی۔ انہوں نے خدا کی تعریف کرتے ہوئے اور اپنے خاندان میں نبوّت کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے دعا کی اللہ ہم سب کو شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اہل بیت سے زیادہ نیک اور صلہ رحمی کرنے والے کبھی نہیں دیکھے۔ اے ساتھیوں کل کا دن میرے اور دشمنوں کے درمیان فیصلے کا آخری دن ہے  میرے دشمنوں کو صرف میری ضرورت ہے میں تمہیں  اجازت دیتا ہوں میری طرف سے کوئی گلہ نہ ہوگا   اور رات ہوچکی ہے میرے اہل بیت کا ساتھ پکڑ لو اندھیرے میں ادھر ادھر چلے جاؤ اور اپنی جانوں کو بچاؤ۔

حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی تقریر سن کر ان کے بھائیوں، بیٹوں ،بھتیجوں اور عزیزوں نے بیک زبان کہا

ہم آپ کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ اپنی جانیں، اپنے اموال اور اپنے اہل و عیال سب آپ پر قربان کریں گے جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔ آپ کے تمام  عزیزوں اور ساتھیوں نے جذبہ عقیدت کا اظہار کیا۔ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کا اخلاص دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت متاثر ہوئے۔

رات کو آپ نمازوں میں مشغول رہے۔ دعائیں نانگیں اور استغفار کرتے رہے۔ اپنی بہن حضرت زینب کو وصیت کی کہ جب میں مروں تو گریباں چاک نہ کرنا ، نوحہ اور آہ و بکا نہ کرنا۔

                10 محرم الحرام 61 ھ ۱۱ اکتوبر ۱۸۶ ءجمعہ کا دن تھا۔ نماز فجر کے بعد حضرت حسین ؓ نے اپنے ساتھیوں کی صف بندی کی اس کے بعد آپ نے دشمن فوجوں کے سامنے تقریر کی۔ حضرت حسین ؓ کے ساتھ بتیس سوار اور چالیس پیادے تھے۔ آپ کی تقریر نے مخالف کیمپ کے ایک شخص جس کا نام حر بن یزید تھا؛ اسی نے پہلے حضرت حسین کا راستہ روک دیا تھا۔ اس نے اپنا کیمپ چھوڑا اور حضرت حسین کے ساتھ شامل ہوا۔ حر نے اپنی قوم سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر تم نے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن پیاسے تڑپوگے۔ مگر ان کی تقریر کے بعد ہی عمربن سعد کے غلام درید نے یہ کہتے ہوئے تیر چلایا کہ لوگو! گواہ رہو سب سے پہلے میں نے تیر چلایا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے ایک ایک دو دو آدمی نکلتے اور مبارزت طلبی کرتے مگر حضرت حسین کی طرف سے لڑنے والے بہادر تھے۔ اس لئے نقصان عمر بن سعد کے سپاہیوں کا ہوتا تھا۔ اس لئے شمر نے چاروں طرف سے حملہ کردیا۔ حضرت حسین کے ساتھی ایک ایک کرکے سب شہید ہوئے جن میں ۲۵ مرد اورایک عورت تھی۔ اب بنو ہاشم کی باری تھی۔ سب سے پہلے حضرت حسین کے بیٹے علی اکبر میدان میں آئے۔ اس کے بعد مسلم میں عقیل کے بیٹے اور بھائی نکلے اور ایک ایک کرکے سب شہید ہوئے۔ حضرت حسن ؓ کے بیٹے قاسم تلوار لیکر میدان میں نکلے تو عمرو بن سعد کے ایک سپاہی نے ان کی گردن پر تلوار ماری۔ قاسم زمین پر گرے تو حضرت حسین نے سپاہی پر حملہ کرکے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اسے اپنے ہی سپاہیوں نے گھوڑوں سے روند ڈال کرہلاک کردیا۔ حضرت حسین ؓ اپنے خیمہ کے سامنے کھڑے تھے۔ اسی وقت ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ بچہ حضرت حسین کے پاس لایا گیا۔ آپ اس کے کان میں اذان دینے لگے۔ عمرو بن سعد کے ایک سپاہی نے تیر مارا جو بچے کے حلق میں لگا اور وہ اسی وقت شہید ہوگیا۔ یہ کر بلا کا سب سے کم عمر شہید تھا۔ اہل بیت میں سے دو کمسن بچے بھی حضرت حسین کے دفاع میں میں نکلے وہ بھی شہید ہوگئے۔ شمر کے پھوبھی زاد بھائی عباس بن علی ؓ، عبداللہ بن علی ؓ، جعفر بن علی ؓ اور عثمان بن علی ؓ بڑی بے جگری سے لڑے اور داد شجاعت دیتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوئے۔ اس کے بعد حضرت حسین لڑنے لگے۔ شمر ایک جماعت لیکر آپ پر حملہ آور ہوا۔ ایک سپاہی نے حضرت حسین کے سر پر تلوار ماری جو ٹوپی کر چیرتی ہوئی سر پر لگی۔ آپ ٹوپی اتار کر سر پر پٹی باندھ لی اور سرپر ٹوپی لگاکر اس پر عمامہ باندھ لیا۔ اس دوران ان کا نو عمر بھتیجا ہاتھ میں لکڑی لے کر خیمے سے نکلا اور حضرت حسین کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ بچے نے حملہ آور سپاہی ابی بن کعب سے کہا کہ ارے خبیث ! تو میرے چچا کو قتل کرے گا۔ ابی بن کعب نے تلوار مار کر بچے کا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ بچہ تکلیف سے چلانے چیخنے لگا تو حضرت حسین نے اسے اپنی آغوش میں اٹھالیا۔

                حضرت زینب ؓ اپنے دو بچوں عون اور محمد کو لے آئی۔ ان میں ایک کی عمر ۶ سال اور دوسرے کی عمر ۸ سال کی تھی اور انہوں نے حضرت حسین سے کہا کہ یہ دونوں آپ پر قربان ہوجائیں گے حضرت حسین نے کہاکہ ان دونوں کو آپ واپس لیجائیں۔ انہوں نے ابھی دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے مگر حضرت زینب نہ مانی یہ اتنے چھوٹے تھے کہ جب حضرت زینب نے ان کے کمر سے تلواریں باندھیں تو تلواریں زمین سے لگ رہی تھیں۔ یہ دونوں شہید ہوگئے۔

                حضرت حسین کے بیٹے علی بن حسین ؓ جو زین العابدین کے لقب سے مشہور ہیں اس وقت بیمار تھے اور چارپائی پر لیٹے تھے۔ انہوں نے اسی حالت میں حضرت حسین سے اجازت طلب کی کہ میں بھی لڑوں گا مگر انہوں نے اجازت نہیں دی کہ تم بیمار ہو۔حضرت حسین خیمے سے نکلے اور بڑی بہادری سے لڑنے لگے۔ دشمن نے چاروں طرف سے ان پر حملہ کردیا آپ لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوچکے تھے۔ شمر کے ساتھیوں نے آپ پر تیروں کی بارش کردی۔ اسی دوران شمر چلایا تمہارا ناش ہو تم حسین کو قتل نہیں کرتے۔ یہ سن کر زرعہ بن شریک نے آپ کے بائیں بازو پر تلوار مار کر اسے جدا کردیا۔ پھر آپ کے شانے پر تلوار ماری سنان بن انس نے آپ کو نیزہ مارا جس سے آپ زمین پر گر پڑے۔ سنان نے آپ کا سر تن سے جدا کردیا۔

                حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعد شمر اور اس کے سپاہی اہل بیت کے خیموں میں داخل ہوئے۔ شمر حضرت زین العابدین کو قتل کرنا چاہتے تھے جو بیمار تھے مگر حمید بن مسلم نے کہا کہ کیا تم بچوں کو بھی قتل کروگے۔ شمر کے دوسرے ساتھیوں نے بھی کہا کہ ہم اس بیمار کو قتل نہیں کریں گے۔ اسی دوران عمر بن سعد بھی آگیا اس نے کہا خبر دار کوئی شخص خیموں میں نہ جائے اور بیمار کو ہاتھ نہ لگائے اور جس نے جو کچھ لوٹا ہے وہ واپس کرے۔ اس نے خیموں پر کچھ سپاہی تعینات کئے تاکہ عورتوں اور بچوں کی حفاظت کی جائے۔

                عمر بن سعد نے واپس آکر میدان میں پکارا کہ حسین کا جسم روندنے کے لئے کون کون تیار ہے۔ دس آدمیوں نے اپنے نام لکھوائے چنانچہ ان دس آدمیوں نے جسم اطہر کو روند ڈالا۔

                شہادت کے وقت حضرت حسین کی عمر چھپن برس پانچ ماہ پانچ دن تھی۔آپ کے ساتھ بہتر آدمی شہید ہوئے جن میں اٹھارہ ابو طالب کی آل میں سے تھے۔ ان میں آپ کے بیٹے ، بھتیجے، بھانجے ، بھائی، چچازاد بھائی اور چچا زاد بھائیوں کے بیٹے تھے۔ عمر بن سعد کے اٹھاسی سپاہی کربلا میں ہلاک ہوئے تھے۔

                شہادت کا یہ واقعہ یوم عاشورہ ١٠ محرام الحرام ٦١ ھ ۱۱ اکتوبر ۱۸۶ کو نماز ظہر کے بعد پیش آیا۔ اس دن جمعہ تھا۔ حضرت حسین نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دشمنوں سے کہو کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دیں مگر دشمنوں نے یہ بات نہ مانی اس لئے حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں نے میدان کا رزار ہی میں نماز خوف ادا کی۔

                شہادت کے دو روز بعد عمر بن سعد اہل بیت کی عورتوں ، بچوں اور زین العابدین کو اپنے ساتھ لیکر کربلا سے کوفہ چلاگیا۔ ان کے جانے کے بعد ایک نزدیکی بستی غاصریہ کے لوگوں نے آکر نماز جنازہ ادا کی اور شہداء کی لاشیں دفن کردی۔

                حضرت حسین ؓ نے کربلا کا راستہ اپنا کر دنیا کے تمام روشن ضمیروں کیلئے ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے انقلابی انہیں اپنا رہنما اور پیشوا مانتے ہیں:

  انسان کو بیدار تو ہولینے دو

 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؓ

                حضرت حسین نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان ، اپنی اولاد ، اپنا خاندان اور مال و متاع سب کچھ قربان کردیا اور یہ بلند مقام انہیں کیلئے خاص ہے۔ انہیں شہید کرنے والے بھی اپنے آپ کو دیندار سمجھتے تھے مگر بقول فیض:

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعین ہے

جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دین ہے

3 تبصرے
  1. منظور احمد کہتے ہیں

    لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الۡجَــهۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًا عَلِيۡمًا‏ ۞
    خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے
    مظلوم کو فریاد کا حق ہے
    حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کرلے تو افضل یہی ہے۔ ابو داؤد میں ہے ” حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں۔ حضور رسول مقبول ﷺ نے یہ سن کر فرمایا ! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو ؟ ” حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے دعا (اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے، آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کو سنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے۔ عبدالکریم بن مالک جزری ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے۔ ” ایک اور آیت میں ہے (وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ) 42۔ الشوری :41) جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ” دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے، جس نے گالیاں دینا شروع کیا۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے۔ حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے۔ ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ” صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے ” آپ نے فرمایا ” اگر وہ میزبانی کریں تو درست، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو۔ مسند احمد کی روایت میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ ” جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے ” ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے ” ان احادیث کی وجہ سے امام احمد ؒ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے ” ایک شخص سرکار رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے، آپ نے فرمایا ایک کام کرو، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے ؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آگیا ہوں، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا، منتیں کر کے کہا ” اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا۔ ” پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لئے بڑا ثواب، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ” عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ ” بعض تو کہتے ہیں ” دعا (سبحانک علی حلمک بعد علمک) یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں دعا (سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لئے مختص ہیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں، عفو و درگذر کرنے اور معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے۔ ”

    سورۃ النساء آیت 148
    تفسیر ابن کثیر

    1. طاہر عباس کہتے ہیں

      یہ واقعہ کربلا کا پس منظر جو پیشِ نظر کیا گیا ہے اس بندے کی مجموعی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔جس نے علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کی وہ دراصل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کر رہا تھا ۔آج بھی حق واضع ہے ۔پھر بھی مسلمان راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے ۔

  2. Mohammad Ghitreef کہتے ہیں

    ڈاکٹرغلا م قادرلون صاحب نے زیادہ ترباتیں بلاحوالہ کتاب مقتل حسین سے نقل کی ہیںجس کا مصنف ابومخنف ابویحیٰ بن لوط ہے۔تمام محدثین کے نزدیک یہ نہایت جھوٹااوررافضی شخص ہے۔سنی محدثین میں سے کوئی اِس کی روایت کودرست نہیں مانتا۔یہ سانحہ کربلاءکے سوسال بعدپیداہوااورکوفہ اورآس پاس کے لوگو ں کی سنی سنائی باتوں سے کتاب مقتل حسین تیارکی ۔شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق جتنے جھوٹے افسانے عوام میں مشہورہیں اورجوبنیادہیں تعزیوں،ماتموں اورمحرم کی تمام رسموں کے اورخاص کرشیعہ برادران میں مشہورومعروف ہیں ان سب کا تنہاماخذیہی کتاب ہے۔یہاںتک بعض شیعہ محققین نے ان افسانوں پر نکیرکی ہے۔بہرحال لون صاحب کا یہ مضمون بھی ہرطرح کی رطب ویابس سے بھراہواہے۔وہ سانحہ کربلاکیوں ہوا،شہادت علی رضی اللہ عنہ کا سانحہ کیوں پیش آیااس کے صحیح تاریخی پس منظرسے واقف نہیں ہیں۔اس کا صحیح تاریخی پس منظرجس سے تمام واقعات وسانحات کی معقول توجیہ ہوسکتی ہے،وہ شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہے۔اوربیشترصحابہ بھی ا س کواسی پس منظرمیں دیکھتے تھے۔مگرایک طویل پروپیگنڈے کے ذریعہ سے شیعہ حضرات اِس کوہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اوراب سنی اہل علم بس سنی سنائی رطب ویابس کودہراتے رہتے ہیں خودسے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔جس پر جتنابھی افسوس کیاجائے کم ہے۔
    ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

تبصرے بند ہیں۔