بھارتی مسلمانوں کا مستقبل

سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

ڈاکٹر ایاز احمداصلاحی

انسویں صدی کے نصف آخر سے تعلق رکھنے والے جرمنی کے عظیم  ماہر لسانیات اور فلسفی فریڈرچ، ویلہلم نیزشے نےبڑے پتے کی بات لکھی ہے کہ "ایک صاحب علم و فہم انسان کو اس لائق ہونا چاہیے کہ  وہ نہ صرف یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرے بلکہ وہ اپنے دوستوں سے نفرت بھی کرنا جانے۔”

    دشمنوں سے پیار کرنا یا دشمنوں کا دل جیتنا تو ہم سب جانتے ہیں لیکن "دوستوں سے نفرت” کا مشورہ بادی النظر میں چونکانے والا لگتا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب اپنوں کے برے کاموں سے نفرت و لا تعلقی اور ان سے ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔  یہ در اصل انسانی  سلوک کا اتنا عظیم مرتبہ ہے کہ اس تک پہنچنا کسی معاشرہ کے بس چند اور چنندہ خوش نصیبوں کے ہی حصے میں اتا ہے اور وہی اس زمین کا نمک ہوتے ہیں، کسی فرد میں یہ عظیم کردار پیدا کرنے میں ایک عطیم نظریہ حیات کا بڑا کلیدی حصہ ہوتا ہے۔

اپنے دشمنوں سے پیار کرنا یہ ایک ایسا انسانی رویہ ہے جس کا تجربہ اس دنیا میں  کبھی کبھی ہم سب کرتے ہیں؛ اس انسانی رویہ کی مثالوں سے اگر انسانی تاریخ  بھری نہیں ہے تو وہ بالکل خالی بھی نہیں ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں انبیاء و رسل کی تاریخ میں ملتی ہے اور اس کی سب سے شاندار اور منفرد مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے جن کی شان میں گساخی کا جرم بھارت کی مسلم دشمن سنگھی تحریک  کے تصور ہندوتو کے نزدیک کوئی جرم ہی نہیں ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس گروہ کی اکثریت شان رسالت کی تویین کرنے والے "گھٹیا عناصر” نوپر شرما اور نوین جندل جیسے غلیظ لوگوں کی کھلے عام پشت پناہی نہ کر رہی ہوتی اور ان لوگوں کے گھر چن چن کر نہ منھدم کیے جاتے اور انھیں سرکار و انتظامیہ کی طرف سے نشانہ نہ بنایا جاتا جنھوں نے پیغمبر رحمت کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائی، ایک ایسا نبی و رہبر جس نے نہ صرف اپنے دشمنوں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کیا اور ان کی نفرت کا جواب پیار سے دیا، بلکہ ان کے حق میں ہمیشہ کلمہ خیر کہا۔ لیکن ہندوتو کے پروردہ لوگ ایک خاص ماحول میں جینے کی وجہ سے شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ خیر کے لیے دشمنوں سے پیار اور  اپنوں کی قابل نفرت روش سے نفرت و نا پسندیدگی کا مطلب کیا ہوتا ہے، کیونکہ ان اعلی انسانی قدروں کے مطابق ان کی تربیت ہی نہیں ہوئی ہے۔

          فریڈرچ کا یہ اخلاقی اصول بظاہر قرآن مجید کے اس تصور سے مستعار معلوم ہوتا ہے جو کہتا ہے” تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر  ہر گز مجبور نہ کرے کہ تم عدل کرنا چھوڑ دو، عدل کرو کہ یہی تقوی سے قریب تر ہے” ۔ عدل پر اس تاکید کی وجہ یہ ہے کہ جس سماج، یا ملک اور ریاست میں اس عدل کا میزان قائم رہتا ہے وہاں انسانیت زندہ رہتی ہے اور جہاں یہ مرتا ہے وہاں انسانیت کا ترازو بھی ڈگمگا اٹھتا  ہے، جہاں عدل قائم ہوتا ہے وہاں آسمان یہ منظر بھی دیکھتا ہے کہ وہاں جرم کرنے پر اپنے ہم مشربوں یا ہم مذہبوں کو سخت سزا ملتی ہے جب کہ غیر مذہب والوں کو ان کے مذہب کے لحاظ میں رخصت یا رعایت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس نظام کی بنیاد ظلم و نا انصافی ہو وہاں تمام رعایتیں ہم مشربوں کے لیے اور تمام نفرتیں غیر مذہب یا غیر مسلک والوں کے لیے خاص کر لی جاتی ہیں اور عدالتیں  انصاف کے وقت انکھوں پر غیر جانب داری کی پٹی باندھنے کی بجائے ان پر جانب داری کا چشمہ چڑھا لیتی ہیں جس سے انھیں مظلوم گنہ گار اور  ظالم بے قصور دکھائی دینے لگتے ہیں۔

جہاں یہ بے عدلی اور اس کے بھیانک نتائج سے لاپرواہی  عام ہوتی ہے وہاں ہر سطح پر ظلم و ظغیان اور عام سماجی بگاڑ پھوٹ پڑتا ہے اور اسی  کے ساتھ منافقت و دو رنگی بھی تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ ایسے سماج میں نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ  ایک ہی دین کے ماننے والے محض مسلکی و فقہی اختلافات کی بناپر اپنے ہم مذہب لیکن مسلکی حریفوں کے لیے صلیب و دار کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور باطل کو انھیں برباد کرنے کا ابلیسی مشورہ بھی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ آج ملت اسلامیہ ہند میں اس قماش کے لوگ کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے تعلق سے رعایت یا غفلت برتنا اس ملت کے مستقبل کے لیے کافی مہلک ثابت ہوگا۔  یہی وہ  ایمان فروش گروہ اور اس کے مریدین و متوسلین ہیں  جو باطل کی خوشنودی میں اسے کبھی پاپولر فرنٹ پر وار کرنے کی صلاح دیتے ہیں تو کبھی اخوان المسلمین یا تحریک اسلامی اور مفکرین اسلام کے افکار  پر بندشیں لگانے پر اکساتے ہیں۔

دہلی میں ۳۰ جولائی ۲۰۲۲ کو  بین المذاہب کانفرنس یا "انٹر نیشنل انٹر فیتھ کانفرنس”  کے بینر کے ساتھ ‘آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل’ نامی صوفی گروہ کی ایک ایسی ہی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں باطل کے لیے میٹھی میٹھی بولیاں بولی گئیں لیکن کچھ تو خوف کی نفسیات  سے اور کچھ مسلکی اختلاف و تفاوت کے سبب  اپنے ہی ہم مذہبوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ حالات کے دباؤ میں کچھ موقع پرست علماء و صوفیاء اور بے ضمیر انسانوں نے اپنے ضمیر کا سودا پہلے بھی کیا تھا اور وہ اب بھی کر رہے ہیں البتہ آج کل اس ملک میں اسلاموفوبیا کی تیز ہوتی لہر نے ان کی قیمت بازار بھاؤ سے بھی زیادہ بڑھادی ہے اور اب وہ نہ صرف کھلے عام بک رہے ہیں بلکہ سرکاری و غیر سرکاری گلیاروں میں ان کے استعمال کی بھی نئی نئی حکمت عملیاں بن رہی ہیں۔ مسلم دشمنی کی اس مکرگاہ  میں یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس بکے ہوئے مال کا استعمال کب کب اور  کہاں کہاں کرنا ہے۔ صوفیوں کی اس کانفرنس کو بھی ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے اس کانفرنس میں اس کے اصل منتظمین اور اس گروہ کے ذمہ داروں کی طرف سے عام سیاسی و سماجی جماعتوں کی طرح ہی کام کر رہی ملک کی ایک سیاسی و سماجی جماعت پاپولر فرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) پر حکومتی کارندوں کی موجودگی میں کھلے عام پابندی کا مطالبہ کیا گیا، جب کہ یہ بھی ملک کی دیگر پارٹیوں  جیسی ہی  ایک عام سیاسی پارٹی ہے، بس اس کا قصور یہ ہے کہ اس کی قیادت مسلمان ہے اور وہ ہمت و حوصلہ کے ساتھ مسلم کاز کی بات کرتی ہے۔

 آخر اس صوفی گروہ کو اس جماعت سے کیا شکایت ہوسکتی ہے؟ انھوں نے پی ایف آئی پر بندش کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ وہ ملک کی دیگر سیاسی و سماجی جماعتوں کی طرح کی ایک عام جماعت پر اچانک پابندی کا مطالبہ کیوں کر نے لگے؟ کیا اس لیے کہ اس جماعت نے ان سجادہ نشینوں یا ان کے گروہ  کو کوئی نقصان پہنچایا ہے؟ ظاہر ہے ایسا بالکل نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ مصلحت کے مارے لوگ ان لیڈروں اور سنگھی گروہوں اور بعض سنگھی حکمرانوں کی تایید میں ایسا کر رہے ہیں جو بہت دنوں سے پاپولر فرنٹ پر پابندی کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں اور اس موقع اور ماحول کی تلاش میں ہیں جس میں ایک ابھرتی ہوئی مسلم جماعت پر ہاتھ ڈالنا ان کے لیے آسان ہو۔ یا تو یہ کمزور  مسلمان انھیں کے آلہ کار ہیں یا حالات نے انھیں فی الحال ایسا بنادیا ہے؟ اس کا اندازہ بھی بہت جلد ہو جائے گا۔ اس کی دوسری وجہ یہ پے کہ ایسا کرکے وہ در اصل  مستقبل کے ان اندیشوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جس کا سامنا  ایک سچے مسلمان کے طور سے کرنے کا ان میں حوصلہ نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ غارت گر باطل بننے کی بجائے غارت گر مسلم ہوکر وہ بات کہی جائے اور وہ کام کیا جائے جو مسلم دشمنوں کو خوب پسند آئے اور ان حالات میں جب کہ یہاں کی مسلم اقلیت کو ایک خاص سرکاری و غیر سرکاری گروہ کی طرف سے نسل کشی کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے یہ لوگ ان اسلاموفوبیائی عناصر کی نوازشوں کے سہارے آرام و سکون کی زندگی کے مزے لوٹتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ، چاہے خانقاہوں میں ہوں  یا یونیورسٹیوں میں، وہ ان اسلاموفوبیائی  عناصر کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انھیں اس سے کیا غرض کہ قلیل مفادات کے لیے ان کی ان گھٹیا حرکتوں سے امت مسلمہ کو کتنا بڑا نقصان سہنا پڑسکتا ہے۔ اس خاص ذہنیت کے ساتھ جینےوالے مسلمانوں کی سرگرمیوں  میں سے ایک ہے اپنوں سے دوری بنانا اور امت مسلمہ کے ازلی بدخواہوں سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرنا۔ ہندوستان کے موجودہ حالات ضمیر کا سودا کرنے والے ایسے لوگوں کے لیے نہایت سازگار ہیں اور انھیں خوب معلوم ہے کہ ان دنوں وہ تمام اشخاص یا گروہ حکمراں جماعت اور اس کے ہم نوائوں سے بھاری صلہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کی بہت سی خصوصی مراعات اور تقرب خاص پاسکتے ہیں جو موقع دیکھ کر ان کی خواہش کے مطابق اپنی ہی ملت کو نشانہ بنائیں گے اور پی ایف آئی، تحریک اسلامی،  یا بعض دیگر مسلم تنظیموں اور مودودیِ حق کیش جیسے مفکرین کی کتابوں پر پابندی کے مطالبے میں پیش پیش رہیں گے۔

آج جس طرح مسلمان کے بھیس میں کچھ بہروپیوں نے  پاپولر فرنٹ پر پابندی کا مطالبہ کھلے عام کیا ہے بعید نہیں کہ کل امت کے ایسے ہی کچھ بے غیرت  لوگ آگے آکر ان سرکاری گرگوں کی ہاں میں ہاں ملائیں جو ایک خاص منصوبے کے تحت یہاں پورے اسلامی فکر و تھذیب پر پابندی لگا کر مسلمانوں پر جبرا ہندتو کا رنگ چرھانا چاہتے ہیں۔ بلکہ اب تو وہ یہ سب اپنے یکے بعد دیگرے فیصلوں کی شکل میں کھلے عام کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ حکومت کے یہ حاشیہ بردار آئندہ اپنی کانفرنسوں میں باقاعدہ قراردادیں پاس کرکے مفکر اسلام کی کتابوں پر عام پابندی کا مطالبہ کریں۔ مجھے تو اسکرین پر مستقبل کے یہ تمام دلخراش مناظر صاف صاف نظر آرہے ہیں البتہ اس اسکرین پر ان  مناظر کی ہلکی سی جھلکیاں بھی نظر نہیں آرہی ہیں جو ان کے برعکس ہوں اور جو باطل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف بیداری و پیش بندی  کا نظارہ پیش کر رہی ہوں۔

   دلی کی اس کانفرنس کو  قومی سکوریٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کی سرپرستی میں منعقد ہونا اور کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ جاری کر کے خود مسلم مذہبی پیشوائوں کی طرف سے پوری بے غیرتی کے ساتھ ایک مسلم جماعت پر پابندی کا مطالبہ کرنا اپنے آپ یہ  واضح کر دیتا ہے کہ اس کانفر نس  کی اصل غرض و غایت کیا تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں عام طور سے بین المذاہب ڈائلاگ کے ذریعہ مختلف فرقوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا اور ان کے درمیان باہمی اعتماد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن اس کانفرنس میں ایسا کچھ دور دور تک نظر نہیں آیا بلکہ بین المذاہب ڈائیلاگ کے نام سے یہ سرگرمیاں  ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ محسوس ہوئیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند بے نام  صوفیوں اور سجادہ نشینوں کی اس کانفرنس میں بعض وہ حضرات بھی شریک  ہوئے جو ملت اسلامیہ کی مظلوم و مقہور کیفیت پر  رات دن اشکبار رہتے ہیں، کانفرنس کے شرکاء میں مولانا سلمان ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، مولانا عامر رشادی اور جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر مھدی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مجھے علم ہے کہ پاپولر فرنٹ پر پابندی کا مطالبہ کانفرنس کی ذمہ دار سجادہ نشینوں کی طرف سے کانفرنس کے اختتام پر کیا گیا جس میں  یہ ‘غیر صوفی’ – ‘سنی’  افراد شریک نہیں تھے، لیکن ایک ایسی کانفرنس میں جو خود میں ایک خفیہ سرکاری منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے اس میں بے سمجھے بوجھے ان حضرات کا شریک ہونا حیرت انگیز بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ اتنی سادہ لوحی اور اس قدر غفلت؟ اس "سادگی” و غفلت کے ساتھ کسی سطح پر کسی معقول رہنمائی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ؟ سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ۔

ہمارے بعض بھائیوں نے اس پورے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ان میں سے ایک صاحب کے بعد از کانفرنس دیے گئے اس بیان پر اطمئنان ظاہر کیا ہے جس میں انھوں نے اس جلسہ کے اصل داعی سجادہ نشین نصیر الدین چشتی کے پاپولر فرنٹ پر پابندی کے مطالبے والے بیان سے علیحدگی ظاہر کرتے ہوئے اس منظم اور مضبوط جماعت پر کسی قسم کی پابند کی مخالفت کی ہے۔ ان کے اطمئنان کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کانفرنس کے دیگر غیر صوفی شرکاء نے تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ صرف پی ایف آئی پر پابندی کی حمایت میں نصیر الدین چشتی کے بیان کے برخلاف اس پر کسی قسم کی پابندی کی مخالفت میں بیان دے دینا ہی کافی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ناعاقبت اندیش صوفیوں اور اجیت ڈوبھال سے اسٹیج شئر کرنے والوں کا داغ اسی وقت دھل سکتا ہے جب وہ نصیر الدین کے بیان کی شدید مذمت کرکےاس سازشی  کانفرنس میں نہ صرف یہ کہ اپنی شرکت پر افسوس ظاہر کرتے ، بلکہ کانفرنس کے منتظمیں کی اس منافقانہ روش کا  سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت بھی کرتے اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر بھی ہمیں امید ہے کہ کم سے کم ملت اور اندیشوں سے گھرے اس کے مستقبل پر رحم کرتے ہوئے وہ ایسی غلطیاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

یہ سب ایک  ایسی صورت حال ہے جس میں ماہرین کے مطابق بھارت کی زمین کو مسلمانوں کے لیے دن بدن تنگ کیا جارہا ہے، یہ ایک ایسا ماحول ہے جس میں ہندوتو کے ارادے اور سرگرمیاں نیز نئے نئے سرکاری اقدامات میں مسلمانوں کے خلاف تعصب و نا انصافی کو صاف طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے، اور جس میں مسلمانوں کے مستقبل کے اندیشوں نے اب تقریبا  خطرناک حقیقت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس نازک ماحول میں کم سے کم اندرون ملت ایسی حرکتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اگر کوئی فرد یا گروہ ایسی کوئی حرکت کرتا ہے جس سے منفی قوتوں اور ان کے  ہم نوائوں کو تقویت پہنچتی ہو   تو ان کی شناخت اور ان کے سماجی مقاطعہ میں کسی رعایت سے کام لینا یا جانے انجانے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا اس خطرے کو مزید گہرا کرنے کا کام کرے گا۔ معروف صحافی سی جے ورلمین (C J Werleman) ان عالمی دانشوروں اور صحافیوں میں سے ایک ہیں جو دنیا کو برابر اس خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں. چنانچہ ان کے مضامین اور ٹویٹر کے پیغامات سے ڈر کر ہی ملک میں ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے، سی جے ورلمین نے ‘مڈل ایسٹ آئی’ میں چھپے اپنے تازہ مضمون میں صاف طور سے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ” انڈیا روانڈا کے خطرناک راستے پر گامزن ہے”۔  واقعات کی تفصیل اور لفظوں کے انتخاب میں ممکن ہے ان سے ہمارا اختلاف ہو لیکن ان کے تجزیہ میں جس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ایسا مہلک طوفان ہے جس کے  آنے سے پہلے اہل عالم اور اہل ہند دونوں کا  بیدار یوجانا ضروری ہے۔ ہند میں مسلمانوں کے مخدوش مستقبل میں رواندا کی تصویر نظر آرہی ہے یا ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۵ کے درمیان کے خوں آلود بوسنیا کی؟ اس سوال سے زیادہ اہم یہ بات  ہے کہ  یقینا بھارتی مسلمانوں کو درپیش خطرہ ایک ننگی حقیقت ہے ، اور اس حقیقت سے صرف نظر کرنے کی بجائے اس کے تعلق سے  اہل ملک کو بیدار و باخبر کرنا اس صحافی سے زیادہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیا ان حالات سے بھی زیادہ پرخطر حالات ہو سکتے ہیں جس میں ہندوستان میں ۳۰ کروڑ کی تعداد میں بسنے والی ایک قوم کی شہریت اور شریعت دونوں کو ایک ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہو؟ کیا اب  اس سے بھی زیادہ دھماکہ خیز کوئی ماحول ہو سکتا ہے جس میں مسلم عورتوں کو حجاب کے ساتھ پڑھنا اور نکلنا مشکل کردیا گیا ہو  اور مسلم مردوں سے نکاح و طلاق کے اپنے اسلامی احکام (پرسنل لاء) پر عمل کرنے کی آزادی چھین لی گئی ہو؟ کیا کسی قوم کے لیے اس سے بھی زیادہ توہین امیز اور ذلت ناک نوبت آسکتی ہے جس میں انھیں عام حالت میں بھی وہ بنیادی شہری حقوق حاصل نہ ہوں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں؟ یہاں وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں تو جیل جائیں، یا جان گوائیں یا پھر ان کے گھروں پر بے رحمی سے بلڈوزر چلا دیے جائیں، لیکن اگر وہی سب  دوسری قوم کے لوگ کریں اور غصے میں اربوں کھربوں کی ملکی املاک بھی تباہ کردیں تو بھی ان کے خلاف کچھ نہ ہو بلکہ وہ ملک کی چہیتی سنتان بنے رہیں۔ اس مجرمانہ امتیاز  کو جمہوریت نہیں فسطائیت کہا جاتا ہے ۔

 اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اس ملک میں عالمی سطح کے مقبول و معروف مسلم مصنفین و ادباء کی کتابیں پڑھنے یا انھیں تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے پر بھی پابندیوں کا سلسلہ تقریبا شروع کردیا گیا ہے۔ چونکہ اس پوری مھم کی روح رواں آر ایس ایس ہے جو بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اصل سرپرست ہے اس لیے اس کی منفی منصوبہ بندیوں کا اولین نشانہ  اسلامی احکام پر بے کم و کاست  عمل کرنے والے، اس کی دعوت دینے والے، اور اسے ایک متبادل نظریہ حیات کے طور سے پیش کرنے والے لوگ ہیں۔ اسی کے ساتھ  اسلامی فکر و عمل کے فروغ کے لیے بنے  تمام اہم ادارے، مدارس، جماعتیں اور مخصوص مسلم مفکرین جیسے ، ابن تیمیہ،  محمد بن عبد الوہاب، سید قطب ، مولانا مودودی، مرتضی مطہری وغیرہ کے افکار بھی اس کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ آج مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتابوں کو منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنا کر ان پر پابندی لگانے اور بطور نتیجہ تحریک اسلامی کو کنارے لگانے کی بات سرکاری و غیر سرکاری ہندوتو نے جس گہری منصوبہ بندی اور شدت کے ساتھ اٹھائی ہے اب بعید نہیں کہ جلد ہی سلسلہ کتابوں سے آگے بڑھایا جائے۔ آثار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ شاید جلد ہی اقبال کی شاعری پر بھی پابندی عائد کرنے  اور اسے تمام یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں رائج اردو ادب کے نصاب تعلیم سے خارج کرنے کا مطالبہ زور پکڑے اور حکومت اسے تسلیم کرکے ایک اور فسطائیت مخالف، ہندتو مخالف اور طاغوت مخالف فکر کا گلا گھونٹنے میں کامیابی حاصل کرے۔ اپنے اس طریقے پر عمل کر  کے ہندوتو عناصر  ملک میں مسلمانوں کے اندر خوف کا ایک ایسا ماحول بنانے میں بڑی حد تک کامیاب یوگئے ہیں کہ انھیں خود اس ملت سے اپنے کارندے آسانی سے ملنے لگے جس کی عداوت ان کی گھٹی میں موجود ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حکومت یا اس کے ایجنٹ ابھی جو باتیں محض زبان پر لا تے ہیں اور جو ابھی باقاعدہ قانون یا حکم نامے کی شکل بھی نہیں اختیار کرتا بے، ہمارے بہت سے خوف زدہ  مسلمان آگے بڑھ کر اس پر پہلے  ہی سے عمل کرنا اور مسلم مخالف قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے کون نہیں اتفاق کرے گا کہ پہلے کے مقابلے میں آج کل اس طرح کے واقعات  مسلم قوم میں زیادہ  تیزی سے رونما ہورہے ہیں ۔ دیوبند میں محمود مدنی صاحب کی کانفرنس میں  ملت اور اس سے متعلق خطرات کو ثانوی حیثیت میں پیش کرنا، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو عام حالات میں ہمیشہ بڑی جرئت سے مسلمانوں کے کاز کے لیے پیش پیش رہی ہے، اس کے ذمہ داروں کی طرف سے انتھائی عجلت میں سید مودودی کی کتابوں کو متعلقہ شعبوں کے نصاب تعلیم سے خارج کرنے کا اعلان کرنا یا اسی طرح دلی کی صوفی کانفرنس میں بڑے بزدلانہ طریقے سے اصحاب جلسہ کی طرف سے حکومت سے پی ایف آئی پر پابندی کا مطالبہ کرنا خوف کی ایک گہری نفسیات کی طرف صاف اشارہ ہے۔ یاں یوں کہیں کہ یہ سب  مسلمانوں کے تعلق سے ہندوتو کی منصوبہ بندیوں کا کامیاب سفر ہے جو اگر یہیں نہیں رکا تو آئندہ یہاں کی ملت اسلامیہ کو ان خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جس کی نشاندہی بار بار ملکی و غیر ملکی صحافیوں کی طرف سے سامنے آرہی ہے۔ اس کیفیت  کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملت میں موجود خوف زدہ  بھیڑوں کو شاید اس کی خبر نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر اس بڑی حقیقت سے بے خبر رہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اجتماعی قوت کے ساتھ طوفان سے لڑنے کی بجائے اس سے ڈر کر تنکوں کا سہارا لیتے ہیں وہ چاہے جتنی احتیاط برت لیں اس کی تباہ کاریوں سے کبھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔

منظر آئینے کی طرح صاف ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ان دھماکہ خیز حالات کو عام اور معمول کے حالات سے تعبیر کرنے والے، یا قومیت کے نام پر ملت کے وجود کو قربان کرنے کی دعوت دینے والے یا حالیہ فسادات اور ماب لنچنگ کی شکل میں مسلم نسل کشی کے رجحان یا مدارس اور مساجد  پر ہورہے  ہندوتو کے حالیہ حملوں  یا مسلم کاز کے لیے آواز اٹھانے والے مسلمانوں کے گھروں کو بی جے پی حکومتوں کی طرف سے منھدم کرنے کی غیر قانونی کاروائیوں کو معمول کی بات سمجھنے والے لوگ کیا ہیں اور ان کے اندر غیرت کا پانی کتنا بچا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ان ناصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے خود حکومت سے مسلم قائدین اور مسلم جماعتوں پر برملا پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں اور نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے کی بجائے ہر نئی نا انصافی کے بعد بنا طلب اپنی وطنی وفاداریاں ثابت کرنے کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہاں کی دوسری قوموں کو وقت و بے وقت اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی؟ اور صرف اپ ہی اپنی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ پیش کرتے رہنے پر کیوں مجبور ہیں ۔ ان نام نہاد مسلمانوں یا ان کے مذہبی پیشوائوں کو مسلم ملت سے  قریب آتے خطرات کی آہٹ کبھی بھی سنائی نہیں دیتی اس لیے کہ وہ اسے سن کر اپنے خوف کو بڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اسے نظر انداز کرکے اور ہندوتو کی خواہشات پوری کرکے وہ خود اپنی جان و مال کو ہر ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ محض ان کی ایک خطرناک خوش فہمی ہے؛  انھیں معلوم نہیں کہ جو فرد اپنی ملت اور اس کے مستقبل  سے الگ ہوکر سوچتا ہے  اس دنیا میں نہ تو اس کا کوئی مقام ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل۔

آخری بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ لوگوں میں ہمیں انتھائی درجے کی سادگی دکھائی دیتی، یہ سادگی بھی در اصل اسی خوف کی دین ہے جس کا تذکرہ اوپر کرچکا ہوں۔ یہ خوف زدگی کوئی معمولی رویہ نہیں ہے، یہ  انسانوں کو بالعموم ایک تباہ کن منافقت تک پہنچا دیتی ہے اور  یہ مرض صرف فرد ہی نہیں ایک پوری قوم یا اس کی اکثریت کے کردار میں بزدلی اور ہوس  پیدا کرکے انھیں سخت حالات میں ثابت قدم رہنے کی بجائے شکست خوردہ بنا کر چھوڑ تا ہے۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو سچ میں حالات سے نبرآزما ہونا چاہتے ہیں اور اس مقصد سے ملک اور ملت کو بیدار کرنا اپنی ذمہ  داری سمجھتے ہیں انھیں خطرے کے اس پہلو سے سب سے زیادہ بیدار رہنا پڑے گا۔ یہ طرز عمل بیداری ہی نہیں  زندگی کی علامت ہے اور یہی زندگی قوموں کو روح عمل کے ساتھ  زندہ رہنے کے لائق رکھتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔