مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور شدّت پسندی کابیانیہ

ڈاکٹرامتیازعبدالقادر

                امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے صدیوں سے جدوجہدجاری ہے۔اس جہدوکاوش کی نوعیت علمی وفکری بھی ہے،سماجی وتہذیبی بھی اورسیاسی وتمدنی بھی۔ہردورکے صاحبانِ علم وفکر اپنی اپنی صلاحیتوں اورفہم ودانش کے مطابق اس جدوجہدمیں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اکابرِامّت کی لمبی فہرست ہے جن کی کاوشوں اورقربانیوں کے دمکتے نقوش جریدئہ عالم کے صفحات پرثبت ہیں۔ بیسویں صدی کے قافلہ سالاروں میں متعددنام سامنے آتے ہیں مگرجن شخصیات نے امت کی بیدرای میں بہت نمایاں کرداراداکیااورعلمی وفکری اورتعلیمی دائروں میں نہایت وسیع اثرات مرتب کئے،ان میں ہمیں مولانا سیدابوالاعلٰی مودودیؒنمایاں نظرآتے ہیں جوکہ اپنے دورکی معتبر آوازتھی۔

                ۱۹۳۱ء میں مولاناسیدمودودی نے رسالہ’ترجمان القرآن‘خریدا۔بعدازاں یہی رسالہ مولاناکے افکارونظریات کی شاعت کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت کاذریعہ بنا۔۱۹۳۶ء تک یہ رسالہ خالص علمی ومذہبی نوعیت کاتھا۔’حکومت الٰہیہ‘یا’نظامِ اسلامی کی اقامت‘ کے حوالے سے ابھی تک اس رسالے کے صفحات ناآشناتھے۔مسلمانوں کے مذہبی افکارواعمال پرتنقیدکے ساتھ ساتھ مغربی افکارونظریات اورتہذیبِ فرنگی کے تاریک پہلوئوں پرمولانامتکلمانہ تنقیدکرتے تھے اوراسلامی تہذیب کے محاسن کی تائید وحمایت کاپہلوغالب تھا۔یہ رسالہ غیرمنقسم ہندوستان میں بلاامتیازمسلک وعقیدہ اہلِ علم کی ایک بڑی تعدادکومتاثرکئے بنانہ رہ سکا۔مولانامودودی ایک منجھے ہوئے انشاء پردازتھے۔اُن کے قلم کاجادُواقبالؔاورکلامؔ کوبھی اپنااسیرکرگیا۔اُن کے اچھوتے اسلوبِ نگارش اوردل کش منطقی طرزِاستدلال کابھی اس جذب والتفات میں بڑاحصہ تھا۔

                اسلامی نظامِ حیات کے بارے میں مولانامودودی کی تحریروں، ان کے استدلال،ان کے علمِ کلام اوران کے سائنٹفک اسلوبِ نگارش نے مشرق ہی نہیں بلکہ مغرب کی نئی نسل پردوسروں سے زیادہ وسیع اورگہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اپنی کتابوں کے ذریعے فکری سطح پرانھوں نے بعض کلیدی نوعیت کے نکات کوواضح کیا۔

                اسلامی ریاست کی ضرورت کے متعلق مولاناکا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے زندگی گزارنے کاجواسلامی تصوردیاہے،وہ یہ ہے کہ انسان کواپنی پوری زندگی اللہ کی رضااورمنشاکے حصول کے لئے صرف کردینی چاہئے۔قرآن صرف اخلاقیات کے اصول ہی بیان نہیں کرتابلکہ زندگی کے دیگرشعبوں کے لئے بھی ہدایات دیتاہے۔ وہ بعض جرائم کی سزائیں بھی تجویزکرتاہے اورمالیاتی معاملات کے اصول بھی طے کردیتاہے۔جب تک کوئی ریاست ان کونافذکرنے کے لئے موجودنہ ہو،یہ سارے اصول اورضابطے عمل میں نہیں لائے جاسکتے اوراسی سے اسلامی ریاست کی ضرورت سامنے آتی ہے۔ مولانا نے سورۃ النساء کی آیت ۵۹ سے اسلامی ریاست کے اصول اخذکئے۔

                سید مودودی کاایک بڑاکارنامہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے رائے عامہ کی ہمواری اوراس کی فکری وفلسفیانہ بنیادوں کی تشریح وتوضیح ہے۔ مولانانے پورے عزم وایقان کے ساتھ قدیم کے حوالے سے ہراحساسِ کہتری اورجدیدکے بارے میں ہرمرعوبیت سے بالاترہوکر،اسلامی ریاست کے تصور،اس کے فلسفے،نظامِ کاراوراصولِ حکمرانی کی شرح وبسط کے ساتھ وضاحت کی ہے۔اس عمل میں قدم قدم پراُن کے تفقہ فی الدّین،سیاسی واجتہادی بصیرت، عصری آگہی اورجدیداسلوب میں اُن کاانتہائی موثراندازبیان، استدلال اورمتکلمانہ لب ولہجہ نمایاں ہے۔یہ اُن کاوہ کارنامہ ہے جس میں گزشتہ تقریبََاتین صدیوں سے عرب وعجم میں کوئی ان کاثانی نہیں۔

                عہدحاضرمیں اسلامی ریاست کی تشکیل کاعمل اوراس کامخصوص منہج یاطریقہ کاروہ موضوع ہے،جس کی تفہیم وعملی تفسیرمیں مولانامودودی کودوسرے مفکرین پرسبقت اورامتیازحاصل ہے۔ریاست کی تنظیم کیسے ہو،اس کی تشکیل وطریقہ کاراورمنہج کیساہوکہ اس میں عصری ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوسکے اورقرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات اوررہنمااقداراورخلافتِ راشدہ کے تاریخی تعامل سے سرِموانحراف بھی نہ ہو،اس موضوع پرعلماء میں سے صرف مولانا مودودی نے دلچسپی لی۔اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب مولاناکے نزدیک یہ ہیکہ پہلے ایک تمدنی‘اجتماعی اوراخلاقی انقلاب پیداکیاجائے کیونکہ اسلام کے احکام وقوانین صرف اوپرسے ہی مسلط نہیں کئے جاسکتے بلکہ اندرسے اُن کے اتباع کادلی جذبہ پیداکیاجاناضروری ہے۔(اسلامی ریاست،ص ۵۶)

                اسلامی حکومت کسی معجزے کی صورت میں صادرنہیں ہوتی۔اس کے پیداہونے کے لئے ناگزیرہے کہ ابتدامیں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات،وہ مقصدِزندگی،وہ معیارِاخلاق،وہ سیرت وکردارہوجواسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتاہو۔اس کے لیڈراورکارکن صرف وہی لوگ ہوں، جواس خاص طرزکی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لئے مستعدہوں۔ پھروہ اپنی جدوجہدسے سوسائٹی میں اُسی ذہنیت اوراُسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھراسی بنیادپرتعلیم وتربیت کاایک نیانظام اٹھے،جواُس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیارکرے،جودنیاکے ناخداشناس ائمہ فکرکے مقابلے میں اپنی عقلی وذہنی قیادت کاسکّہ بٹھادیں اورہربھٹی میں تَپ کرہرآزمائش میں سرخروہوکراپنے قول وفعل سے،اپنی انفرادی واجتماعی کردارسے اسلام کی شہادت دیں تاکہ صالح عناصراُن کی طرف کھینچتے چلے آئیں اورپست ذہنیت اورپست سیرت افراددبتے چلے جائیں اورعوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونماہوجائے اوروہ نظامِ زندگی عملََاقائم ہوجائے جس کے لئے زمین تیارہوچکی ہے۔اسلامی حکومت کے قیام کایہی تدریجی طریقہ ہی فطری طریقہ ہے اوریہ انقلاب اُسی صورت میں رونماہوگا،جب ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات وتصورات اورمحمدی سیرت وکردارکی بنیادپراٹھے اوراجتماری زندگی کی ساری  ذہنی،اخلاقی،نفسیاتی اورتہذیبی بنیادوں کوطاقتورجدوجہدسے بدل دالے۔(ایضََا،ص۶۹۵)

                سیدمودودی اس زمانے کی پیداوارہے جب چہارطرف مغربی افکار،سائنس وٹیکنالوجی کادبدبہ تھا۔مشرق زیرِعتاب بھی تھااورمرعوب بھی۔عوام وخواص معذرتانہ رویہ اختیارکئے ہوئے تھے۔اس ماحول میں مولاناسیدابوالاعلٰی مودودی جیسابطلِ جلیل مشرق کی گودسے اٹھتاہے اورمغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کراُن کے فسادِفکرونظرکی قلعی دلائل وبراہین سے کھولتاہے۔مولاناکایہ سب سے بڑاکارنامہ ہے۔’حکومتِ الٰہیہ‘کانظریہ سیدمودودی کی سیاسی فکر کاہمیشہ مرکزی نکتہ رہاہے۔فکرِسیاسی میں یہ استقلال،پامردی اوراستحکام وہ عمل ہے،جوفکروعمل کی تاریخ میں سیدمودودی کوبہت ممتازبنادیتاہے:

  ’’دین اللہ بھی صرف اُسی چیزکانام نہیں ہے جومسجدوں اورنمازروزے تک محدودہوبلکہ اس سے مُرادبھی اُس پوری شریعت کی پابندی ہے،جواللہ کی رضاسے ماخوذ اور اس کی حاکمیت پرمبنی ہواوراجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں کواپنی گرفت میں لے لے۔‘‘(ایضََا،ص ۶۸)

                مولانامودودیؒ کے ساتھ لیکن ایک المیہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے بعدان کی فکرکوکچھ عناصرنے غلط فہمی کی بناپر’شدّت پسندی‘کابیانیہ بنا ڈالا۔ عہد ِحاضر میں دنیاکے بیشترممالک میں جنگ کاسمابندھاہواہے۔کلیساکے پیروہوں یاتسبیح کے’ محافظ‘،کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی کوختم کرنے کی آڑمیں خودبھی شدّت پسندی کی صف میں کھڑے نظرآتے ہیں اور’دانشور طبقہ‘وتجزیہ نگاروں کاایک گروہ اس کے تانے بانے مولاناسیدمودودی کی فکر و نظر کے ساتھ نُتھی کرنے پرمُصرہیں۔ حالانکہ مولاناؒکی فکر،طریقہ کارواضح ہے۔انہوں نے دعوتِ دین یا اسلامی حکومت کے قیام کے لئے زیرِزمین سرگرمیوں،  خفیہ کاروائیوں، مسلح جدوجہداورغیرآئینی طریقِ کارکوہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔اس طرح کے تمام طریقوں کووہ حکمت عملی کے خلاف، ناروا اور غیرموزوں تصورکرتے؎ تھے۔مولاناؒکی بعض تحریروں کوسیاق وسباق سے کاٹ کرخائنوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی۔نومبر۱۹۶۹ء میں اسلامی جمعیت الطلبہ پاکستان کے اجتماع میں ایک سوال کے جواب میں مولانانے نونہالوں کونصیحت کرتے ہوئے کہا:

 ’’ہماراکام خفیہ تحریک چلانانہیں بلکہ کھلم کھلااپنے نظریات کوپھیلاناہے۔خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگرکسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کاوفادارنہیں ہے تواسے بلاتکلف قتل کردیاجاتاہے اوریہ قتل وغارتگری اس تحریک کاعام مزاج بن جاتاہے۔ خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپاکرنااسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے اورانجام کے لحاظ سے خطرناک بھی۔‘‘(تصریحات،ص۱۴۹۔۱۵۰)

                اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:

                ’’۔۔۔میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں،  مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ۔۔آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں،  ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔ ‘‘ (تصریحات، ص ۱۹۱،۱۹۲)

  مزید فرماتے ہیں :

                ’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں،  جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۶۳۔۲۶۴)

                مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں آپ نے فرمایا:

                ’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں،  ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔۔۔۔ یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (ایضََا۔ص۲۷۴)

   مولاناعمارخان ناصراس شدت پسندی کے بیانئے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

                ’’یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے۔۔۔ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوئوں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘(دلیل ڈاٹ کام)

                مولانامودودی بیسویں صدی میں برصغیرکے مسلمانوں کے لئے اللہ کاایک احسان تھے۔اُن کے قلم نے مغرب زدہ،دین سے بیزارلوگوں کی کایاپلٹ دی۔انہوں نے اپنے نقطئہ نظرکو قرآن مجید کے تفصیلی دلائل کی بنیادپرمرتب کیاتھا۔اپنے نقطئہ نظرکومعقول طریقے پرثابت کرنے کی ان میں اتنی غیرمعمولی قابلیت تھی کہ مولاناابوالحسن علی ندویؒنے انہیں بیسویں صدی کاسب سے بڑامتکلم اسلام قراردیاتھا۔مولانامودودی نے ایک طرف ’تنقیحات‘لکھ کر مغربی فکرکے بڑھتے ہوئے اثرات پرزبردست چوٹ لگائی،تودوسری طرف ’کمیونزم‘کے مقابلے کے لئے اہل ِاسلام کوگویا اُس دورمیں ایک بیانیہ دیا۔آدھی دنیامیں پھیل جانے والا’کمیونزم‘مذہب کے انکارکی بنیادپرزندگی کاایک ’نظریہ‘اور’نظام‘دے رہاتھا،جوبہت متاثرکُن تھا۔اس کے جواب میں اسلام کواسی اندازسے پیش کرکے مولانامودودیؒنے بہرحال لوگوں کی ایک بڑی تعدادکو’کمیونزم‘کی آغوش میں جانے سے بچایااوراُس وقت اسلام کادفاع کیا جب کہ فکری میدان میں اس کادفاع کرنے والااورکوئی نہ تھا۔مولاناکے کام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کاکام اتنی محکم بنیادوں پرکھڑاتھا کہ اس پرکسی قسم کی گرفت کرنابہت مشکل تھا۔ابویحیٰ، مشہورمصلح وناولسٹ،کے بقول مولانامودودی کی تحریرپڑھ کراسلام پراعتمادپیداہوتاہے۔سرِدست اس وقت امتِ مسلمہ پراگرکسی شخص کی’فکری بادشاہی‘ قائم ہے تووہ مولاناسیدابوالاعلٰی مودودیؒہی کے نظرئے کی’ حکومت ‘ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولاناآخرکاربشر تھے۔اُن کی فکری،علمی عظمت کے باوجودوہ اختلاف سے مستثنٰی نہیں۔ لیکن اُن کی فکرکوتشدّد،انتہاپسندی اوردہشت گردی سے جوڈدیناعلم وفکرکی تذلیل ہے۔انتہاپسندی وشدت پسندی کے جتنے وہ مخالف تھے، وہ ان کی تحریروتقریرمیں واضح ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔