حضرت حمزہ بن عبد المطلب کا قبول اسلام

15شوال المکرم : یوم شہادت کے موقع پر

شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی

سنجیدہ سوچ اور صحیح رُخ

                حضرت حمزہ بن عبد المطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اورلگ بھگ ہم عمر ہیں۔ ان دونوں نے سیدہ ثوبیہ کا دودھ پیا ہے، اسی لحاظ سے دونوں رضاعی بھائی بھی ہیں۔ حضرت حمزہ بن عبد المطلب قریش کے معزز سردار تھے اور انتہائی بہادر، دلیر اور غصہ والے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شکار کا بہت شوق تھا۔ بہت مالدار تھے، نوکر چاکر کاروبار (تجارت کا ) سنبھالتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کا زیادہ وقت شکار میں گزرتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو غیر جانب رہے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی اور نہ ہی مخالفت کی۔ لا اُبالی اور اپنے آپ میں مگن رہنے والے تھے اور کوئی سنجیدہ سوچ نہیں تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبوت ( بعثت ) کے چھٹے سال  6   نبوی میں اسلام قبول کیا اور اسلام قبول کرنے کی وجہ ایک خاص واقعہ بنا۔ اسی واقعے نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو ایک سنجیدہ سوچ اور صحیح رُخ بھی مل گیا۔

 ابو جہل کی بد تمیزی

                سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا کے دامن میں تشریف فرما تھے۔ ابو جہل وہاں پہنچا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے لگا اور بد زبانی کرنے لگا۔سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بہت صبر اور تحمل سے سنتے رہے۔ بد بخت ابو جہل کے منہ میں جو آیا بکتا گیا اور اس بار تو اس نے حد کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ ایک روایت میں تو یہ بھی ہے کہ بد بخت ابو جہل نے پتھر پھینک ماراجو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا اور خون بہنے لگا۔ جب ابو جہل نے خون بہتا دیکھا تو بکتا جھکتا ہوا خانہ کعبہ کے پاس چوپال میں جا بیٹھا۔ جہاں دوسرے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے جانے کے بعد کچھ دیر تک سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رکے اور پھر اپنے گھر چلے گئے۔ قریب ہی عبداللہ بن جدعان کا گھر تھا اور اس کی لونڈی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔

 حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدلہ لیا

                حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شکار پر گئے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد آپ رضی اللہ عنہ اپنا شکار اور تیر کمان لئے ہوئے ادھر سے گزرے تو عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے کہا:’’ آج تو بہت برا ہوا۔‘‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:’’ کیا ہوا؟ ‘‘ اُ س نے تمام واقعہ تفصیل سے بیان کر دیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیارے بھتیجے صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ تمام واقعہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصہ سے بے قابو ہو گئے اور اپنے شکار کو وہیں پھینکا اور سیدھے چوپال میں پہنچے۔ ابو جہل وہاں بیٹھا اپنی بڑائی ہانک رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پہنچتے ہی اپنی کمان ابو جہل کے سر پر دے ماری۔ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جلا ل بھر ی آواز میں کہا:’’ تُو میرے بھتیجے کے ساتھ بد تمیزی کرتا ہے اور اُ س پر حملہ کرتا ہے، میں کہتا ہوں۔ میں بھی اُ س کے دین پر ہوں، اب بول کیا کرے گا؟ لوگ ابو جہل کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے تو ابو جہل نے کہا:’’رُک جائوغلطی میری ہی تھی، میں نے آج ان کے بھتیجے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔

اسلام قبول کرتے تو زیادہ خوشی ہوتی

                حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سمجھ کے مطابق اپنے پیارے بھتیجے صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لے لیا اور خوشی خوشی سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :’’ بھتیجے !  ابو جہل نے جو غلط حرکت تمہارے ساتھ کی تھی میں نے اس کا بدلہ لے لیا ہے اور اس کا سر پھاڑ دیا ہے۔‘‘ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ چچا جان ! اگر بدلہ لینے کی بجائے آپ ( رضی اللہ عنہ ) اسلام قبول کرلیتے تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر خاموشی سے چلے آئے۔ لیکن سیدا لانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اُن کے روح میں اتر گئے۔ پوری رات بے چینی سے کروٹ بدلتے گزری۔ جب کسی طرح اضطراب اور بے چینی دور نہیں ہوئی تو خانہ کعبہ کے پاس پہنچ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:’’ اے اللہ تعالیٰ !حق کے لئے میرا سینہ کھول دے اور اس شک اور تردد کو دور فرما۔ ‘‘ اُن کی دعا پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا اور حق آپ رضی اللہ عنہ پر واضح ہو گیا۔ صبح ہوتے ہی سیدا لانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت حمزہ کے تاثرات

                حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دیکھا اور قرآن پاک کی تلاوت سنی تو دل میں اسلام کی حقانیت کا نور بھر گیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے تاثرات اس طرح بیان کئے:’’ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں کہ اُس نے دین ِ حنیف اسلام کو قبول کرنے کے لئے میرے دل کو ہدایت دی۔ وہ دین جو رب کریم کی طرف سے آیا ہے۔ وہ رب کریم عزت والا ہے اور اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور اُن کے ساتھ لطف و احسان کرنے والا ہے۔ جب اس کے ( اللہ تعالیٰ) کے پیغاموں ( قرآن پاک کی آیات) کی ہم پر تلاوت کی جاتی ہے تو ہر عقل مند اور زیرک انسان کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ یہ ایسے پیغامات ہیں جو’’ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ‘‘صلی اﷲ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ ایسی آیات کے ساتھ جن کے حروف روشن ہیں۔ ’’ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی‘‘صلی اﷲ علیہ وسلم وہ ہیں جن کی ہم اطاعت کرتے ہیں اور کوئی کمزور بات اور عقل و فہم سے گری ہوئی بات سے وہ پاک ہیں۔ اللہ رب العزت کی قسم ! ہم انھیں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دشمن کے حوالے ہرگز نہیں کریں گے اور ہم نے ابھی تک ان کے درمیان تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہم اُن کے مقتولوں کو ہموار زمین پر پھینک دیں گے۔ ان پر ایسے پرندے آئیں گے جو چکر لگانے والے لشکر کی مانند ہوں گے۔ ‘‘

٭…٭…٭

1 تبصرہ
  1. سلیم منصور خالد کہتے ہیں

    ماشااللہ

تبصرے بند ہیں۔