دیوان لغات الترک – ایک تعارف

تحریر: عبداللہ حسن

ترکی زبان کی وہ اول لغت جس نے دنیا کو ارض توران پر بسنے والی ترک تہذیب و ثقافت سے متعارف کرایا۔

قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم و تربیت کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ انھی اقوام نے دنیا کی قیادت کی جو تعلیم کے میدان میں سب سے آگے رہے۔ نبی آخر الزماں ﷺ جس دن کی تجدید کے لیے آئے تھے اُس میں تعلیم کو بنیادی مقام حاصل تھا۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی اور پوری دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ بالآخر ایک وقت ایسا بھی آیا مسلمان تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ گئے، اور عیش و عشرت ان کے اندر رچ بس گئی۔ مال و دوت کی حوس، اور تخت و اقتدار کی چاہ نے دلوں میں جگہ بنالی۔ اور یوں ہمارا زوال شرو ع ہوگیا۔

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا (اقبالؒ)

دیوان لغات الترک کے مصنف محمود کاشغری (ترکی زبان میں کاشغارلی محمود)

بارہویں صدی میں عربوں کے زوال کے بعد ترک بحیثیت ایک قوت کرہ ارض پر تیزی سے اُبھر رہے تھے۔ ایک طرف خواجہ احمد یسویؒ، شیخ ابن العربیؒ اور حضرت امام احمد ماتورودیؒ جیسے علما و مشائخ تعلیم و تربیت میں اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ تو دوسری طرف سلطان الپ ارسلان، سلطان علاؤ الدین کیقباد، ارطغرل غازی اور قرہ عثمان جیسے سپہ سالار اپنی فتوحات کے ذریعے سلطنتِ اسلامیہ کی حدود کی وسعت میں سرگرداں تھے۔ مشرق سے منگول تو مغرب سے اہلِ روم کے خطرات کے باوجود ترک دنیا امت کی سربلندی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ ترک مسلمانوں نے سائنس و ٹکنالوجی سمیت صنعت و حرفت، فنِ حرب، اور بزنیس اڈمنسٹریشن میں اپنی ترقی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیے تھے۔ چہ جائیکہ ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات ہم تک یا تو نہیں پہنچی یا بہت کم پہنچی۔ مگر ایک شعبہ ایسا بھی تھا جس میں ترک مسلمانوں نے خصوصاً دل چسپی لے کر کام کیا۔ اور اس شعبہ کی خوب خدمت کی اور وہ شعبہ ہے لسانیات و لغتیات (linguistics) کا۔

جب ترک قوم امت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئی تھی اُس میں ایسے علما کرام اور اسکالرز پیدا ہوئے جنھوں نے لسانیات و لغتیات کے شعبے میں اپنے کارنامے سرانجام دیے۔ کئی لغات و قواعد کی کتابیں مرتب کیں۔ ان میں سب سے پہلے جس شخصیت کا نام آتا ہے وہ ہیں محمود کاشغری آپ کا پورا نام محمود ابن حسین ابن محمد کاشغری (عربی میں محمود الکاشغاری، ترکی میں کاشغارلی محمود/ Kaşgarlı Mahmud)۔۔

محمود کاشغری نے جس لغت کو مرتب کیا تھا اُس کا نام "دیوانُ لُغاتِ التُّرک”ہے۔ یہ دنیا کی وہ عظیم اولین لغت تھی جس نے عربوں سمیت پوری دنیا کو “ارض توران” پر بسنے والی ترک تہذیب و ثقافت سے آشنا کرایا تھا۔

ارض توران: دنیا کے نقشہ پر جسے ہم آج کا وسط ایشیا کہتے ہیں جس میں ازبکستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمنستان، ترکستان، قزاقستان، مشرقی اناطولیہ، شمالی عراق , ایران و افغانستان وغیرہ شامل ہیں۔ اس سرزمین کو “توران” کہا جاتا ہے اور اس پر بسنے والی اقوام کو “ترک قوم” کہا جاتا ہے۔ جن میں تُرکمَْن ترک، قزَاق ترک، اوغوُزترک، ازبک ترک کافی مشہور ہیں۔

محمود کاشغری اس لغت کو مرتب کرنے کی وجہ بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد عربوں کو ترک زبانیں سکھانا اور انھیں یہ بتانا تھا ترک تہذیب و تمدن ثقافت عرب تہذیب و تمدن سے زیادہ زرخیز اور اعلی اقدار کی حامل ہے۔ محمود کاشغری کی لغت مرتب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی بنو عباسیہ کے دور میں ترکوں سے عربوں کے تعلقات خاصے استوار ہوگئے تھے۔ تجارتی تعلقات خصوصاً اس کی وجہ بنے۔ اور انھوں نے ا س بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس میں درجِ ذیل دو چیزیں شامل ہوں۔

  1. وہ کتاب ایک بہترین لغت کا کام سر انجام دے۔ تاکہ عربوں کو ترکی زبانیں سیکھنے میں مدد ملے اور دونوں اقوام کے درمیان تعلقات استوار ہوں۔
  2.  اور وہ ایسی کتاب ہو جس میں ارض توران کی تہذیب و تمدن کے بارے میں تفصیلی جانکاری درج ہو۔ تاکہ عربوں کی احساس برتری کو ختم نہیں تو کم از کم زائل کیا جا سکے۔
دیوان لغات الترک کا سرِ ورق

دیوانُ لغاتِ التّرک کی اہمیت و افادیت

دیوان لغاتِ التّرک کوترکی زبانوں کی سب سے پہلی لغت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ضخیم ترک انسائیکلو پیڈیا (Türk encyclopedia) ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس سے پہلے خصوصاً ترکی زبان میں اس نوعیت کی کوئی لغت یا کتاب وجود ہی نہیں رکھتی تھی جس میں ترک زبانوں کے ساتھ ساتھ ترک تہذیب و تمدن کے بارے میں مکمل جانکاری دی گئی ہو۔

دیوانُ لغاتِ التّرک بے شک اُس دور کی ایک عظیم شاہ کار رہی ہو، لیکن دورِ جدید میں بھی اس لغت کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ خصوصاً تاریخ داں خواہ وہ ابُو حَیّان الاندلسی ہوں یا ابن محمد ہوں یا دورِ جدید کے ابراہیم شناسی یا رفعت بیلگہ ہوں۔ غرض یہ کہ ترکی سمیت یورپ کے ماہرینِ لسانیات و لغتیات اس لغت کو ترک زبان و ادب اور تاریخ کے زمرے میں سب سے اہم اوربنیادی درجہ دیتے ہیں۔

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

دیوانِ لغات الترک یکم /جمادی الاول 464 ھ بمطابق 25 جنوری 1072 ء کو عظیم و معروف اسکالرمحمود الکاشغاری نے مرتب کی تھی اور 1077ء میں یہ لغت پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس دور کی روایت تھی کہ تصانیف خواہ وہ کسی بھی قسم کے ہوں خلیفۂ وقت کے سامنے تقدیم کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔ یہ لغت محمود نے خلیفہ ء بغدادالمقتدی باامراللہ (1052 -1054)کے فرزند ابوالقاسم عبداللہ کو تقدیم کے لیے پیش کی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ اس لغت کو مرتب کرنے کا اول مقصد عربوں کو ترک زبانیں سکھانا تھی۔ کیوں کہ زبان و ادب ہی وہ چیز ہے جو دو مُخلتف اقوام تہذیب کے درمیان رشتہ استوار کرتی ہے۔ اس لیے لغت کے اندر تورانی زبانوں کی مختلف بولیاں اور ان کے مخارج و تلفظات درج ہیں۔ ہر ایک قبیلہ اور اس کے درمیان بولی جانے والی زبان کے الفاظ محمود نے لغت میں درج کیا ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اُس زمین پر بسنے والے ترک لوگوں کے درمیان غیر ملکیوں کی زبانیں بھی اس لغت میں درج کی ہیں۔

ڈاکٹر مصطفے سنان قاچالین (Dr۔ Mustafa Kaçalın) جو ترکی زبان و ادب کے معروف قومی ادارہ انجمنِ ترک زبان (Türk Dili Kurumu) کے صدر ہیں۔ انھوں نے اس لغت پر تحقیقی کام کیا اور ایک مقالہ شائع کرایا جس میں وہ حوالہ دیتے ہیں کہ "دیوانُ لغات التّرک کو مرتب کرنے کے لیے محمود کاشغری نے ارض توران کے کئی مقامات کا سفر کیا۔ کئی کئی دن مختلف قبیلوں میں گزارے، وہاں کے قبیلوں کی زبان و ادب، تہذیب روایات، رہن سہن، روز مرہ کے مشاغل وغیرہ کا مشاہدہ کیااور مختلف قبائل، مختلف قبائل کے علما کرام اوراسکالرز سے ملاقاتیں کیں۔ اور جو باتیں درج کرنے کی تھیں اُسے لغت میں محفوظ کرتے گئے۔ محمود نے قبائل اور مختلف اقوام کے درمیان تعلقات کا بھی اس لغت میں ذکر کیا ہے۔ اور اگر اُس دور کے حساب سے تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ کتاب اپنے وقت کی عظیم لغت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گمنام تہذیب کا انسائیکلوپیڈیا ہونے کا مقام بھی رکھتی ہے۔

اموی دورحکومت میں عرب ترک قوم کو ہمیشہ نیچی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔ ان کی زبان و تہذیب کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اور اپنی نسل کو ان کی نسل سے برتر مانتے تھے۔ چوں کہ اپنی زبان کو عر ب بھی کافی فصیح اور بلیغ مانتے ہیں اور اس لیے وہ ترکی زبانوں کو بھی کم تر درجہ کا مانتے تھے۔ لغت کو مرتب کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ عربوں کو یہ بتایا جائے کہ ترکی زبان و تہذیب عربی زبان و تہذیب سے کہیں کم تر نہیں بلکہ اعلی معیار و اقدار کی حامل ہے۔

کتاب کو لغت کی شکل میں تشکیل دیا گیا ہے۔لغت کی زبان عربی ہے‘صرف ہیڈنگ اور سب ہیڈنگ کومحمود کاشغری نے ترکی زبان میں لکھا ہے۔ اورکم و بیش لغت میں 8000 الفاظ درج ہیں۔ a,e,i,i,o,ö,u, یعنی ترکی کے حروف مصوتہ (vowels) کو عربی حروف علت (ا، و، ی) کے ذریعے دکھایا ہے۔ ترکی میں بہت سے حروف ایسے ہیں جو عربی زبان میں موجود نہیں، تو ان کو محمود کاشغری نے خاص حروف اور اشارات کے ذریعے دکھایا ہے۔ مثلاً ترکی زبانوں میں ب اور ف کے درمیان مخرج کو تین نقطے والی ف (ڤ) کے ساتھ دکھایا۔ اور اُردو و فارسی زبان کی طرح ترکی زبانوں میں نون غنہ (ں) بھی ہوتا ہے جسے محمود کاشغری نے عربی میں نون اور کاف (نک)کی شکل میں دکھایا ہے۔ لغت میں جہاں مد ( ٓ) والے الفاظ آئے ہیں۔ اُس کو محمود کاشغری نے دوگنے حروف علت(اا، وو، ی ی) کے ذریعے دکھایا ہے۔

لغت کو منظم انداز میں ترتیب دے کر 8 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

  1. کتاب الْھَمْزَۃ
  2. کتاب الساَّلِم
  3. کتاب المُضاعَفْ
  4. کتاب المِثَالْ
  5. کتاب الزّوَاتِ الّثَلاَثۃَ
  6. کتاب الذَّوَاتِ الاَرْبِعۃ
  7. کتاب الغُنّہَ
  8. کتاب الْجَمْعْ بَیْنَ السَّاکِنَیْن

کتاب الْھَمْزَۃ

باب میں کاشغری نے ان حروف کو درج کیا ہے جن کے شروع میں عربی کا اعراب “ “/ حرف مد میں سے الف “ا “آتا ہو۔ مثلاً اُس (عقل)، اُق (تیر)، یَاغ(تیل)، اُغز(اوغوز قبیلہ)۔ اس باب کو اس لیے کتاب الْھَمْذَۃ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس باب میں ترکی کے وہ تمام الفاط درج کر دیے گئے جن کے عربی لکھتے وقت شروع میں متحرک الف یعنی ہمزہ آتا ہو۔ کیوں کہ صرف عربی کا متحرک الف /ہمزہ ترکی کے تمام مصوتہ حروف یعنی vowels (a,e,i,i,o,ö,u,ü) مخارج ادا کردیتا ہے۔

کتاب الساَّلِم

اس باب میں کاشغاری نے ان تمام حروف کو یکجا کیا ہے جن ک شروع میں "و "یا "ی” کے علاوہ تمام حروف آتے ہوں۔ یا حروف کے نیچے زیر (ِ) یا اوپر پیش (ُ) آتا ہو۔ کیوں کہ حرف "و "یا "ی” عجمی زبانوں میں تو بیشک حرف صوتیہ (consonant)کے طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن عرب کی زبانوں میں بطور حرف مد /حرف علت استعمال ہوتے ہیں۔ اور پھر اسی باب کو محمود کاشغری نے 6 اور ذیلی ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

وہ الفاظ جوصرف دو حرو ف صوتیہ (consonant)سے مل کر بنے ہوں۔ مثلاً: تَپْ (کافی)، چِیتْ (کپڑے سے یا سلائی کرکے بنائی گئی دیوار) وغیرہ۔

  • وہ الفاظ جوتین حروف صوتیہ سے مل کر بنے ہوں۔ مثلاً تورْتْ (چار)، کند (شہر)، بوُلیِت (بادل) وغیرہ۔
  • وہ الفاظ جو چار حروف صوتیہ سے مل کربنے ہوں مثلاً- قِرناَق (باندی، لونڈی یا کنیز)، باَشْغوتْ (چیلہ) وغیرہ۔
  • وہ الفاظ جو پانچ حروف صوتیہ سے مل کربنے ہوں مثلاً- بورُندوُقْ (روکنے کی کوئی شئے)، قاَبیرِچاَقْ (تابوت)، سیمیِزلِک(موٹاپا) وغیرہ۔
  • وہ الفاظ جو چھ حروف صوتیہ سے مل کر بنے ہوں مثلاً-کَومُولدُورُوکْ (گھوڑے کی چھاتی)، قولْداشْلاَنْ(دوست بننا) وغیرہ۔
  • وہ ا لفاظ جوسات حروف صوتیہ سے مل کر بنے ہوں مثلاً- زَرغُنچموُدْ (تلسی کے پتّے) وغیرہ۔

کتاب المُضاعَفْ

اس باب میں کاشغری محمود نے ان الفاظ کو درج کیا ہے جن میں ایک ہی جنس کے 2 حرف پائے جاتے ہوں۔ مثلاً کَیک (پریشانی، زور)، طَالْگاگْ (برفانی طوفان)، قوَغْشَاشْ (سکون لینا، آرام کرنا)، وغیرہ

کتاب المِثَالْ

مثال کے اس باب میں کاشغاری محمود ان الفاظ کو مرتب کیا ہے، جو حرف "ی” سے شروع ہوتے ہیں۔ مثلاً یَاپْ (اون، اونی)، اِنْ (چھید، سوراخ)، یوَلْ (چھوڑنا، ڈھیل دینا) وغیرہ۔ کیوں کہ عربی زبان میں حرف ی بطور حرف مد یا مصوتہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اپنے پہلے والے حرف کو زیر ( ) دیتا ہے۔ اس لیے کاشغاری نے الگ باب مرتب کیا ہے۔

کتاب الزّوَاتِ الثَلّاَثۃ

اس باب میں وہ الفاظ موجود ہیں جن ک بیچ میں حرفِ مد (ا، و، ی)میں سے کوئی ایک حرف آتا ہے۔ مثلاً- یَار (محبت)، کُوج (ظلم)، بَیِقْ (ٹھیک) وغیرہ۔

کتاب الذَّوَاتِ الاْرْبِعۃ

وہ الفاظ درج ہیں جن کے آخر میں و، ی، ا میں سے کوئی ایک حرف موجود ہوں۔ مثلاً- سُو (فوج)، سَقا (پہاڑ کی ڈھلان)، تُیماق (بھرا ہوا / بھرا ہونا)

کتاب الغُنّۃ

ترکی زبانوں میں اردو و ہندی و سنسکرت و فارسی کی طرح نون غنہ (ں) بھی ہوتا ہے۔ چوں کہ عربی میں نون غنہ کی کوئی شکل نہیں ہوتی، اس لیے محمود کاشغری نے اس کو ( نک کی)خاص شکل دے کر الگ باب میں رکھا ہے۔ لفظ نک کو نون غنہ کی حجہ میں پڑھا جائے گا۔ اور یہ بھی بات یاد رہے کہ ترکی زبانوں میں نون غنہ لفظ کے بیچ میں بھی آتا ہے۔ جیسے: {طَانک [طاں] (عجیب چیز)}، {منک [میں] (1000){، سونکوش} [سُوںوش](لڑنا) اسی باب کے دوسرے حصے میں کاشغری نے، جن الفاظ کے تلفظ کی ادایئگی میں حرف ن اورچ (نچ) کی آواز نکلتی ہو، کو رکھا ہے۔ مثلاً- یُوکُونچْ (نماز، عبادت)، صاقِینْچْ (خدشہ) وغیرہ۔

کتاب الجَمعْ بَیْنَ السَاّکِنَینْ

جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اس باب میں ان تمام الفاظ کو رکھا گیاہے جن میں دو جزم/ساکن ( ) والے حروف ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ جوکہ مند درج ذیل ہیں۔ یْچْ، لْکْ، لْپْ، لْتْ، نْچْ، نْکْ، نْتْ، رْکْ، رْچْ، رْسْ، رْتْ، رْپْ، رْسْ، سْتْ، شْتْ۔ مثلاً- اُورْتْمن (چھت، ڈھاپنے والی کوئی چیز)، اُوتُونْچْ(اُدھار)، کُوکُورْچْکُونْ (کبوتر)، یوَلْقْ(فائدہ ہونا، منافع کمانا) وغیرہ۔

یعنی محمودکاشغری نے اپنے حساب سے اس طرح درجہ بندی کرنے کے بعد ہر حصے میں حروف (consonant) کی تعداد کی بنیاد پر ایک الگ باب قائم کیا ہے۔ان کے حساب سے ایک لفظ میں زیادہ سے زیادہ سات حروف (consonant) پائے جاتے ہیں۔حالاں کہ عموماً جن الفاظ کی تعداد زیادہ تھی وہ دو، تین، یا چار حروف (consonant) سے مل کر بنے تھے۔ 7 حروف سے مل کر بنے الفاظ کی تعداد سب سے کم تھی۔ ہر باب میں پہلے اسم (noun) پھر بعد میں فعل (verb) کو جگہ دی گئی۔ اور لغت کو منظم انداز میں قواعد کے عین اصولوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی۔

لغت کے الفاظ کی مجموعی تعداد 8 ہزار ہے جب کہ اس میں ایسے الفاظ کو بالکل جگہ نہیں دی گئی جو بہت کم بولے جاتے ہیں، غیر ملکی ہوں، یاترکی زبانوں میں بعد میں داخل ہوئے ہوں یا ایسے قبائیل کی طرف سے بولے جاتے ہوں جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔

محمود نے لغت میں 8000 الفاظ میں سے کچھ الفاظ کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ کون کون سا لفظ کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ لغت میں 185 الفاظ اوغوزسے، 45 الفاظ قیپچاق سے، 39 الفاظ چیگیل سے، 36 الفاظ آرغو سے، 23 الفاظ یاغْمَا سے، 13 الفاظ کنچَکْ سے، 7 الفاظ طوحی سے، 4 الفاظ صُوار سے، اور دو دو الفاظ حوطان، یاباقو اور قائے قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

دیوان لغات الترک میں موجود جغرافیائی نقشہ

جیسا اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ دیوان لغات الترک کو ترک انسائیکلوپیڈیا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اور یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ ارض توران پر بسنے والی ترک اقوام کی زبانوں اور بولیوں کے ساتھ ساتھ ان کی نثری و شعری ادب (prose and poetry) بھی شامل ہے۔ ترک سماج میں رائج کردہ اشعار جیسے رباعی، خماسی، سداسی، آزاد نظم، پابند نظم وغیرہ۔ لغت میں ایسے اشعار بھی موجود ہیں جنھیں ترک جنگ و جدل، نوحہ گری وغیرہ کے موا قع پر پڑھتے تھے۔ لغت میں محمود کاشغری نے محاورے اور کہاوتیں بھی درج کر ان کا عربی ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔ یہ محاورات و کہاوتیں اتنی اہم ہیں کہ دانش وران و ماہرین لسانیات و لغتیات آج بھی ان پر تحقیق کرتے ہیں۔

دیوان لغات الترک کی ایک سب سے بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں محمود کاشغری نے سماجیات و عمرانیات بھی شامل کی ہے۔ یعنی سماجی زندگی سے متعلق ہر چیز کا ذکر کیا ہے۔ ارض توران پر بسنے والی ا قوام کے مشاغل، باہمی تعلقات، شادی بیاہ کی رسومات، تفریحی مشاغل مثلاً کھیل کود، گھڑسواری، تیراندازی، نیزہ با زی، باغبانی وغیرہ، روز مرہ کے معمولات کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، ان کا رہن سہن یہاں تک ان کی غذائیت کے بارے میں بتایا۔

ترک انسایئکلوپیڈیا یعنی دیوان لغات الترک اپنے اندر جغرافیہ کا سمندر بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ محمود کاشغری نے ارض توران کی ان جگہوں کا نقشہ کھینچا ہے جہاں ترک اقوام اور ان کے قبائل آباد تھے۔انھوں نے مختلف رنگوں کے ذریعے زمین پر موجود ندیوں، پہاڑوں، جنگلات اور ریگستان، صحراء و بیابان کی نشان دہی کی ہے۔ پہاڑوں کو لال رنگ, ندیوں اور دریاؤں کو نیلا رنگ اور مٹیالی زمینوں کو پیلے رنگ میں دکھایا ہے۔

لغت ایک عظیم انسائیکلو پیڈیا کا مقام رکھتی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر آج تک ہزاروں تحقیقات کی جاچکی ہیں اور مختلف ادوار کے اسکالرز نے انسائیکلو پیڈیا سے مدد لی ہے اور اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔جن میں قابلِ ذکر مندرجہ ذیل ہیں۔

  • ابو الحیان کی کی کتاب کتاب الادراک للسان الاَتْرَاکْ
  • ابن محمد کی تاجُ السّاداتْ
  • بدرالدین العین کی کتاب عِقدالجمعاَن فی تاریخِ اہْلِ الزبَانْ اور ان کے بھائی شہاب الدین احمد کی کتاب کشْفُ الزَّماں۔

دورِ جدید میں کئی اسکالرز نے اس لغت پر تحقیق کی ہے اور ان کے ترجمے شائع کرانے کی کوشش کری ہے۔ جن میں سب سے پہلا نام عبداللہ صابری، عبداللہ عاطف توزونر، رفعت بیلگہ کا آتا ہے۔ حالاں کہ ان کے ترجمے شائع نہیں کیے گئے تھے۔ موجودہ دور میں یہ لغت وزارات جمہوریہ ترکی برائے ثقافت و سیاحت (Türkiye Cumhuriyeti Kültür ve Turizm Bakanlığı ) اور انجمن ترکی زبان (Türk Dil Kurumu) کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی اس کا انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے۔لغت کا یہ نسخہ جو موجودہ دور میں شائع ہوتا ہے یہ دراصل محمد بن ابو بکر بن ابوالفتح الساوی کا نسخہ ہے جو انھوں نے 6621ء میں نقل کیا تھا۔ دیوانُ لغات الترک کا اصل نسخہ صرف ایک ہے جو ترکی کے بورسہ شہر میں فاتحِ ملت کتب خانہ میں موجود ہے۔ یہ نسخہ محمود کاشغری کا اصل وہ نسخہ ہے جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔

دیوانُ لغات الترک ازبک، ایغور، انگریزی زبان میں بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ انگریزی میں یہ لغت “دی کمپائنڈیم آف دی ٹرکیک ڈائیلیکٹس” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

لغت کی پی ڈی ایف درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے:

لنک برائے جلد اول (1)

لنک برائے جلد دوم (2)

لنک جلد برائے سوم (3)

تبصرے بند ہیں۔