اردوکی ترقی و اشاعت کے لئے جامع منصوبہ کی ضرورت

جاوید جمال الدین

اردوزبان کی ترقی وترویج کے لیے قومی اور ریاستی سطح پررقم مختص کیے جانے کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں میں اردواکیڈمیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں، لیکن ان کا جو حال ہے اور اس کے سکریٹری اور چیئرمین کی کارکردگی پر طویل بات کی جاسکتی ہے۔ حال میں عیدالفطر کے موقع پر وزیراعظم نریندرمودی نے ملک کے مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اردواور انگریزی کے دوخوبصورت عید کارڈ ٹوئیٹ کیے، جس کی بڑے پیمانے پر ستائش کی گئی اور مسرت کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن اس درمیان نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا ایک بیان سامنے آیا، جس میں انہوںنے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ”اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے اور فرقہ پرستوں نے اس زبان کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔ اگر مرکزی حکومت نے اردو کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی تو یہ زبان ناپید ہوسکتی ہے۔“فاروق عبداللہ حال میںکشمیر یونیورسٹی کے علامہ اقبال لائبریری میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ تب ہمیں بھی احساس ہوا کہ وزیراعظم مودی کے ذہن میں یہ بات پیوست ہے کہ اردوزبان اب صرف مسلمانوں تک محدود ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوںعید کارڈاردومیں جاری کیا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فاروق عبداللہ ا ±س وقت شدید ناراض ہوگئے جب نظامت کے فرائض انجام دینے والی خاتون نے تقریب کی کارروائی چلانے کے لئے انگریزی زبان کا استعمال کیا۔ اگرچہ فاروق عبداللہ نے مذکورہ خاتون کو روکا اور ٹوکا تاہم کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ یہ خاتون اردو میں کارروائی نہیں چلا سکی۔فاروق عبداللہ کی برہمی حق بجانب ہے، لیکن ایک حقیقت ان کے علم میں نہیں ہے کہ جموں کشمیر کی سرکاری زبان اردوہے، صدافسوس کے ریاست میں اس زبان کی ترقی وترویج کے لیے کوئی اردواکیڈمی نے تشکیل دی گئی ہے، جبکہ شمالی ہند کی کئی ریاستوں کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر،کرناٹک، راجستھان،مغربی بنگال وغیرہ میں بھی سرکاری اردوساہتیہ اکیڈمی پائی جاتی ہیں، کشمیر میں اردواکیڈمی نہ ہونے کی اطلاع قومی کونسل برائے فروغ اردو(این سی پی یوایل )کے ڈائرکٹرڈاکٹر عقیل احمد نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو دی کہ کشمیر میں اردوسرکاری زبان ہونے کے باوجودیہاں اردو اکیڈمی نہیں ہے،ڈاکٹر فاروق صاحب کچھ ایسا کیجئے کہ یہاں اردو اکیڈمی قائم ہو۔یہ تو کشمیر کا حال ہے، چند ماہ قبل بہار،اترپردیش، مدھیہ پردیش، دہلی وغیرہ کا سفرکرنے کا موقعہ ملا،اس سفر کے دوران، جس کا مجھے پہلے سے بھی پتہ تھاکہ ریلوے اسٹیشنوںپر اردومیں بھی تختیاں لگائی گئی ہیں، البتہ یہ سچائی ہے کہ بہت سارے مقامات پر ان کی تحریر غلط ہوتی ہے، خود حضرت نظام الدین جیسے قومی سطح کے اسٹیشن پر نظام الدین (نظمدین) تحریر کیا گیا ہے۔میں نے دس سال قبل اپنے اخبار میں اس کی نشاندہی کی تھی، لیکن وزارت ریلوے اور نہ ہی دہلی حکومت نے توجہ دی۔ مرحومہ خاتون صحافی نورجہاں ثروت نے اس سلسلہ میں دہلی میں ایک مہم شروع کی تھی تاکہ دہلی کی سڑکوں پر اردوکی تختیوں کو درست کیا جائے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ایک طرف ہمارے ملک کے وزیراعظم مودی جی عید الفطر پراردوعید کارڈ کا استعمال مبارکباد کے لیے کرتے ہیں تو دوسری جانب ان کے وزیراعلیٰ یوگی اترپردیش میں مدارس میں ہندی جاننے والے اساتذہ کے تقررکوحق بجانب قراردیتے ہیں،یہ ایک عجیب اتفاق ہی کہا جائیگا کہ یوگی جیسے لوگ اردوزبان کو تقسیم کی ذمہ داربتاتے ہیں اور اترپردیش میں اس کی جڑیں کھوکھلی کردی گئی ہیں۔اور جولوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اردوزبان ملک کی سرکاری زبانوں کی فہرست میں شامل ہے اور جموںکشمیر کے ساتھ ساتھ دیگر چھ ریاستوں میں اسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔وہ یہ بھی بھول گئے ہیں، اردوزبان یہیں پروان چڑھی اور ملک بھر میں اس کا اثر ہے کشمیرسے کنیا کماری تک اس کو سمجھا جاتا ہے اور اسے گنگا جمنی تہذیب کی علامت کہتے ہیں۔فی الحال نصابی سطح پر حالت ابتر ضرورہے، لیکن اردوزبان نے اپنے پیر بسارنے شروع کردیئے ہیں اور برصغیر سے نکل کرخلیجی ممالک، یورپ، امریکہ اور کینڈا پہنچ چکی ہے، دورہ امریکہ میں شکاگو کے بازاروںمیں جنوبی ہند کے باشندے اپنی دکانوںاور تجارتی علاقوںکے سائن بورڈ اردواورہندی میں تحریرکرتے ہیں۔سعودی عرب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ جدہ وغیرہ میں مساجد اور شاہراہوں کے نام اردوتختیوں پر لکھے نظرآتے ہیں۔بھارت کے آئین کی دفعہ اے 22کے تحت دفتر اشاعت کی زبانوں میں اردوبھی شامل ہے اور اردوجاننے والے اردومیں بھی درخواستیں اور شکایتیں دے سکتے ہیں،جبکہ بینکوںاور ڈاکخانوںمیں بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران اردوزبان مسلمانوں سے وابستہ ہوگئی، دراصل مسلمانوں کا دینی سرمایہ عربی کے بعد اردومیں ہی پایا جاتا ہے اور اس خطہ کے علماءاور دانشوروں نے اس کی بقاءاور ترقی کے لیے اہم رول اداکیا ہے، 1857میں بھی سرسیّد احمدخاں نے اردوکو انگریزی حکومت کے ذریعہ نشانہ بنانے کی کوشش پر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اردوزبان آئندہ ایک صدی میں ملک سے ناپید ہوجائے گی، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ایسا نہیں ہوا اور پاکستان میں سرکاری زبان بنائے جانے کے بعد، ہندوستان میں ایک حد تک تعصب کا شکار بنی اردوکو شاعری کی شکل میں کسی بھی موقعہ پر یاد کیاجاتاہے، چاہے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرنا ہویا کسی اہم موضوع پر بحث ہورہی ہے،مقررین اردواشعار پیش کرتے ہوئے، اپنی تقریر میں جان ڈال دیتے ہیں۔ویسے اردوزبان کو جنوبی ایشیاءمیں اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ایک نئی زبان ہونے کے باوجوداپنے پاس ایک معیاری، اور ادب کا ایک وسیع ذخیرہ رکھتی ہے۔ممبئی کی فلمی دنیا میں اردوکا جادوسرچڑھ کر بول رہا ہے اورآج بھی نئے فن کار اردوسیکھ کر اپنے تلفظ کو درست کرتے ہیں تاکہ بہترمکالمہ اداکریں۔جموں کشمیر،تلنگانہ، آندھرا،بہار،اترپردیش، جھاڑکھنڈ اور راجدھانی دہلی میں اسے سرکاردرجہ حاصل ہے، لیکن مہاراشٹر،پنجاب، راجستھان، کرناٹک وغیرہ میں اسکا بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہے، بلکہ نصاب میں بھی شامل ہے۔تمل ناڈواور کیرالا میں کئی اضلاع اردوداں طبقہ کے ہیں۔

مہاراشٹر ایک ایسی ریاست جہاں اردوذریعہ تعلیم پایا جاتا ہے، جس کا یوپی اور دہلی میں فقدان ہے، اس کے لیے 1960میں مرحوم مصطفی فقہیہ اور معین الدین حارث جیسے مجاہدین آزادی اور اردوسے محبت کرنے والے رہنماﺅں نے کافی جدوجہد کی اور وائی بی چوان نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا تھا۔ریاست کے تقریباً ساڑھے چار ہزاراسکولوں میں اردوذریعہ تعلیم سے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،ممبئی اور چند بڑے شہروںمیں گلف کمانے گئے بچوںکے ابا اورامی کی ایماءپر انہیں انگریزی میں تعلیم حاصل کرنا پڑرہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہر میں میونسپل کارپوریشن ممبئی عظمیٰ کے زیراہتمام اسکولوںمیں اردومیڈیم کے طلباءکی تعداد مراٹھی اور انگریزی میڈیم کے بچوںسے زیادہ ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان بچوںکو بی ایم سی اور حکومت سے ہرطرح کی سہولیات حاصل ہیںاور کئی موقعوں پر ان بچوںنے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے، بلکہ ایس ایس سی بورڈ کے امتحانات میں اردومیڈیم کے طلباءہی میرٹ لسٹ میں نظرآتے ہیں۔اخبارات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اگر قارئین کا جائزہ لیا جائے توریڈرشپ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب انٹرنیٹ اور موبائیل ہیں، جن کی مددسے نئے قاری پیدا ہوئے اور انٹرنیٹ اور آن لائن نے اردوزبان کی بھی دنیا بدل دی ہے، اردوکی بورڈ کے ذریعہ ہمارے بزرگ بھی اس کا استعمال کرتے ہیں، میں نے کئی مرتبہ موبائیل فون پر اپنا مضمون تحریرکرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔البتہ ہمیں حکومت سے پُرزورمطالبہ کیا جانا چاہئے کہ اردوکو روزگار سے جوڑنے کے لیے ایک جامع اور ٹھوس منصوبہ تیار کرے اور اس میں ہمیں بھی حصہ لینا ہوگا،ناامید ہونے کے بجائے کہیں نہ کہیں پہل کرنی ہوگی۔ تب ماحول بدلا جاسکتا ہے۔زبانی جمع خرچ نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں۔