بیگ احساس کے افسانے: تہذیبی تصادم کی داستان 

ڈاکٹر احمد علی جوہر

پروفیسر بیگ احساس اردو کے ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں اپنا پہلا افسانہ لکھا تھا۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے ’’خوشئہ گندم‘‘ (۱۹۷۹ء)، ’’حنظل‘‘ (۱۹۹۳ء)، ’’دخمہ‘‘ (۲۰۱۵ء) شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس جدیدیت کے بعد اُبھرنے والے افسانہ نگاروں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نسل کے بہت سے افسانہ نگاروں نے جدیدیت کے رجحان سے مرعوب  ہوکر پیچیدہ قسم کا مبہم علامتی اور تمثیلی انداز بیان اختیار کیا۔ پروفیسر بیگ احساس نے بھی جدید تجربے کیے مگر انہوں نے کہانی کے تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ ان کے افسانوں میں علامتی اور تمثیلی انداز بیان جس میں کہانی پن بھی ہے، ضرور پایا جاتا ہے لیکن اس کی بہ نسبت ان کی کہانیوں میں بیانیہ انداز زیادہ ملتا ہے۔ انہوں نے یک رخے اور سپاٹ بیانیہ کے بجائے تہہ دار بیانیہ کو اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں بیک وقت معانی و مفاہیم کی کئی سطحیں پائی جاتی ہیں۔

پروفیسر بیگ احساس نے اپنے بزرگ افسانہ نگاروں اور اردو کے چوٹی کے کہانی کاروں پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کا کثرت سے مطالعہ کیا ہے مگر انہوں نے کسی کی تقلید نہیں کی ہے۔ ان کے افسانوں میں ان کا اپنا دلچسپ انداز بیان اور اچھوتا اسلوب ہے جو انھیں اپنے معاصر افسانہ نگاروں میں منفرد شناخت عطا کرتا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس اپنی بات نہایت  نپے تلے انداز میں کہتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں کسی بھی موضوع کے سارے گوشوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور خیال کی گرہوں کو رفتہ رفتہ کھولتے ہیں۔ وہ لفظوں اور جملوں کا انبار نہیں لگاتے بلکہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی و مطالب کو ادا کرنے کے ہُنر سے واقف ہیں۔ ان کے افسانوں کی زبان میں بے پناہ سادگی، برجستگی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ تخلیقی سطح پر انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ اور ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

پروفیسر بیگ احساس ایک سلجھے ہوئے پختہ کار افسانہ نگار ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات میں بلا کا تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی افسانے میں دُہراتے نہیں، بلکہ ان کا ہر افسانہ، دوسرے افسانہ سے مختلف ہوتا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس نے اپنے ارد گرد کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ حالات کاجبر، فسادات کا تشدّد، مسلم اقلیتوں پر فرقہ پرست اکثریتی جماعتوں کے بے جا مظالم، ان کی بربریت و درندگی، مذہبی کٹر پنتھی، نفرت و تشدّد کی لہر، مسلم اقلیتوں میں عدم تحفظ، ڈر اور خوف کا احساس، عالمی سطح پر مسلمانوں کو درپیش مسائل، پرانی اور نئی نسل کا ٹکراؤ، سماجی و تہذیبی قدروں کا زوال، نئی صارفی تہذیب اور اس کی تباہیاں، حرص و ہوس، مادیت کا غلبہ، انسانی ناقدری، رشتوں کی بے حُرمتی اور غیر انسانی رویے وغیرہ، ایسے موضوعات ہیں جن سے پروفیسر بیگ احساس نے اپنے افسانوں کے تانے بانے بُنے ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس کے سابقہ دو افسانوی مجموعوں ’’خوشئہ گندم‘‘ اور ’’حنظل‘‘ کی طرح ان کے تازہ افسانوی مجموعہ ’’دخمہ‘‘ کو پڑھ کر بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا سماجی، سیاسی اور عصری شعور بہت گہرا، پختہ اور نکھرا ہوا ہے۔

’’دخمہ‘‘ میں کل گیارہ افسانے ہیں۔ پہلا افسانہ ’’سنگ گراں‘‘ ہے۔ اس میں ایک ایسی لڑکی کی زندگی دکھائی گئی ہے جو اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے اور حاملہ ہوجاتی ہے۔ حاملہ ہونے کے بعد اس کے اندر بے پناہ ممتا کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے۔ وہ ماں بننا چاہتی ہے لیکن اس کا شوہر حالات کا رونا روتے ہوئے اسے ابارشن کرنے کے لیے کہتا ہے کیوں کہ اس کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہے اور معاشی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ ایسے میں لڑکی شدید کشمکش میں مبتلا ہوتی ہے۔ ناسازگار حالات کے تحت چاروناچار اسے ابارشن کروانا پڑتا ہے مگر ایسا کرنے میں اس کی ممتا کا فطری جذبہ ٹیس مارنے لگتا ہے اور اس کا پورا وجود زخمی ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ عورت کی تکمیل ’’ماں‘‘ بن کر ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس جذبہ کی تکمیل نہیں ہوتی، یا حالات کی مجبوریوں کے تحت اس جذبہ کا گلا گھونٹا جاتا ہے تو عورت کا وجود کراہنے لگتا ہے۔ عورت کے اسی المیہ کی تصویرکشی اس افسانہ میں کی گئی ہے۔ اس افسانہ کے توسط سے آج ہم ان ہزاروں، لاکھوں عورتوں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں جو حالات کے جبر کے تحت اپنی ممتا کے جذبہ کو کچلنے پر مجبور ہیں۔ آج کے عہد کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ دنیا ظاہری طور پر جتنی ترقی کرتی جارہی ہے اور زندگی کی ظاہری چمک دمک جتنی بڑھ رہی ہے، انسان اتنا ہی مجبور و بے بس ہوتا جارہا ہے۔ حالات کے جبر، انسان کی بے بسی، ممتا کے جذبہ کے ساتھ کھیلواڑ اور عورت کے وجود کے مجروح ہونے کے المیہ کو اس افسانہ میں اس فنکاری سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ افسانہ اپنے عہد اور سماج کی تصویر بن جاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں عبدالصمد کی افسانہ نگاری-ڈاکٹر انوارالحق )

دوسرا افسانہ ’’کھائی‘‘ ہے۔ اس میں تین نسلوں کے المیہ کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ باپ شوکت علی کا المیہ یہ ہے کہ جاگیرداری ختم ہوجانے کے بعد بھی وہ اسی شان سے جیتا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت اور رعونت پسندی اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ کسی طرح حالات سے سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ عمدہ اور لذیذ کھانا کھاتا ہے، چاہے قرض ہی کیوں نا لینا پڑے، جبکہ گھر کے بقیہ افراد متوسط درجے کا کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کفایت علی کو اہلکارانہ ذہنیت کا مالک سمجھتا ہے جو کلرک کی معمولی نوکری کرکے اور کفایت شعاری سے کام لے کر پورے گھر کو چلاتا ہے اور اپنے باپ کی خواہشات کو بھی پوری کرتا ہے۔ شوکت علی، کفایت علی کی پذیرائی کرنے کے بجائے اسے حقیر نظروں سے دیکھتا ہے۔ کفایت علی کے لیے اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کا بیٹا شہزادہ بھی اس کی قدر نہیں کرتا ہے، حالاں کہ وہ اپنے بیٹے شہزادہ کی تعلیم اور ضروریات و خواہشات پر اپنی تنخواہ کا بڑا حصّہ صرف کرتا ہے۔ شہزادہ کو پڑھائی میں دل نہیں لگتا، اس لیے وہ اپنے دوست یار کی مدد سے پیسہ کمانے بیرون ملک چلا جاتا ہے اور چند ہی سالوں میں وہ خوب روپیہ بٹور لیتاہے۔ وہ پیسہ کیسے کماتا ہے، افسانہ میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ وہ عالیشان گھرانے میں شادی کرتا ہے اور دادا کی طرح بڑی شان و شوکت سے جیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دادا اور پوتے دونوں میں بڑی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دادا شوکت علی کا جب انتقال ہوتا ہے تو بیرون ملک سے شہزادہ کے واپس آنے تک اس کی لاش برف میں رکھی جاتی ہے۔ شہزادہ آکر اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتا ہے اور شہر کے مشہور قبرستان میں دادا کو دفن کراتا ہے۔ کفایت علی اپنے محلے کے قبرستان میں جو قبر کھدواتا ہے، وہ یوں ہی رہ جاتی ہے۔ مزدور پیسے مانگنے آتے ہیں اور پورے پیسے کا مطالبہ کرتے ہیں جب کہ کفایت علی صرف مزدوری دینا چاہتا ہے۔ بات بڑھ جاتی اور شور ہوجاتا ہے تو شہزادہ گھر کے اندر سے اُٹھ کر آتا ہے اور مزدوروں کو سارے پیسہ دے دیتا ہے۔ اس پر کفایت علی اپنے بیٹے شہزادے سے پوچھتا ہے کہ ’’سارے پیسے کیوں دے رہے ہو، آخر وہ قبر ہمارے کس کام آئے گی تو شہزادہ غصّہ کے مارے کہنے لگتا ہے کہ ’’ آپ کے کام آئے گی‘‘۔ اپنے بیٹے کے اس حقارت آمیز سلوک کی تاب نہ لاکر کفایت علی وہیں ڈھیر ہوجاتا ہے۔ یہ ہے آج کی نئی صارفی اور مادّی تہذیب جہاں دولت کی چمک دمک، جھوٹی شان و شوکت، دکھاوا اور ریاکاری نے رشتوں کی اہمیت کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ اس افسانہ میں تین نسلوں کے ٹکراو کو دکھایا گیا ہے۔ زوال پذیر جاگیردارانہ معاشرہ کی جھوٹی انانیت و رعونت پسندی، کفایت علی جیسے لوگوں کی سمجھ بوجھ، صبروقناعت پسندی اور ان کے یہاں رشتوں کا پاس و لحاظ، اس کے برعکس نئی نسل میں مادیت سے بے پناہ لگائو، رشتوں کی بے حُرمتی اور تہذیبی و سماجی قدروں کے زوال، ان تمام پہلوئوں کی ایسی زبردست مصوری کی گئی ہے کہ اس افسانہ میں ہم اپنے ماضی، حال اور مستقبل کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔

پروفیسر بیگ احساس کا افسانہ ’’چکرویو‘‘ فساد پر لکھا گیا بہت ہی دردناک افسانہ ہے۔ فسادات پر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں لیکن مکالماتی انداز میں بیگ احساس کا تحریرکردہ یہ افسانہ جداگانہ نوعیت کا حامل ہے۔ پوری کہانی سنجے اور دھرت راشٹر کی زبانی بیان ہوئی ہے۔ یہ دونوں فسادات کے چشم دید گواہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان دونوں کی زبان سے بیان واقعہ نے کہانی میں حقیقت نگاری کے رنگ کو گہرا کردیا ہے۔ اس افسانہ میں گجرات فسادات کے کے منظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ ہم فلم دیکھ رہے ہیں اور فساد ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ افسانہ نگار نے حیوانیت و بربریت کے دل دہلا دینے والے مناظر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے ہماری نگاہوں میں زندہ کردیا ہے۔ اسی لیے افسانہ کو پڑھتے ہوئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک منظر ملاحظہ ہو:

’’بے رحمی، سفاکی، آنکھوں میں خون، خوف زدہ چیخیں، بے بس خاموشی، بے عزتی ۔۔۔۔ عورتوں کے لباس ریزہ ریزہ ہوئے۔ عصمتیں تار تار ہوئیں، شفاف جسم داغ دار ہوئے، وہ جسم جن کی جھلک بھی کسی نے نہ دیکھی تھی، انھیں سڑکوں پر بھنبھوڑا جارہا ہے۔ آہ وبکا، چیخیں، آنسو، جسم ہوس کا ساتھ نہیں دے پارہے ہیں، جھلاہٹ، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے پھر آگ‘‘۔ (ص:۶۲)

اس افسانہ میں اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ اکثریتی طبقہ کے لوگ، مسلم اقلیت کو نیست و نابود کردینا چاہتے ہیں، اسی غرض سے وہ بڑے پیمانے پر فسادات کرواتے ہیں مگر تمام تر تباہیوں کے باوجود زندگی خود سے اپنے جینے کا سامان کر لیتی ہے۔ یہ رجائی نقطئہ نظر افسانہ کو فکری اعتبار سے مزید بلندی عطا کرتا ہے۔ فساد پر ’’چکرویو‘‘ بے پناہ تاثر کا حامل افسانہ ہے۔

’’درد کے خیمے‘‘ میں ہجرت کے کرب کو بیان کیا گیا ہے۔ تقسیم ہند کا واقعہ ہندوپاک کے لیے ایک غیرمعمولی واقعہ ہے جس نے ہزاروں، لاکھوں خاندانوں کو اپنی جڑ، زمین سے دوسری زمین کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کیا۔ اس انتقال مکانی نے انسان کی روح کو چھلنی کردیا کیوں کہ انسان اپنوں، اپنی یادوں اور اپنی تہذیب سے محروم ہوگیا اوراسے اجنبی ماحول اور اجنبی فضا کے حوالے کردیا گیا۔ افسانہ میں ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو خود ہندوستان میں ہے اورجس کی بہن اور بہنوئی پاکستان چلے گئے ہیں۔ ایک مدت کے بعد وہ اپنے بہنوئی اور بھانجے، بھانجیوں سے ملنے حیدرآباد سے پاکستان جاتا ہے۔ کچھ دن رہ کر وہ حیدرآباد واپس آجاتا ہے۔ حیدرآباد پہنچ کر جب وہ اپنے بہنوئی کو اپنے پہنچنے کی اطلاع دیتا ہے تو بہنوئی کہتا ہے۔ میں ایئرپورٹ سے واپسی پر تمہاری بہن کی قبر پر گیا تھا لیکن وہ قبر وہاں دکھائی نہیں دی۔ یہیں پر افسانہ کا اختتام ہوتا ہے۔ اس اختتام کے ساتھ ہی ہجرت کے کرب کا تاثر گہراتا چلا جاتا ہے۔ ہجرت صرف جسمانی ہی نہیں ہوتی، بلکہ تہذیب و ثقافت کی بھی ہجرت ہوتی ہے۔ اس المیہ کا بیان بھی افسانہ میں ہوا ہے۔ ایک زمانہ میں حیدرآباد میں شاندارنظام حکومت تھی۔ اس شہر میں مسلمانوں کا جاہ و جلال اور ان کی مضبوط پوزیشن تھی۔ اس کے علاوہ وہاں گنگاجمنی تہذیب، انسانیت و محبت، اخوت و بھائی چارگی، امن و آشتی اور انصاف و رواداری کی فضا تھی مگر تقسیم اور پولیس ایکشن کے بعد یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں۔ مسلمان نوابوں کی زمینوں اور حویلیوں کو لوٹ لیا گیااور اب شہر سے پرانی مشترکہ تہذیب رخصت ہوگئی اور اس کی جگہ نئی مادّی تہذیب نے لے لی جس میں خودغرضی، مفادپرستی، مذہبی کٹرپنتھی، تنگ نظری اور نفرت و تشدّدکے عناصر بھرے پڑے ہیں۔ اس پرانی گنگاجمنی تہذیب جو وسعت نظری، مذہبی رواداری، اخوت و بھائی چارگی اور انسانیت و محبت سے عبارت تھی، کی ہجرت نے بھی پرانی نسل کے لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا جو اسی تہذیب میں پلے بڑھے تھے۔ اس تہذیبی و ثقافتی ہجرت کے المیہ کا بھی بیان افسانہ میں سلیقہ سے ہوا ہے۔ یہ افسانہ ہجرت کے دردوکرب کی ایک زندہ جاوید تصویر ہے۔

افسانہ ’’سانسوں کے درمیان‘‘ آج کے مادّی دور میں حرص ہوس، خودغرضی و مفاد پرستی اور رشتوں ناطوں کی زوال پذیر حیثیت کو بڑی خوبصورتی سے اُجاگر کرتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار ایک معمولی نوکری کرکے تنگدستی سے اپنا گزربسر کرتا ہے۔ اچانک اس کا باپ بیمار پڑجاتا ہے۔ اس کا ایک بھائی بیرون ملک میں خوب پیسہ کماتا ہے۔ وہ اپنے باپ کے علاج کے لیے موٹی رقم بھیج کر دیتا ہے اور باپ کو فائیواسٹار جیسے اسپتال میں لے جایا جاتا ہے۔ باپ کے بہانے وہ پہلی بار ایک نئی زندگی سے آشنا ہوتا ہے اور اس کے اندر عجیب و غریب خواہشات انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ وہاں کے رنگین ماحول اور پرتصنع زندگی کو دیکھ کر اس کا جنسی شعور بھی خاصا فعال ہوجاتا ہے۔ ایک دن وہ اسپتال کے باتھ روم میں نہاتے ہوئے اپنی بیوی کو آواز دیتا ہے اور دونوں مل کر ننگے نہاتے اور جنسی حظ بھی اُٹھاتے ہیں۔ اسپتال میں دونوں میاں بیوی اونچے طبقے کے طرززندگی کو دیکھ کر اس کی نقل کرتے، رنگ رلیاں مناتے، اپنی اور اپنے بچوں کی غیرضروری خواہشات اور مہمانوں کی پرتکلف دعوتوں پر خوب پیسے خرچ کرتے ہیں۔ اسپتال میں دونوں میاں بیوی کا وجود اہمیت اختیارکرلیتا ہے اور بیمار باپ کا وجود پس پُشت چلا جاتا ہے۔ پیسے ختم ہونے کے بعد مہمان بھی بیمار کی تیمارداری کو نہیں آتے اور باپ کا صحیح سے علاج بھی نہیں ہوپاتاکہ انھیں اسپتال سے واپس لے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ واپس آنے سے پہلے پہلے دونوں میاں بیوی اسپتال کے باتھ روم میں ایک بار پھر جنسی اختلاط کے عمل کو انجام دیتے ہیں۔ اسی درمیان باپ کی سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے اور نرس اور ڈاکٹر کے آتے ہی ان کی روح پرواز کرجاتی ہے۔ اس افسانہ میں آج کے صارفی سماج، مادّی تہذیب، ظاہری چمک دمک، حرص و ہوس کے غلبہ، خودغرضی و مفادپرستی، سماجی و تہذیبی قدروں کے زوال اور انسانی رشتوں کے کھوکھلے پن، ان تمام پہلوئو ں کی ایسی مرقع کشی کی گئی ہے کہ اس افسانہ کے آئینہ میں آج کے بیمار معاشرہ اور اس کے رستے ہوئے ناسوروں کو واضح طریقے سے دیکھا جاسکتا ہے۔

’’نجات‘‘ ایک نفسیاتی قسم کا افسانہ ہے۔ افسانہ کے مرکزی کردار فرحان اور اس کی بیوی ہیں۔ فرحان پیسے کمانے بیروں ملک جاتا اور ایک ہی مہینہ میں واپس آجاتا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ انڈرورلڈ والے اس کے پیچھے پڑگئے تھے اور اسے اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب محلہ میں وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگتا ہے۔ اب وہ اپنی بیوی عاشی کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ ایک دن وہ اچانک بے ہوش ہوجاتا ہے اور اسے اسپتال لے جایا جاتا ہے۔ دوران علاج وہ جنونی حرکتیں کرنے لگتا ہے اور اپنی بیوی عاشی پر دھندا کرنے کا الزام لگاتا ہے لیکن عاشی تمام تر رُسوائیوں کو برداشت کرکے اپنے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔ وہ ایک مشرقی عورت کا کردار ہے جس میں پتی ورتا کا جذبہ پوری طرح موجود ہے۔ دوا علاج کے بعد جب دھیرے دھیرے فرحان ٹھیک ہوجاتا ہے تو اب اسے اپنی بیوی سے بے انتہا شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ اس شرمندگی کے مارے وہ اپنی بیوی عاشی سے قریب نہیں ہوپاتا ہے۔ اس لیے عاشی اس سے جدا ہوکر اسے نجات دینے کا فیصلہ کرلیتی ہے۔ یہاں عاشی کا کردار بہت سلجھا ہوا اور سنجیدہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس فرحان ایک ابنارمل انسان کا کردار ہے جس کی نفسیاتی گتھیاں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

افسانہ ’’دھار‘‘ آج کے عہد کے گوناگوں مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ آج مسلمانوں کو ملکی و عالمی پیمانے پر کئی طرح کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ عصر حاضر میں پوری دنیا میں بے قصور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان کے لباس اور ان کی شکل و شباہت کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا اور سماجی، سیاسی، معاشی غرض ہر سطح پر ان سے بھید بھاؤ کیا جاتا ہے۔ اپنے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کو پاکستانی اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ذلیل و رُسوا کیا جاتا ہے۔ ان ہی المناک مسائل سے اس افسانہ کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار ایک انتہائی  آزاد خیال، لبرل سوچ کا مالک اور سیکولر اور جمہوری قدروں کا حامی انسان ہے۔ اسے کٹرمذہبیت سے سخت چڑ ہے۔ پہلے وہ ہندوؤں کے پاش محلہ میں رہتا ہے لیکن جب اس کے خاندان کے بچوں کو ہندو بچے پاکستانی کہتے ہیں تو وہ تنگ آکر گھنی مسلم آبادی والے محلہ میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہاں آکر بھی وہ آزاد خیال ہی رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی بیوی مذہب کی سخت پابند ہوجاتی ہے اور اس کا بیٹا ڈاڑھی رکھنے لگتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتا۔ روزانہ کلین شیو کرنا، اخبار پڑھنااور دوستوں سے ملنا جلنا اس کا معمول ہے۔ ہندوؤں کے محلہ میں جاکر مے خواری کرنا اور انٹلکچول بحث و مباحثہ میں حصّہ لیتا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کے بیٹے کو جب اپنے ملک میں حسب لیاقت ملازمت نہیں ملتی ہے تو وہ لندن چلا جاتا ہے لیکن ایئرپورٹ پر اس کی ڈاڑھی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی شکل و شباہت کو عالمی دہشت گردوں سے مماثل قرار دے کر اسے واپس کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اس آزاد خیال انسان کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔ جس سخت مذہبیت اور مذہبی تعصب سے وہ نفرت کرتا ہے، اس کا خون اسی کا نشانہ بنتا ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی جگہ پر شیونگ سیٹ نہیں پاتا ہے تو اتنی سی بات پر وہ بے حد خفا اور پریشان ہوجاتا ہے۔ دراصل لندن سے واپس آیا اس کا بیٹا اس کے شیونگ سیٹ کو لے کر اپنی ڈاڑھی چھوٹی کرتا ہے اور اتفاق سے وہ اسے اس کی جگہ پر رکھنا بھول جاتا ہے اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اب وہ کلین شیو کرکے ایک دوسرا پاسپورٹ بنانا اورکسی دوسرے بیرون ملک میں جانا چاہتا ہے۔ شام میں جب وہ شیونگ سیٹ اپنے باپ کو لوٹاتا ہے تو باپ اسے لینے کے بجائے اسے ہی اپنے پاس رکھ لینے کو کہتا ہے اور اب اسے اپنی ڈاڑھی بھی اچھی لگنے لگتی ہے۔ یہاں پہ افسانہ کا اختتام ہوتا ہے۔ آج ملک اور بیرون ملک جو سخت مذہبی تعصّب و تنگ نظری کی فضا پائی جاتی ہے، اسے افسانہ میں بڑی خوبصورتی سے اُجاگر کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں مغربی ممالک میں ڈاڑھی کی وجہ سے مسلمانوں کو نشانہ بناکر کس طرح ہراس کیا جاتا ہے، اس المیہ کا گہرا تاثر یہ افسانہ دیتا ہے۔

’’شکستہ پر‘‘ میں آج کے عہد میں رشتوں کی اُلجھنوں اور اس کی شکست و ریخت کے منظر کو دکھایا گیا ہے۔ سشما کی ماں کم عمری ہی میں اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کرادیتی ہے اور جلد ہی اس کی طلاق بھی ہوجاتی ہے۔ سشما کو سمن نام کی ایک بیٹی بھی ہے۔ وہ اپنی ماں کے گھر میں گھٹن بھری زندگی گزارتی ہے۔ دس برس بعد جب سمیر سے اس کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ چپکے سے اس سے شادی کرلیتی ہے اور پرلطف زندگی گزارتی ہے۔ سشما کی ماں اس کی بیٹی سمن کو بھی اس کے یہاں رکھ آتی ہے جسے سمیر بیٹی کی طرح پالتا ہے۔ سمن نئے ماحول کی پروردہ اور نئی تہذیب کی دلدادہ ہے۔ وہ ماں کی بات مانتی، نہ اس کی عزت کرتی ہے۔ وہ باپ کا احترام بھی نہیں کرتی ہے۔ اس کے برعکس وہ اپنے باپ کے ساتھ دوست کی طرح پیش آتی ہے اور ماں سے اپنا موازنہ و مقابلہ کرتی ہے۔ اس کے رویہ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ سمیر کے لیے سشما کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ اس لیے سشما کو اب اپنی ہی بیٹی کے وجود سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ ایک دن والدین کی ڈانٹ ڈپٹ پر جب سمن بھاگ کر کہیں چلی جاتی ہے تو سشما ڈھونڈنے نہیں جاتی بلکہ اس کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس افسانہ میں رشتوں کا جنازہ نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ رومانی انداز میں لکھا گیا یہ افسانہ عہد حاضر میں رشتوں کی شکست و ریخت کو بڑے سلیقہ سے اُجاگر کرتا ہے۔

’’دخمہ‘‘ پروفیسر بیگ احساس کا بے حد مشہور و معروف افسانہ ہے۔ اس افسانہ کو اسی طرح شہرت ملی جس طرح غلام عباس کی ’’آنندی‘‘، پریم چند کے ’’کفن‘‘، بیدی کی ’’لاجونتی‘‘ اور حسن عسکری کی ’’حرامزادی‘‘ اور ’’چائے کی پیالی‘‘ وغیرہ کو۔ افسانہ نگار نے اسی افسانہ کے عنوان پراپنے اس مجموعہ کا نام رکھا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ افسانہ، افسانہ نگار کو بھی بے حد پسند ہے۔ ’’دخمہ‘‘ اس اعتبار سے موثر افسانہ ہے کہ یہ قاری کو کئی زاویوں سے سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے زوال، مذہبی کٹرپنتھی اور سماجی تبدیلی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’دخمہ‘ پارسیوں کے قبرستان کو کہا جاتا ہے جہاں پارسیوں کے عقیدے کے مطابق ان کے مُردوں کی لاشیں رکھی جاتی ہیں اور گدھ آکر انھیں کھاجاتے ہیں۔ ’دخمہ‘ بظاہر پارسیوں کا قبرستان ہے مگر یہ اس گنگاجمنی تہذیب کا حصّہ ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ ’دخمہ‘ کا اُجڑنا اور اس کی ویرانی ہندوستان کی ہزاروں سالہ مشترکہ تہذیب، رواداری اور انسانیت و محبت کے زوال کی علامت ہے۔ یہ افسانہ تاریخ کی اس سچائی کو سامنے لاتا ہے کہ ریاست حیدرآباد میں نظام حکومت میں اتنی رواداری اور وسیع المشربی تھی کہ اس کی کشش نے ہر مذہب وملت کے لوگوں اور پارسیوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں آبادہونے پر آمادہ کیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب وہاں پارسی خاصی تعداد میں تھے تو وقفے وقفے سے ان میں کسی کی موت بھی ہوتی تھی اور دخمہ میں لاش بھی پہنچائی جاتی تھی جسے گدھ کھانے کے عادی ہوگئے تھے۔ لیکن جب نظام حکومت کا خاتمہ ہوا اور رواداری اور وسیع المشربی کی جگہ مذہبی کٹرپنتھی نے لے لی تو اس نامناسب فضا میں رفتہ رفتہ پارسیوں کی تعداد گھٹ گئی۔ جب طویل وقفے سے کسی پارسی کی لاش دخمہ میں جانے لگی تو گدھوں نے اپنی روزی کی تلاش میں کسی اور جگہ کا رُخ کیا اور دخمہ کی طرف آنا چھوڑدیا۔ اس طرح دخمہ کی ویرانی، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور رواداری کے تباہ و برباد ہونے کی داستان بیان کرتی ہے۔

افسانہ کا مرکزی کردار سہراب پارسی ہے۔ وہ مشترکہ تہذیب و ثقافت کا پروردہ اور سیکولر قدروں کا نمائندہ کردار ہے۔ وہ ایک طویل عرصے سے مسجد کے پاس اپنا مشہور مئے کدہ چلاتا ہے مگر جمہوری حکومت میں مسلمانوں کی تنگ نظر سوچ اس کے مئے کدہ کو بند کروادیتی ہے۔ جب سہراب کا انتقال ہوتا ہے تو راوی سوچتا ہے کہ کہیں مئے کدہ بند ہونے کے غم کی وجہ سے تو اس کی موت نہیں ہوئی۔ بہرحال سہراب کی لاش دخمہ لائی جاتی ہے جہاں بیس برس سے گدھ نہیں آتے تھے مگر اس دن گدھ آتے ہیں۔ اس رجائی نقطئہ نظر پہ افسانہ کا اختتام ہوتا ہے۔

پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ افسانہ کئی پہلوؤں سے ہمیں متاثر کرتا ہے۔ آزادی کے بعد ریاست حیدرآباد میں شاہی سلطنت کا صرف خاتمہ نہیں ہوا تھا بلکہ پوری مسلم قوم کونشانہ بنایاگیا، ان کی زمینوں، حویلیوں اور جائداد کو لوٹا گیا، ان کی تاریخ اور ان کی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، گنگاجمنی تہذیب کو ختم کرکے ایک مخصوص تہذیب کو تھوپنے کی سعی کی گئی اور نئے نئے شہر بسائے جانے لگے جو پوری طرح سے اجنبی لگ رہے تھے۔ یہ پوری داستان افسانہ نگار کی زبانی ملاحظہ ہو:

’’پولیس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کردیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حدبندیاں کی گئیں۔ ریاست کے تین ٹکڑے کردیے گئے۔ برسوں گذرجانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصّے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیاتو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حدبندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر۔!! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب۔ ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہوگئے۔ ایک طرف بڑی بڑی حویلیاں حصے بخرے کرکے فروخت کردی گئیں۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا۔ شرماشرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کردی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑپتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔

کسی کوٹھی میں صدرٹپہ خانہ آگیا، کسی حویلی میں انجنیئرنگ کا آفس، کسی حویلی میں اے۔جی آفس تو کسی حویلی میں بڑا ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہوگیا۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دواخانہ آگیا۔ جیل کی عمارت منہدم کرکے دواخانہ بنادیا گیا۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیوں، باغات، جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیسا شہر ابھررہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔‘‘ (۲۷۔۱۲۶)

اس افسانہ میں شاہی حکومت کی رواداری کو دکھا کر موجودہ جمہوری حکومت پر گہرا طنز کیا گیا ہے کہ جہاں مسجد اور مئے کدہ بھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ دراصل کہنے کو تو ہندوستانی معاشرہ، جمہوری معاشرہ ہے مگر اس معاشرہ کی فضا میں ہر طرف نفرت و تشدّد کی لہریں ہیں اور ہندوستان کی مخصوص گنگاجمنی تہذیب کو مٹانے کی سازش اور کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مشترکہ تہذیب اب زوال کی طرف گامزن ہے۔ اس زوال کے نوحہ کو اس افسانہ میں بھرپور طریقے سے سُنا جاسکتا ہے۔ تاریخی حسّیت سے پُر یہ افسانہ، ہمارے معاشرے کے ماضی کی جھلک دکھاکر موجودہ منظرنامے کو بھرپور طریقے سے اُجاگر کرتا ہے اور قاری کو بصیرت و آگہی بخشتا ہے۔

افسانہ ’’نمی دانم کہ‘‘ میں خانقاہ کے شب و روز کے ماحول اور وہاں رونما ہونے والے واقعات کو پیش کیاگیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں جو اندھی عقیدت اور اوہام پرستی ہے، اسے یہ افسانہ بڑی خونصورتی سے اُجاگر کرتا ہے۔

مجموعہ کا آخری افسانہ ’’رنگ کا سایہ‘‘ ہے جو فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ یہ افسانہ ریاستِ حیدرآباد میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد پیداہونے والی المناک صورت حال اور وہاں کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی دردانگیز تصویر پیش کرتا ہے۔ آزادی کے بعد پولیس ایکشن کے نام پر حیدرآباد کے مسلمانوں پر بے انتہاظلم و ستم ڈھایا گیا۔ ان کی زمین جائداد، مکانوں اور حویلیوں کو لوٹ لیا گیا۔ پولیس نے مسلم نوجوانوں کو اس قدر خوف وہراس میں مبتلا کیا کہ وہ دربدری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے۔ اس کی وجہ سے بہت سے مسلم نوجوانوں کو تعلیم گنوانی پڑی اور وہ سرکاری مراعات بلکہ اپنے گھر تک سے بھی محروم کردیئے گئے۔ معمولی معمولی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کو سرکاری کالونی سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں حتی الامکان جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ ان تمام حقائق کو افسانہ نگار نے اس فنکاری سے بیان کیا ہے کہ پورا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس افسانہ میں آج کی فرقہ واریت کے رنگ اور تشدد پسند معاشرہ کے عکس کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

پروفیسر بیگ احساس کے یہ تمام افسانے بے حد معنویت کے حامل ہیں جن میں افسانہ نگار نے اپنے آس پاس کی زندگی اور عصر حاضر کے مسائل کو بڑے سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ ان افسانوں میں ہندوستانی معاشرت کی بھرپور عکّاسی کی گئی ہے۔ ان افسانوں میں حیدرآباد، دکن کے ماضی کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے اور حال کی بھی تصویرکشی کی گئی ہے۔ یہ افسانے ایسے تاریخی، تہذیبی اور سماجی دستاویز ہیں جن کی اہمیت ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہے گی۔

پروفیسر بیگ احساس کے یہ افسانے فنی اعتبار سے بھی دلکش ہیں۔ ان افسانوں کی اہم خوبی یہ ہے کہ ان میں کہیں پلاٹ مجروح نہیں ہوتا۔ حالاں کہ افسانہ نگار نے شعور کی رو، داخلی کلامی، خودکلامی، فلیش بیک اور آزاد تلازمہ خیال وغیرہ قدیم و جدید، تمام تکنیکوں سے کام لیا ہے مگر تکنیک کو برتنے میں افسانہ نگار نے ایسی فنی چابکدستی کا مظاہرہ کیا ہے کہ افسانہ میں نہ تو جھول پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی پلاٹ شکست و ریخت سے دوچار ہوتا ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کے پلاٹ چست و مربوط ہیں۔ کردارنگاری میں بھی پروفیسر بیگ احساس نے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے کچھ افسانوں کے کردار جیسے ’’کھائی‘‘ کے شوکت علی، کفایت علی اور شہزادہ، اور ’’دخمہ‘‘ کے سہراب پارسی وغیرہ اپنی خصوصیات کے ساتھ قاری کے ذہن ودل پر نقش ہوجاتے ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس نے گھیسو، مادھو، لاجونتی، کالوبھنگی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح کوئی بڑا کردار تو خلق نہیں کیا ہے مگر ان کے کردار بالکل گمنام بھی نہیں رہتے، بلکہ اپنی خوبیوں، خامیوں اور اپنی منفرد صفات کے ساتھ سامنے آتے ہیں جو قاری کو ایک حد تک متاثر بھی کرتے ہیں۔ ان کے کرداروں کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے عہد اور سماج کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس نے اپنے افسانوں میں مکالموں سے خاصا کام لیا ہے جیسے ’’چکرویو‘‘ کا تہائی حصہ مکالموں پر مشتمل ہے۔ ان کے افسانوں میں مکالموں کی کثرت ضرور ہے مگر بے جا، نامناسب اور زائد مکالمے نہیں ہیں۔ ان کے مکالمے، برجستہ، چُست و برمحل اور فطری ہیں۔ ان مکالموں میں علاقائی زبان، لب ولہجہ اور محاوروں کا استعمال بڑی ہنرمندی سے کیا گیا ہے۔ مکالموں کے ذریعے افسانہ نگار نے ڈرامائی انداز میں سچویشن کو اُجاگر کیا ہے جس سے افسانہ میں دلکشی کا پہلو پیدا ہوا ہے۔ ان کے مکالموں کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس سے افسانہ میں ایجاز و اختصار پیدا ہوا ہے۔ انھوں نے مختصر مکالموں کے ذریعے اشاراتی انداز میں بڑی بڑی اور طویل باتیں کہہ دی ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس کا انداز بیان بھی پرُلطف اور دلچسپ ہے۔ وہ بہت زیادہ چونکانے والا انداز بیان تو نہیں اختیار کرتے مگر کہانی کو اس دلچسپ انداز میں شروع کرتے ہیں کہ قاری کو متوجہ کر لیتے ہیں اور آخر تک انھیں اپنے اسلوب کے سحر میں باندھے رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا اسلوب موضوع و مواد کے مطابق اور دلکش اسلوب ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان بھی نہایت ہی صاف و شُستہ اور رواں دواں ہے جس کے آئینہ میں فکر پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ پروفیسر بیگ احساس کے ان افسانوں کے مطالعہ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک اچھے افسانہ نگار کی وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں عصر حاضر کے ایک اہم اور منفرد و ممتاز افسانہ نگار کے روپ میں سامنے لاتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔