خاکہ کی صنفی خصوصیات : آغاز و ارتقاء

ڈاکٹر احمد علی جوہر

خاکہ غیرافسانوی نثری صنف ہے۔ اسے مرقع یا قلمی تصویر بھی کہتے ہیں۔ اس میں کسی شخصیت کے ظاہری اور باطنی اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ اس میں شخصیت کی خوبیوں یا خامیوں کا بیان اس طرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے اس شخصیت کی ایک قلمی تصویر اُبھر آئے۔ اردوادب میں خاکہ نگاری ایک منفرد، مقبول اور ترقی یافتہ صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے ابتدائی نقوش اردو کے قدیم تذکروں میں ملتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ میں خاکہ نگاری کے بعض عمدہ نمونے موجود ہیں۔ مگر باضابطہ اس صنف کا آغاز بیسویں صدی کی دوسری اور تیسر دہائی میں مرزافرحت اللہ بیگ کی تحریروں سے ہوا۔ بقول پروفیسرشمیم حنفی:

’’اصطلاحی معنوں میں اردوخاکہ نگاری کا آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد اور مولوی وحیدالدین سلیم کی جیسی بے مثال تصویریں فرحت اللہ بیگ نے لفظوں میں اتاری ہیں انہیں آج بھی اردوخاکہ نگاری کی روایت کا روشن ترین نقش کہا جاسکتا ہے۔ ‘‘ (1)

خاکہ انگریزی لفظ “SKETCH”کا مترادف ہے جس کے لفظی معنی اس نقشہ کے ہیں جو صرف حدودکی لکیریں کھینچ کر بنایا جائے یا ڈھانچہ تیار کیا جائے۔ اصطلاحی معنوں میں خاکہ سے مراد وہ نثری تحریریں ہیں جن میں کسی شخصیت کی مرقع کشی کی گئی ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ خاکہ نگاری شخصیت کی عکّاسی کا فن ہے جس میں خاکہ نویس کسی شخص کی زندگی سے متعلق اہم اور مخصوص حالات وواقعات، اس کی منفرد خصوصیات، ظاہری وباطنی اوصاف، عادات واطوار، حرکات وسکنات، اس کے حلیہ، لباس، رہن سہن اور طرزِ گفتگو کو ایجاز واختصار کے ساتھ اس چابکدستی سے بیان کرتا ہے اور اس کی نفسیات، مزاج، افتادطبع پر اس طرح روشنی ڈالتا ہے کہ اس انسان کی پوری شخصیت، جیتی جاگتی، چلتی پھرتی قاری کی نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ خاکہ شخصیت کی دلکش تصویرکشی کا نام ہے مگر ضروری ہے کہ یہ تصویر جاذب نظر اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت سے دور نہ ہو اور زندگی اور اس کی حرکت وحرارت سے بھرپور ہو۔ اس لیے خاکہ نگار کو چاہئے کہ وہ شخصیت کو بغیر کسی مبالغہ آرائی اور جانبداری کے پیش کرے اور اس کے بیان میں تعریف وتنقیص یا مدح سرائی سے کام نہ لے بلکہ حقیقی اور ہمدردانہ انداز اپنائے۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی نے خاکہ کی تعریف ان جملوں میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اچھے اسکیچ کی تعریف ہی یہ ہے کہ بعض گوشوں کی نقاب کشائی ایسی ماہرانہ نفاست کے ساتھ کی جائے کہ اس شخصیت کا خاص تاثر پڑھنے والے کے ذہن میں خود بہ خود پیدا ہو۔ اچھا خاکہ وہی ہے جس میں کسی انسان کے کردار اور افکار دونوں کی جھلک ہو۔ خاکہ پڑھنے کے بعد اس کی صورت، اس کی سیرت، اس کا مزاج، اس کے ذہن کی افتاد، اس کا زاویئہ فکر، اس کی خوبیاں اور خامیاں سب نظروں کے سامنے آجائیں۔ شاعری میں مبالغہ ہوسکتا ہے، نثر میں عبارت آرائی اور تخیل کی آمیزش ہوسکتی ہے لیکن خاکہ ایک ایسی صنف ہے جس میں ردورعایت ہو یا مبالغہ اور مدح سرائی ہو تو پھر وہ خاکہ نہیں رہتا۔ ‘‘ (2)

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک خاکہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’خاکہ، لفظوں سے تصویر تراشنے اور کسی شخصیت کی نرم گرم پرتیں تلاشنے کا وہ لطیف فن ہے، جو شوخی، شرارت، ذہانت، زندہ دلی اور نکتہ آفرینی کے ہم رکاب ہوکر میدان ادب میں بار پاتا ہے۔ خاکہ انگریزی لفظ Sketch کا مترادف ہے جس کے معنی ڈھانچہ کچا نقشہ یا لکیروں کی مدد سے بنائی ہوئی تصویر کے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں اس سے مراد وہ تحریر ہے جس میں نہایت مختصر طور پر، اشارے کنائے میں کسی شخصیت کے ناک نقشہ، عادات واطوار اور کردار کو فن کارانہ انداز اور روانی وجولانی کے ساتھ بیان کردیا جائے۔ اس میں جواب مضمون کی سی سنجیدگی درگار ہوتی ہے، نہ یہ سوانح کی سی باقاعدگی اور ذمہ داری کا متحمل ہوسکتا ہے۔ خاکہ کسی شخص یا شخصیت سے وابستہ عقیدت، احترام، محبت، دلچسپی یا یادوں کی ایک ایسی لفظی تصویر ہوتی ہے جو کسی جگہ سے نہایت بے ساختہ انداز میں شروع ہوکر کسی مقام پر غیرروایتی انداز میں ختم ہوجاتی ہے۔ ‘‘ (3)

یحیٰ امجد صنف خاکہ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

خاکہ ایک تخلیقی صنف ادب ہے جس میں زندہ شخصیت گوشت پوست کا بدن لیے، علمیت کی بھاری بھرکم عبائوں کو دم بھر کے لیے اتارکر، روزمرّہ کے لباس میں نظر آتی ہیں اور ہم انھیں ویسا دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ سچ مچ تھے۔ نہ کہ جیسا بننا چاہتے تھے، یا جیسا ظاہر کرتے تھے۔ ‘‘ (4)

خاکہ میں شخصیت کی سیرت وصورت کو ضرور بیان کیا جاتا ہے مگر خاکہ نگاری، سوانح نگاری اور خودنوشت سوانح نگاری سے جداگانہ صنف ہے۔ سوانح اور خودنوشت سوانح میں کسی شخص کی پوری زندگی کے حالات وواقعات کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے جب کہ خاکہ میں کسی فرد کی زندگی اور اس کی شخصیت سے متعلق چند انوکھے اور منفرد پہلوئوں کو اس فن کاری سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس شخص کی زندہ جاوید تصویر نگاہوں کے سامنے گھوم جائے اور ذہن پر اس کا نقش قائم ہوجائے۔ خاکہ نگاری اورسوانح نگاری کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے اور خاکہ کی انفرادیت اور اس کی صنفی خصوصیات وامتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف ومعتبر نقاد پروفیسر شمیم حنفی رقم طراز ہیں:

’’خاکہ نگاری نہ تو سوانحی مضمون ہے، نہ زندگی کے کسی شعبے میں موضوع بننے والی شخصیت کے کارناموں کی تفصیل، خاکہ نگاری تاریخ اور تخیّل سے یکساں تعلق رکھتی ہے۔ لکھنے والا جب کسی شخصیت کو موضوع بناتا ہے تو واقعات، سوانح، خارجی مشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات اور قیاسات سے بھی مدد لیتا ہے۔ اسی لیے خاکہ ایک جیتی جاگتی، حقیقی شخصیت کی تصویر ہوتے ہوئے بھی افسانے جیسی دلکشی اور دلچسپی کا سامان رکھتا ہے اور پڑھنے والا اسے گویا کہ بیک وقت واقعے کے طور پر بھی پڑھتا ہے اور کہانی کے طور پر بھی۔ چنانچہ ایک کامیاب خاکہ جو اس صنف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، ہماری فکر اور ہمارے احساسات، دونوں سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ اس صنف کے مطالبات فکری بھی ہوتے ہیں اور تخلیقی بھی۔ کامیاب خاکہ نگار وہ ہے جس کی آستین میں روشنی کا سیلاب چھپا ہوا ہو اور جو واقعات کی اوپری پرت کے نیچے، معمولات کے ہجوم میں کھوئی ہوئی، ایسی حقیقتوں کو بھی اپنی گرفت میں لے سکے جن تک عام لکھنے والوں کی نگاہ پہنچتی ہی نہیں۔ اس لئے ہر اچھا خاکہ ایک دریافت ہوتا ہے کسی کہانی یا شعر کی طرح۔ ہم اس کے واسطے سے زندگی کی کسی عام سچائی تک پہنچنے کے بعد بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سچائی کو ہم نے آج ایک نئے زاویے سے دیکھا ہے اور یہ کہ معنی کی ایک نئی جہت ہم پر روشن ہوئی ہے۔

خاکہ نگار کا رویّہ، موضوع بننے والی شخصیت کی طرف سوانح نگار کے رویّے سے اس معاملے میں مختلف ہوتا ہے کہ اس کی توجّہ تصویر کے چند نمایاں نقطوں پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ نہ تو اس شخصیت سے منسوب ہر واقعے کی تفصیل میں جاتا ہے نہ شخصیت کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی نظر انتخابی ہوتی ہے۔ وہ جہاں تہاں سے چند واقعات، شخصیت کے چند پہلوئوں تک اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے اور انہی واقعات اور پہلوئوں کی مدد سے ایسی تصویر بناتا ہے جو ادھوری نہ لگے۔ خاکہ نگار ایک چابکدست مصوّر ہوتا ہے جو گنتی کی چند لکیروں یا ہوش کے چند اسٹروکس STROKES کے وسیلے سے ایک جامع اور ہمہ گیر اور متحرک تصویر لفظوں میں اتار دیتا ہے۔ کسی شخصیت کے ایسے عناصر جو مرکزی حوالوں کی حیثیت رکھتے ہوں یا اس سے وابستہ ایسے واقعات جن سے شخصیت کے بھید کھلتے ہوں، خاکہ نگار کا بنیادی سروکار ان ہی سے ہوتا ہے۔ ‘‘ (5)

خاکہ کی مذکورہ تعریفوں کے مطالعہ کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خاکہ شخصیت کی تصویرکو لفظوں میں ڈھالنے کا نام ضرور ہے مگر یہ چند فنی لوازم کا متقاضی ہے۔ خاکہ ایک ادبی صنف ہے۔ دوسری ادبی اصناف کی طرح اس کے بھی فنّی لوازمات ہیں جن کی پابندی کرنا خاکہ نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ خاکہ کے فنّی لوازمات جسے ہم اس کے اجزائے ترکیبی بھی کہہ سکتے ہیں یہ ہیں۔ (1) اختصار، (2) وحدت تاثر، (3) کردارنگاری، (4) واقعہ نگاری، (5) منظرکشی، (6) زبان وبیان۔

اختصار:

خاکہ کا ایک اہم وصف ایجازواختصار ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خاکہ میں کسی بھی شخص کی زندگی کے چند منفرد، انوکھے اوراہم واقعات کو فن کارانہ انداز میں بیان کر کے اس کے جیتے جاگتے کردار، اس کی سیرت کی جھلکیوں اور اہم خط وخال کو نمایاں کیاجائے۔ اختصار کا یہی وصف خاکے کو مرقع اور سوانح سے ممتاز کرتا ہے۔ اختصار کی اس خصوصیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے طویل خاکے بھی لکھے جاسکتے ہیں۔ خاکہ میں کبھی بھی غیرضروری واقعات اور بے جاطویل مباحث ومسائل کو بیان کرکے اسے بے جان واقعات کا پُشتارہ اور ثقالت اور غیردلچسپی کا حامل نہیں بنانا چاہئے۔ اہم اور انوکھے واقعات کا انتخاب، اس کی عمدہ ترتیب اور اس کا دلکش اندازِ بیان خاکہ کو کامیاب بناتا ہے۔

وحدت تاثر:

خاکہ کا ایک اہم جز وحدت تاثر ہے۔ خاکہ میں اس کی بڑی اہمّیت ہے۔ یہاں وحدت تاثر سے مراد یہ ہے کہ خاکہ نگار شروع سے آخر تک فنی ہنرمندی سے واقعات کی کڑی سے کڑی ملائے اور ربط وتسلسل بنائے رکھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خاکہ نگار تمہید، درمیانی حصے اور خاتمے کو اس خوبی سے ایک دوسرے میں پیوست کرے کہ ایک خاص تاثر شروع سے آخر تک قائم رہے۔ خاکہ نگار کی کوشش قاری کے ذہن پر اپنے موضوع کا واحد تاثر مرتسم کرنا ہوتا ہے مگر کہیں یہ نقش دھندلا ہوتا ہے اور کہیں گہرا۔ تاثر کا نقش جتنا گہرا ہوگا خاکہ اتنا کامیاب سمجھا جائے گا۔

کردارنگاری:

کردارنگاری، فن خاکہ نگاری کا ایک لازمی جز ہے۔ خاکے کا موضوع کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ شخصیت اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہے۔ ان خصوصیات کو اجاگر کرنا ہی دراصل خاکہ نگاری کا اہم منصب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار، خاکے کا ایسا بنیادی جز ہے جس کے بغیر خاکے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ خاکہ میں کردارنگاری کی اہمّیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صلاح الدین رقم طراز ہیں:

’’خاکہ کے جملہ عناصر ترکیبی میں کردارنگاری کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی جز ہوتا ہے کہ اس کے بغیر خاکہ کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کردارنگاری کے ضمن میں مذکورہ شخصیت کے خدوخال، حرکات سکنات، لباس، نفسیاتی اور ذہنی کیفیات وتغیرات سب کچھ پیش کیا جاتا ہے۔ ‘‘ (6)

کردارنگاری خاصا مشکل فن ہے۔ ایک اچھا کردار وہ مانا جاتا ہے جو زندگی کی حرکت وحرارت سے پُر ہو اور جس میں شخصیت اپنی خوبیوں، خامیوں، متضاد خصوصیات، منفرد اوصاف اور مختلف رنگوں کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر ہو۔ عمدہ کردار نگاری کے لیے خاکہ نگار کا نفسیات داں ہونا اور شبیہہ نگاری اور شخصیت نگاری کے فن کا ماہر ہونا ضروری ہے تاکہ خاکہ نگار کسی شخصیت کے جذبات واحساسات اس کی ذہنی کیفیات کی دلچسپ عکّاسی کرتے ہوئے اس کے رنگ روپ، وضع قطع، عادات واطوار اور حرکات وسکنات کی ایسی موثر جھلک دکھائے کہ وہ شخص اپنی تمام ظاہری وباطنی خصوصیات کے ساتھ قاری کی نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہو اور اس کے ذہن پر اس کا گہرانقش قائم ہوجائے۔ خاکہ میں کردار جتنا حقیقی اور اثرانگیز ہوگا خاکہ اتنا کامیاب ہوگا۔

واقعہ نگاری

خاکے کی تعمیر میں واقعات سے مدد لی جاتی ہے مگر خاکے میں واقعات کی بہتات نہیں ہونی چاہئے۔ کسی بھی شخصیت سے متعلق وہی اہم اور منفرد واقعات بیان کیے جانے چاہئیں جس سے موضوع کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشے سامنے آئیں اور اس کی انفرادیت نمایاں ہو۔ اس لیے خاکہ میں واقعات کا انتخاب، اس کے بعد ان میں ربط وتسلسل اور توازن کا سلیقہ بے حد ضروری ہے تاکہ قاری ان کے شامل ہونے سے الجھن محسوس نہ کرے۔ خاکے میں واقعات کو دلکش انداز میں بیان کیا جانا چاہئے کیوں کہ خاکے کی دلچسپی اور اثرانگیزی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہوتا ہے کہ واقعات کو کس ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ بیان ایسا ہونا چاہئے کہ پڑھنے والے کو واقعہ اپنی نظروں کے سامنے ہوتا ہوا دکھائی دے۔

منظرکشی

منظرکشی بھی خاکہ نگاری کا ایک اہم جز ہے۔ کسی چیز، کسی حالت یا کسی کیفیت کا بیان اس انداز سے کیا جائے کہ اس کی تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے پھر جائے، اس کا نام منظر کشی ہے۔ جیسے دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی اور صبح کی شگفتگی وغیرہ کابیان اس طرح ہو کہ وہ منظر نظروں کے سامنے گھوم جائے اور مدت تک ذہن پر اس کا نقش رہے۔

منظر کرداروں کی شخصیت کو مصورانہ انداز میں اُبھارنے اور اس کے منفرد پہلوئوں کو اُجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ منظرکشی کے ذریعہ کرداروں کی شخصیت نکھر کر صاف شفاف، منفرد اور پہلودار انداز میں سامنے آتی ہے۔ خاکہ نگار کو چاہئے کہ جب وہ کسی منظر کو دیکھے تو اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے نہیں گزر جائے بلکہ پس منظر کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ فن کارانہ منظرکشی سے خاکہ میں شگفتگی ودلکشی اور جان پیدا ہوجاتی ہے۔

زبان وبیان

ادب کی کوئی صنف ہو اس میں زبان وبیان کی اہمّیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی حال خاکے کا ہے۔ یہ بیانیہ نثری صنف ہے۔ اس میں زبان وبیان کی بڑی اہمّیت ہے۔ اسی کے سہارے خاکہ نگار کسی شخص کو چلتا پھرتا، ہنستا بولتا دکھاتا ہے۔ وہ واقعات میں جان پیدا کرنے اور کردار کو حرکت میں لانے اور احساس کے قابل بنانے کے لیے الفاظ ہی کا سہارا لیتا ہے۔ خاکہ نگار کواپنے بیان میں زور پیدا کرنے کے لیے موزوں الفاظ، حسین تشبیہات، دل کش استعارات اور دوسری صنعتوں سے مدد لینی پڑتی ہے تاکہ حقیقی شخصیت بھی اُبھر کر سامنے آئے اور خاکہ میں ادبی لطف وچاشنی بھی پیدا ہو۔ خاکہ نگار کو چاہئے کہ وہ ایسا اندازبیان اختیار کرے جس کے ذریعے شخصیت کا ہلکا ساتعارف یا لمحہ بھر کی زیارت کا نقش قاری کے دل ودماغ پر ثبت کردے۔ وہ مصائب بھی اس طرح بیان کرے کہ شخصیت بُرے پہلوئوں کے باوجود دلچسپ معلوم ہو۔ اس کے علاوہ خاکہ میں یہ ضروری ہے کہ واقعات کے بیان کا انداز اور اسلوب حقیقی ہوتے ہوئے بھی ایسا حسین ودلکش ہو جو پڑھنے والے کو اپنی جانب متوجّہ کرلے اور اپنا اسیر بنا لے۔

خاکہ نگاری کے فنّی آداب

خاکہ شخصیت کی تصویرکشی کا فن ہے۔ یہ فن چند فنی لوازم کا متقاضی ہے۔ جیسے اس میں اختصار، حقیقی واقعات کا بیان، واقعات کی عمدہ ترتیب اور ان کے درمیان ربط وتسلسل، صحیح مرقع کشی، دیانت داری، غیرجانبداری، اظہار کی جرئات اورشعوری فراست ہو اور نپے تلے الفاظ میں دلکش انداز میں شخصیت کو بیان کیا گیا ہو۔ خاکہ نگارجب کسی شخصیت پر خاکہ لکھے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے متعلق وہی باتیں بیان کرے جو اس شخص کے اندر پائی جاتی ہوں۔ وہ کسی شخصیت کے بیان کے وقت اپنی ذاتی پسند وناپسند اور بے جا تعصُّبات کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنی تحریر میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے من گھڑت اور فرضی واقعات بھی بیان نہ کرے۔ خاکہ میں کسی شخصیت کو نہ تو بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے نہ اس کے قد کو گھٹانے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خاکہ میں شخصیت کے بیان میں بے جا تعریف و تنقیص اور مبالغہ آرائی یا مدح سرائی سے کام نہیں لیا جاتا ہے نہ کسی شخصیت پر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ سب باتیں فن خاکہ نگاری کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ خاکہ کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں شخصیت کو اچھا یا بُرا بنائے بغیر جیسی وہ ہوتی ہے ویسی ہی پیش کردی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں یحیٰ امجد رقم طراز ہیں:

’’خاکہ میں کسی شخصیت کو جیسی وہ ہوتی ہے من وعن ویسا ہی پیش کردیا جاتا ہے۔ اسے اچھا یا برا یا کچھ اور ’’ثابت‘‘ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس کی زندگی کے مختلف واقعات کا علمی بصیرت سے انتخاب کرکے پوری فنی مہارت سے ان کی ترتیب قائم کی جاتی ہے اور یوں زندہ شخصیت سامنے آتی ہے۔ اچھے خاکہ نگار کا نقطئہ نظر ضرور ہمدردانہ ہوتا ہے لیکن وہ حتی الوسع غیرجانبدار ہی رہتا ہے۔ ‘‘ (7)

خاکہ نگاری کا اہم اصول یہ ہے کہ اس میں شخصیت کو سچائی اور دیانتداری سے پیش کیا جائے۔ اس کی خوبیوں کے ساتھ اس کی خامیوں کو بھی بیان کیا جائے۔ کسی بھی شخص کی بُرائیوں کو اس ہمدردانہ انداز میں بیان کیا جائے کہ دل میں اس شخصیت سے نفرت پیدا نہ ہو۔ خاکہ نگاری کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار کسی بھی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے اس کے منفرد، اچھوتے اور اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالے اور اس کے باطنی تہوں کو ٹٹول کر شخصیت کے ان تاریک گوشوں کو بھی بے نقاب کرے جس سے عام لوگ واقف نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صابرہ سعید خاکہ نگاری کی ماہیت و فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’خاکہ نگاری کا فن خاکہ نویس سے کئی چیزوں کا طالب ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی شخصیت کو الفاظ وزبان کے ذریعے حیاتِ نو بخشی جائے۔ دوسرے زیرِ مطالعہ شخصیت کو اس کے اصلی رنگ وروپ اور اس کے ماحول میں پیش کیا جائے۔ اس کی تحریر صرف حقیقت کی عکاسی کرے۔ وہ شخصیت کے صرف نمایاں اور مسلم خصوصیتوں کو زیرِ قلم لائے۔ ایسے پہلو ہی منتخب کرے جن سے شخصیت کی ذہنی افتاد، افکارو نظریات قاری کے سامنے عیاں ہوسکیں۔ اس کے علاوہ اپنے جذبات اور جوش کو اعتدال میں رکھ کر ہمدردی لیکن غیرجانبداری کے ساتھ تما مواد کو اس طرح ترتیب دے کہ شخصیت کی سیرت کے مخصوص ومنفرد پہلو منور ہوسکیں۔ اس کے ساتھ وہ قاری میں بھی اس شخصیت کے لیے ویسے ہی ہمدردانہ جذبات پیدا کردے جو وہ خود رکھتا ہے۔ شخصیت کا مطالعہ متوازن ہو، دقتِ نظر کے ساتھ وسعتِ نظری بھی لازمی وضروری ہے۔ واقعات صحت کے ساتھ پیش کیے جائیں۔ ‘‘ (8)

خاکہ نگاری کے یہی وہ فنّی آداب ہیں جن کوبرت کر دلکش اور بہترین خاکے لکھے جاسکتے ہیں۔ خاکہ نگار کے پاس غیرمعمولی قوّتِ مشاہدہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ شخصیت کے باریک سے باریک گوشوں تک اس کی رسائی ہوسکے۔ خاکہ نگار اپنی بصیرت وبصارت، ذہانت اور مصورانہ مہارت سے کام لے کر شخصیت کے چند انوکھے، منفرد اور اہم پہلوئوں کو اپنے حقیقی مگر دلکش اندازِ بیان اور حسین اسلوب میں اس طرح بیان کرے کہ اس کی جیتی جاگتی، متحرک تصویر قاری کی نگاہوں کے سامنے گھوم جائے اور ماضی کی شخصیت حال میں زندہ ہوجائے۔

اردو میں خاکہ نگاری کی ابتدا باضابطہ طور پرجیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں ’’نذیراحمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘‘، ’’دلی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘ اور ’’ایک وصیت کی تعمیل‘‘ وغیرہ سے ہوئی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بعد جو خاکہ نگار سامنے آئے ان میں خواجہ حسن نظامی، آغا حیدر حسن، مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی، رشید احمد صدیقی، سردار دیوان سنگھ مفتون، جوش ملیح آبادی، خواجہ محمد شفیع دہلوی، مرزا محمود بیگ، مالک رام، منٹو، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، محمد طفیل، سید اعجاز حسن، کنھیالال کپور، شورش کاشمیری، فکرتونسوی، چراغ حسن حسرت، خواجہ غلام السیدین، مجید لاہوری، عبدالمجید سالک، کرشن چندر، ظ۔ انصاری، حامد جلال، احمد بشیر اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ خواجہ احمد فاروقی، خلیق انجم، اسلم پرویز، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید ضمیر جعفری اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ نے بھی عمدہ خاکے لکھے ہیں۔ عصرحاضر کے نمائندہ اور ممتاز خاکہ نگار مجتبیٰ حسین ہیں۔ ان کے علاوہ جن ادیبوں نے اس فن کووسعت دی ان میں انتظار حسین، یوسف ناظم، عابد سہیل اور اقبال متین وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ آج بھی اردو میں خاکہ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنف عصرِ حاضر میں بھی جس طرح ترقی کے منازل طے کررہی ہے، وہ اس کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ خاکہ نگاری کی بڑھتی مقبولیت اور اس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی تامُّل نہیں کہ خاکہ یقیناََاُردو کی بے حد مقبول اور ترقی یافتہ صنف ہے اور یہ اُردو نثر کی آبرو بھی ہے۔

حوالے

(1) پروفیسر شمیم حنفی، مرتب: آزادی کے بعد دہلی میں اُردو خاکہ، اُردو اکادمی، دہلی، 2009ء، ص، 16۔
(2) ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، اُردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ، دیدودریافت، آزاد کتاب گھر، دہلی، 1964ء، ص، 18۔
(3) ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، آزاد:اُردو کا پہلا خاکہ نگار، مشمولہ، موقف، کتاب سرائے پبلشرز، لاہور، 2008ء، ص، 65۔
(4) یحیٰ امجد، اُردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ، اردونثرکافنّی ارتقا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2015ء، ص، 373۔
(5) پروفیسر شمیم حنفی، آزادی کے بعد دہلی میں اُردو خاکہ، ص، 9 تا 11۔
(6) ڈاکٹر صلاح الدین، مرتب: دلّی والے، اُردواکادمی، دہلی، 1986ء، ص، 25۔
(7) یحیٰ امجد، اُردو میں خاکہ نگاری، مشمولہ، اردونثرکافنّی ارتقا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ص، 364تا365۔
(8) ڈاکٹر صابرہ سعید، اردوادب میں خاکہ نگاری، ایجوکیشنل بُک ہائوس، علی گڑھ، 2013ء، ص، 9تا10۔

تبصرے بند ہیں۔