زلیخا حسین: کیرالا کی واحد اُردو ناول نگار

کے۔ پی۔ شمس الدین ترورکاڈ

جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں اُردو کی ترقی وترویج دوسری ریاستوں کی بہ نسبت تیزی سے ہو رہی ہے۔ ریاست کیرالا سے اُردو زبان کا تعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہاں کی زبان ملیالم ہے جو کہ تمام مذہب وطبقہ، اعلیٰ، ادنیٰ سبھی لوگوں کی بولی ہے۔ ایسی غیر اُردو ریاست میں اب فخر کے ساتھ اُردو پنپ رہی ہے۔

کیرالا میں اُردو ادب کا جائزہ لیں تو بے شک دوسری ریاستوں کے مقابل ناکے برابر ہوگا۔ پھر بھی ملیالی ریاست نے اُردو ادب کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا ہے۔ یہاں کئی شعراء گزرے لیکن شعری مجموعہ شائع کرنے والے واحد شاعر ایس۔ایم۔ سرورؔ صاحب تھے۔ اسی طرح نثری ادب میں بھی کئی لوگ خدمت انجام دیے۔ ان میں اعلیٰ درجے تک پہنچنے والی ادیبہ زُلیخا حُسین ہیں۔ زُلیخا حُسین کیرالا کی واحد اُردو ناول نگار ہیں جنہوں نے ۲۷؍ ناولیں اور ۸؍ منی ناول اور افسانے لکھ کر اُردو ادب کو کیرالا میں پروان چڑھایا۔ کیرالا کے باہر اس ادیبہ کے متعلق معلوم ہوا تو لوگ تعجب کا اظہار کرنے لگے۔

زُلیخا حُسین ۱۹۳۰ ؁ء میں کیرالا کے کوچین شہر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حاجی احمد سیٹھ مشہور سیاسی اور سماجی کارکن تھے۔ محمد علی جناح، لیاقت علی خاں صاحب جیسے رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے۔ علّامہ اقبالؒ کے انتقال کی خبر سن کر حاجی احمد سیٹھ بے تحاشارو پڑے تھے۔ زُلیخا حُسین کو بچپن کا وہ منظر آج بھی دل و دماغ میں تازہ ہے۔ زُلیخا حُسین کچ میمن (سیٹھ) گھرانے سے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم کوچین کے آسیہ بائی مدرسہ میں ہوئی۔ یہیں سے قرآن، حدیث، دینیات اور ملیالم کے ساتھ اُردو سیکھی، بقیہ تعلیم گھر پر ہوئی۔ ان کے استاد مولوی رضوان اللہ صاحب تھے، جن کی بدولت اُردو زبان پر اچھی گرفت حاصل کرلی۔ رضوان اللہ صاحب حیدرآباد سے ہجرت کرکے کوچین میں قیام پذیر تھے۔ ویسے بھی پرانے زمانے میں اُردو کی تعلیم دینے کے لیے حیدرآباد سے ہی اساتذہ کیرالا آیا کرتے تھے، انہیں کیرالا میں اُردو منشی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب عورتوں کا چار دیواری سے باہر نکلنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ کیرالا میں ملیالم کے بھی صرف گنتی کی مسلم خواتین ہیں، جنہوں نے ناول نگاری کی، کیوں کہ مسلم خواتین کا ادبی دنیا میں قدم رکھنا بری بات سمجھی جاتی تھی۔ زُلیخا حُسین بھی ایسے ہی معاشرے میں پل رہی تھیں۔

زُلیخا حُسین ابھی کم سن ہی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس کے دو سال بعد والدہ بھی گزر گئیں۔ بعد میں زُلیخا حُسین کی تعلیم میں ان کے نانا جانی سیٹھ نے زیادہ دل چسپی دکھائی۔ جانی سیٹھ جانے مانے شاعر بھی تھے، شوقؔ تخلص کیا کرتے تھے۔ جانی سیٹھ سے ہی زُلیخا حُسین میں ادبی رجحان پیدا ہوا۔ گھر میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُردو کی تعلیم بھی ہوئی، ذوق مطالعہ زُلیخا میں بڑھتا گیا۔ پریم چند، گلشن نندہ، مہیندر ناتھ کی تقریباً تمام ناولیں پڑھ ڈالیں۔ زُلیخا قلم پکڑ کر سیکھ رہی تھیں کہ ۱۵؍ سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ عام طور پر عورتیں شادی کے بعد اپنے ادبی شوق کو گھریلو مجبوریوں کی بنا پر آگے نہیں بڑھا سکتیں، اس کی مثال خود زُلیخا کے رشتے دار عائشہ کی تھی۔ عائشہ شاعرہ تھی حیاؔ تخلص کیا کرتی تھی ان کی شاعری ان کی شادی تک ہی محدود تھی، شادی کے بعد تروننتاپرم چلی گئی اور ادبی ذوق کو آگے نہ بڑھا سکی۔

زُلیخا حُسین کا معاملہ اس کے برعکس تھا، شادی ہونے کے بعد آزادی کے ساتھ لکھنے کا کام جاری رکھا۔ اس معاملے میں شوہر (حُسین سیٹھ) نے ہمت افزائی کی۔ ابتدا میں چھوٹی چھوٹی نسوانی کہانیاں، افسانے وغیرہ ماہنامہ ’خاتون مشرق‘ اور ’شمع‘ میں لکھتی رہیں۔ شوہر کے وسیع القلبی اور حوصلہ افزائی کے بنا پر زُلیخا حُسین نے بیس سال کی عمر میں اپنی پہلی ناول ’میرے صنم‘ لکھی۔ اس کی اشاعت دہلی کے چمن بُک ڈپو نے کی تھی۔ یہ ۱۹۵۰ ؁ء کا دور تھا، ملک کی تقسیم کے المیے کے تیسرے سال اُردو زبان مشکلات کے دور کا سامنا کر رہی تھی۔ کیرالا میں زُلیخا حُسین کے کئی رشتے دار پاکستان چلے گئے۔ محمد علی جناح کے دست راست اور یہاں کے مسلم لیگ کے صدر حاجی عبدالستار اسحق سیٹھ جیسے رہنما کے ہجرت کرنے سے کیرالا میں اُردو کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اُردو کو تنگ نظری اور تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ایسے حالات میں زُلیخا حُسین نے اس غیر اُردو داں ریاست سے ناول لکھ کر شائع کیے۔

زُلیخا حُسین بدنامی اور طعنے کے ڈر سے اپنے ناولوں پر اپنا پتہ اور تصویر شائع کرنے سے احتراز کیا۔ دادی کا حکم بھی تھا کہ تصویر اور پتہ ناولوں پر نہ لکھا جائے۔ ۱۹۹۰ ؁ء تک اس پر عمل کرتی رہیں، ۱۹۹۰ ؁ء میں شائع شدہ ناول ’ایک پھول ہزار غم‘ تصویر اور پتہ کے ساتھ شائع کرائی۔ زُلیخا پہلے بدنامی سے ڈرتی تھیں۔ اب محسوس ہوا کہ گم نامی میں رہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ زُلیخا کے ناول شمالی ہند اور پاکستان میں کافی پسند کیے گئے۔ کئی مرتبہ ایوارڈ حاصل کرنے لکھنؤ سے خطوط آئے، مگر زُلیخا حُسین کہیں نہیں گئیں۔ کیرالا سے باہر اب تک صرف مدراس میں ہی گئی ہیں۔

کیرالا میں اُردو ناول نگار کی حیثیت سے زُلیخا حُسین کو بہت کم لوگ جانتے تھے۔ حالانکہ ۱۹۵۰ ؁ء سے مسلسل لکھتی رہیں، تمام ناولیں دہلی سے طبع ہوکر شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہاں کسی کو کچھ خبر نہیں ہو پاتی اور ناہی زُلیخا حُسین شہرت چاہتی تھیں۔ اس لیے کیرالا میں زُلیخا حُسین کو لوگ ناکے برابر ہی جانتے تھے۔

۱۹۷۰ ؁ء میں زُلیخا حُسین کا ناول ’تاریکیوں کے بعد‘ کافی مشہور ہوا۔ اس وقت کے مسلم لیگ کے رہنما اور ریاست کیرالا کے وزیر تعلیم جناب سی۔ ایچ۔ محمد کویا صاحب کو جب اس ناول نگار کے متعلق معلوم ہوا تو ’تاریکیوں کے بعد‘ کا ملیالم ترجمہ کرکے ہفتہ روزہ ’چندریکا‘ میں سلسلہ وار شائع کرنے کا وعدہ کیا۔ مسلم لیگ کے ترجمان ’چندریکا‘ کے ایڈیٹر بھی سی۔ایچ۔ محمد کویا ہی تھے۔ کوچین کے کے۔ روی ورما نے اُردو سے ملیالم میں ترجمہ کیا اور یہ سلسلہ وار شائع بھی ہوا۔ ۱۹۸۱ ؁ء میں وِدھیارتی مِتھرم پبلیشر نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا۔

پبلسٹی اشتہار بازی نہ ہونے کی وجہ سے کیرالا کے اُردوداں بھی زُلیخا حُسین سے ناواقف تھے۔ ۱۹۹۳ ؁ء میں تلشیری کے گورنمنٹ برنن کالج کے صدر شعبہ اُردو جناب ای۔ محمد اپنے ایم۔فِل کے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں کوچین پہنچے تو ان کو ایک رفیق کے ذریعہ زُلیخا حُسین کے بارے میں علم ہوا۔ محمد صاحب کے دوست زُلیخا حُسین کے شوہر کے قریبی دوست تھے۔ انہیں کی مدد سے زُلیخا حُسین سے ملاقات ہوئی اور اپنے ایم۔فِل کے مقالے میں زُلیخا حُسین کے متعلق چند معلومات فراہم کیں۔ ای۔ محمد صاحب کے اس کام کو سراہتے ہوئے زُلیخا حُسین بولی: ’’کبھی یہ میری بڑی خواہش تھی کہ کوئی میری تخلیقات کو پڑھے، اسے اچھا کہے۔ میں مایوس ہو چکی تھی کہ اچانک آپ آئے اور مجھے سراہا، لیکن وقت گزر چکا ہے۔ کچھ باقی نہ رہا۔ ٹوٹ چکی ہوں میں۔ لکھنا پڑھنا مشکل ہو چکا ہے میرے لیے، پھر بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں عمر کے اخیر حصے میں پہنچ کر یہ آرزو توپوری ہوئی۔‘‘

۱۹۹۸ ؁ء میں کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کے سالانہ اجلاس میں ’دلکش‘ کے نام سے ایک تحقیقی مجلّہ (سونیر) شائع کیا گیا تھا، جس میں احقر نے ’کیرالا میں اُردو زبان کی مختصر تاریخ‘ (ملیالم) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس میں زُلیخا حُسین کے متعلق کچھ تفصیلات بھی تھیں۔ اُردو اساتذائے کرام کو زُلیخا حُسین کے متعلق یہیں سے معلومات حاصل ہوئیں۔ اسی مضمون کے تعلق سے مزید معلومات تحقیق کرکے ’کیرالا میں اُردو زبان کی مفصل تاریخ‘ کتابی شکل میں لکھنے کا خیال ذہن میں آیا۔ اس سلسلے میں ۵؍ دسمبر ۲۰۰۱ ؁ء میں کوچین پہنچ کر روزنامہ ’چندیکا‘ کے نامہ نگار محبوب کے ذریعہ زُلیخا حُسین تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس وقت پتہ چلا کہ کوچین کے مسلم لیگ کے صدر، اس وقت کے ریاست کیرالا کے مسلم لیگ کے نائب صدر اور چندریکا کے ڈائرکٹر بورڈ کے رکن حاجی عبداللہ سیٹھ زُلیخا حُسین کے بھائی ہیں۔ انہیں کے ذریعہ گھر پہنچ کر زُلیخا حُسین سے گفتگو ہوئی، دو ناول بھی انہوں نے بطور تحفہ دیے۔ دوسرے دن چندریکا میں زُلیخا حُسین کے متعلق خبر چھپی تو تمام اخبار والے اور ٹی۔وی۔ چینل کے کیمرے زُلیخا حُسین کے ہاں پہنچے۔ برسوں سے اندر ہی اندر چھپی رہنے والی زُلیخا حُسین کو اُردو ناول نگار کی حیثیت سے سبھی جاننے لگے۔ یہ وقت ایسا تھا جب زُلیخا حُسین اُردو دنیا سے تمام امیدیں کھو بیٹھی تھیں۔ ’’اب کون پوچھے گا۔۔۔ اب کون جانے گا۔۔۔‘‘ ایسے ہی خیالات میں رہتی تھیں۔ اس دوران کالی کٹ میں منعقد کیے جانے والے کیرالا اُردو ٹیچرس ایسوسیشن کے اسٹیٹ کانفرنس میں زُلیخا حُسین کو مدعو کیا گیا۔ دو روزہ جلسہ میں ایک سیشن ان کے اعزاز و احترام میں تھا۔ ۱۴؍ فروری ۲۰۰۲ ؁ء میں منعقدہ اس جلسہ میں محبانِ اُردو نے زُلیخا حُسین کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ کے۔یو۔ٹی۔اے۔ کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا اور احتراماً شال بھی اوڑھائے۔ زُلیخا حُسین کی شان میں منعقدہ اس اعزازی جلسہ میں عاشقان اُردو کا پیار و محبت دیکھ کر مارے خوشی کے زُلیخا دوران تقریر رو پڑیں اور بولیں ’’ایسا بھی ایک دن زندگی میں آئے گا میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ آپ لوگوں کی احسان مند ہوں جو اس عمر میں مجھے عزت، پیار و محبت سے نوازا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اب کچھ یاد نہیں یادداشت اور بینائی کمزور ہو چکی ہے۔ آپ لوگوں نے مجھے سراہا میں بے حد شکرگزار ہوں۔ چندریکا کے محبوب اور شمس الدین ترورکاڈ کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں، جنہوں نے میرے متعلق اخباروں میں خبریں شائع کیں۔ ‘‘

اس تقریب کے بعد کئی جگہ زُلیخا حُسین کی عزت افزائی میں تحسینی جلسے اور تقاریب منعقد کی گئیں۔ آسیہ بائی اسکول (کوچین) میں منعقدہ تقریب میں وزیر تعلیم جناب ایڈوکیٹ این۔ سوپی نے ان کے کارناموں کی ستائش کرتے ہوئے ان کی خدمت میں شیلڈ پیش کیے۔

ہندوستان میں اُردو کے اس وقت کے حالات سے زُلیخا حُسین زیادہ مطمئن نہیں ہیں وہ کہتی ہیں کہ ’’۱۹۴۴ ؁ء کے دوران سبھی جگہ یہی بات سننے میں آتی تھی کہ آزادی کے بعد اُردو کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دیا جائے گا۔ تقسیم ہند کے ذریعہ ملک کی آزادی سے اُردو کو بے حد نقصان اٹھانا پڑا۔ آزادی سے قبل انگریزی کے لیے اُردو کو دبایا جاتا تھا اب ہندی کے لیے دبایا جا رہا ہے۔‘‘

زُلیخا حُسین کے ناول اور افسانوں کی مجموعی تعداد ۳۵؍ ہے۔ یادداشت کی کمزوری سے زُلیخا غمگین ہیں۔ شروع شروع میں لکھی گئی کچھ ناولیں ایک ہی بار شائع ہوئیں، باقی کی اشاعت ہوئی ناولیں، ناشر شائع کرنے کے بعد کچھ کاپیاں ان کے نام آجاتیں۔ اس کے علاوہ کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ پھر بھی زُلیخا حُسین کو کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ زُلیخا حُسین کے سبھی ناول دہلی سے ہی شائع ہوئے۔ میرے صنم، آپا، صبا، او بھولنے والے، دشوار ہوا جینا چمن بُک ڈپو نے شائع کیا۔ پتھر کی لکیر، یادوں کے ستم، رشتے کا روگ، نصیب نصیب کی باتیں، تاریکیوں کے بعد، مرجھائی کلی، گر سہارے نہ ملتے، اپنا کون، کل کیا ہو، راہ اکیلی، ایک بھول ہزار غم، حسرت ساحل پرنس بُک ڈپو نے شائع کیے۔ مار آستین، زندگی مسکرائی، آدمی اور سکے، روح کے بندھن، اپنے اور پرائے، ایک ہی ڈگر، آسمان کے تلے، وہ ایک فریاد تھی، ایک خواب اور حقیقت، اہلوالیہ ڈپو نے شائع کیا اور ’ لہر لہر منجھدار‘ اسٹار پبلی کیشن نے شائع کیا جواب بھی دہلی کے کتاب گھروں میں دستیاب ہیں۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم انٹرنیٹ پر زُلیخا حُسین کی ناولیں کہاں کہاں دستیاب ہیں ؟ تلاش کریں تو لندن کے بک اسٹال کا نام بھی نظر آتا ہے جہاں زُلیخا حُسین کے ناول دستیاب ہیں۔

زُلیخا حُسین اپنے لکھے ہوئے ناولوں میں ’راہ اکیلی‘ زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ۱۹۸۹ ؁ء میں شائع ہونے والی اس ناول کا مرکزی کردار ’حسنہ‘ ہے۔ حسنہ ایک حسین اور باوفا لڑکی ہے اس کی شادی عباس نامی ایک ادھیڑ عمر کے رئیس سے ہوتی ہے۔ عباس کی یہ دوسری شادی تھی وہ ایک غریب عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ حسنہ سے شادی کرنے کے بعد اس کے حسن اور عمر کا اندازہ ہونے پر شب زفاف سے ہی حسنہ سے الگ رہنے لگا۔ نیک زاد حسنہ اپنے سلوک اور مخلصانہ رویے سے عباس کے احساس کمتری کو دور کرتی ہے اور ان کی ازدواجی زندگی کامیابی کہ راہ پرگامزن ہوتی ہے کہ عباس کا انتقال ہو جاتا ہے اور حسنہ اکیلی رہ جاتی ہے۔ محرومی اور مجبوری کی زندگی میں حسنہ سب کچھ تقدیر کا کھیل سمجھ کر مطمئن رہتی ہے۔ اسی داستان کو ’راہ اکیلی‘ ناول میں خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔ اسی طرح ’لہر لہر منجھدار‘ میں شمع، ’روح کے بندھن‘ میں فوزیہ، ’آدمی اور سکے‘ میں دلشاد، ’کل کیا ہو‘ میں نازیہ، ’دشوار ہو جینا‘ میں شبنم، ’اپنا کون‘ میں شمو کی کہانیوں کو پیش کیا ہے۔

زُلیخا کے ہاں عورت ہی زندگی کا سب کچھ ہے اس کے اطراف زندگی حرکت کرتی ہے۔ اگر اسے ہٹا دیا جائے تو زندگی تتر بتر ہوجائے گی۔ ان کے ناولوں کے نسوانی کردار زمانے کے ستم سہتے ہوئے قدرت کا ایک کھلونا بن کر وفا کے پیکر کی طرح ہمارے سامنے گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ وہ بھولی بھالی عورت نہیں ہے، جو سب کچھ سہکر خودکشی کرنے پر آمادہ ہو۔ یہ وہ باغی بھی نہیں ہے جو سماج کے چوکھٹ پر دستک دے کر شکایت کرے۔ مرد سے بدلہ لے۔ یہ وہ عورت ہے جو خدا پر بھروسہ رکھتی ہے، مصیبتوں میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑتی۔ مغربی تہذیب کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتی۔ وفاداری اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

زُلیخا حُسین کے ناولوں میں فلمی ناول نگار مہندرناتھ اور گلشن نندا کے اثرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ملیالم ناول یا کیرالا کے معاشرے سے ان کی ناولیں پرے ہیں۔ لیکن کیرالا کے چند شہروں کا ذکر ضرور ہے۔ زُلیخا کے ناولوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مکالماتی رنگ میں ہیں۔ بہت کم موقعوں پر بیانیہ رنگ اختیار کیا ہے۔ منظر نگاری اور جذبات نگاری کے لیے بھی ناول نگار نے مکالمے ہی سے کام لیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں سے منظر نگاری اور جذبات نگاری اور پیکر تراشی کی ہے۔
زُلیخا حُسین کے زبان و بیان کے انداز سے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ ناول نگار کیرالا کی ملیالی ہے۔ تِروپتی کے شری

وینکٹیشورا یونیورسٹی کے صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر مظفر شہ میری کیرالا آتے تو زُلیخا کے ناولوں کا سرسری جائزہ لے کر بولے ’’زُلیخا حُسین کیرالا کی ناول نگار ہیں ؟‘‘ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ہم تو سمجھے تھے کہ زُلیخا لکھنؤ یا لاہور کی رہنے والی ہیں۔ ‘‘ قارئین کی دلچسپی کے لیے ناول ’ایک ہی ڈگر‘ کے شروع کے چند اقتباسات پیش ہیں :

’’صبح کا سہانا وقت تھا، وہ ڈاک بنگلے کے برآمدے میں کھڑا مناظر کوہسار سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ لہلاتے سبزہ زار حسین پھولوں کی وادی، سرسبز پہاڑ، بڑے بڑے درخت اور درختوں کے دامن میں جھاڑیاں پھولوں سے لدی ہوئی۔ ایک طرف بل کھاتی ہوئی ندی بھیگی بھیگی فضا تازی ہوا، خوشگوار سردی اور پہاڑکی خاموشی۔ وہ قدرت کے ان حسین نظاروں میں کچھ کھوسا گیا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی۔ اسے وہ حیرت اور دلچسپی کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ لڑکی پھول توڑنے کی کوشش کررہی تھی لیکن پھولوں کی ٹہنیاں اس کی پہنچ سے دور تھیں۔ وہ اچھل اچھل کر بار بار کوششیں کیے جا رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر یہ منظر دیکھتا رہا۔ پھر لانبے لانبے ڈگ بھرتا ہوا لڑکی کے پاس جا پہنچا۔ اس نے لڑکی کو قریب سے دیکھا اور لڑکی نے اسے نگاہیں چار کیں۔ وہ خاموش سکتہ کے عالم میں کھڑا اس من موہنی صورت کو گھو رہا تھا۔ لڑکی نے ایک اجنبی کو اس طرح اپنی طرف گھورتے دیکھا تو گھبرا کر جانے کو مڑی۔

ٹھہرو۔ وہ بڑی مشکل سے کہہ سکا۔

کیوں ؟ وہ مڑ گئی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جلدی جلدی بہت سے پھول توڑے اور لڑکی کو پیش کر دیے۔

شکریہ۔ لڑکی پھول لیتے ہوئے بولی اور جانے لگی تو اس نے پوچھا اور توڑدوں ؟

جی نہیں۔ یہی بہت ہیں۔

کیا کروگی ان پھولوں کا۔

گلدستہ بناؤں گی۔ بابا کو پھول بہت پسند ہیں۔

کہاں رہتی ہو؟

یہیں ڈاک بنگلے کے پچھواڑے ہمارے چھوٹا سا مکان ہے۔

آئیے گا کبھی۔ میں آپ کو بابا سے ملاؤں گی۔

ضرور آؤں گا۔ وہ خوش ہوکر بولا۔

بابا بہت خوش ہوں گے آپ سے مل کر۔

لڑکی نے کہا اور آگے بڑھ گئی۔

سنیے۔

جی۔

میں نے نام تو پوچھا نہیں۔

میرا نام چندا ہے۔ لڑکی نے کہا۔

آپ کا نام چاندنی ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔ لڑکی نے مسکرا کر پوچھی۔

مجھے شیراز کہتے ہیں۔ ‘‘

زُلیخا حُسین کی زندگی کی قسمت کے مذاق کا المیہ ہے۔ ان کے شوہر حسین سیٹھ ۲۷؍ فروری ۱۹۹۷ ؁ء کو انتقال کر جانے کے بعد بالکل ٹوٹ سی گئیں۔ زُلیخا حُسین کے اولاد ذکور میں محمد فاروق اور اولادِ اناث میں عزیزہ اور حبیبہ ہیں۔ کچھ سال پہلے فاروق سعودی عرب میں ایک حادثہ کا شکار ہونے کے بعد اب گھر میں وھیل چیر پر ہی رہتے ہیں۔ فاروق کی رفیق حیات اپنے ماموں عبداللہ سیٹھ کی بیٹی تمنا ہے۔ عزیزہ کی شادی کولّم کے میمن گھرانے کے کریم سیٹھ کے ہاں ہوئی۔ حبیبہ Schizofrenia کے دماغی مرض کا شکار ہے۔ کئی سالوں سے بستر پر ہی ہے۔ اس کی تیمارداری میں ہی زُلیخا کا سارا وقت گزرتا ہے۔ زُلیخا اپنی زندگی کے آزمائشی دور سے گزر رہی ہے، کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اپنے ناولوں کے نسوانی کردار کی طرح زُلیخا سب کچھ تقدیر کا کھیل مان کر خدا پر مکمل بھروسہ رکھتے ہوئے زندگی کو گزار رہی ہیں۔ مصیبتوں میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑتیں، کسی سے کوئی گلا شکوہ نہیں۔ اپنی ضعیفانہ عمر اپنے خاندان کے ساتھ کوچین کے گھر (وڈوتلا) میں گزار رہی ہیں۔

زُلیخا حُسین اپنی گھریلو مجبوریاں اور ناساز طبیعت کی وجہ سے اُردو محفلوں اور تقریبات میں جانے سے قاصر ہیں۔ ابھی حال ہی میں NCPULکے مالی امداد سے گورنمنٹ برنن کالج کے شعبہ اُردو کے منعقدہ قومی سیمنار میں زُلیخا حُسین مدعو تھیں لیکن شرکت نہیں کر سکیں، البتہ صدر شعبہ اُردو ای۔ محمد صاحب کے نام ایک پیغام ارسال کیں۔ اسی پیغام کوذیل میں پیش کرتے ہوئے اپنے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں :

’’یاد آوری کے لیے بہت بہت شکریہ۔ زُلیخا حسین جو کبھی گمنام تھی اپنے پیدائشی وطن کیرالا میں مختصر سے عرصہ میں آپ لوگوں نے اس قدر پہچان بنا دی کہ اُردو کی محفلوں میں شرکت کے لیے دعوتیں ملنے لگیں۔ کبھی یہ بلاوے میرے لیے صرف خواب وخیال تھے۔ میں اپنی اس خوشی کا اظہار کن لفظوں میں کروں الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔ تہہ دل سے شکر گزار ہوں اس عزت افزائی کے لیے۔ دل بہت چاہتا ہے شرکت کے لیے۔ مگر کیا کروں وقت اور حالات اجازت نہیں دے رہے ہیں، اس لیے مجبور ہوں، شریک نہیں ہو سکتی معافی چاہتی ہوں۔ انشاء اللہ آگے بھی ایسی محفلیں ملیں گی جیتی رہی تو ضرور شرکت کروں گی۔ وعدہ رہا۔

ممنون کرم

زُلیخا حُسین 

تبصرے بند ہیں۔